Islam Times:
2025-06-11@10:58:45 GMT

قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے

اسلام ٹائمز: ہم تمام مکاتب فکر کے متبعین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ منافرت کا پھیلاؤ یہ یہودی سازش ہے، ہمیں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کیطرف گامزن رہنا چاہیئے۔ ہمارے پاس ایک نقطے پر متحد رہنے کیلئے اللہ موجود ہے، اسکا رسول موجود ہے، قرآن موجود ہے اور اہلبیت نبوت موجود ہے۔ ہمیں توحیدی معاشرہ تخلیق کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑیگا، تکفیریت سے اجتناب کرنا پڑیگا اور سب سے اہم بات کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا اور مشترکہ دوست کیطرف ہاتھ بڑھانا ہوگا، ہمیشہ قائم رہنے والے اتحاد کیلئے ہمیں مشترکات کو فروغ دینا ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع فرمائے اور اتحاد و وحدت کو برباد کرنے والوں کو اللہ نابود فرمائے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

دنیا کی قوموں کی ترقی اور ان کا عروج ان کے اتحاد اور یگانگت اور وحدت میں مضمر ہے۔ کسی قوم کو قوم کہلانے کا حق صرف اسی وقت ہوتا ہے، جب وہ جسد واحد کی طرح متحد و متفق ہوـ دریا کی موجیں اگر دریا سے باہر نکل جائیں تو وہ بے وقعت اور کمزور رہتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں، یہی موجیں جب دریا میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں تو وہ کسی طوفان کو جنم دے سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
قطرہ قطرہ مل کر ایک بڑے دریا کو تشکیل کرتا ہے اور بہت سے دریا مل کر ایک عظیم سمندر کو تخلیق کرتے ہیں۔ دشمن کی دہشت کے لیے قوم کا اتحاد اسلحہ اور عسکری قوت سے کہیں زیادہ مضبوط اور مفید ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے: "واعدوالھم مااستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم"(انفال:60) ترجمہ: "اور ان کے لیے تیار رکھو اپنی استطاعت کے مطابق طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے، تاکہ تم اس کے ذریعے اللہ اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کر سکوـ"

اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اتحاد امت کو حکم شرعی قرار دیا ہے اور مسلمانوں پر اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ صیغہ امر کے ساتھ ذکر کرکے اس کے ناگزیر ہونے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا" (آل عمران:103) ترجمہ: "تم سب اکٹھے ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ نہ کروـ" اس آیت مبارکہ میں ایک چیز کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے اور دوسری کو چھوڑ دینے کا۔ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ بازی مت کرو۔ اس آیت مبارکہ میں یہ حکم صرف امت کے ایک فرد کو نہیں دیا گیا بلکہ تمام افراد امت کو خطاب ہےـ مفسرین کرام نے کہا ہے کہ اس آیت مبارکہ میں حبل اللہ سے مراد یا تو قرآن حکیم ہے یا سنت رسول ہے یا دونوں ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک قول کے مطابق یہاں حبل اللہ سے مراد اہل بیت نبوت ہےـ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ترکت فیکم  امرین کتاب اللہ وسنتی"(صحیح مسلم:الرقم 2137) ترجمہ: "میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنی سنت۔" حدیث مبارکہ کے اگلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو گمراہ نہیں ہونگے۔ جب اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ہر مسلمان اپنی ذاتی رائے سے دستبردار ہو جائے یا کوئی اپنے مسلک اور نظریات کو خیر آباد کہہ دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر سوچے کہ جس قرآن و حدیث کے دلائل پر میرے مسلک کی عمارت کھڑی ہے۔ اسی قرآن و حدیث کے سہارے ہی میرے دوسرے بھائی کی مسلک کی عمارت بھی استوار ہے۔

اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دوسرے کی علمی رائے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے سے اختلاف بھی کیا کرتے تھےـ آراء کا یہ اختلاف ایک رحمت ہے کہ علم کے بہت سے دروازے اس اختلاف رائے سے کھلتے ہیں، لیکن وہ اختلاف جو بدامنی اور دشمنی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، اس کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا" ترجمہ: "اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرما دیں کہ وہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تمہیں اوپر سے عذاب دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے ، ایک گروہ کو دوسرے سے لڑا کر اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دےـ" (الانعام: آیت 60)ـ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لوگوں سے لاتعلق رہنے کا حکم دیا ہے، جو اختلاف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور تفرقہ پھیلانے کے لیے اپنی کاوشیں بروئے کار لاتے ہیں۔

قرآن مجید میں سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کو اس طرح مخاطب فرمایا گیا: "ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منہم فی شیئ" (الانعام: آیت 159) ترجمہ: "اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کر دیئے اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہےـ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے مسلکی منہج کو اپنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے سے سخت منع فرمایا ہےـ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپس میں اختلاف کرنے کے جو برے نتائج ہیں، ان کا بھی قرآن مجید میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ تم آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کیا کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "الناس کلھم سواء کاسنان المشط:" ترجمہ: "سب انسان کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔"

میں سمجھتا ہوں کہ علمی اختلاف تو اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، مگر یہ علمی اختلاف کا دشمنی میں بدل جانا بالکل درست نہیں ہے۔ اسلام مخالف قوتوں کے پھیلائے ہوئے جال میں مسلمانوں کو نہیں پھنسنا چاہیئے۔ روایات میں آتا ہے کہ شاس بن قیس نے ایک یہودی کو تیار کیا کہ وہ مسلمانوں کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج کے درمیان اختلافات پیدا کرے، تاکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف میدان کارزار میں اتر سکیں۔ اس نے سازشیں کیں اور اوس اور خزرج کو ان کی پرانی دشمنیاں یاد دلائیں، جس کے نتیجے میں ان کی دشمنی دوبارہ سے تازہ ہوگئی اور دونوں طرف سے تلواریں نیاموں سے نکل آئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ نے مہاجرین و انصار کے گروہوں کو ساتھ لیا اور ان دو باہم متصادم قبائل کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ "اے مسلمانوں کے گروہ کیا تم دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹنے لگے ہو، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اللہ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی ہے اور اس کے ذریعے سے تمہیں عزت و تکریم عطا کی ہے۔ اللہ نے جاہلیت کے فتنوں کو ختم کیا ہے اور تم ان فتنوں کی طرف واپس لوٹنا چاہتے ہو۔"

اس مؤثر ترین خطبہ نے ان کے ذہنوں کو یکسر بدل دیا، وہ سمجھ گئے کہ یہ شیطان اور اس کے کارندوں کی پھیلائی ہوئی سازش ہے۔ اس لیے ہمیں اس سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ پریشان ہوگئے، اسلحہ زمین پر رکھ کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر رونے لگے۔ اللہ رب العزت نے انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ایک بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔ ہم تمام مکاتب فکر کے متبعین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ منافرت کا پھیلاؤ یہ یہودی سازش ہے، ہمیں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کی طرف گامزن رہنا چاہیئے۔ ہمارے پاس ایک نقطے پر متحد رہنے کے لیے اللہ موجود ہے، اس کا رسول موجود ہے، قرآن موجود ہے اور اہل بیت نبوت موجود ہے۔ ہمیں توحیدی معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا، تکفیریت سے اجتناب کرنا پڑے گا اور سب سے اہم بات کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا اور مشترکہ دوست کی طرف ہاتھ بڑھانا ہوگا، ہمیشہ قائم رہنے والے اتحاد کے لیے ہمیں مشترکات کو فروغ دینا ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع فرمائے اور اتحاد و وحدت کو برباد کرنے والوں کو اللہ نابود فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایک پلیٹ فارم پر جمع اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرمایا ایک دوسرے اور اتحاد اتحاد کی موجود ہے ہوتا ہے ہے اور کی طرف کے لیے کر ایک اور ان

پڑھیں:

ختم نبوت دین‘ ایمان

عیدالاضحی کے مقدس دن اپنی تمام تر خوبصورتیوں اور برکتوں سمیت رخصت ہو گئے ، اب ایک مرتبہ پھر روٹین کے لیل و نہار شروع ہوچکے ہیں،کاش کہ بھولے بھٹکے مسلمانوں نے جانوروں کو قربان کرتے ہوئے یہ عزم بالجزم بھی کیا ہوکہ اگر ضرورت پڑی تو وہ بھی اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے ، پیر کے دن اس خاکسار نے عید ملن پارٹی سے خطاب کرتے ہوے عرض کیا کہ ہر ہر مسلمان مردو عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنی آخری سانسوں تک اس عقیدے پر پختگی کے ساتھ قائم و دائم رہے کہ حضرت محمد مصطفیﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی تشریعی‘غیر تشریعی‘ ظلی‘ بروزی یا نیا نبی نہیں آئے گا۔ آپﷺ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعویٰ کرے وہ کافر‘مرتد‘ زندیق اور واجب القتل ہے۔
قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ اور حضور نبی کریمﷺ کی تقریباً دو سو دس احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور رحمت عالمﷺ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ اس بات پر پختہ ایمان ’’عقیدئہ ختم نبوت‘‘ کہلاتا ہے۔قرآن مجیدایک سراپا اعجاز کتاب ہے اس کا ایک ایک لفظ علم و حکمت کا خزینہ ہے۔ اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہر دور ہر خطہ کے ہر ایک انسان کی مکمل رہنمائی کے لئے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اسلام دشمنوں کی طرف سے اسلام کی بیخ وبن کو ہلا دینے والے خطرناک طوفانوں میں بھی اس کی عظمت و وقار میں رتی بھر فرق نہ آیااور نہ قیامت تک آئے گا۔ کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود لیا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ہر مسئلہ میں انسانوں کی رہنمائی کرتا ہے‘ اسی طرح وہ عقیدئہ ختم نبوت کو بھی بڑے واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کرتا ہے۔ قرآن مجید کی ایک سو سے زائد آیات مبارکہ ختم نبوت کے ہر پہلو کو کھول کھول کر بیان کرتی اور واشگاف الفاظ میں اعلان کر رہی ہیں کہ حضور نبی کریمﷺ قیامت تک اللہ تعالی ٰکے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپﷺ کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
-1 حق تعالیٰ شانہ کا ارشاد ہے: ترجمہ: محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہیں۔(الاحزاب40) اس آیت میں رسول اللہﷺ کو خاتم النبیین فرمایا ہے اور خاتم النبیین کی تفسیر خود آنحضرتﷺ نے ’’لانبی بعدی‘‘ کے ساتھ فرما دی یعنی خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا اور تفسیر نبوی کی روشنی میں تمام مفسرین اس پر متفق ہیں کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی شخص کو نبوت عطا نہیں کی جائے گی۔ جن حضرات کو نبوت و رسالت کی دولت سے نوازا گیا اور رسول و نبی کے منصب پر ان کو فائز کیا گیا ان میں سب سے آخری حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں۔
علامہ زرقائی شرح مواھب لدنیہ میں آیت مذکورہ کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں اور آنحضرتﷺ کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ سب انبیاء اور رسل کے ختم کرنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ’’ ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین‘‘ یعنی آخر النبیین جس نے انبیا کو ختم کیا یا وہ جس پر انبیا ختم کئے گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنی سے روایت کیا گیا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ رسالت و نبوت منقطع ہو چکی‘نہ میرے بعد کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔
خلاصہ یہ کہ آنحضرتﷺ قیامت تک کے لئے پوری نوع انسانی کے لئے مبعوث فرما گئے ہیں۔ آنحضرتﷺ کی نبوت کا آفتاب عالم تاب قیامت تک روشن رہے گا۔ آپﷺ کے بعد نہ کسی نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش۔
-1 ترجمہ: ’’ آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام ہی کو پسند کیا۔‘‘(سورہ مائدہ)
یہ آیت نبی کریمﷺ کے آخری حج ‘حج الوداع میں جمعہ کے دن 9ذی الحج کو نازل ہوئی اور اس کے بعد آنحضرتﷺ80-81 دن دنیا میں رونق افروز رہے اور اس آیت شریفہ کے بعد حلت یا حرمت کا کوئی حکم نازل نہیں ہوا۔اس آیت شریفہ میں دین کے بہمہ وجوہ کامل ہونے اور نعمت خداوندی کے پورا ہونے کا اعلان فرمایا گیا ہے اور چونکہ قیامت تک کے لئے دن کی تکمیل کا اعلان کر دیا گیا‘ اس لئے یہ اعلان آنحضرتﷺ کے خاتم النبیین ہونے کو بھی شامل ہے۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں: ’’ یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت ہے کہ اس نے ان کے لئے دین کو کامل فرمایا‘لہٰذا امت محمدیہ نہ اور کسی دین کی محتاج ہے نہ اور کسی نبی کی اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو خاتم الانبیا بنایا اور تمام جن و بشر کی طرف مبعوث فرمایا۔‘‘ اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ قیامت تک کے لئے تمام انسانوں اور جنوں کے لئے رسول ہیں اور آپﷺ کی تشریف آوری کے بعد قیامت تک کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔
–3 حضرت آدم علیہ الصلوۃ و السلام سے سلسلہ نبوت شروع ہوا تو اعلان ہوا ‘ترجمہ: ’’اے اولاد آدم کی ! اگر تمہارے پاس میرے پیغمبر آویں جو تم ہی میں سے ہوں گے جو میرے احکام تم سے بیان کریں گے۔‘‘(الاعراف35)
اس آیت میں ایک نہیں متعدد رسولوں کے آنے کی خبر دی گئی لیکن حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام جو خاتم انبیا بنی اسرائیل ہیں‘ ان کی زبان مبارک سے یہ اعلان فرمایا گیا کہ میرے بعد ایک رسول آئے گا جن کا نام نامی اور اسم گرامی احمد ہوگا (صلی اللہ علیہ وسلم) جیسا کہ ارشاد باری ہے: ترجمہ:’’اور میرے بعد ایک رسول آنے والے ہیں جن نام(مبارک) احمد ہوگا میں ان کی بشارت دینے والا ہوں۔‘‘اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد صرف ایک رسول کا آنا باقی تھا اور وہ ہیں محمد مصطفی احمد مجتبیٰﷺ‘ ان کی تشریف آوری کے بعد قیامت تک ان کے علاوہ کسی نبی و رسول کی آمد متوقع نہیں۔
-4قرآن کریم میں بار بار آنحضرتﷺ سے پہلے کے انبیاء کرام علہیم السلام کا تذکرہ کیا گیا ہے لیکن آپ کے بعد کسی رسول کے آنے کی طرف کوئی ہلکا سا اشارہ بھی نہیں کیاگیا ۔ مثلا: -1 ترجمہ:’’اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا پیغمبر نہیں بھیجا۔(الانبیا52 )-2 ترجمہ: اور(اے محمدﷺ) ہم نے آپ کے قبل کوئی رسول اور کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا۔ (الحج65 )-3 ترجمہ: اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے۔ (الفرقان20: )
اس قسم کی آیات بہت ہیں ‘ میں اس نوع کی آیات بتیس ذکر کی گئی ہیں۔ظاہر ہے کہ اگر آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبوت مقدر ہوتی اور ان نبیوں کے انکار سے امت کی تکفیر لازم آتی تو محالہ وصیت و تاکید ہوتی کہ آنحضرتﷺ کے بعد بھی نبی آئیں گے ایسا نہ ہو کہ ان میں سے کسی کا انکار کرکے ہلاک ہو جائو۔پورے قرآن میں ایک بھی آیت ایسی نہیں جس میں بعد میں آنے والے کسی نبی کا تذکرہ ہو‘ معلوم ہوا کہ آنحضرتﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد قیامت تک کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔
ختم نبوت اور احادیث متواترہ: آنحضرت ﷺ نے تقریباً دو سو احادیث میں علی رئوس الاشہاد مسئلہ ختم نبوت کو بیان فرمایا کہ آپﷺ آخری نبی ہیں‘ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا لیکن کسی حدیث میں اس طرف اشارہ بھی نہیں فرمایا کہ آنحضرتﷺ کے بعد سلسلہ نبوت جاری رہے گا یا یہ کہ انبیا آتے رہیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ختم نبوت دین‘ ایمان
  • سنت نبوی ﷺ پر عمل کیے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے،علامہ فقیر نذر
  • بجٹ سیشن سے متعلق اپوزیشن اتحاد کی حکمت عملی سامنے آگئی
  • بجٹ سیشن سے متعلق اپوزیشن اتحاد کی حکمتِ عملی سامنے آگئی
  • کسان اتحاد نے وفاقی حکومت بالخصوص پنجاب میں ترقی کے جھوٹے دعوؤں کو بےنقاب کر دیا: بیرسٹر سیف
  • بجٹ سیشن : اپوزیشن اتحاد کی حکمت عملی سامنے آگئی
  • فرحت اللہ بابر نے طلبی پر ایف آئی اے میں تحریری جواب جمع کرا دیا
  • سعودی عرب، حجاج کرام میں قرآن پاک کے نسخوں کی تقسیم
  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • عیدالاضحیٰ۔۔۔ سر تسلیم خم کرنے کا عہد