تمباکو کی صنعت بچوں کو ہدف بنانے کے لیے جارحانہ مارکیٹنگ کرتی ہے اور کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) کے نام پر ایسے پروگرام منعقد کرتی ہے جن کا مقصد عوام میں ہمدردی پیدا کر کے سخت ٹیکس اقدامات کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوتا ہے۔یہ بات پیر کو اسلام  آباد میں ماہرین، سرکاری عہدیداروں اور پالیسی سازوں نے ’تمباکو کی صنعت کے ٹیکسوں میں ہیرا پھیری کے حربے، پالیسی، عمل اور شواہد‘ کے موضوع پر ایک اہم گول میز مذاکرے میں کہی۔

یہ بھی پڑھیں: خیبرپختونخوا حکومت نے تمباکو پر ٹیکس کم کرکے آدھا کردیا

ایس ڈی پی آئی سینٹر فار ہیلتھ پالیسی اینڈ انوویشن کے سربراہ سید علی واسف نقوی نے اپنے افتتاحی خطاب میں پاکستان کی سگریٹ صنعت کے حوالے سے اعدادوشمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ مالی سال 2025 کے آغاز میں ایک طرف پیداوار میں اضافہ دیکھا گیا تو دوسری طرف ٹیکس وصولیوں میں کمی واقع ہوئی، دوسری طرف دسمبر 2024 کے اعداد و شمار میں پیداوار میں 26.

1 فیصد کمی مگر محصولات میں 27 فیصد اضافہ دکھایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ یہ تضادات اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تمباکو صنعت پیداوار اور دو سطحی ٹیکس نظام میں ہیر پھیر  کر کے  حکومت کو گمراہ کر رہی ہے تاکہ نئے بجٹ میں ٹیکسوں کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا سکیں۔

 ایس ڈی پی آئی کے سینئر ایڈوائزر وسیم کھوکھر نے کہا کہ تمباکو کمپنیاں ٹیکس چوری کے ساتھ ساتھ سگریٹ کی غیر قانونی تجارت کے بارے میں جو اعداد و شمار پیش کرتے ہیں وہ آزاد تحقیقی مطالعات کے برعکس ہوتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ صنعت پالیسی سازوں کو گمراہ کرتی ہے اور ٹیکسوں کی مخالفت کے لیے اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرتی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تمباکو کی قیمتوں میں اضافے سے غیر قانونی تجارت میں اضافہ نہیں بلکہ کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو پر ٹیکس: کے پی حکومت کا یوٹرن، کیا حکومت اپنے ہی اراکین کے سامنے بے بس ہے؟

سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر (ایس پی ڈی سی)کے منیجنگ ڈائریکٹر آصف اقبال نے بتایا کہ تمباکو کمپنیاں اپنی پیداوار میں کمی بیشی کے ذریعے ٹیکس پالیسیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ نو کمپنیاں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم استعمال کر رہی ہیں جن میں سے تین خودکار نظام سے منسلک ہیں۔انہوں نے ایس پی ڈی سی کے24۔ 2023 کے سروے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمباکو کی پیداوار میں 19.2 فیصد اضافے کے باوجود فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (ایف ای ڈی) کی وصولی میں صرف 2.4 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ جنرل سیلز ٹیکس (جی ایس ٹی) کی آمدن 26.1 فیصد کم ہوئی۔

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تمباکو ٹیکسیشن ماہر نے اس موقع پر واضح کیا کہ سگریٹ پر ایکسائز ڈیوٹی کا بنیادی مقصد صرف محصولات میں اضافہ نہیں بلکہ تمباکو کے استعمال میں کمی لانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ16۔ 2015 سے ٹیکسوں میں بتدریج اضافے کے باوجود سگریٹ پر ایف ای ڈی کا تناسب 6 سے 6.2 فیصد کے درمیان رہا ہے۔انہوں نے تمباکو صنعت کے اس موقف کو بھی مسترد کیا کہ ٹیکسوں میں اضافے سے غیر قانونی تجارت بڑھتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو نوشی قوت مدافعت کو کیسے خوفناک حد تک متاثر کرتی ہے؟

انہوں نے کہا کہ تمباکو فیکٹریاں حکومت کو پالیسی میں نرمی پر مجبور کرنے کیلیے پیداوار بڑھا کر مصنوعی طور پر محصولات میں کمی ظاہر کرتی ہیں۔سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹس آف دی چائلڈ (اسپارک) کے پروگرام منیجر خلیل احمد نے انکشاف کیا کہ یہ صنعت حکومت پر دباو ڈالنے کے لیے کاروبار کو دوسرے ممالک منتقل کرنے کی دھمکیاں دیتی ہے۔

انہوں نے اس امر کی بھی نشاندہی کی کہ تمباکو کی صنعت بچوں کو ہدف بنانے کےلیے جارحانہ مارکیٹنگ کرتی ہے اور کارپوریٹ سماجی ذمہ داری (CSR) کے نام پر ایسے پروگرام منعقد کرتی ہے جن کا مقصد عوام میں ہمدردی پیدا کر کے سخت ٹیکس اقدامات کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کرنا ہوتا ہے۔وزارت صحت کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزیہ حنیف نے کہا کہ وزارت صحت شہریوں کو تمباکو کے نقصانات سے محفوظ رکھنے کیلیے پرعزم ہے۔

انہوں نے قومی تمباکو کنٹرول حکمتِ عملی2030۔ 2022 کے تحت ٹیکسوں میں مزید اضافہ، ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو موثر بنانا اور مختلف شعبہ جات کے درمیان ہم آہنگی پیدا کر کے صنعت کی غلط معلومات کے خلاف مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقت منیر نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ تمباکو کی کاشت ایک حساس مسئلہ ہے لہٰذا اس پر مکمل پابندی کی بجائے اس کے پھیلاو کو قابو میں رکھنے پر توجہ دی جانی چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: تمباکو نوشی کرنے والے 12 لاکھ پاکستانیوں کی جان کیسے بچائی جا سکتی ہے؟

انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ مسئلے کو جامع طریقے سے حل کرنے کیلیے کثیر الجہتی سٹیک ہولڈر میکانزم کی ضرورت ہے۔انہوں نے زور دیا کہ قانون پر سختی سے عملدرآمد، ٹیکسوں میں اضافے اور سرکاری اداروں، سول سوسائٹی اور صحت کے شعبے کے درمیان بہتر تعاون کو یقینی بنا کر تمباکو کی صنعت کے گمراہ کن حربوں کا موثر جواب دیا جا سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسلام اباد پاکستان تمباکو سوشل پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر گول میز مذاکرا

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام اباد پاکستان تمباکو تمباکو کی صنعت ٹیکسوں میں نے کہا کہ انہوں نے صنعت کے کرتی ہے کے لیے

پڑھیں:

کامیابی کا انحصار پالیسی استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے،احسن اقبال

اسلام آباد(نمائندہ خصوصی ) وفاقی وزیرمنصوبہ بندی،ترقی وخصوصی اقدامات پروفیسراحسن اقبال نے کہاہے کہ کامیابی کا انحصار پالیسی استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے،ماضی میں سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل میں کمی نے ملک کو نقصان پہنچایا۔ یہ بات انہوں نے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پائیڈ) اسلام آباد کیمپس میں اورینٹیشن ڈے 2025 کے موقع پرتقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔اورینٹیشن ڈے پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کے نئے سکالرز کاخیرمقدم کیاگیا۔ تقریب میں تعارفی سیشنز، پائیڈ کی تحقیقی کتب کی نمائش، ڈاکیومنٹریز اور انٹریکٹو پروگرامز شامل تھے تاکہ طلبہ کو اکیڈمک قواعد و ضوابط سے آگاہ کیا جا سکے۔ مہمانِ خصوصی وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی و خصوصی اقدامات اور چانسلر پائیڈ پروفیسر احسن اقبال نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا کہ پائیڈ میں داخلہ صرف تعلیمی سفر کا آغاز نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کو تحقیق، جدت اور پالیسی سے سنوارنے کا موقع ہے۔انہوں نے کہا کہ پائیڈ اپنی نوعیت کا منفرد ادارہ ہے جہاں تعلیم کے ساتھ عملی تحقیق کو یکجا کیا جاتا ہے اور طلبہ کو براہ راست حکومتی پالیسی سازی کے عمل میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ وڑن 2010 اور وڑن 2025 جیسے منصوبوں کے باوجود سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل میں کمی نے ملک کو نقصان پہنچایا جبکہ اس کے مقابلہ میں چین، ویتنام اور بنگلہ دیش ترقی کی راہ پر آگے بڑھ گئے۔ انہوں نے کہا کہ اب پاکستان ’’چوتھی پرواز’’ پر ہے اور اس میں کامیابی کا انحصار پالیسیوں میں استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے۔انہوں نے اڑان پاکستان کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ برآمدات پر مبنی ترقی ونمو،ڈیجیٹلائزیشن،مصنوعی ذہانت،بائیو ٹیکنالوجی کے ذریعے ٹیکنالوجی کی تبدیلی اور ماحول، موسمیاتی موزونیت کے ذریعہ سے خواک وپانی کاتحفظ،توانائی و بنیادی ڈھانچہ میں اصلاحات، تعلیم، صحت اور سماجی تحفظ کے ذریعے برابری و بااختیاری اس پروگرام کے بنیادی ستون ہیں۔ انہوں نے طلبہ کواعلیٰ معیار، علم کو قومی مسائل کے حل سے جوڑنے اور حوصلہ و تسلسل کے ساتھ آگے بڑھنے کامشورہ دیتے ہوئے کہاکہ پائیڈ کے سکالرز ملک کے اگلے محققین اور پالیسی ساز ہیں جن کی دانش اور محنت پاکستان کو خوشحالی اور استحکام کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں 6 ہزارسے زیادہ ادویاتی پودے پائے جاتے ہیں، ماہرین
  • ریکوڈک میں 7 ارب ڈالر سے زائد مالیت کے سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں، معدنی ماہرین
  • زائد پالیسی ریٹ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے،امان پراچہ
  • کشمیر کی باغبانی صنعت پابندیوں کی زد میں کیوں ہے، ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ
  • شرح سود 11فیصد برقراررکھنے پر صنعت کاروں کا مایوسی کا اظہار
  • دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی جنگ دنیا کو محفوظ بنانے  کے لیے ہے، وفاقی وزیر اطلاعات
  • کامیابی کا انحصار پالیسی استحکام، تسلسل اور قومی اجتماعی کاوشوں پر ہے،احسن اقبال
  •  صنعتکاروں کی پالیسی ریٹ 11فیصد برقرار رکھنے پر کڑی تنقید
  • صیہونی افواج جان بوجھ کر بچوں کو نشانہ بنا رہی ہے، غیر ملکی طبی ماہرین کی رپورٹ میں انکشاف
  • ٹیکس بڑھانے سے معیشت نہیں سنبھلتی تو کم کر کے دیکھ لیں