تھیلی وقت سے پہلے کیوں پھٹ گئی؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
24 ویں ہفتے میں پانی کی تھیلی پھٹ گئی۔ 5،6 ہفتے مسلسل پانی آتا رہا۔ 30ویں ہفتے آنول پھٹ گئی۔ سیزیرین کر کے بچہ نکالا۔ 2 دن زندہ رہا اور پھر اللہ کے پاس واپس۔
’یہ سب کچھ کیوں ہوا؟ بچہ کیوں نہیں بچ سکا؟ پانی کی تھیلی کیوں پھٹی؟ آنول کیوں پھٹی؟‘
آہ ہا۔۔۔ میری بچی۔۔۔ ایک ہی پیغام میں اتنے سوال۔۔۔ چلو کوشش کرتے ہیں کہ ایک ایک کر کے جواب دیں۔
بچہ جب بچے دانی میں بننا شروع ہوتا ہے تو 2 چیزیں اسے خاص طور پر فطرت کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں جو اس کی بقا کے لیے لازم ہیں: ماں سے جڑی آنول اور اس کے گرد پانی سے بھری تھیلی۔
یہ بھی پڑھیں: نومولود کو دھاتی چمچ پسند نہیں!
تھیلی 2 جھلی نما پردوں سے بنی ہوتی ہے جو نظر تو نرم ونازک آتے ہیں لیکن بچے اور اس کے گرد پانی کو ایک غبارے کی طرح اندر سمیٹے رہتے ہیں۔ اگر آپ اسے اچھی طرح سمجھنا چاہیں تو ایک غبارے میں ہوا بھر کر پانی بھر لیں اور پھر اس میں کوئی چھوٹا سا کھلونا ڈال دیں۔ غبارے میں کھلونا پانی کے بیچ اچھلتا، کودتا، تیرتا اور ادھر سے ادھر جاتا نظر آئے گا۔ یہی کچھ بچہ کرتا ہے۔
وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں بچہ بڑا ہوگا اور پانی کی مقدار زیادہ ہوگی، تھیلی اپنے آپ ہی بڑی ہوتی جائے گی۔ قدرت نے بچے کی تھیلی کو خاصا مضبوط بنایا ہے سو نارمل حالات میں تھیلی پھٹنے کا کوئی احتمال نہیں ہوتا۔
اس کو ایسے سمجھیں کہ جب درد زہ شروع ہوتا ہے اور بچے دانی سکڑ اور پھیل کر بچے کو باہر کی طرف دھکیل رہی ہوتی ہے تب بھی تھیلی کی الاسٹک جیسی فطرت اسے پھٹنے نہیں دیتی اور اکثر اوقات ڈاکٹر یا مڈ وائف کو ایک اوزار کی مدد سے تھیلی کو پھاڑنا پڑتا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یہ اوزار اسٹیل کا بنا ہوتا تھا مگر آج کل پلاسٹک کا (Amnihook) استعمال ہوتا ہے۔ وجائنا سے ہوتا ہوا ایمنی ہک بچے دانی میں داخل ہو کر اپنی تیز چونچ سے تھیلی میں سوراخ کرتا ہے تاکہ پانی خارج ہو جائے اور بچہ پیدا ہونے میں سہولت ہو سکے۔
مزید پڑھیے: بچے کا سر بے ڈھب کیوں ہے؟
اس تفصیل سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس تھیلی کا پھٹنا معمول کی بات نہیں۔ یہ آسانی سے نہیں پھٹتی اور نہ ہی آسانی سے پھاڑی جا سکتی۔
پھر کچھ خواتین میں ایسا کیا ہوتا ہے کہ پانی کی تھیلی خود ہی وقت سے پہلے پھٹ جائے؟
اس کا جواب بھی غبارے سے لیجیے۔ اگر غبارہ ضرورت سے زیادہ پھلا دیا جائے اور اس کی پھیلنے کی صلاحیت ختم ہو جائے تو وہ پھٹ جائے گا۔
اگر غبارے کی جھلی کہیں سے کمزور پڑ جائے تو وہ وہاں سے پھٹ جائے گی۔
اگر غبارے کا کسی نقصان پہنچانے والی چیز سے سامنا ہو جائے تب بھی وہ پھٹ جائے گا۔
گو بچے کی تھیلی بچے دانی کے اندر ہے لیکن اسے نقصان پہنچ سکتا ہے اور وہ کمزور ہو کر پھٹ بھی سکتی ہے۔ نقصان پہنچانے والی چیزیں بہت سی ہیں لیکن ان میں سر فہرست کچھ جراثیم ہیں جو وجائنا میں داخل ہو کر بچے دانی کے منہ یعنی سروکس سے ہوتے ہوئے تھیلی پر حملہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھیں : میرا یہ حال کیوں ہوا؟
وجائنا انسانی منہ کی طرح ایک کھلی ہوئی نالی ہے لیکن منہ اور وجائنا میں فرق یہ ہے کہ خواتین منہ کی صحت کا خیال تو کر لیتی ہیں لیکن وجائنا بے چاری کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا۔ پیشاب اور پاخانے کے خروج والی جگہ کی ہمسائیگی وجائنا کے لیے بہت مسائل پیداکرتی ہے اور پاخانے سے نکلنے والے کروڑوں جراثیموں کا وجائنا تک پہنچنا قطعی مشکل نہیں۔
قدرت نے ان جراثیموں کے خلاف جنگ لڑنے کی طاقت وجائنا کو دی ہے لیکن یہ طاقت اس صورت میں ملیا میٹ ہو جاتی ہے اگر خاتون وجائنا کا اس طرح خیال نہ رکھے جیسے رکھنا چاہیے۔
جس طرح آنکھیں آشوب چشم کا شکار ہوتی ہیں، ناک سے گاڑھی رطوبتیں نکلنا شروع ہو جاتی ہے، دانتوں میں کیڑا لگ جاتا ہے بالکل اسی طرح وجائنا میں انفیکشن ہو جاتا ہے جو بچے کی تھیلی (واٹر بیگ) پھٹنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
ہمارے ہاں وجائنا کا ہر طرح کے انفیکشن کو لیکوریا یا گندے پانی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ وجائنا سے نارمل رطوبتوں کا اخراج قدرت کا دفاعی نظام ہے بالکل اسی طرح جیسے آنکھ میں آنسو، کان میں ویکس اور ناک میں بال اور ہلکا پھلکا پانی۔
یہ رطوبتیں اگر مقدار میں زیادہ ہوجائیں، دہی جیسی سفید پھٹکیاں بن جائیں، انڈے کی زردی جیسی پیلی دکھنے لگیں یا دودھ جیسی سفید پڑ جائیں تو پھر سمجھ لیں کہ گڑبڑ ہو گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر وجائنا سے بدبو آنے لگے اور خارش شروع ہوجائے تو اس صورت میں مسئلہ اور بھی خراب ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: زچگی کے عمل کا دوسرا فریق
دنیا جراثیموں سے بھری پڑی ہے، کوویڈ وائرس، پولیو وائرس، چیچک، ٹی بی، ٹائیفائیڈ، پیچش۔۔۔ سب کچھ ہی ان کی دین ہے۔ یہ ایسے دشمن ہیں جو نظر نہیں آتے اور ہر وقت تاک میں رہتے ہیں اور ان کا نشانہ حمل میں تو کبھی نہیں چوکتا کیونکہ حمل میں جسم کی مدافعت کمزور ہو جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بچے کی بڑھوتری تب ہی ممکن ہے جب ماں کاجسم خود کو بھول جائے۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اگر جراثیم حملہ کریں تو حاملہ عورت کی مدد نہیں کی جا سکتا۔ سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ وجائنا پر ہونے والے حملے کو پسپا کردے۔
سب سے پہلے تو حاملہ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا نہیں؟ کونسی علامات ظاہر ہورہی ہیں؟ اور طبعیت میں کیا تبدیلی رونما ہو رہی ہے؟
دوسرے مرحلے پر حاملہ کی ڈاکٹر کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ ان علامات کو سمجھ سکے اور ان کا علاج کر سکے۔ یہاں ہمیں ان ڈاکٹروں سے بہت گلہ ہے جو حمل کی سائنس کو الٹراساؤنڈ کرنے، فولاد کی گولیاں لکھنے اور ڈیلیوری کروانے کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھتے یا توجہ نہیں دیتے۔
یہ بھی پڑھیں: اگر بچہ وجائنا سے باہر نہ نکل سکے تو؟
ان انفیکشنز کا علاج تو سادہ سا ہے،‘Treat the cause’۔ وجائنا کا اندر سے معائنہ کریں، اپنی آنکھ سے دیکھیں کہ وجائنا کے اندر کیا کچھ پل رہا ہے اور اس کے مطابق علاج تجویز کریں۔ حاملہ عورت کو بھی جاننا چاہیے کہ حمل میں کچھ بھی نارمل سے ہٹا ہوا نظر آئے تو اس پر غور کرے اور جاننے کی کوشش کرے کہ کیا ہو رہا ہے؟
کاش ہم آپ کو وہ سب پڑھا سکتے جو ہم نے برسوں کتابیں ’پھرول پھرول‘ کے، مریضوں کے اندر گھس کے اور اپنے ننھے منے ذہن پر زور دے دے کر سیکھا ہے۔ چلیے جب تک زندگی ہے، کچھ نہ کچھ تو بتاتے ہی رہیں گے۔
یہ ہے ہمارا گائنی فیمنزم ۔۔۔ اپنے جسم کے اشارے سمجھیں اور اس کی حفاظت کریں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا نول بچے دانی بچے دانی پھٹ جائے پانی کی ہوتا ہے ہے لیکن شروع ہو اور اس ہے اور
پڑھیں:
عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟
میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے رک جاتا ہے‘ فون کرتا ہوں تو فون نہیں ہوتا‘ کوئی ایپ کھولتا ہوں تو وہ نہیں کھلتی‘ اسکرین‘ بلیک ہو جاتی ہے‘ آواز بند ہو جاتی ہے اور میں فون کسی کو ملاتا ہوں اور وہ مل کسی دوسرے کو جاتا ہے تو میں پھر کیا کرتا ہوں‘ میں فون کو آف کر دیتا ہوں اور اسے چند سیکنڈ بعد جب دوبارہ آن کرتا ہوں تو یہ سو فیصد ٹھیک ہو جاتا ہے۔
آئی ٹی کی زبان میں اس عمل کو ری اسٹارٹ کہتے ہیں اور یہ عمل صرف موبائل فون تک محدود نہیں بلکہ تمام کمپیوٹر گیجٹس کو اکثر اوقات اس عمل سے گزارنا پڑتا ہے‘ انھیں ری اسٹارٹ کرنا پڑتا ہے۔
ہم انسان بھی قدرت کا بڑا سا اسمارٹ فون ہیں‘ ہمارے اندر بھی ہزاروں ایپس کھلی رہتی ہیں‘ ہم بظاہر ایک کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن ہمارے اندر سیکڑوں مختلف کام چل رہے ہوتے ہیں‘ انسان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ صرف تین فیصد لمحہ موجود میں رہتا ہے‘ اس کی توجہ کا باقی 97 فیصد ماضی اور مستقبل میں زندگی گزارتا ہے۔
یہ ماضی کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے یا پھر مستقل اس کے دل کو کھرچ رہا ہوتا ہے چناں چہ ہم سب کے اندر ہر وقت اندیشوں اور خواہشوں کی سیکڑوں ایپس کھلی رہتی ہیں‘ ہمارا دماغ سائز اور وزن میں جسم کا صرف دو فیصد ہے لیکن یہ ہمارے جسم کی 20 فیصد توانائی استعمال کرتا ہے۔
آپ کبھی نوٹ کیجیے گا آپ کو پریشانی‘ ٹینشن یا اینگزائٹی میں زیادہ بھوک لگتی ہے بالخصوص آپ میٹھا زیادہ کھاتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر آپ کا وزن اچانک گرنے لگتا ہے‘ کیوں؟ کیوں کہ جب آپ کے دماغ میں اینگزائٹی‘ ڈپریشن اور پریشانی کی ایپس کھلتی ہیں تویہ دھڑا دھڑ جسم کی توانائی کھانے لگتی ہیں۔
لہٰذا آپ کی بھوک بڑھ جاتی ہے یا پھر دماغ جسم کا انرجی اسٹور خالی کر دیتا ہے‘ دوسرایہ ایپس جب مسلسل چلتی ہیں تو پھر ایک وقت آتا ہے جب آپ ہینگ ہونے لگتے ہیں اور اس وقت آپ کے پاس دو آپشن ہوتے ہیں‘ آپ موبائل فون کی طرح ’’ڈیڈ‘‘ ہو جائیں اور آپ کا ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر دونوں اڑ جائیں یا پھر آپ اپنے آپ کو آف کر کے ری اسٹارٹ کر لیں۔
دوسرا آپشن زیادہ بہتر ہے چناں چہ آپ جوں ہی ہینگ ہوں آپ خود کو آف اور ری اسٹارٹ کریں آپ زیادہ سے زیادہ سات دن میں نارمل ہو جائینگے اور اگر آپ یہ نہیں کرینگے تو پھر عدیل اکبر کی طرح غیر فطری موت کا شکار ہو جائیں گے۔
دنیا میں زندگی جہاں بھی موجود ہے اس کے پاس اپنے بچاؤ کے صرف دو آپشن ہیں‘ فائیٹ یا فلائیٹ‘ تمام جان دار اپنے بچاؤ کے لیے لڑتے ہیں یا پھر خطرے کی جگہ سے بھاگ جاتے ہیں‘ انسان کے پاس بھی صرف یہی دو آپشن ہوتے ہیں‘ آپ لڑیں یا پھر بھاگ جائیں۔
عقل کا تقاضا یہ ہے ہم بیک وقت دونوں آپشنز استعمال کریں‘ آپ حالات سے ضرور لڑیں لیکن اس لڑائی میں جان دینے کی کوئی ضرورت نہیں‘ دنیا میں مرنا کوئی کمال نہیں‘ یہ کوئی بہادری نہیں‘ بہادری تمام تر مسائل اور چیلنجز کے باوجود زندہ رہنا اور بھرپور زندگی گزارنا ہے۔
چناں چہ ہمیں ہر جنگ سے پہلے اپنی لڑائی کی حد طے کرنی چاہیے اور جوں ہی ہم اس حد تک پہنچ جائیں تو فوراً ہتھیار پھینکیں اور بھاگ جائیں کیوں کہ ہم اگر زندہ رہیں گے تو ہمارے دوبارہ لڑنے اور جیتنے کے چانسز ہوں گے بصورت دیگر ہم منوں مٹی کے اندر ہوں گے اور ہم نے جن کے لیے جان دی ہو گی وہ ہماری قبر پر دعا کے لیے بھی نہیں پہنچ پائیں گے۔
لہٰذا دونوں آپشن استعمال کریں‘ ایک حد تک لڑیں اور اس کے بعد دوبارہ حملے کی نیت سے پسپائی اختیار کریں‘ یہ یاد رکھیں‘ دنیا میں ہر کام جہاد اور ہر جنگ مقدس نہیں ہوتی‘ ہم کارپوریٹ ورلڈ میں سانس لے رہے ہیں اور اس میں دو چار ماہ بعد ہر چیز بدل جاتی ہے۔
آپ امریکا کی مثال لے لیں‘ جوبائیڈن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میںکتنا فرق ہے‘ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میںکتنی جلدی تبدیلی آئی‘ بھارت اور بنگلہ دیش ایک ہفتے میں دوست سے دشمن بن گئے‘ شمالی کوریا اور روس دو ماہ میں چین کے دشمن سے دوست بن گئے۔
نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ کے تعلقات چار دن میں الٹ گئے اور ایلون مسک اور ٹرمپ کے درمیان ایک ہفتے میں دو براعظموں جتنی دوری آ گئی‘ ہماری زندگی میں بھی اتنی تیزی سے تبدیلیاں آتی رہتی ہیں‘ ہم آج ایک صورت حال کا شکار ہیں‘ اگلے دن اٹھیں گے تو ہر چیز بدل چکی ہوگی۔
لہٰذا کل ہمارے لیے کیا تحفہ لے کر طلوع ہوتا ہے آپ آنے والے دن کو کم از کم اتنا موقع ضرور دیں‘ سال میں جب موسم اور دن ایک جیسے نہیں رہتے توپھر ہمارے حالات کیسے اور کیوں مستقل رہ سکتے ہیں لہٰذا آپ وقت کو وقت دے کر دیکھیں‘ یقین کریں وقت آپ کو کبھی مایوس نہیں کرے گا۔
میں اب آپ کو ری اسٹارٹ کرنے کے تین طریقے بتاتا ہوں‘ یہ نسخے آزمودہ ہیں اور ان کا رزلٹ بھی سو فیصد ہے‘ آپ انھیں آزما کر دیکھیں‘یہ اگر کارگر ثابت ہوں تو میرے لیے دعا کر دیجیے گا۔
نسخہ نمبر ون چھٹی ہے‘ آپ جب کسی صورت حال شکار ہو جائیں‘ نوکری میں الجھ جائیں‘ باس ہٹلر نکل آئے‘ ورک لوڈ بڑھ جائے‘ گھر میں کشیدگی ہو جائے‘ مقدمہ بازی شروع ہو جائے‘ پراپرٹی پر قبضہ ہو جائے‘ لڑائی مار کٹائی ہو جائے‘ فراڈ ہو جائے یا کسی بیماری میں پھنس جائیں تو آپ فوری طور پر چھٹی لے لیں۔
یہ چھٹی کم از کم سات دن کی ہونی چاہیے‘ آپ کو اگر چھٹی نہیں ملتی تو میڈیکل سرٹیفکیٹ دے کر غائب ہو جائیں اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو موبائل فون بند کریں اور غائب ہو جائیں۔
آپ اس کے بعد سات دن اکیلے کسی اجنبی جگہ پر گزاریں‘ آپ کسی پہاڑی یا سمندری مقام پر چلے جائیں اور کسی دوست یا جاننے والے سے رابطہ نہ کریں‘ موبائل فون اور لیپ ٹاپ ہرگز استعمال نہ کریںاور روز صرف تین کام کریں‘ صبح پانچ بجے اٹھ جائیں‘ لمبی واک کریں‘ہلکا کھانا کھائیں اور رات 9 بجے سو جائیں۔
موبائل فون بالکل استعمال نہ کریں‘ کتابیں پڑھیں‘ لوکل لوگوں کے ساتھ گپ لگائیں اور انھی کے کھانے کھائیں‘ آپ اللہ کے کرم سے سات دن میں نیا جنم لے کر واپس آئیں گے۔
یہ وہ نسخہ ہے جو دنیا کے تمام کام یاب لوگ استعمال کرتے ہیں‘ بل گیٹس نے جنگل میں لیک کے کنارے ایک گھر بنا رکھا ہے‘ یہ ہر ماہ تین دن کے لیے وہاں چلا جاتا ہے‘ اس گھر میں کوئی ماڈرن گیجٹ نہیں‘ یہ وہاں قدرتی زندگی گزارتا ہے اور نیا بن کر واپس آ جاتا ہے، آپ بھی یہ کر کے دیکھیں۔
نسخہ نمبر دو‘ آپ اگر کسی شہر یا جاب میں پھنس گئے ہیں‘ دفتر کا ماحول تیزابی یا ٹاکسک ہے اور آپ نفسیاتی‘ ذہنی اور جسمانی لحاظ سے بیمار ہو چکے ہیں تو آپ پہلے نبھانے کی کوشش کریں اگر کامیاب ہو جائیں تو ٹھیک ورنہ دل مضبوط کر کے چھوڑ دیں۔
طلاق لیں یا دے دیں‘ نوکری پر لات ماریں اور اگر گاؤں‘ شہر یا ملک چھوڑنا پڑتا ہے تو فوراً چھوڑ دیں‘ آپ یہ یاد رکھیں آپ انبیاء کرام سے بڑے نہیں ہیں اور زیادہ تر انبیاء کرام کو اپنے خاندان‘ قبیلے‘ والدین‘ دوست احباب اور بیوی بچے چھوڑنا پڑے تھے‘ شہر سے بھی ہجرت کرنی پڑی اور ان کی زمین ‘ جائیداد اور کاروبار بھی ختم ہوئے۔
یہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کے قرب اور مدد کے باوجود ’’گیواپ‘‘ پر مجبور ہو گئے تو پھر آپ اور ہم کیا چیز ہیں؟ جب دنیا کے تمام بڑے‘ کام یاب اور فاتح وطن اور خاندان چھوڑنے پر مجبور ہوئے تو پھر آپ اور میں کسی کھیت کی مولی ہیں‘ ہمارے سامنے بھٹو خاندان جلاوطن ہوا‘ شریف خاندان تین مرتبہ اقتدار سے نکلا‘ دربدر ہوا‘ عمران خان آج جیل میں پڑا ہے اور جنرل پرویز مشرف بھی آخری وقت ملک سے باہر گزارنے پر مجبور ہو گیا تو پھر ہم کیا ہیں۔
چنانچہ یہ آپشن ضرور اور فوراً لیں آپ بچ جائیں گے اور آپ کی زندگی بھی بدل جائے گی اور آخری نسخہ‘ یہ ایک کہانی ہے‘ آپ اس کہانی کو لکھ کر سامنے لگا لیں‘ یہ زندگی کے ہر مشکل وقت میں آپ کی مدد کرے گی۔
بادشاہ نے قیدی کو سزائے موت سنا دی‘ قیدی نے بادشاہ سے دو منٹ مانگے اور پھر عرض کیا‘ بادشاہ سلامت اگرمیں مر گیا تو میرے ساتھ ایک حیران کن فن بھی مر جائے گا‘ میں پوری دنیا میں اس فن کا واحد ماہر ہوں‘ بادشاہ نے پوچھا ’’وہ کیا فن ہے؟‘‘ قیدی نے جواب دیا ’’جناب میں گھوڑے کو اڑانا سکھا سکتا ہوں۔
بادشاہ نے پوچھا ’’کیسے؟‘‘ قیدی نے جواب دیا اگر مجھے چھوٹا سا محل‘ دس پندرہ نوکر چاکر اور آپ کاعزیز ترین گھوڑا مل جائے تو میں اسے اڑھائی سال میں اڑا کر دکھا دوں گا‘ بادشاہ نے پوچھا ’’اور اگرتم ناکام ہو گئے تو پھر‘‘ قیدی نے جواب دیا‘ آپ میرا سر اتار دیجیے گا۔
بادشاہ نے وزیر کو حکم دیا ‘اسے اس کی خواہش کے مطابق سب کچھ دے دو اور اگر یہ اڑھائی سال بعد ناکام ہو جائے تو اس کی گردن کاٹ دینا یوں قیدی کو محل‘ نوکر اور گھوڑا مل گیا‘ وہ جب گھوڑا لے کر جا رہا تھا تو کسی نے اس سے کہا‘ او بے وقوف انسان دنیا میں کبھی گھوڑا بھی اڑا ہے‘ تم بالآخر مارے جاؤ گے۔
قیدی نے ہنس کر جواب دیا ’’بے وقوف میں نہیں تم لوگ ہو‘ میں پھانسی لگنے والا تھا لیکن مجھے اس ڈیل سے اڑھائی سال مل گئے‘ میں اس عرصے میں محل میں رہوں گا اور بادشاہ کے گھوڑے کو انجوائے کروں گا۔
پوچھنے والے نے پوچھا اور تم اس کے بعد کیا کرو گے‘ اس نے جواب دیا اڑھائی سال میں ہو سکتا ہے بادشاہ مر جائے‘ ہو سکتا ہے میں نہ رہوں اور یہ بھی عین ممکن ہے گھوڑا واقعی اڑنا سیکھ جائے۔
آپ بھی بے شک جو کرنا چاہتے ہیں کریں لیکن اس سے پہلے ٹائم ضرور بائی کریں‘ ہو سکتا ہے آپ کو تکلیف دینے والا مر جائے‘ آپ کا بلاوا آ جائے یا پھر آپ نے جو کام اسٹارٹ کیا ہے وہ واقعی ہو جائے۔
کاش عدیل اکبر کو یہ تین تکنیکس معلوم ہوتیں تو شاید یہ آج بھی زندہ ہوتا۔