پاکستان بھارت تعلقات اور بداعتمادی کا ماحول
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی بہتری دونوں ممالک میں موجود امن پسند لوگوں کی بنیادی خواہش ہے۔ادونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کا براہ راست اثر جنوبی ایشیا کی سیاست یا علاقائی سطح پر سیاسی اور معاشی استحکام سے بھی جڑا ہوا ہے۔لیکن بدقسمتی سے دونوں ممالک کے درمیان موجود تناؤ،ٹکراؤ اور بد اعتمادی کا ماحول بہتر تعلقات میں بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک انٹرویو میں پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں جو گفتگو کی وہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے لب و لہجے میں پاکستان کے بارے میں جہاں سختی ہے وہیں وہ حالات کی بہتری میں کوئی غیر معمولی اقدام اٹھانے کے لیے بھی تیار نہیں ہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی گفتگو میں پاکستان پر تین الزامات عائد کیے ہیں۔اول، دنیا میں جہاں بھی دہشت گردی ہوتی ہے اس کا سرا کسی نہ کسی شکل میں پاکستان سے ہی ملتا ہے۔
دوئم، پاکستان نے ہمیشہ پر امن ہمسائے کی طرح رہنے سے انکار کیا ہے اور ہمارے خلاف کسی نہ کسی شکل میں وہ پروکسی جنگ کا حصہ ہے۔سوئم، بھارت کی جانب سے امن لانے کی ہر کوشش کا جواب پاکستان نے جارحیت اور دھوکے سے دیا ہے۔ان تینوں نکات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ نریندر مودی یا بھارت کی طرف سے نکلنے والا یہ پاکستان مخالف بیانیہ دو طرفہ ماحول کو خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔ان حالات میں پاک بھارت تعلقات کی بہتری میں بڑا بریک تھرو کیسے ممکن ہوگا۔
پچھلے دنوں لاہور میں سابق وزیر خارجہ،عالمی امور اور بالخصوص پاک بھارت تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے ممتاز دانشور اور سیاست دان میاں خورشید محمود قصوری کی قیادت میں کام کرنے والے ایک بڑے تھنک ٹینک''انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ کنیکٹیوٹی'' کے زیر اہتمام ’’پاک بھارت تعلقات کا مستقبل اور اس میں درپیش مشکلات‘‘ کے تناظر میں ایک فکری نشست منعقد ہوئی۔اس نشست کی صدارت سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے کی جب کہ اس تقریب کے مہمان خاص لندن میں مقیم ممتاز صحافی مصنف اور ہندوستانی آزادی پسند راہنما سبھاش چندر بوس کے پڑپوتے اور سی این این ساؤتھ ایشیا کے بیوروچیف اشیش رے تھے۔
سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کے بقول اگر نریندر مودی سمیت کوئی یہ سمجھتا ہے کہ دہشت گردی محض پاکستان کا مسئلہ ہے تو یہ تجزیہ درست نہیں ہے کیونکہ دہشت گردی اگر آگے بڑھتی ہے تو یہ خود بھارت سمیت جنوبی ایشیا کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور بھارت بھی اس سے محفوظ نہیں رہے گا۔ان کے بقول دہشت گردی کا مسئلہ اس وقت دونوں ممالک کے لیے نئے خطرات کو جنم دینے سمیت کسی بھی ممکنہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
انھوں نے بھارت کو کہا کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی سیاست سے باہر نکلے اور امن کی کوششوں کو آگے بڑھانے میں اپنا موثر کردار ادا کرے۔انھوں نے بھارت کے سابق سیکریٹری خارجہ شیام سرن کے ایک حالیہ مضمون کا ذکر کیاکہ’’ بھارت امریکا پر بھروسہ نہ کرے اور امریکا کا ایک آسان مہرہ بن کرنہ رہ جائے۔ان کے بقول بھارت کو جنوبی ایشیا کے ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
خورشید قصوری کے بقول جیو سیاست میں جو بڑی تبدیلیاں ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد شروع ہوئی ہیںاور جنھوں نے امریکا کے دوستوں اور دشمنوں دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے ،یہ تبدیلیاں ہر ملک بشمول بھارت کو بھی متاثر کرنے کا عملی سبب بن سکتی ہیں اور بھارت کو اس کا ادراک ہونا چاہیے۔اس لیے پوری دنیا میں مختلف نوعیت کی تبدیلیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور بہت کچھ تبدیل ہونے کو نظر بھی آتا ہے۔انھوں نے اس امکان کو مسترد نہیں کیا کہ ٹرمپ کی جیت کے بعد جیو پولیٹیکل حقائق پاک بھارت تعلقات میں بہتری کا موقع فراہم کر نے میں مدد دے سکتے ہیں۔
ان کے بقول پاکستان اور بھارت کے پاس بڑی فوجی قوت کے ساتھ ساتھ بڑے جوہری ذخائر اور جوابی حملے کی صلاحیت موجود ہے اور ایسے میں جنگ کا خیال بھی پاگل پن ہوگا۔اگر دونوں ملک اپنے باہمی تنازعات کو پرامن طور پرحل کرنے کے مواقع کوضایع کردیتے ہیں،جب کے دونوں ملکوں کے درمیان کشمیر سمیت دیگر مسائل پرایک طے شدہ فارمولا موجود ہے جسے چار نکاتی سطح کا فارمولا کہا جاتا ہے( درحقیت گیارہ سے بارہ نکات)تو یہ انتہائی افسوس ناک ہوگا۔
بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کلبوشن یادیو کی گرفتاری کا حوالہ دیا جو اس تاثر کو مضبوط کرتا ہے کہ بھارت کسی نہ کسی سطح پر دہشت گردی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتا ہے، اس تناظر میں انھوں نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی،امیت شاہ،راجناتھ سنگھ اور اجیت ڈوول کے بیانات کا بھی حوالہ دیا۔انھوں نے خبردار کیا کہ یہ ایک ایسا کھیل ہے جو دونوں ملک کھیل سکتے ہیں اور ایسے اقدامات یا جوابی اقدامات کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے جس میں کوئی بھی فاتح نہیں ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ بی جے پی حکومت کو ڈالے گئے کل ووٹوں کا تیسرا حصہ ملا ہے اوربھارتی عوام کی خاموش اکثریت موجودہ حکومت کی سخت گیر پالیسیوں کی حمایت نہیں کرتی۔ان کے بقول کچھ لوگوں کا اندازہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی جو کہ عملا تیسری مرتبہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے ہیںاپنے سیاسی سفر کے اختتام سے پہلے شاید کوئی مثبت میراث چھوڑنا چاہیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو واقعی مثبت عمل ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاک بھارت تعلقات دونوں ممالک کے ان کے بقول اور بھارت کے درمیان کی بہتری انھوں نے بھارت کو ہیں اور میں پاک ہے اور
پڑھیں:
پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
پاکستان اور افغانستان کے حالات نہ صرف کشیدگی بلکہ جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ دہشت گردی کے واقعات اور افغان طالبان کی دوغلی پالیسی ہے۔ حالیہ دنوں میں قطر اور ترکیہ کی میزبانی اور ثالثی کے کردار کے باوجود مذاکرات ناکام ہوئے ہیں۔ اس ناکامی نے مستقبل کی بہتری کے امکانات پرسوالات کھڑے کردیے ہیں۔
اس کا مجموعی اثر خطے میں دہشت گردی کی وجوہات کو دور کرنے میں مدد دے سکتا تھا۔ حالیہ مذاکرات کے نتیجے میں جو امید کے پہلو قائم ہوئے تھے کہ معاملات بات چیت کی صورت میں حل ہوسکیں گے، وہ بھی دم توڑ گئے ہیں۔ اب حالات ایک ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں سفارت کاری کے بجائے کشیدگی بڑھے گی اور ایسے لگتا ہے کہ مذاکرات کی حکمت عملی کی ناکامی نے امن کے حمایتیوں کو مایوس کیا ہے۔
ان مذاکرات میں تین مواقع ایسے بھی دیکھنے کو ملے جہاں امید بندھی تھی کہ مفاہمت میں ایک بڑی پیش رفت سامنے آسکتی ہے جو تعلقات کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ اصولاً قطر اور ترکیہ کی مدد کی بنیاد پر مذاکرات آگے بڑھنا چاہیے تھے لیکن کابل میں بیٹھی افغان طالبان قیادت اور دہلی میں بیٹھی بھارت کی قیادت ان مذاکرات کو ناکام بنانے میں مصروف تھی ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب بھی بات چیت آگے بڑھتی تو مذاکرات میں شامل افغان وفد کہتا کہ وہ کابل اور قندھار سے اجازت لے لیں لیکن انھیں اجازت کے بجائے نئے مطالبات کی لسٹ مل جاتی ، یوں مذاکرات میں ڈیڈ لاک پیدا ہوتا رہا۔قطر اور ترکیہ کو بھی کافی سبکی کا سامنا کرنا پڑا کہ افغان حکومت کا طرز عمل سفارتی آداب کے برعکس تھا ۔پاکستان نے یہ بھی واضح کردیا کہ ہم نے صرف قطر اور ترکیہ کی درخواست پر مذاکرات میں شرکت کی تھی۔حالانکہ ہمیں پہلے سے اندازہ تھا کہ افغان حکومت کا ایجنڈا پاکستانی مفادات کے برعکس ہے، وہ دہشت گردی ، ٹی ٹی پی اور دیگر ایشوز پر نہ تو سنجیدہ ہے اور نہ ہی کوئی عملی اقدامات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔
پاکستان کا واحد ایجنڈا دہشت گردی کے لیے افغانستان کی سرزمین کے استعمال کو روکنا تھا اور پاکستان افغان حکومت سے تحریری ضمانت یا معاہدہ چاہتا تھا۔لیکن افغان طالبان حکومت کی جانب سے تحریری معاہدے سے انکاری اور انحراف ہی مذاکرات کی ناکامی کی بنیادی وجہ بنا ۔حالانکہ افغان حکومت کو پاکستان نے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی پر مبنی شواہد بھی پیش کیے اور اسے افغان حکومت نے تسلیم بھی کیا مگر تحریری معاہدہ کرنے سے انکار کیا جو ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس اہم معاملے پر تاخیری حربے اختیار کرنا چاہتے تھے ۔پاکستان افغانستان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے اہل دانش کے بقول اگر افغانستان کا وفد بااختیار ہوتا تو مفاہمت کا راستہ نکل سکتا تھا لیکن افغانستان میں موجود افغان طالبان کی قیادت نے مذاکرات کو ناکام بنایا ، یقیناً یہ افغان طالبان اور بھارت کا ایجنڈا تھا۔
طالبان قیادت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جنگ کی بات کرنا بہت آسان ہوتا ہے مگر جنگ کے نتیجے میں جو حالات کا بگاڑ پیدا ہوتا ہے، وہ ممالک کو بہت پیچھے کی طرف دھکیل دیتا ہے۔یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ قطر اور ترکیہ کے بعد بڑی عالمی طاقتیں یعنی امریکا اور چین اس ڈیڈ لاک میں کوئی کردار ادا کرنے کی کوشش کریں گے یا دونوں ممالک کو جنگ کے میدان میں دھکیل دیںگے۔
کچھ سادہ لوح یا حد سے زیادہ چالاک سفارت کار اس نقطہ پر زور دیتے ہیں کہ پاکستان کو افغانستان سے تحریری معاہدے پر زور نہیں دینا چاہیے تھا اور نہ ہی افغان طالبان نے تحریری ضمانت دینی تھی ۔ان کی رائے یہ تھی کہ اگر زبانی طور پر افغان حکومت افغان سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہ ہونے اور ٹی ٹی پی کے خلاف کاروائی کی یقین دہانی کراتی تو ہمیں یہ آفر قبول کرنی چاہیے تھی ۔لیکن حقائق یہ بتاتے ہیں کہ زبانی یقین دہانی کابل کئی دفعہ کرچکا ہے اور بار بار اس پر عملدرآمد کی ناکامی نے پاکستان کو تحریری معاہدے پر مجبور کیا ۔دوئم، افغان حکومت نے قطر اور ترکیہ کو بھی افغان طالبان کی طرف سے زبانی ضمانت دینے سے انکار کیا تھا جو عملی طور پر مذاکرات کی ناکامی کی وجہ بنی۔
اس وقت چین یا امریکا یا سعودیہ عرب بھی معاملات کے سدھار میں اپنا کردار ادا کریں تاکہ دونوں ممالک جنگ یا کشیدگی سے بچ سکیں۔ ہمیں اپنے سفارتی کارڈ یا سیاسی حکمت عملیوں کو اور زیادہ ذمے داری کے ساتھ کھیلنا ہو گا۔یہ بات بھی سمجھنی ہوگی کہ افغانستان پاکستان کے تحفظات کو کسی بھی طور پر سمجھنے کے لیے تیار نہیں تو ایسے میں کیا حتمی نتیجہ جنگ کی صورت ہی میں نکالنا لازم ہے۔ ہمیں مذاکرات کی ترتیب میں نئی حکمت عملی کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے۔افغان حکومت کے پاس ترکیہ اور قطر میں مفاہمت کو پاکستان کے ساتھ آگے بڑھانے کا اچھا موقع تھا مگر افغان حکومت فائدہ نہیں اٹھا سکی اور آج دونوں ممالک جو کل تک برادر اسلامی ملک تھے اب جنگ کی حالت میں ہیں۔
افغانستان کو بھارت سے خبردار رہنا چاہیے جو اسے ایک بڑے سیاسی ہتھیار کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت میں استعمال کرنا چاہتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان نیا سیاسی رومانس بھی پاکستان دشمنی کی بنیاد پر دیکھا جارہا ہے ۔اس لیے خود افغان طالبان حکومت کو اپنی سیاسی حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور خود کو پاکستان دشمنی کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے بجائے تعلقات کی بہتری کو ہی اپنا ایجنڈا بنانا چاہیے۔
اس وقت جو منظرنامہ سامنے آیا ہے اس میں یقیناً یہ عمل ضروری نہ ہو کہ ہمیں جارحانہ راستہ اختیار کرنا ہے لیکن یہ امکان موجود ہے کہ ان مذاکرات کی ناکامی کے بعد کشیدگی اور دہشت گردی کا پھیلاؤ بڑھ سکتا ہے ، ٹی ٹی پی پاکستان میں جنگ کا دائرہ کار مزید پھیلا سکتی ہے۔ طالبان افغان حکومت کا حالیہ طرز عمل بھارتی ایما پر پاکستان دشمنی کی بنیاد پر ہی دیکھنے کو مل رہا ہے۔