امریکا و یورپ کی مکمل سرپرستی کے باوجود اسرائیل ذلت سے دوچار ہے، راشد نسیم
اشاعت کی تاریخ: 21st, March 2025 GMT
عوامی دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما نے کہا کہ جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود غزہ پر سحری کے وقت وحشیانہ بمباری و حملے اسرائیل کی سفاکیت اور بوکھلاہٹ کی نشانی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی پاکستان کے مرکزی رہنما راشد نسیم نے کہا ہے کہ امریکا و یورپ کی مکمل سرپرستی کے باوجود اسرائیل ذلت سے دوچار ہے، جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود غزہ پر سحری کے وقت وحشیانہ بمباری و حملے اسرائیل کی سفاکیت اور بوکھلاہٹ کی نشانی ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے کراچی کے علاقے احسن آباد میں عوامی دعوت افطار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ راشد نسیم نے کہا کہ غزہ میں فلسطینیوں نے اسرائیل کا غرور خاک میں ملا کر تاریخ کا رخ موڑ دیا ہے، سارے عقل کے پیمانے اور اندازے غلط ثابت کر دیئے، حالات تبدیل ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگتی، بنگلہ دیش و شام کی صورتحال مثال ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر، صبر و استقامت کوئی غزہ کے مظلوم مسلمانوں سے سیکھے، ماہ رمضان مسلمانوں کو اسی چیز کی تربیت دیتا ہے، بیشک جنہوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور استقامت دکھائی، اللہ ان کی غیبی مدد کرتا یے۔
راشد نسیم نے کہا کہ غزہ میں پوری دنیا نے دیکھا کہ اسرائیل کے پاس دنیا کی جدید ٹیکنالوجی اور اسلحہ و گولہ بارود کے ڈھیر ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو کامیابی عطا اور سوا سال بربریت کے باوجود دشمن حماس سے جنگ بندی کیلئے مذاکرات پر مجبور ہوا۔ انہوں نے کہا کہ رمضان شریف مسلمانوں کی تربیت اور تبدیلی کا مہینہ ہے، یہ نزول قرآن کا مہینہ بھی ہے جو ہماری زندگی ہر مرحلے میں رہنمائی کرتا ہے۔ اس موقع پر ناظم علاقہ احسن آباد امجد نثار، مقامی ناظم امین اشعر و دیگر ذمہ داران بھی موجود تھے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے باوجود نے کہا کہ
پڑھیں:
فرانس کا فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان، امریکا برہم، اسرائیل ناراض
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا ہے کہ فرانس رواں سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران فلسطین کو باضابطہ طور پر ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کرے گا۔
عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق، صدر میکرون نے فلسطینی صدر محمود عباس کو ایک خط کے ذریعے اس فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ اپنے خط میں انہوں نے واضح کیا کہ فرانس مشرق وسطیٰ میں ایک پائیدار اور منصفانہ امن کے قیام کے لیے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔ صدر میکرون کے مطابق یہ اقدام اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر ستمبر میں رسمی طور پر پیش کیا جائے گا۔
فرانس وہ پہلا بڑا مغربی ملک بننے جا رہا ہے جو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا، جب کہ وہ یورپ میں یہودیوں اور مسلمانوں دونوں کی سب سے بڑی آبادی رکھنے والا ملک بھی ہے۔ فرانسیسی حکومت کا ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کے اجلاس کا انتخاب اس لیے کیا گیا ہے تاکہ دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر دو ریاستی حل کے لیے ایک نیا سفارتی فریم ورک ترتیب دیا جا سکے۔
فرانس کے اس جرات مندانہ فیصلے پر امریکا اور اسرائیل کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے فرانسیسی اقدام کو “دہشت گردی پر انعام” قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر دفاع نے بھی اس فیصلے کو “شرمناک” قرار دیا۔
ادھر امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا کہ یہ فیصلہ حماس کے لیے ایک پروپیگنڈا فتح ہے اور امریکا اسے مکمل طور پر مسترد کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرانس کا یہ قدم 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے میں مارے جانے والے اسرائیلی شہریوں کی توہین ہے۔
فرانس کے وزیر خارجہ ژاں نویل بارو نے ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے واضح کیا کہ فرانس حماس کا مخالف ہے اور یہ فیصلہ دو ریاستی حل کی حمایت میں کیا جا رہا ہے، جس کی حماس خود مخالفت کرتا رہا ہے۔
دوسری جانب کئی ممالک نے فرانس کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا ہے۔ سعودی عرب نے فرانسیسی فیصلے کو سراہتے ہوئے دیگر ممالک سے بھی اسی طرح کے اقدامات کی اپیل کی ہے۔ سعودی وزارت خارجہ کے مطابق، یہ فیصلہ فلسطینی عوام کے جائز حقوق کی حمایت ہے۔
اسپین، جو پہلے ہی فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم کر چکا ہے، نے بھی میکرون کے اعلان کا خیرمقدم کیا۔ ہسپانوی وزیر اعظم پیدرو سانچیز نے کہا کہ دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے، اور اس میں فرانس کی شمولیت ایک مثبت قدم ہے۔
کینیڈا نے بھی اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں انسانی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرے اور امدادی سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں نہ ڈالے۔ وزیر اعظم مارک کارنی نے اسرائیل پر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا الزام بھی لگایا۔
واضح رہے کہ امریکا پہلے ہی ایسے ممالک کو خبردار کر چکا ہے جو یکطرفہ طور پر فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ واشنگٹن کا موقف ہے کہ ایسے فیصلے امریکی خارجہ پالیسی کے خلاف ہو سکتے ہیں۔
دریں اثناء فلسطینی اتھارٹی کے نائب صدر حسین الشیخ نے فرانس کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام عالمی قوانین کی حمایت اور فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی توثیق ہے۔