Juraat:
2025-09-18@10:54:56 GMT

بوڑھا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا!

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

بوڑھا دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا!

ب نقا ب /ایم آر ملک
خواب اور تعبیر

وہ امرتسر کا ایک گائوں تھا جس کے زیادہ باسی ہندو اور سکھ تھے ، مسلمانوں کے چند گھر انے تھے ، جن میں ہمارا گھرانہ بھی شامل تھا، چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا میں تھا ، میری بڑی بہن جس کی عمر 24سال کے قریب تھی میرے چچا زاد کی منکوحہ تھی پھر میرا بھائی تھا جو تھرڈ ایئر کا طالب علم تھا اور میرے باپ کی آنکھوںکا تارا !میرا باپ پکا کانگریسی تھا اور گائوں کا ایک بڑا زمیندار ،میرا بھائی جو گھر میں سب سے زیادہ میرے باپ کا لاڈلا تھا مسلم ا سٹوڈنٹس فیڈریشن کا سب سے سرگرم نوجوان تھا ۔
قائد اعظم محمد علی جناح اُن دنوں دو قومی نظریئے کے پرچارک تھے، اُن کی کہیں بھی تقریر یا جلسہ ہوتا میرا بھائی اُس میں ضرور شامل ہوتا۔ گھر میں چولہے کے گرد جب سب گھر والے جمع ہوتے ،میرے بھائی اور والد کے درمیان مسلم لیگ اور کانگریس کے متضاد نظریات اکثر زیرِ بحث ہوتے، میرا باپ کہتا کہ وہ کلین شیو وکیل محمد علی اس ملک کا بٹوارہ کرنا چاہتا ہے لیکن برِ صغیر پر ساڑھے سات سو برس تک مسلمان حکمران رہے ،بابری مسجد اور لال قلعہ ہمارا ہے ہم اپنی جائیدادیں چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے، میرا بھائی کہتا کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں ہندو مسلمان کے وجود کو کسی طور برداشت نہیں کرتا ہمارا مذہب الگ ،رہن سہن ،تہذیب و تمدن الگ الگ ،قائد اعظم محمد علی جناح کروڑوں محکوم مسلمانوں کی جنگ لڑ رہے ہیں انگریز یہاں سے جانے کے بعد ہمیں ہندوئوں کی غلامی میں دے جائیگا، مجھے نہیں یاد میرے باپ نے کبھی اس بحث کے دوران ڈانٹا ہو میرے بھائی نے جب ان موضوعات کو مسلم لیگ کے جلسوں میں موضوع تقریر بنایا توہندو اور سکھ ہمارے مخالف ہوگئے ۔
ایک روز گائوں کے ہندوئوں اور سکھوں نے اکٹھ کیا اور اس اکٹھ میں میرے باپ کو بلایا، میرا باپ جب چوپال میں پہنچا تو ہندوئوں اور سکھوں کے تیور بدلے ہوئے تھے گائوں کے ایک سر پنچ رنجیت سنگھ نے میرے باپ پر برستے ہوئے کہا کہ کرم داد تمہارا بیٹابہت پر پرزے نکال رہا ہے اس کی زبان کانگریس کے خلاف قینچی کی طرح چلنے لگی ہے اسے لگام دو کرم داد !اُوطاق میں بیٹھے ہندوئوں کا رویہ بھی جارحانہ تھا میرا باپ واپس آیا تو اُس نے میرے بھائی سے کسی بات کا ذکر نہ کیا عام انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ بھاری اکثریت سے جیتی یہ 23مارچ 1940کو پاس ہونے والی قرارداد کا شاخسانہ تھا 1947کا ماہ جولائی تھا جب پورے گائوں نے ہمارا سوشل بائیکاٹ کر دیا ،اگست میں علیحدہ وطن بنا تونواحی علاقوں سے سکھوں اور مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کی خبریںآنے لگیںایک روز میرے باپ نے میرے بڑے بھائی اور ماں سے کہاکہ میری بڑی بہن کواُس کے سسرال چھوڑ آئو ۔
دوسرا روز کسی قیامت سے کم نہ تھا سورج نکلنے سے پہلے گائوں کے ایک شخص نے ہمارا دروازہ کھٹکھٹا کر کہا کہ کرم داد ٹرپئی جانے والی شاہراہ پر تمہارے بیٹے اور بیوی کو قتل کردیا گیا ہے، میں اور میری ااٹھارہ سالہ بہن سکتے کی حالت میں تھے میرے بڑے بھائی کے جسم کے چھوٹے چھوٹیٹکڑے شاہراہ کے کنارے بکھرے پڑے تھے ،قاتلوں نے ماں پر یہ احسان کیا کہ اُس کا سر کاٹ کر ایک درخت پر لٹکا دیا اور سرکٹا دھڑ درخت کے نیچے پڑا تھا مگر میری بڑی بہن غائب تھی ۔میں نے اُس روز اپنے باپ کا پہاڑ حوصلہ دیکھا تھا ،وہ میرے بھائی کے تمام اعضاء ایک گٹھڑی کی شکل میں باندھ کر گھر لائے اور سربریدہ میری ماں کی لاش بھی ہمارے صحن میں پڑی تھی میرے باپ نے وہ گٹھڑی کھولی اور میرے بھائی کے اعضاء جوڑنے لگا میرا باپ بھائی کے ایک ایک اعضاء کو اُٹھا کر نام لے رہا تھا تمام اعضاء کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد وہ سفید کفن لائے اور میرے بھائی کی لاش کو لیکر کمرے میں اپنے آپ کو مقید کر لیا دو تین گھنٹے کے بعد جب میرا باپ کمرے سے باہر نکلا تو اُس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور میرے بھائی کی لاش بوری کی شکل میں سوئی دھاگے سے سلی ہوئی تھی ۔
پھر چوتھے روز میری بہن کی برہنہ لاش ملی جنگلی درندوں کے علاوہ انسانی درندوں نے ظلم کا ہر حربہ آزمایا تھا گائوں کے سر پنچوں نے ایک بار پھر میرے باپ کو بلا کر باور کرایاکہ کرم داد یہ سب تمہارے بیٹے کا کیا دھرا ہے میرا باپ وہاں سے سر جھکا کر چلا تو راستے میں اُسے ہندو اور سکھ نوجوان آوازے کستے اور قہقہے لگاتے ملے یہ وہی نوجوان تھے جنہوں نے ہمارا پورا پریوار مار ڈالا تھا دوسرے روز میرے باپ نے مجھے کہا کہ تم تیاری کرو پرسوں ہم دونوں یہاں سے کوچ کر جائیں گے ۔
لیکن ابا جان باجی !
وہ نہیں جائے گی میں اُسے آج رات قتل کر دوں گا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ بننے سے بہتر ہے وہ قتل ہو جائے ۔اُس روز میں اپنی بڑی بہن کا چہرہ دیکھتا رہا تھا وہ ہاتھ جنہوں نے مجھے اُٹھا کر گود کھلایا تھا اُنہیں کچھ خبر نہ تھی ۔
آدھی رات تک میرا باپ چھری تیز کرتا رہا مجھے یاد ہے میری بہن نے پوچھا تھا کہ ابا جان آپ یہ چھُری کیوں تیز کر رہے ہیں انہوں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہاتھا کہ بیٹی کہیں ہم پر رات کو دشمن حملہ آور نہ ہو جائیں لیکن دوسرے روز میری بہن سلامت تھی میرے باپ نے مجھے کہا تھا کہ میرا حوصلہ نہیں پڑا ،پھر دوسری شب جب ہم تینوں کمرے میں سو رہے تھے میرے باپ نے چپکے سے مجھے ہلا کر اُٹھایا میری بہن کی چارپائی اور کمرے کی دوسری اشیاء پر مٹی کاتیل چھڑکا مجھے باہر نکالنے کے بعد میرے باپ نے کمرے میں آگ لگا دی اور باہر سے دروازے کو کنڈی لگا دی میری معصوم بہن کی چیخیں کمرے میں گونج رہی تھیں کمرہ جل گیا تو اُس کی چیخیں بھی دم توڑ گئیں۔ اپنے گھروں پر حسرت بھری نظریں ڈالنے کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوئے ،ایک روز ایک قافلے کے ہمراہ ہم نے پاک سر زمین پر قدم رکھے یہاں آکر میرے باپ نے اپنی زمین کا کلیم داخل کرایا جس کی پیشیاں بھگتتے بھگتتے وہ مٹی میں جا سویا، پاکستان کے قیام کے ساتھ جہیز میں آنے والے روایتی جاگیرداروں نے جن کے بارے میں قائد اعظم نے کہا تھا کہ یہ کھوٹے سکے ہیں، آر ایل ٹو میں ردوبدل کرکے ہمارا کلیم اپنے نام کرا لیا تعلیم کے حصول کے بعد میں نے شادی کر لی میرے دو بیٹے ہوئے جنہیں میں نے پڑھایا لکھایا اعلیٰ تعلیم دلائی میرا ایک بیٹا مجاہد بن گیا جبکہ دوسرا اپنی ڈگریاں اُٹھائے جس دفتر بھی پہنچا اس کی ملازمت میں رکاوٹ دو بڑے ناسو ر رشوت اور سفارش بن گئے، ایک روز اُس نے بیروزگاری سے تنگ آکر ایک درخت کے ساتھ جھول کر خود کشی کر لی، جبکہ نائن الیون کے نام نہاد واقعہ کے بعد دوسرا بیٹا مجاہد سے دہشت گرد بن گیا ۔
23مارچ 1940کو میری آنکھوں نے جو خواب دیکھا کیا اُس کی تعبیر یہی تھی ؟کیا یہی وہ پاکستان تھا جس کیلئے جاگ جاگ کر جناح کی آنکھوں کے سوتے خشک ہو گئے ؟میرے پاس بوڑھے کے کسی سوال کا بھی جواب نہیں تھا ۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: میرے باپ نے میرے بھائی میرا بھائی بھائی کے گائوں کے میرا باپ اور میرے ہندو اور ایک روز بڑی بہن تھا کہ کے بعد

پڑھیں:

ٹرمپ مودی بھائی بھائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نریندر مودی نے شنگھائی کانفرنس میں شرکت اور چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمر پیوٹن کے ساتھ سر جوڑ کر کانا پھونسی کرکے وہ مقاصد حاصل کر لیے جو پہلے ہی طے کر لیے گئے تھے۔ شنگھائی کانفرنس کے چند ہی دن بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے لب ولہجے پر ایک سو ڈگری کی تبدیلی کرکے بھارت اور نریندر مودی کے لیے شیریں بیانی شروع کر دی۔ ایکس پر اپنے پیغام میں صدر ٹرمپ نے ڈرانے دھمکانے کی زبان ترک کرکے بھارت کو امریکا کا دوست قرار دیتے ہوئے کہا وہ مودی سے بات چیت کے لیے تیار ہیں اور وہ دونوں ملکوں کے درمیان مجوزہ تجارتی معاہدے کو پایۂ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ جس کے جواب میں نریندر مودی نے بھی ایکس پر لکھا کہ بھارت اور امریکا فطری حلیف ہیں مجھے یقین ہے کہ ہماری تجارتی بات چیت ہند امریکا شراکت کے لامحدود امکانات سے استفادے کی راہ ہموار کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے معاشی مشیر وی انتھانا گیشورن نے صاف لفظوں میں بتادیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں متبادل کرنسی بنانے میں بھارت کے ملوث ہونے کی قیاس آرائیاں بے بنیاد ہیں۔ بھارت ایسے کسی منصوبے پر غور نہیں کر رہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے نریندر مودی پر مختلف اوقات میں جو فردِ جرم عائد کی تھیں ان میں ایک نکتہ یہ بھی تھا کہ بھارت ڈالر کے متبادل نظام قائم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ یہ امریکی معاشی بالادستی کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ اب بھارت نے ایسی کسی منصوبے کا حصہ ہونے کی تردید کر دی۔ بھارت اور امریکا کے درمیان ٹیرف کے معاملے پر مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے اور کسی بھی وقت دونوں کے درمیان بریک تھرو کا امکان موجود ہے۔ اس طرح امریکا اور بھارت کے تعلقات کے درمیان عارضی اور وقتی بحران اب حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ جس پر یہی کہا جا سکتا ہے

تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا

امریکا اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بحرانی کیفیت پاکستان کے لیے مغرب کی سمت امکانات کی کھلنے والی واحد کھڑکی تھی جو اب ایک بار پھر بند ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ جس طرح پاکستان کے حکمران طبقات امریکا کی طرف سے بھارت کی کلائی مروڑے جانے پر جشن منارہے تھے اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی سوائے اس کے امریکا ایک بار پھر کچھ عرصہ کے لیے پاکستان پر معاشی اور سیاسی طور پر مہربان رہے۔ معاشی طور پر اس طرح دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دھول اْڑتی رہے اور اس میں قاتل مقتول جارح ومجروح کے چہرے پہچاننا اور نشاندہی ہونا ناممکن رہے۔ امریکا کے زیر اثر برادر وغیر برادر ملک پاکستان کی معاشی ضرورتوں کو قرض کی صورت میں دیکھتے رہیں۔ سیاسی ضرورت یہ ہے کہ مغربی ممالک اور جمہوری نظام کے لیے واچ ڈاگ کا کردار ادا کرنے والے مغربی ادارے پاکستان کے سیاسی نظام اور یہاں تنگ ہوتی ہوئی آزادیوں سے اسی طرح غافل رہیں جیسے کہ وہ بھارت کے ان معاملات سے قطعی لاتعلق ہیں۔ مصر میں تو ہم نے مغربی جمہوریت کے دعوؤں کا برہنہ اور بے گورو کفن لاش کو دیکھا تھا۔ جہاں تاریخ کے پہلے انتخابات میں پہلا منتخب نظام قائم ہوا مگر خطے میں اسرائیل کی سلامتی کے لیے قائم نظام کے لیے مستقبل بعید میں اْبھرنے والے خطرے کے خوف میں اس جمہوری نظام کا گلہ گھوٹ دیا گیا۔ ایک غیر منتخب نظام قائم ہوا اور نہ جمہوریت کے فروح کے قائم عالمی اداروں نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا نہ ہی اس پر کوئی اختلافی آواز بلند کی۔ یوں مغربی نظام میں مرسی کا تختہ اْلٹنے کی مہم کے سیاسی پوسٹر بوائے محمد البرادی کی بھی پلٹ کر خبر نہ لی۔ محمد البرادی وہی ذات شریف ہیں جو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے نمائندے کے طور پر عراق میں کیمیائی ہتھیاروں کی تلاش کے نام پر روز بغداد میں دندناتے پھرتے تھے اور کبھی دوٹوک انداز میں یہ نہ کہہ سکے کہ عراق ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار نہیں بنا رہا۔

بہرحال بھارت اور امریکا کے درمیان عارضی شنکر رنجی ختم ہونے کا امکان پیدا ہونے لگا ہے۔ اب بھارت کی بہت سی کج ادائیاں ماضی کی طرح ایک بار پھر ادائے دلبرانہ بن جائیں گی۔ لازمی بات ہے کہ پاکستان اس خانے میں ایک مخصوص مقام سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو اپنا فطری حلیف قرار دے کر نئی بات نہیں کی۔ دنیا میں اسرائیل اور بھارت دو ایسے ممالک ہیں جنہیں امریکا نے نائن الیون کے بعد اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دے رکھا ہے۔ ایک اسٹرٹیجک پارٹنر اسرائیل کے لیے امریکا جس حد تک جا سکتا ہے اس کا مظاہرہ آج کل مشرق وسطیٰ میں ہو رہا ہے۔ اسی طرح چین کے ساتھ امریکا کی مخاصمت میں کمی کا کوئی امکان نہیں۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کم یا زیادہ بھارت ہی امریکا کی ضرورت پورا کر سکتا ہے۔ بھارت کا یہ پوٹینشل اسے امریکا کا فطری حلیف بنائے ہوئے ہے۔ بھارت امریکا کے لیے بروئے کار آنے کے لیے تیار ہے مگر وہ چین کے خلاف بے رحمی سے استعمال ہونے اور روس کے ساتھ امریکی ہدایات پر مبنی تعلقات کے قیام سے انکاری ہے۔ ان دونوں معاملات کا تعلق بھارت کے طویل المیعاد مقاصد سے ہے۔ اس عارضی ماحول میں پاکستان کے لیے مغرب میں جو وقتی گنجائش پیدا ہورہی تھی اب یہ سلسلہ رک سکتا ہے۔ پاکستان کے لیے کسی نئے انداز سے ڈومور کی گھنٹیاں بج سکتی ہیں۔ یہ ڈومور قانون کی حکمرانی اور جمہوریت کی بحالی کے نام پر بھی ہو سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • انصاف کے دروازے میرے اور اہلیہ پر بند ہیں: بانی پی ٹی آئی کا چیف جسٹس کو خط
  • ’انصاف کے دروازے بند اور میرا کمرا پنجرہ بنادیا گیا ہے عمران خان کا چیف جسٹس پاکستان کو خط
  • ’انصاف کے دروازے بند اور میرا کمرا پنجرہ بنادیا گیا ہے’ عمران خان کا چیف جسٹس پاکستان کو خط
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • نادرا لاہور ریجن میں ’’میری شناخت، میرا تحفظ‘‘ کے موضوع پر خصوصی آگاہی ہفتہ شروع
  • میرے اوپر انڈوں سے حملے کا واقعہ اسکرپٹڈ تھا، بدتمیزی کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا، علیمہ خان
  • ٹرمپ نے نیویارک ٹائمز کیخلاف 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ کردیا
  • 17 ارکان کے کمیٹیوں سے استعفے میرے پاس آگئے، آج جمع کراؤں گا، سینیٹر علی ظفر
  • ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ: ارشد ندیم کی شاندار نتائج کے لیے قوم سے دعاؤں کی اپیل
  • ٹرمپ مودی بھائی بھائی