یہ حقائق تلخ ہیں مگر حقائق ہیں
اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT
چیمپیئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کا میزبان اس دفعہ پاکستان تھا مگر سارے مزے بھارت لوٹ کر لے گیا۔ ایک تو بھارت کی ٹیم کی کارکردگی بہت اعلیٰ تھی اور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ دبئی اسٹیڈیم میں اختتامی تقریب میں پاکستان کے نمایندوں کو اسٹیج پر نہیں بلایا گیا۔
اگرچہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بار بار یہ دعوے کرتے رہے کہ چمپیئنز ٹرافی کے تمام میچ پاکستان میں ہوں گے اور اگر بھارت نے اپنی ٹیم پاکستان نہیں بھیجی تو بھارت کرکٹ کی دنیا میں تنہائی کا شکار ہوجائے گا، صحافیوں نے اسی وقت انھیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جذباتی رویہ اختیار نہ کریں۔ آئی سی سی بھارت کے مؤقف کو نظرانداز نہیں کرسکی۔
اس وقت کونسل کے صدر بھی بھارت کے وزیر داخلہ امیت شا کے صاحبزادہ ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ چمپیئنز ٹرافی کے آدھے میچ دبئی میں ہوئے اور فائنل بھی دبئی میں ہوا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگلے کئی برسوں میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک دوسرے کے ملک میں میچ نہیں کھیلیں گی۔ ادھر برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ رسالہ ’’دی اکنامکس‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھارت میں غربت کی شرح میں حیرت انگیزکمی ہوئی ہے اور اس وقت صرف 1فیصد گھرانے عالمی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
رپورٹ میں آئی ایم ایف کے سابق ڈائریکٹر سرجیت اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کے پروفیسرکرن تھامس نے بھارتی معیشت کے حالیہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ تخمینہ اخذکیا ہے کہ بین الاقوامی طور پر ماہرین نے خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی آمدنی 2.
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لیے صنعتی انقلاب ناگزیر ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اب بھی بھارت کے 40 فیصد سے زائد مزدور زراعت کے شعبے میں وابستہ ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ کسان اپنا آبائی پیشہ چھوڑے بغیر خط غربت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔ یہ محققین ایک سادہ اور ناقابلِ تغیر حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر شخص کی عمر ایک سال بڑھتی ہے۔ جو شخص 1990میں 40 سال کا تھا وہ 10سال بعد 50 کا ہوگا۔ معاشی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے لوگ عمر میں بڑھتے ہیں ان کی معاشی حالت بہتر ہوتی جاتی ہے۔
آج کے نوجوان گزشتہ نسلوں کے نوجوانوں کے مقابلے میں بہتر حالت میں ہیں۔ مسٹر بھلا اور بھاسن کا مؤقف ہے کہ بھارت کے لیے اب بین الاقوامی غربت کی سب سے نچلی حد 2.15 ڈالر فی دن اپنی افادیت کھوچکی ہے۔ چونکہ پوری آبادی اب اس حد سے اوپر آچکی ہے اس لیے یہ پیمانہ مستقبل میں ہونے والی ترقی کو ٹھیک طرح سے نہیں ناپ سکے گا۔ اس لیے مسٹر بھلا اور بھاسن ایک غربت کی نئی حد متعارف کرانے کی تجویز دیتے ہیں جو اتنی زیادہ ہو کہ ملک کی ایک چوتھائی یا ایک تہائی آبادی کو احاطہ میں لے سکے، اگرچہ اس نئی تعریف کے مطابق غریبوں کے پاس جوتے، رضائیاں اورکھانے کی کافی مقدار میں خوراک ہوسکتی ہے لیکن وہ محرومی سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوسکتے۔
معاشیات کے موضوع پر بین الاقوامی میڈیا کے لیے رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی اشرف خان نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے UNDP کی 2023کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق بھارت میں 229 ملین افراد کے خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2021میں 2.15 ڈالر فی دن آمدنی والے افراد جو خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی تعداد میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔
ان کی رپورٹوں میں بھارت میں غربت کے خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں کمی ظاہر کر رہے ہیں۔ جب 1947میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو بھارت شدید مذہبی فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ ان میں ایک اندازے کے مطابق 24 لاکھ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ مرنے والوں میں مسلمان، ہندو اور سکھ سب شامل تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں 14.5 ملین افراد دربدر ہوئے تھے اور 7.5 ملین مسلمان بھارت اور پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ پاکستان کے 7 ملین ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے تھے۔
نہرو حکومت میں مولانا ابو الکلام جیسے جید سیاسی رہنما شامل تھے۔ اس حکومت نے ایک سیکولر ریاست کے جمہوری ریاست کے تصور کو عملی شکل دی۔ ملک سے جاگیرداری ختم کردی گئی اور تمام ریاستیں بھی ختم کی گئیں۔ نہرو حکومت نے ایک غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اور مخلوط معیشت کے فلسفے کو عملی جامہ پہنایا۔ مولانا ابو الکلام نے بھارت کی تعلیمی پالیسی ترتیب دی، یوں اس پالیسی کے تحت خواندگی کی شرح میں اضافہ، سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں کے قیام پر زور دیا گیا۔
بھارتی حکومت نے برطانیہ، امریکا اور سوویت یونین سے خوش گوار تعلقات قائم کیے۔ نہرو حکومت نے جدید ممالک کے قرضوں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی سے منسلک کیا، یوں ایک بنیادی سیاسی معاشی نظام کی بنیاد پڑی۔ نہرو کی بیٹی مسز اندرا گاندھی نے وزیر اعظم بننے کے بعد سوشلسٹ اکنامی کو اپنایا۔ تمام بینک قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ ان کے صاحبزادے گاندھی اپنی والدہ کے قتل کے بعد وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مراکز کے قیام پر خصوصی توجہ دی۔
یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق ان کے رفقاء اور دائیں بازوکی جماعت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ سے منسلک ہوکر جہاد کے نام پر اربوں ڈالر کما رہے تھے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں جب سابق وزیر اعظم نرسما راؤ کے دور میں ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر خزانہ کے عہدے پر تعینات کیے گئے تو بھارت کی معیشت زوال پذیر ہوئی۔ من موہن سنگھ نے فری مارکیٹ اکنامی کی پالیسی اختیارکی۔ حکومت کے خسارے کو تقریباً ختم کردیا۔ جب ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے امریکا سے US-India Civil Nuclear Agreementکیا جو انگریزی میں 123 کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
بھارت نے اس معاہدے کے تحت اپنی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی معاہدے کے لیے کھول دیں اور بھارت کے متوسط طبقہ کے لیے امریکا اور یورپ کے دروازے کھل گئے۔ بھارت نے معیاری نظامِ تعلیم کی بناء پر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھارتی شہری اہم پوسٹوں پر تعینات ہونے لگے اور بھارت کا متوسط طبقہ جوکبھی غریب تھا خوشحال ہوگیا۔
2023کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں متوسط طبقے کی آبادی 432 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ امریکا کے ایک سابق صدر نے بھارت کی مڈل کلاس کو دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس قرار دیا۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ان ہی وجوہات کی بناء پر بھارت کے تجارتی پارٹنرز میں شامل ہوئے۔ بھارت پاکستان سے 2 سو سال آگے بڑھ گیا ہے۔ بھارت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ مذہبی انتہا پسندی کے سیلاب کا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی ریاست حقائق کو محسوس کرے اور سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے، یہ حقائق تلخ ہیں مگر حقائق ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بین الاقوامی بھارت میں رپورٹ میں اور بھارت گیا ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق نے بھارت بھارت کی تو بھارت حکومت نے بھارت کے غربت کے کے لیے
پڑھیں:
جب جب بھارت کو پاکستان میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا؟
پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی ایک طویل تاریخ ہے، جس میں کئی مواقع ایسے آئے جب بھارت نے جارحیت کی راہ اپنائی، مگر ہر بار پاکستان نے نہ صرف بھرپور دفاع کیا بلکہ بھارت کو ایسی شکست دی جس نے اسے عالمی سطح پر شرمندگی سے دوچار کیا۔ چند ایسے تاریخی لمحات کا جائزہ لیتے ہیں جب جب بھارت کو پاکستان کے ہاتھوں سبکی اٹھانا پڑی۔
1965 کی جنگ: بھارتی آرمی چیف کا خواب، لاہور میں چائے؟بھارتی آرمی چیف جنرل جے این چودھری نے 1965 کی جنگ سے پہلے دعویٰ کیا تھا کہ ہم شام کی چائے لاہور میں پئیں گے۔ لیکن پاک فوج نے ان کے خواب کو چکنا چور کر دیا۔ صرف لاہور ہی نہیں، سیالکوٹ، چونڈہ اور دیگر محاذوں پر بھی بھارتی فوج کو پسپا ہونا پڑا۔
چونڈہ کا میدان دنیا کی سب سے بڑی ٹینکوں کی لڑائیوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں پاکستانی جوانوں نے بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بنادیا تھا۔
ایم ایم عالم: 5 بھارتی جہاز، ایک منٹ میں تباہ7 ستمبر 1965 کو اسکواڈرن لیڈر محمد محمود عالم نے تاریخ رقم کی۔ انہوں نے F-86 سیبر طیارے میں سوار ہو کر صرف 60 سیکنڈ میں بھارتی فضائیہ کے 5 ہنٹر طیارے مار گرائے اور بھارتی فضائیہ کی کمر توڑ دی تھی۔
یہ کارنامہ آج بھی عالمی فضائی جنگی ریکارڈز میں ایک مثال کے طور پر درج ہے۔
ایٹمی دھماکے: چاغی کا گونجتا ہوا جواب11 اور 13 مئی 1998 کو بھارت نے پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے۔ وزیر اعظم واجپائی نے انہیں بھارت کی تاریخی کامیابی کہا اور احساس برتری میں پڑوسیوں کو چوکنا رہنے کی ذومعنی بات بھی کی۔ لیکن 28 مئی کو وزیر اعظم نواز شریف نے بلوچستان کے مقام چاغی میں 5 دھماکوں کے ذریعے بھارت کو کرارا جواب دیکر جوہری برتری کا خواب خاک میں ملادیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے 28 مئی 1998 کو کہا تھا کہ ’ہم نے ایٹمی دھماکے نہیں کیے، ہم نے قوم کی غیرت کو زندہ کیا ہے‘۔ یہ دن یومِ تکبیر کے نام سے یادگار بن گیا، اور جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال ہو گیا۔
کلبھوشن یادیو: بھارت کا جاسوس رنگے ہاتھوں پکڑا گیا2016 میں بلوچستان سے بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا، جو پاکستان میں دہشتگردی اور تخریب کاری کے نیٹ ورک کا حصہ تھا۔
اس نے خود ویڈیو بیان میں اعتراف کیا کہ میں بھارتی نیوی کا افسر ہوں اور را کے لیے کام کرتا ہوں۔ اس اعترافی بیان اور ثبوتوں کے بعد بھارت کو دنیا کے سامنے صفائیاں دینا پڑیں، اور پاکستان نے ایک بار پھر سفارتی میدان میں بازی مارلی۔
یہ گرفتاری بھارت کے لیے زبردست سفارتی شرمندگی کا باعث بنی اور پاکستان کے مؤقف کو دنیا بھر میں تقویت ملی۔
ابھینندن کا انجام: ’ٹی از فنٹاسٹک‘فروری 2019 میں بھارت نے لائن آف کنٹرول عبور کر کے بالاکوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا۔ پاکستان نے اگلے ہی دن بھرپور جوابی کارروائی کی اور 2 بھارتی طیارے مار گرائے۔ بھارتی ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھامن گرفتار ہوا اور جب ویڈیو میں اسے چائے پیش کی گئی تو اس نے کہا تھا ’ٹی از فنٹاسٹک‘۔
پاکستان نے بعد ازاں اسے امن کے پیغام کے طور پر رہا کردیا تھا، جس پر عالمی سطح پر پاکستان کو سراہا گیا جبکہ بھارت کو آج تک سبکی اور شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس واقعے نے بھارت کے تمام بیانیے کی قلعی بھی کھول دی اور پاکستان نے اس پائلٹ کو رہا کر کے دنیا بھر میں سفارتی اخلاقیات کی مثال قائم کی۔
’اے وطن تو نے پکارا تو لہو کھول اُٹھا‘بھارت جب جب پاکستان پر برتری کا خواب لے کر آیا، اسے منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستان نے نہ صرف عسکری بلکہ سفارتی اور دفاعی میدان میں بھی ہر موقع پر اپنی برتری منوائی۔
آج بھی دنیا تسلیم کرتی ہے کہ پاکستان ایک مضبوط، خوددار اور پرعزم قوم ہے، جو اپنے دفاع کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ابھینندن ورتھامن ایٹمی دھماکے ایم ایم عالم بھارت جنرل جے این چودھری چاغی کلبھوشن یادیو لاہور میں چائے