WE News:
2025-04-25@02:20:20 GMT

لاہور کی ‘خزانچی’ جس نے فلم سازی کو نئی سمت دی

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

اردو کی ممتاز مصنفہ قرۃ العین حیدر کی ادب سے باہر متنوع دلچسپیوں کا ایک محور ہندوستانی سینما بھی تھا، ان کے فکشن اور نان فکشن میں فلموں، اداکاروں اور سینما کے معاشرے پر اثرات کا تذکرہ موجود ہے مثلاً ‘آگ کا دریا’ میں فلم ‘پکار’ کا حوالہ ہے تو خالد حسن کے نام خط میں وہ نرگس کے انتقال پر غمگین نظر آتی ہیں، بچپن میں فلم ‘بھابھی’ دیکھنے کا بھی ایک جگہ بتایا ہے، ‘آوارہ’ کی روس میں مقبولیت کا احوال ‘کار جہاں دراز ہے’ میں ہے، نرگس اور راج کپور کے رومانس کا تذکرہ بھی اسی کتاب میں ہے۔

اپنے فکشن میں تاریخ کے بہتے دھارے اور سماج کے تغیرات پر نظر رکھنے والی قرۃ العین حیدر کا گہرا مشاہدہ فلم بینی میں برقرار رہتا ہے، ایک جگہ اداکاراؤں کے لباس کی تبدیلی کے بارے میں لکھتی ہیں: ‘فلموں میں سادہ لباس بنگالی ایکٹریسوں کی تقلید میں رائج ہوئے، راقم الحروف کو نرگس کی وہ فلمیں یاد ہیں جن میں وہ تقریباً ہر تیسرے چوتھے سین میں ایک بھاری کار چوبی ساڑھی بدلتی تھیں گو بمبئی کی فلموں میں سادہ لباس پہننا نرگس اور مینا کماری ہی نے شروع کیا۔’

اردو سے ہٹ کر قرۃ العین حیدر نے ‘السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا’ میں کئی سال فلم ریویوز کیے۔

فلمی دنیا سے مبصر کی حیثیت سے قرۃ العین حیدر کے تعلق کی یہ مثالیں ہمارے اس مضمون کی تمہید کے ذیل میں ہیں جو ہم نے تقسیم سے پہلے کی ایک فلم کے تذکرے کے لیے اٹھائی ہے اور جس کی بنیاد قرۃ العین حیدر کی ایک وقیع رائے پر استوار ہوگی۔

قرۃ العین حیدر ادبی میدان میں لاہور کی فتوحات کی ہمیشہ معترف رہیں لیکن ہندوستانی سینما کو نئی راہ پر ڈالنے میں بھی وہ اس شہر کے کردار کو اجاگر کرتی ہیں :

’میرے خیال میں ہندوستانی سینما نے ہمارے معاشرے پر جتنا گہرا اور دوررس اثر ڈالا ہے ہم اس کا پوری طرح ابھی تک اندازہ ہی نہیں کرسکے، نیو تھیٹرز اور بمبئی ٹاکیز کے زنانہ نئے فیشن کے ملبوسات نے زنانہ پوشاک کو متاثر کیا، لیکن لاہور کا خزانچی جو 1941 میں سارے ہندوستان میں ریلیز ہوا ایک انقلاب آفریں فلم ثابت ہوا۔ سائیکل سوار لڑکیوں اور لڑکوں کے پرے ’ساون کے نظارے ہیں‘ گاتے ہوئے سارے برصغیر کے تماشائیوں کے ذہنوں پر چھا گئے، اب تک سینما کے کلچر پر نیو تھیٹرز کلکتہ یعنی بنگال حاوی تھا۔ یہ ایک مدھم سریلی نہایت مہذب اور محتاط کلچر تھی، لاہور کی بے تکلف چاق چوبند پنجابی طرز زندگی نے اس کلچر کو برطرف کیا یعنی ‘آب آمد تیمم برخاست۔’ اب مدھم سروں میں بنگالی دھنوں والے آرکسٹرا کے بجائے ڈھولک کی تھاپ پر پنجابی لوک دھنوں کی بارش شروع ہوئی، ماسٹر غلام حیدر اس نئے اسکول کے قائد تھے، بنگالی جوتھیکا رائے کے بجائے امراؤ ضیا بیگم اور شمشاد بیگم کے پنجابی لہجے سے معمور گیت سارے ہندوستان کی فضائوں میں گونجنے لگے۔‘

یوپی کی قرۃ العین حیدر کے تاثرات جان لینے کے بعد اب ہم آپ کو ‘خزانچی’ کی بہاولپور میں مقبولیت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ محمد کاظم جو آگے چل کر عربی کے ممتاز اسکالر اور اردو کے ادیب بنے وہ اس وقت صادق ایجرٹن کالج کے طالبِ علم تھے جہاں سے پھر انہوں نے انجینیئرنگ کی تعلیم کے لیے علی گڑھ جانا تھا۔

محمد کاظم کے یاد خزانے میں ‘خزانچی’ کی یاد ہمیشہ محفوظ رہی، کالج میں گزرے دنوں کے بارے میں وہ ‘کچھ دوسری طرح کی یادیں’ میں لکھتے ہیں:

‘مجھے یاد ہے ان دنوں شہر میں ایک فلم ‘خزانچی’ نام کی آئی تھی اور بے حد مقبول ہوئی تھی، فلم کی ہیروئن رمولا بھی ایک نئی اداکارہ تھی جس کی شکل و صورت، جسم، بولنے کا انداز، روایتی ہیروئنوں سے بالکل ہٹ کر تھا، چھوٹے قد اور مختصر سے جسم والی یہ نٹ کھٹ لڑکی اس فلم میں آتے ہی دلوں پر حکومت کرنے لگی تھی اور اس نے مثالی محبوبہ کے سب پچھلے تصورات بدل کر رکھ دیے تھے۔ اس کے مقابل جو ہیرو تھا، افسوس اس کا نام اس وقت ذہن میں نہیں آرہا، وہ مردانہ حسن کا ایک دل آویز نمونہ تھا اور کالج کے فیشن ایبل گروپ کے لیے مثال اور انسپریشن۔ ہمارے کالج کے یہ بانکے اور چھبیلے ہیرو خوبصورت سوٹ زیب تن کیے، بالوں کو ایک خاص طرز سے سنوارے، ولایتی سینٹ لگائے، ان دیکھی ‘رمولاوں’ کے تصور میں ‘خزانچی’ کے اس ہیرو کی شخصیت اپنے آپ پر طاری کیے رہتے تھے۔’

محمد کاظم کے ذہن سے ‘خزانچی’ کے ہیرو کا نام اتر گیا لیکن ان کے عزیز دوست اور معروف فکشن نگار اکرام اللہ کو یہ یاد رہا اور انہوں نے اپنی خود نوشت ‘جہان گزراں’ میں اس فلم کے تذکرے میں ہیرو نارنگ کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ مقامی میڈیکل کالج کا طالب علم تھا، اکرام اللہ نے ‘خزانچی’ کے روپ میں ایم اسماعیل کی اداکاری کو بھی سراہا ہے۔

اس فلم کی بمبئی میں مقبولیت کے بارے میں ڈاکٹر سلیم ملک نے امتیاز علی تاج پر اپنی کتاب میں رحمت رازی کے ایک مضمون کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ فلم بمبئی کے کرشنا سینما میں 50 ہفتے چلی جو مراٹھیوں کا علاقہ تھا اور وہاں دکانوں پر وہ شلوار قمیص بکنے لگے جسے ‘خزانچی ڈریس’ کہا جاتا تھا۔

اب ذرا اس فلم کی وجہ شہرت بننے والے گانے کے بول بھی پڑھ لیں جو فلم شروع ہونے کے فوراً بعد زندگی سے بھرپور سائیکل سوار لڑکیوں اور لڑکوں کی ٹولی گاتے دکھائی دیتی ہے:

‘ساون کے نظارے ہیں آہا آہا، کلیوں کی آنکھوں میں مستانہ اشارے ہیں

لڑکے: جوبن ہے فضاؤں میں، کھو جائیں گلے مل کر مخمور گھٹاؤں میں

لڑکیاں: اس دیس چلیں سجنی، پھولوں کے جوبن پر بھنورے نہ مریں سجنی

لڑکے: اس دیس میں کیا جانا، پیار کے راگوں سے جو دیس ہو بیگانہ

لڑکیاں: تم پریت کو کیا جانو، آگ سے مت کھیلو، اے حسن کے دیوانو

اس فلم کا ایک اور گیت جو مشہور ہوا اس کے بول ہیں:

‘لوٹ گئی پاپن اندھیاری’

اس فلم نے انڈسٹری کا دھارا ہی نہیں بدلا، انفرادی حیثیت سے اس سے وابستہ افراد کی زندگی میں بھی یہ انقلاب لے آئی، پروڈیوسر دلسکھ پنچولی کے ادارے کی شہرت دور دور تک پھیلی، موسیقار ماسٹر غلام حیدر کی بمبئی میں مانگ بڑھ گئی اور انہیں پنچولی آرٹ اسٹوڈیو سے توڑنے کے لیے بقول عارف وقار بمبئی کے کئی پروڈیوسروں نے اپنے کارندے لاہور بھیجے۔ ڈائریکٹر موتی بی گدوانی کی گڈی بھی چڑھ گئی، ایڈیٹر شوکت حسین رضوی کے ڈائریکٹر بننے کا راستہ بھی اسی فلم سے کھلا۔

خوش قسمتی کی بات ہے کہ یوٹیوب پر آپ یہ فلم دیکھ سکتے ہیں جو انگریزی فلم ‘وے آف آل فلیش’ سے ماخوذ تھی، اس کا اسکرین پلے خادم محی الدین کے قلم سے تھا، مکالمے امتیاز علی تاج نے لکھے تھے اور گیت نگار ولی صاحب تھے۔

پرویز راہی نے ‘پنجاب کی فلمی تاریخ’ میں لکھا ہے کہ اس فلم کی شوٹنگ اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شروع ہوئی تھی لیکن یہ سلسلہ جلد موقوف ہوگیا اور پھر اسے اردو میں ہی بنایا گیا۔

قتل، قاتل اور مقتول کے آنے سے ‘خزانچی’ سیدھے سبھاؤ کی فلم کے بجائے تھرلر کی سی صورت اختیار کر لیتی ہے، مجھے ذاتی طور پر اس کا پہلا حصہ زیادہ پسند ہے کہ اس میں یہ معصومانہ فطری جذبوں کی کہانی ہے جس میں دوسرے حصے کی طرح جھول نہیں۔ اس میں باپ اپنی بیٹیوں پر محبت نچھاور کرتے ہیں، بہن بھائی میں الفت اور دوستی کی سطح ایسی ہے جس میں دل کی بات کہنے سننے اور ہنسی ٹھٹھول کی گنجائش بھی ہے۔ ہیرو اور ہیروئن میں تعلق استوار ہونے کی کہانی پرلطف انداز میں آگے بڑھتی ہے، کہانی میں ہیرو کا دولت مند رقیب بھی موجود ہے جسے ہیروئن کی سوتیلی ماں کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔

خزانچی بمبئی کے لیے عازم سفر ہونے سے پہلے بیٹی کو تاکید کرتا ہے کہ تلسی کے پودے کو پانی دیتی رہے کہ یہ اس کی ماں کا لگایا ہوا پودا ہے۔

تقسیم سے پہلے کا لاہور بھی فلم کے اس حصے میں زیادہ ابھرتا ہے،

فلم میں لاہور میں دیوالی کے رنگ دیکھنے اور یہ گانا

‘دیوالی پھر آگئی سجنی’

سننے کے بعد مجھے سید ضمیر جعفری کی ڈائری کے اس اندراج کا خیال آیا جو ‘خزانچی’ کے آس پاس کے زمانے سے تعلق رکھتا ہے اور ہمیں لاہور کے وسیع المشرب ماحول کی یاد دلاتا ہے جو اب قصہ پارینہ بن گیا ہے، ضمیر جعفری دوسرے شہروں کی دیوالی سے لاہور کی دیوالی کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

‘شملہ رات کو چراغوں کا پہاڑ ہوتا ہے، مگر دیوالی کی شب تو گویا درختوں پر بھی چراغ جل اٹھتے ہیں، میں نے دہلی کی دیوالی بھی دیکھی، شملہ ہندوستان بھر کے نمائندہ چہروں کا روشن جھروکا ہے بلکہ حسن افرنگ کی آمیزش سے دو آتشہ بھی ہے مگر لاہور کی دیوالی کا جواب کہاں؟ انارکلی میں آج پری رخ برہمن دختروں کا سیلاب چل رہا ہوگا، مولانا غلام قادر گرامی نے بھی تو ‘آتش پنجاب’ کا ذکر بڑے للچائے ہوئے انداز میں کیا ہے، روشنی زمین سے اٹھ کر آسمان پر چلی گئی ہوگی، ہندو جاتی کے تہوار بھی متوارے ہیں۔’

فلم کے دوسرے حصے میں کہانی ‘خزانچی’ کے گرد گھومتی ہے جو بینک کے کام سے بمبئی جاتا ہے تو وہاں اس کا واسطہ ایک چلتر اداکارہ سے پڑتا ہے، وہ اسے مدہوش کرکے لوٹ لیتی ہے لیکن اسی اثنا میں اس کے دو آشنا اس سے مال ہتھیانے آجاتے ہیں اور مزاحمت کے دوران وہ قتل ہو جاتی ہے۔ مجرموں کے موقع واردات سے رفو چکر ہونے کے بعد سارا الزام غریب ‘خزانچی’ پر آجاتا ہے۔ ہوش میں آنے کے بعد اس پر حقیقت کھلتی ہے تو وہ صورت حال کا سامنا کرنے کے بجائے راہِ فرار اختیار کرتا ہے۔ ہرج مرج کھینچتا وہ لاہور پہنچ جاتا ہے جہاں دربدری اور تکلیفیں جھیلنے کے بعد آخر کار عدالت میں اس کی بے گناہی ثابت ہوجاتی ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ہم لاہور کی فلم انڈسٹری کے 100 سال پورے ہونے کو سیلی بریٹ کررہے ہیں، اس کے محسنوں کو شایان شان طریقے سے خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے اکثر مختلف حیثیتوں میں رجحان ساز ‘خزانچی’ کا حصہ تھے اس لیے یہ مضمون انہیں یاد کرنے کا بہانہ بھی ہے۔ اس فلم کا تذکرہ فلم بینوں اور نقادوں کے ساتھ ساتھ تخلیقی اذہان کے ہاں بھی برابر آتا رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف لاہور نہیں بلکہ برصغیر میں سینما کی تاریخ بھی ‘خزانچی’ کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

wenews پاکستان خزانچی فلم انڈسٹری قرۃ العین حیدر محمودالحسن ہندوستان وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان خزانچی فلم انڈسٹری قرۃ العین حیدر محمودالحسن ہندوستان وی نیوز قرۃ العین حیدر کے بارے میں کی دیوالی لاہور کی کے بجائے میں ہی کی فلم فلم کی کے بعد اس فلم کے لیے فلم کے

پڑھیں:

گورنر پنجاب ضرور ہوں مگر پہلے پیپلز پارٹی کا جیالا ہوں، سردار سلیم حیدر

لاہور:

گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے کہا ہے کہ وہ صوبے کے گورنر ضرور ہیں مگر پہلے پیپلز پارٹی کے جیالے ہیں۔

علماء، مشائخ اور پارٹی رہنماؤں سے ملاقات کے موقع پر گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر نے کہا کہ سیالکوٹ کے حلقہ پی پی 52 میں ضمنی انتخابات کے لیے پیپلز پارٹی پوری تیاری کے ساتھ میدان میں اترے گی اور اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرے گی۔ گلی گلی، محلے محلے جا کر پارٹی کی مہم خود چلاؤں گا۔

گورنر پنجاب نے کہا کہ پیپلز پارٹی کسی جماعت کی اتحادی نہیں بلکہ پاکستان کی عوام کی اتحادی ہے۔ پی ٹی آئی ہو یا ن لیگ، پیپلز پارٹی اب کسی کو بھی سیاسی میدان میں کھلا موقع نہیں دے گی۔

انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ بلاول بھٹو زرداری بہت جلد پنجاب آئیں گے، جہاں وہ تنظیم نو کے عمل کی نگرانی کریں گے اور کارکنوں کو آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کریں گے۔

کسانوں کے مسائل پر بات کرتے ہوئے گورنر پنجاب نے کہا کہ پیپلز پارٹی ہمیشہ کسانوں کے ساتھ کھڑی رہی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ گندم کی قیمت کاشتکاروں کو مکمل طور پر دی جائے کیونکہ پنجاب کے کسان اس وقت بدترین معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو کو وزیرِاعظم بنانا میرا مشن ہے، اور پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنا کھویا ہوا مقام ضرور واپس حاصل کرے گی۔

متعلقہ مضامین

  • پہلگام کا واقعہ بھارت کا اپنا ڈرامہ ہے: گورنر پنجاب سردارسلیم
  • قانون سازی اسمبلیوں کا اختیار، کمیٹیوں میں عوام کے مسائل حل ہوتے ہیں، محمد احمد خان
  • کتاب ‘جھوٹے روپ کے درشن’ پر تبصرہ
  • گورنر پنجاب ضرور ہوں مگر پہلے پیپلز پارٹی کا جیالا ہوں، سردار سلیم حیدر
  • ‘پاکستان کے خلاف کارروائی کی جائے’، بھارتی میڈیا کیسے جنگی ماحول بنارہا ہے؟
  • ترک انفلوئنسر نے ‘ماریہ بی’ پر سنگین الزامات عائد کردیے
  • جو نام ہم بھجواتے وہ جیل انتظامیہ قبول نہیں کرتی، نعیم حیدر
  • ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے ،وزیر قانون
  • نوجوان جمہوری اقدار، پارلیمانی روایات ،قانون سازی میں حصہ لیں:محمد احمد خان  
  • تربیلا ڈیم میں پانی کا ذخیرہ ‘ڈیڈ لیول’ سے بلند ہونے لگا