فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ بنیادی ثبوت نہیں، لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ بنیادی ثبوت نہیں، لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ WhatsAppFacebookTwitter 0 22 March, 2025 سب نیوز
لاہور(آئی پی ایس) لاہورہائیکورٹ کے جسٹس طاق ندیم نے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ بنیادی ثبوت نہیں ہوسکتا، دیگر شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے لنک کرنا کافی نہیں۔
تفصیلات کے مطابق لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طاق ندیم نے قانونی نکتہ طے کردیا، عدالت نے 19سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے کیس کا فیصلہ سنایا۔ عدالت میں مقدمے میں عمر قید پانے والا ملزم کو چھ سال بعد بری کردیا۔
جسٹس طارق ندیم لاہور ہائیکورٹ نے ملزم محمد عارف کی عمر قید اور 14 برس قید کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے ملزم محمد عارف کی اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ دور میں کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں، دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے سیپمل محفوظ طریقے سے فرانزک کیلئے بھجوائے گئے۔
جسٹس طارق ندیم نے فیصلہ دیا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو ماہر کی رائے کے طور لیا جاسکتا ہے، شواہد کے جائزے سے پتہ لگا کہ پراسکیوشن کا کیس شکوک وشبہات سے بھرا پڑا ہے، ایسے شکی اور غیر حقیقی شواہد پر ملزم کی سز برقرار نہیں رہ سکتی، ملزم پر الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں لیکن صرف اس گراؤنڈ پر سزا نہیں دی جا سکتی۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم کے خلاف پیش کے گئے شواہد میں سنجیدہ قانونی نقائص ہیں، ملزم محمد عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا، پراسکیوشن کیمطابق ملزم نے 19سالہ لڑکی کو زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کیا، پراسیکیوشن کے مطابق ملزم نے لڑکی کی لاش کھیتوں میں پھینک دی، کوئی بھی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔
تحریری فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس تیکنکی شواہد کے سہارے کھڑا ہے، تیکنیکی شواہد کو عام طور کمزور شواہد کے طور پر دیکھا جاتا ہے، پراسیکیوشن نے کڑیاں ملانے کیلئے وقوعہ پر آخری دیکھے گواہوں کا سہارا لیا، دو گواہوں نے بیان دیا کہ لڑکی کو ملزم کے ہمراہ کھیتوں کیطرف جاتے دیکھا۔
جسٹس طارق ندیم نے تحریری فیصلے میں مزید کہا کہ ایسے گواہوں کو قانونی کی نظر میں انتہائی کمزور گواہ جانا جاتا ہے، میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے، عدالت ملزم کی سزا کالعدم قرار دے کر رہا کرنے کا حکم دیتی ہے، ملزم محمد عارف جیل میں ہے اسے فوری رہا کیا جائے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: لاہور ہائیکورٹ
پڑھیں:
ٹریفک پولیس اہلکاروں سے جھگڑا اور تشدد کرنے والا نوجوان گرفتار
اسلام آباد میں ٹریفک پولیس اہلکاروں سے جھگڑا کرنے اور ہلڑبازی کے الزام میں ایک نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا۔
واقعہ گزشتہ رات آئی-8 مرکز میں پیش آیا، جہاں ملزم نے پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا اور بدکلامی کی۔
اسلام آباد پولیس کے مطابق، نوجوان کی اہلکاروں سے تکرار اور تشدد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، جس میں اسے پولیس سے الجھتے اور گالم گلوچ کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:اسلام آباد پولیس کے سینیئر افسر نے گولی مار کر اپنی جان لے لی
ویڈیو میں ملزم کو جھگڑے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر موقع سے فرار ہوتے بھی دکھایا گیا۔ پولیس نے ویڈیو شواہد کی بنیاد پر کارروائی کرتے ہوئے تھانہ آئی-9 کی حدود سے ملزم کو گرفتار کر لیا۔
حکام کے مطابق، ملزم کی گاڑی بھی تحویل میں لے لی گئی ہے، اور اس کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسلام آباد پولیس پولیس سے جھگڑا ٹریفک پولیس