Islam Times:
2025-09-18@21:30:05 GMT

قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے

اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT

قرآنِ مجید۔۔۔ اتحاد اور ترقی کا ضامن ہے

اسلام ٹائمز: ہم تمام مکاتب فکر کے متبعین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ منافرت کا پھیلاؤ یہ یہودی سازش ہے، ہمیں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کیطرف گامزن رہنا چاہیئے۔ ہمارے پاس ایک نقطے پر متحد رہنے کیلئے اللہ موجود ہے، اسکا رسول موجود ہے، قرآن موجود ہے اور اہلبیت نبوت موجود ہے۔ ہمیں توحیدی معاشرہ تخلیق کرنے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑیگا، تکفیریت سے اجتناب کرنا پڑیگا اور سب سے اہم بات کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا اور مشترکہ دوست کیطرف ہاتھ بڑھانا ہوگا، ہمیشہ قائم رہنے والے اتحاد کیلئے ہمیں مشترکات کو فروغ دینا ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع فرمائے اور اتحاد و وحدت کو برباد کرنے والوں کو اللہ نابود فرمائے۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی

دنیا کی قوموں کی ترقی اور ان کا عروج ان کے اتحاد اور یگانگت اور وحدت میں مضمر ہے۔ کسی قوم کو قوم کہلانے کا حق صرف اسی وقت ہوتا ہے، جب وہ جسد واحد کی طرح متحد و متفق ہوـ دریا کی موجیں اگر دریا سے باہر نکل جائیں تو وہ بے وقعت اور کمزور رہتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں، یہی موجیں جب دریا میں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہوں تو وہ کسی طوفان کو جنم دے سکتی ہیں۔ اسی وجہ سے شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
قطرہ قطرہ مل کر ایک بڑے دریا کو تشکیل کرتا ہے اور بہت سے دریا مل کر ایک عظیم سمندر کو تخلیق کرتے ہیں۔ دشمن کی دہشت کے لیے قوم کا اتحاد اسلحہ اور عسکری قوت سے کہیں زیادہ مضبوط اور مفید ہوتا ہے۔ قرآن مجید نے ارشاد فرمایا ہے: "واعدوالھم مااستطعتم من قوۃ و من رباط الخیل ترھبون بہ عدواللہ وعدوکم"(انفال:60) ترجمہ: "اور ان کے لیے تیار رکھو اپنی استطاعت کے مطابق طاقت اور بندھے ہوئے گھوڑے، تاکہ تم اس کے ذریعے اللہ اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کر سکوـ"

اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اتحاد امت کو حکم شرعی قرار دیا ہے اور مسلمانوں پر اس پر عمل کرنا فرض ہے۔ صیغہ امر کے ساتھ ذکر کرکے اس کے ناگزیر ہونے کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا" (آل عمران:103) ترجمہ: "تم سب اکٹھے ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامو اور تفرقہ نہ کروـ" اس آیت مبارکہ میں ایک چیز کو بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے اور دوسری کو چھوڑ دینے کا۔ یعنی اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ بازی مت کرو۔ اس آیت مبارکہ میں یہ حکم صرف امت کے ایک فرد کو نہیں دیا گیا بلکہ تمام افراد امت کو خطاب ہےـ مفسرین کرام نے کہا ہے کہ اس آیت مبارکہ میں حبل اللہ سے مراد یا تو قرآن حکیم ہے یا سنت رسول ہے یا دونوں ہیں۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک قول کے مطابق یہاں حبل اللہ سے مراد اہل بیت نبوت ہےـ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "ترکت فیکم  امرین کتاب اللہ وسنتی"(صحیح مسلم:الرقم 2137) ترجمہ: "میں تم میں دو اہم چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اپنی سنت۔" حدیث مبارکہ کے اگلے حصے میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تک تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رکھو گے تو گمراہ نہیں ہونگے۔ جب اتحاد کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ ہر مسلمان اپنی ذاتی رائے سے دستبردار ہو جائے یا کوئی اپنے مسلک اور نظریات کو خیر آباد کہہ دے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات پر سوچے کہ جس قرآن و حدیث کے دلائل پر میرے مسلک کی عمارت کھڑی ہے۔ اسی قرآن و حدیث کے سہارے ہی میرے دوسرے بھائی کی مسلک کی عمارت بھی استوار ہے۔

اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دوسرے کی علمی رائے کا احترام کرتے تھے اور ایک دوسرے سے اختلاف بھی کیا کرتے تھےـ آراء کا یہ اختلاف ایک رحمت ہے کہ علم کے بہت سے دروازے اس اختلاف رائے سے کھلتے ہیں، لیکن وہ اختلاف جو بدامنی اور دشمنی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے، اس کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا" ترجمہ: "اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ فرما دیں کہ وہ اللہ اس پر قادر ہے کہ تمہیں اوپر سے عذاب دے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے ، ایک گروہ کو دوسرے سے لڑا کر اور تمہیں ایک دوسرے کی لڑائی کا مزہ چکھا دےـ" (الانعام: آیت 60)ـ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان لوگوں سے لاتعلق رہنے کا حکم دیا ہے، جو اختلاف پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور تفرقہ پھیلانے کے لیے اپنی کاوشیں بروئے کار لاتے ہیں۔

قرآن مجید میں سرکار دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم کو اس طرح مخاطب فرمایا گیا: "ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منہم فی شیئ" (الانعام: آیت 159) ترجمہ: "اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن لوگوں نے اپنے دین کے ٹکڑے کر دیئے اور وہ گروہوں میں تقسیم ہوگئے، آپ کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہےـ" اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے مسلکی منہج کو اپنا کر ایک دوسرے پر فخر کرنے سے سخت منع فرمایا ہےـ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے آپس میں اختلاف کرنے کے جو برے نتائج ہیں، ان کا بھی قرآن مجید میں واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ تم آپس میں اختلاف نہ کرو، ورنہ کمزور پڑ جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کیا کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "الناس کلھم سواء کاسنان المشط:" ترجمہ: "سب انسان کنگھی کے دندانوں کی طرح برابر ہیں۔"

میں سمجھتا ہوں کہ علمی اختلاف تو اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہے، مگر یہ علمی اختلاف کا دشمنی میں بدل جانا بالکل درست نہیں ہے۔ اسلام مخالف قوتوں کے پھیلائے ہوئے جال میں مسلمانوں کو نہیں پھنسنا چاہیئے۔ روایات میں آتا ہے کہ شاس بن قیس نے ایک یہودی کو تیار کیا کہ وہ مسلمانوں کے دو بڑے قبائل اوس اور خزرج کے درمیان اختلافات پیدا کرے، تاکہ وہ ایک دوسرے کے خلاف میدان کارزار میں اتر سکیں۔ اس نے سازشیں کیں اور اوس اور خزرج کو ان کی پرانی دشمنیاں یاد دلائیں، جس کے نتیجے میں ان کی دشمنی دوبارہ سے تازہ ہوگئی اور دونوں طرف سے تلواریں نیاموں سے نکل آئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پتہ چلا تو آپ نے مہاجرین و انصار کے گروہوں کو ساتھ لیا اور ان دو باہم متصادم قبائل کی طرف تشریف لے گئے اور انہیں مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا کہ "اے مسلمانوں کے گروہ کیا تم دوبارہ جاہلیت کی طرف لوٹنے لگے ہو، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، اللہ نے تمہیں اسلام کی طرف ہدایت دی ہے اور اس کے ذریعے سے تمہیں عزت و تکریم عطا کی ہے۔ اللہ نے جاہلیت کے فتنوں کو ختم کیا ہے اور تم ان فتنوں کی طرف واپس لوٹنا چاہتے ہو۔"

اس مؤثر ترین خطبہ نے ان کے ذہنوں کو یکسر بدل دیا، وہ سمجھ گئے کہ یہ شیطان اور اس کے کارندوں کی پھیلائی ہوئی سازش ہے۔ اس لیے ہمیں اس سازش کا شکار نہیں ہونا چاہیئے۔ وہ پریشان ہوگئے، اسلحہ زمین پر رکھ کر ایک دوسرے سے بغل گیر ہوکر رونے لگے۔ اللہ رب العزت نے انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے سے ایک بہت بڑی تباہی سے بچا لیا۔ ہم تمام مکاتب فکر کے متبعین کو یاد رکھنا چاہیئے کہ منافرت کا پھیلاؤ یہ یہودی سازش ہے، ہمیں ہمیشہ اتفاق اور اتحاد کی طرف گامزن رہنا چاہیئے۔ ہمارے پاس ایک نقطے پر متحد رہنے کے لیے اللہ موجود ہے، اس کا رسول موجود ہے، قرآن موجود ہے اور اہل بیت نبوت موجود ہے۔ ہمیں توحیدی معاشرہ تخلیق کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا پڑے گا، تکفیریت سے اجتناب کرنا پڑے گا اور سب سے اہم بات کہ ہمیں اپنے مشترکہ دشمن کو پہچاننا ہوگا اور مشترکہ دوست کی طرف ہاتھ بڑھانا ہوگا، ہمیشہ قائم رہنے والے اتحاد کے لیے ہمیں مشترکات کو فروغ دینا ہوگا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع فرمائے اور اتحاد و وحدت کو برباد کرنے والوں کو اللہ نابود فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: ایک پلیٹ فارم پر جمع اللہ سبحانہ و تعالی ارشاد فرمایا ایک دوسرے اور اتحاد اتحاد کی موجود ہے ہوتا ہے ہے اور کی طرف کے لیے کر ایک اور ان

پڑھیں:

وزیراعظم شہباز شریف کی امیرِ قطر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دوحا: وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے قطر کے دارالحکومت دوحا میں امیرِ قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی سے اہم ملاقات میں امت مسلمہ کے اتحاد پر زور دیا اور دوحا پر اسرائیلی حملے کو عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

یہ اہم ملاقات اس وقت ہوئی جب عرب اسلامی سربراہی اجلاس ہنگامی بنیادوں پر منعقد کیا گیا تاکہ خطے کی بگڑتی صورتحال اور اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی طے کی جا سکے۔

ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار اور چیف آف آرمی اسٹاف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی موجود تھے۔

وزیراعظم نے 9 ستمبر کو ہونے والے اسرائیلی حملے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع اور متعدد افراد کے زخمی ہونے پر نہ صرف گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا بلکہ اسے قطر کی خودمختاری پر براہِ راست حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان قطر کے ساتھ مکمل یکجہتی اور حمایت میں کھڑا ہے اور یہ کہ امت مسلمہ کے لیے اب مزید تقسیم کی گنجائش نہیں رہی۔

شہباز شریف نے کہا کہ قطر کے ساتھ پاکستان کے تعلقات تاریخی اور پائیدار ہیں اور یہ وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہوں گے۔ انہوں نے دوحا میں عرب اسلامی سربراہی اجلاس بلانے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس اقدام سے امت مسلمہ کو ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اسرائیلی جارحیت کو مزید برداشت نہیں کیا جا سکتا۔

وزیراعظم نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مشرق وسطیٰ میں امن قائم کرنے کے لیے عالمی برادری کو فوری اور مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔

وزیراعظم نے بتایا کہ قطر کی درخواست پر پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی کوشش کی تاکہ دنیا بھر کو خطے کی حقیقی صورتحال اور اسرائیل کی جارحیت سے آگاہ کیا جا سکے۔

اس موقع پر امیرِ قطر نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان کا کردار اور تعاون خطے میں امن و استحکام کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بدلتی ہوئی صورتحال میں قریبی رابطے میں رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمدرد کی نونہال سیرت کانفرنس‘سیرت طیبہؐ پر عمل کرنیکا عزم
  • پاک سعودیہ اسٹریٹجک میوچوئل ڈیفنس ایگریمنٹ (SDMA)خطے اور دنیا میں امن و استحکام کا ضامن
  • پارلیمنٹ میں قرآن و سنت کے منافی قانون سازی عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے، حافظ نصراللہ چنا
  • بی ایل اے مجید بریگیڈ کے نائب سربراہ رحمان گل افغانستان میں فائرنگ کے دوران ہلاک
  • جامعۃ النجف سکردو میں جشن صادقین (ع) و محفل مشاعرہ
  • مظفرآباد، مرکزی جامع مسجد میں عظیم الشان سیرت النبیؐ کانفرنس
  • فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید
  • حشد الشعبی عراق کی سلامتی کی ضامن ہیں، عراقی سیاستدان
  • ریاست کے خلاف کوئی جہاد نہیں ہو سکتا، پیغام پاکستان اقلیتوں کے تحفظ کا ضامن ہے ،عطاء تارڑ
  • وزیراعظم شہباز شریف کی امیرِ قطر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور