Express News:
2025-11-04@04:13:49 GMT

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا اور آخری حصہ)

اشاعت کی تاریخ: 20th, March 2025 GMT

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971میں جانا پڑے گا‘ 1971میں پاکستان دو حصوں میں تقسیم تھا‘ مغربی پاکستان موجودہ پاکستانی علاقوں پر مشتمل تھا جب کہ آج کا بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا‘ پاکستان کے دونوںحصوں کے درمیان بھارت تھا‘ دوسرا بھارت نے تقریباً تین سائیڈ سے مشرقی پاکستان کو گھیر رکھا تھا‘ اندرا گاندھی نے شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ سیاسی تعلقات بڑھائے‘ مکتی باہنی بنوائی‘ مشرقی پاکستان میں خانہ جنگی اسٹارٹ کرائی اور آخر میں اپنی فوجیں بھجوا کر پاکستان توڑ دیا‘یہ پاکستان اور پاک فوج کے دل پر بہت بڑا اور گہرا زخم تھا‘ جنرل ضیاء الحق نے 1980کی دہائی میں اس چوٹ کا بدلہ لینا شروع کر دیا۔

 انھوں نے سکھ علیحدگی پسندوں کو سپورٹ کیا اور مشرقی پنجاب میں خالصتان کی تحریک شروع ہو گئی‘ تحریک کا پیٹرن بنگلہ دیش جیسا تھا‘ جنرل ضیاء الحق نے اندرا گاندھی کو یقین دلا دیا تھا آپ نے جس طرح 1971 میں پاکستان توڑا بالکل اسی طرح ہم خالصتان بنا کر بھارت توڑ دیں گے‘ اندرا گاندھی کو یہ بھی باور کرا دیا گیا اگر بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمن اور پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو نہیں بچے تو بھارت میں تم بھی نہیں بچو گی چناں چہ اگر آپ 1980 اور 1990کی دہائی کے بھارت کا مطالعہ کریں تو آپ کو پورا ہندوستان جلتا‘ ٹوٹتا اور بکھرتا نظر آئے گا اور یہ اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بنگلہ دیش کا جواب تھا اگر جنرل ضیاء الحق کوچند سال مزید مل جاتے تو خالصتان بھی بن جاتا اور انڈیا بھی ٹوٹ کر بکھر چکا ہوتا لیکن بھارت کی قسمت اچھی تھی جنرل ضیاء الحق دنیا سے رخصت ہو گئے اور پاکستان میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو گئی۔

 اس دوران امریکا بھی افغانستان سے چلا گیا اوریہ ملبہ بھی پاکستان پر گر گیا چناں چہ پاکستان بھارت پر زیادہ توجہ نہ دے سکا تاہم یہ حقیقت ہے جنرل پرویز مشرف کے زمانے تک پاکستان نے کسی نہ کسی حد تک بھارت کو مصروف رکھا تھا لیکن پھر نائین الیون ہو گیا اور پاکستان امریکا کے دباؤ میں آ گیا‘ جنرل مشرف نے اس دباؤ میں ایک بڑی غلطی کر دی‘ انھوں نے انڈیا اور مقبوضہ کشمیرکے تمام آپریشنز بند کر دیے‘ پاکستان کو اس کے دو بڑے نقصان ہوئے‘ بھارت بے خوف ہو گیا کیوں کہ اس سے قبل کسی بھی قسم کی گڑ بڑ کے بعد پاکستان بھارت میں اس کا جواب دیتا تھا اور اس سے انڈیا کی معیشت اور ساکھ کو ٹھیک ٹھاک نقصان پہنچتا تھا‘ جنرل مشرف کے دور میں جواب دینے کا یہ سلسلہ رک گیااور بھارت کو پاکستان میں یک طرفہ کارروائیوں کا موقع مل گیا‘ دوسرا چانکیہ نے ارتھ شاستر میں دوہزارتین سو سال قبل بھارتی راجاؤں کو بڑے کام کی بات بتائی تھی۔

 دشمن کا دشمن دوست اور ہمسائے کا ہمسایہ دشمن ہوتا ہے‘ یہ ’’سنہری اصول‘‘ بھارت کی وزارت خارجہ کی مین فلاسفی ہے چناں چہ انڈیا نے افغانستان میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا شروع کر دیا‘ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور میں افغانستان میں بھارت کے 28 مشنز اور دفاتر تھے‘ ان میں را کے افسر بھرے تھے‘ ہمارے تعلقات اس زمانے میں ایران کے ساتھ بھی اچھے نہیں تھے‘ بھارت نے اس کا فائدہ اٹھایا اورچاہ بہار‘ بندر عباس اور تفتان میں اپنے ٹھکانے بنا لیے‘ یہ لوگ وہاں سے دو کام کر رہے تھے‘ ایک یہ صوبہ خیبرپختونخواہ میں دھماکے کرتے تھے اور دوسرا انھوں نے بلوچستان میں علیحدگی پسندی کا رجحان پروان چڑھانا شروع کر دیا‘ را نے افغانستان اور ایران کے ذریعے دہشت گرد تنظیموں کو رقم بھی دی‘ ٹریننگ بھی اور ٹیکنالوجی بھی‘ اس سے پاکستان کے حالات خراب ہوتے چلے گئے۔

 2007-08 میں ٹی ٹی پی بنی تو بھارت نے اسے ہاتھوں ہاتھ لے لیا اور اس نے کے پی کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور وہاں عملاً اسٹیٹ کی رٹ ختم ہو گئی ‘ مولانا فضل الرحمن نے اس زمانے میں قومی اسمبلی میں کھڑے ہو کر دعویٰ کیا تھا دہشت گرد اسلام آباد سے چند کلو میٹر دور رہ گئے ہیں‘ بہرحال 2007سے 2013 تک جنرل کیانی کے دور میں آپریشن زلزلہ‘ آپریشن صراط مستقیم‘ آپریشن شیردل‘آپریشن بلیک تھنڈر اسٹارم‘آپریشن راہ راست اور آپریشن راہ نجات جیسے آپریشن ہوئے اور پاکستان نے دہشت گردوں کے تمام ٹھکانے ختم کر کے رٹ بحال کر دی‘ بلوچستان میں بھی بڑی حد تک حالات ٹھیک کر دیے گئے‘ حالات کی اس درستگی میں میاں نواز شریف کا بھی بہت ہاتھ تھا‘ میاں صاحب کے بی جے پی کی قیادت یعنی اٹل بہاری واجپائی اور بعدازاں نریندر مودی سے بہت اچھے تعلقات تھے‘ انھوں نے دونوں کو راضی کر لیا اور یوں پاکستان میں دہشت گردی کے بھارتی پروجیکٹس رک گئے۔

ہم قصے کو مزید مختصر کرتے ہیں‘ عمران خان کی آمد کے ساتھ پاکستان کے سیاسی اور داخلی حالات خراب ہو گئے‘ بھارت ان حالات کی بنیاد پر یہ سمجھ بیٹھا پاکستان میں جان ختم ہو گئی چناں چہ اس نے 26 فروری 2019 کو بالاکوٹ میں سرجیکل آپریشن کر دیا‘ پاکستان نے 24 گھنٹوں میں جواب دیا اور بھارت کے تین طیارے گرا دیے‘ ایک طیارے کا ملبہ پاکستان میں گرا اور اس کا پائلٹ ابھے نندن گرفتار ہو گیا جس کے بعد وہ بھارت جو خود کو مستقبل کی سپر پاور سمجھتا تھا اس کی پوری دنیا کے سامنے دھوتی کھل گئی‘ بھارت اعلان جنگ نہیں کر سکا کیوں کہ اسے دنیا کے کسی ملک سے سپورٹ نہیں ملی اور دوسرا اسے مس ایڈونچر کی وجہ سے ایٹمی جنگ کا خطرہ تھا تاہم یہ اپنی چوٹ بھلا نہ سکا لہٰذا اس نے کے پی اور بلوچستان میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔

 را نے سوشل میڈیا کے ذریعے بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیا‘ بلوچستان میں نوکریاں اور انفرااسٹرکچر کم زور ہے اور اس کے ذمے دار کرپٹ بلوچ سردار ہیں‘ انھوں نے اپنے عوام پر پیسہ خرچ نہیںکیا تھا‘ بلوچستان میں تعلیم بالخصوص خواتین میں تعلیم کا رجحان بڑھ گیا تھا مگر نوجوانوں کے لیے نوکریاں نہیں تھیں جس کی وجہ سے نوجوان ریاست کے ساتھ ناراض تھے‘ بھارت نے سوشل میڈیا کے ذریعے اس ناراضگی کو فوج‘ وفاق اور پنجاب سے نفرت میں تبدیل کر دیا‘ دنیا کی تمام بڑی سوشل میڈیا ایپس کے سی ای اوز بھارتی ہیں‘ مشرق وسطیٰ کے چیپٹرز بھارت سے آپریٹ ہوتے ہیں یا پھر سنگا پور سے اور ان میں بھارتی بیٹھے ہیں‘ انھوں نے ناراض بلوچ نوجوانوں اور خواتین کو ہیرو بنانا شروع کر دیا‘یہ جو بھی ریاست مخالف وڈیو بناتی تھیں سوشل میڈیا پر اسے بوسٹ مل جاتا تھا اور بلوچ خواتین دنوں میں مشہور ہو جاتی تھیں‘ ماہ رنگ بلوچ اس کی بہت بڑی مثال ہے۔

 یہ عین جوانی میں بین الاقوامی شخصیت بن گئی‘ دوسری سائیڈ پر بھارت نے نوجوانوں کو عسکری ٹریننگ دینا شروع کر دی‘ انھیں بھارت بھی لے جایا گیا‘ انھیں بھارتی پاسپورٹ بھی دیے گئے اور رقم بھی‘ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد بھارت نے طالبان کا ایک بڑا اور بااثر گروپ اپنے ہاتھ میں لے لیا‘ اس گروپ کی مدد سے افغانستان میں ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے ٹریننگ کیمپس اور ٹھکانے بنا دیے گئے‘ یہ کتنا بڑا پروجیکٹ ہے آپ اس کا اندازہ صرف بی ایل اے کی فنڈنگ سے لگا لیجیے‘ بھارت ہر سال بی ایل اے کو ایک ارب ڈالر (280 ارب روپے) دیتا ہے‘ اسلحہ‘ ٹریننگ اور سیٹلائیٹ سپورٹ اس کے علاوہ ہے‘ دوسری طرف ٹی ٹی پی کو بھی رقم اورٹریننگ دی جارہی ہے‘ اسلحہ انھیں افغان حکومت سے مل جاتا ہے‘ را ان کے ساتھ نقشے اور ملک کے حساس علاقوں کی تفصیلات بھی شیئر کرتا ہے۔

آپ خود سوچیے بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان اور بلوچستان کے پہاڑوں میں بیٹھے ہیں اور یہ بہت زیادہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگ نہیں ہیں لہٰذا یہ جعفر ایکسپریس کی موومنٹ کے بارے میں کیسے جان جاتے ہیں؟ انھیں کیسے پتا چلتا ہے درہ بولان کی کس پوزیشن پر ٹرین کا سینٹرل سسٹم سے رابطہ ختم جاتا ہے یا موبائل فون سگنلز مکمل طور پر ختم ہو جاتے ہیں اور کون کون سا ایسا پوائنٹ ہے جہاں فوج اور سیکیورٹی ادارے فوری طور پر نہیں پہنچ سکتے اور ٹرین کے ذریعے کتنے فوجی چھٹیوں پر جا رہے ہیں‘ فوج آپریشن کے دوران کہاں پہنچ چکی ہے اور دہشت گردوں کو کس وقت ٹرین سے نکل کر غائب ہو جانا چاہیے اور پہاڑوں میں کس مقام پر پناہ لینی ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا بنوں کینٹ سیکیورٹی سسٹم میں کس کس وقت تبدیلی آتی ہے۔

 کس وقت کس پولیس اسٹیشن میں ڈیوٹی بدلتی ہے اور کون کس وقت تھانے سے غائب ہوتا ہے اور کس وقت کس مقام سے کون سا سیکیورٹی قافلہ یا گاڑی گزرے گی ؟یہ معلومات کسی بڑے ملک اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیں ہیں اور اس کے پیچھے را اور بھارت ہے ورنہ ٹی ٹی پی کے ساڑھے سات ہزار اور بی ایل اے کے 16 ہزار لوگ پاکستان جیسی ایٹمی طاقت کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں‘ یہ بھارت ہے اور اس کے دو مقصد ہیں‘ یہ پاکستان کو کم زور کرنا چاہتا ہے‘ یہ معاشی لحاظ سے مضبوط اور پرامن پاکستان افورڈ نہیں کر سکتا اور دوسرا یہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کو ملک کے اندرونی مسائل میں الجھائے رکھنا چاہتا ہے تاکہ اس کی توجہ بھارت کی طرف مبذول نہ ہو سکے اور یہ کشمیر پر توجہ نہ دے سکیں۔

ہم اب آتے ہیں حل کی طرف۔ ہمارے پاس صرف تین حل ہیں‘ ہم ایک بار اکٹھے بیٹھ کر پالیسی بنائیں اور پاکستان میں موجود دہشت گردی اور علیحدگی پسندی کی تمام فیکٹریاں بند کر دیں‘ ہمیں اس کے لیے جو بھی کرنا پڑے ہمیں وہ کر گزرنا چاہیے ورنہ یہ چھوٹے چھوٹے زخم ہمیں قبر تک لے جائیں گے اور دوسرا ہمیں پوری دنیا کو یہ پیغام دینا ہو گا پاکستان ایک ’’ہارڈ اسٹیٹ‘‘ہے‘ آپ اگر اسے چھیڑیں گے تو یہ آپ کو نہیں چھوڑے گا بالخصوص یہ پیغام افغانستان کو ضرور جانا چاہیے۔

 ہم نے 45 برسوں میں افغانستان کے لیے کیا کیا نہیں کیا لیکن اس کے جواب میں ہمیں کیا ملا؟ ہمیں افغانستان کو اب یہ بتانا ہوگا افغانستان سے اگر بی ایل اے اور ٹی ٹی پی آپریٹ ہو رہی ہیں تو پھر یہ ٹھکانے ختم کرنا ہوںگے ورنہ ہمارا نقصان بڑھتا رہے گا اور تیسرا امریکا کو درمیان میں ڈال کر ہمیں بھارت کو افغانستان سے نکالنا ہو گا‘ امریکا بھی بری طرح تھک چکا ہے لہٰذا ہم اگر اسے افغانستان کا کوئی ٹھوس حل دیں تو یہ قبول کر لے گا اور ہمیں یہ موقع ضایع نہیں کرنا چاہیے‘ پاکستان پھر ہی بچ سکے گا ورنہ حالات ہمارے ہاتھ سے تقریباً نکل چکے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنرل ضیاء الحق افغانستان میں بلوچستان میں اور پاکستان پاکستان میں شروع کر دیا سوشل میڈیا اور دوسرا بنگلہ دیش بی ایل اے کے ذریعے بھارت نے انھوں نے ٹی ٹی پی کے ساتھ چناں چہ ہو گئی اور اس کے دور ہے اور کے لیے

پڑھیں:

ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)

پاکستان، افغانستان اور دوسرے مسلمان ممالک کے ہاتھوں روس کی شکست کا سہرا یونیورسٹی آف نبراسکا کے شعبہ ’’سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘ کے سر باندھنا ناانصافی اور حقائق کے خلاف ہے۔ کہا گیا کہ یونیورسٹی آف نبراسکا نے افغانوں کو بتایا کہ وہ بہادر، نڈر اور ناقابل تسخیر ہیں اور یہ ٹاسک ان کو سی آئی اے نے دیا تھا۔

بھائی کسی قوم کی بہادری، ناقابل تسخیری یا بزدلی کے لیے ان کا ماضی کافی ہوتا، اس کا یقین دلانے کے لیے کسی یونیورسٹی یا ایجنسی کی ضرورت نہیں ہوتی، بہادر اور ناقابل تسخیر کہلوانے کے لیے اپنے سر کٹوانے اور دوسروں کے سر کاٹنے پڑتے ہیں، یہ سرویز کرنے اور سبق پڑھانے سے نہیں بنتے۔ نہ بہادری، ناقابل تسخیری اور غیرت کے انجکشن اور ویکسین ملتے ہیں یہ خصلتیں نسل در نسل ڈی این اے میں منتقل ہوتی ہیں۔

کہا گیا کہ سی آئی اے نے یونیورسٹی آف نبراسکا کو پاکستان کے تعلیمی اداروں کے لیے مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کا سلیبس بنانے کا ٹاسک دیا تو انھوں نے اس میں جہاد سے متعلق آیات‘ احادیث اور واقعات اکٹھے کر دیے ۔

میں یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ نبی رحمت العالمین، خاتم النبین حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر رب العالمین کی طرف سے نازل ہونے والے قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر حملہ آور کفار کے خلاف جہاد کا حکم متعدد بار دیا گیا ہے اور بحیثیت مسلمان ہمارے لیے قرآن پاک کے بسم اللہ کے "ب" سے لے کر الناس کے "س" تک ایمان لانا لازم ہے، ایک بھی حرف کے انکار کرنے سے بندہ ایمان سے فارغ اور دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے پھر کلمہ طیبہ کے نام پر بنے پاکستان کے اسکولوں میں اسلامیات کے نصاب میں جہاد سے متعلق آیات کو مسلمان طلبا کے نصاب میں شامل کرنے کو سی آئی اے کی فرمائش پر یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش کیسے قرار دیاجاسکتا ہے؟

یہ بھی بتایا گیا کہ ’’امریکا نے پاک افغان سرحد پرسیکڑوں مدارس بنوائے‘ ان کے لیے نئے علماء کرام اور اساتذہ کا بندوبست کیا گیا۔ پاک افغان سرحد پر جو مدارس پہلے سے موجودتھے وہی رہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک افغان سرحد پر مجاہدین کے لیے پاک فوج کی سرپرستی میں ٹریننگ سینٹر قائم کیے گئے۔

یہ بھی کہا گیا مدارس کے سلیبس سے انسانیت، رواداری اور برداشت نکال کر جہاد‘ کفر سے مقابلہ اور توہین مذہب ڈال دیا گیا‘‘۔ میرا یقین ہے جو بندہ مدارس کے نصاب سے واقف نہ ہو وہ تو یہ بات بغیر تحقیق کے مان سکتا ہے مگر یہ بالکل بے بنیاد اور غلط ہے۔ بغیر تحقیق اور زمینی حقایق کے خلاف قرآن و سنت کی ترویج و اشاعت کے اداروں کو اتنے منفی انداز میں  پیش نہیں کرنا چاہیے، اگر کسی کو شک ہو تو ان کے لیے میرا مشورہ ہے کہ وہ وقت نکال کر مدارس میں کچھ وقت گزاریں، وہاں زیر تعلیم روکھی سوکھی کھانے والے غریب و مفلس گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء کی انسانیت‘ رواداری اور برداشت کا موازنہ عصری علوم کے سرکاری اور پرائیویٹ اداروں میں پڑھنے والے طلبا سے کریں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ ان پر واضح ہو جائے گا کہ کردار، احترام انسانیت اور ادب و تعظیم کے علمبردار مدارس کے بوری نشین طلباء اپنی مثال آپ ہیں۔

جہاد سی آئی اے کی ہدایت پر یونیورسٹی آف نبراسکا نے مدارس کے نصاب میں شامل نہیں کیا، یہ اللہ رب العزت نے رسول مقبول حضرت محمد مجتبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی قرآن مجید فرقان حمید میں مسلمانوں پر فرض کیا اور مدارس میں علوم شریعہ (قرآن و سنت) پڑھائے جاتے ہیں۔

میں 1994ء سے 1997ء تک جہاد افغانستان کی برکت سے آزادی حاصل کرنے والے وسطی ایشیا کے ممالک میں رہا ہوں، اپنے مشاہدے کے علاوہ وہاں کے ہزاروں مسلمانوں سے سن چکا ہوں کہ سویت دور میں مساجد و مدارس کے ساتھ کیا کچھ کیا گیا تھا اور مسلمانوں کی مذہبی اقدار و روایات کو مسخ کرنے میں کس حد تک گئے تھے۔ مگر افسوس کہ سویت یونین کی اسلام دشمنی، دھریت کو بھی یونیورسٹی آف نبراسکا کی سازش بنا کر پیش کردیا۔

سویت یونین9 ہزار 5 سو مربع کلو میٹر رقبہ ہڑپ کرنے کے بعد افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کی طرف بڑھ رہا تھا تو افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر عالم اسلام کے مقبول ترین آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق شہید اور مجاہد اعظم جنرل اختر عبدالرحمان شہید رحمہ اللہ جیسے ان کے رفقاء کی سرپرستی میں اگر ایک طرف روس کو سبق آموز شکست دی گئی تو دوسری طرف روس سے 9500 مربع کلومیٹر رقبہ پر مشتمل وسطی ایشیا کے 9 اسلامی ممالک کو آزاد کرایا اور یہ وہ کارنامے ہیں جس پر پوری امت مسلمہ کو پاکستان اور افغانستان دونوں کا احسان مند ہونا چاہیے۔ اگر ہم سوویت یونین کو پھینٹا لگانے میں افغانستان کے مجاہدین کا ساتھ نہ دیتے اور خدانخواستہ سوویت یونین افعانستان پر قبضہ کرلیتا تو یہ ہمارے لیے افغانستان پر سوویت یونین کے حلیف مشرک ریاست ہندوستان کے قبضے کے مترادف ہوتا اور ہماری 1640 کلومیٹر کی یہ سرحد سوویت یونین اور ہندوستان کے ساتھ ہوتی، ذرا سوچیں کہ مشرق و مغرب میں ہندوستان ہوتا تو کیا ہوتا؟

ریاست پاکستان کو دئے گئے تین مشوروں میں سے ہر محب وطن پاکستانی کی طرح ’’پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ‘‘ بنانے والے مشورے سے سو فیصد متفق ہوں، ہارڈ اسٹیٹ بن کر ہر پاکستان دشمن کو نشان عبرت بنانا ہوگا مگر باقی مشورے مکمل طور پر سمجھ نہیں سکا۔ مثلًا ’’عبادت کی اجازت صرف مسجد اور گھر میں ہونی چاہیے‘ سڑک‘ سرراہ یا کسی عوامی مقام پر عبادت پر پابندی ہونی چاہیے، اگر وہ عبادات کی جگہ مذہبی رسومات (جلسے، جلوسوں) کی بات کرتے تو معقول بات ہوتی۔

اصولًا مساجد اور مدارس کا انتظام ریاست کے پاس ہونا چاہیے مگر اس کے لیے متعلقہ افراد کی اہلیت اور قرآن و حدیث پر عبور ضروری ہے، جب ریاست کے ذمے داران میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کا سردست فقدان ہے۔

اگر حکومتی سرپرستی میں چلنے والے عصری علوم کے اداروں اور خاص کر بہاولپور کی عظیم دینی درسگاہ کا حشر حکومتی تحویل میں جانے کے بعد دیکھا جائے تو انشاء اللہ کوئی بھی مدارس کو قومی تحویل میں دینے کا مشورہ نہیں دے گا۔ جاوید چوہدری صاحب نے ایک طرف تو عوام کو لڑائی سے ہٹانے اور کتابیں پڑھنے اسپورٹس اور ڈیبیٹس پر لگانے، شہروں میں جم اور جاگنگ ٹریکس بنانے کے معقول مشورے دیے اور دوسری طرف وہ نسل نو کو فلموں اور موسیقی اور بسنت جیسے خونی ہندو تہواروں سے پابندی اٹھانے کو قومی مسائل کا حل بتا رہے ہیں۔ مارنے اور دوسرے کے ہاتھوں مرنے سے بچنے کے معقول مشورے کے ساتھ انھوں نے "کڑاہی گوشت" کھانے کو بھی اچھا نہیں قرار دیا مگر پتہ نہیں مقبول زمانہ روایتی پکوان ’’افغانی پلاؤ‘‘ کیسے بھول گئے۔

متعلقہ مضامین

  • فتح افغانستان کے بعد پاکستان کی اگلی طویل جنگ
  • ایک حقیقت سو افسانے ( آخری حصہ)
  • لگتا ہے بھارت سمندر کے راستے کوئی فالس فلیگ آپریشن کریگا، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • خطے کے استحکام کا سوال
  • میرا لاہور شہربے مثال کے کچھ خوب صورت نظارے (دوسرا حصہ)
  • بھارت ہمیں مشرقی، مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پرجوتے پڑے مودی تو چپ ہی کرگیا: وزیردفاع
  • تاریخ کی نئی سمت
  • مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف
  • بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے،خواجہ آصف
  • پاکستان کسی وڈیرے، جاگیردار، جرنیل، حکمران کا نہیں، حافظ نعیم