امریکا میں ملازمتیں کھونے والے ہزاروں وفاقی ملازمین کے جاسوس بھرتی ہونے کا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
امریکا میں نئی ٹرمپ انتظامیہ نے وفاقی حکومت کے ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کردیا ہے جس کے بعد ان کے دشمن ممالک کے ہاتھوں جاسوس بھرتی ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
غیرملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وفاقی حکومت کا حجم کم کرنے کے ذمہ دار اپنے مشیر ایلون مسک کے ہمراہ جن ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کیا ہے ان میں سے اکثر کے پاس خفیہ معلومات اور ڈیٹا کا علم یا ان تک رسائی ہے جو ان ملازمین کو دشمن ممالک کی ایجنسیز کے ہاتھوں جاسوس بھرتی ہونے کے امکان میں اضافہ کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: قطر میں بھارتی آئی ٹی انجینیئر جاسوسی کے الزام میں گرفتار
وائٹ ہاؤس کی سابق چیف انفارمیشن آفیسر تھیریسا پیٹن نے کہا ہے، ان ملازمین کے پاس موجود معلومات انتہائی حساس نوعیت کا ہے اور روس، چین سمیت دیگر جرائم پیشہ تنظیموں کی جانب سے ان ان سرکاری ملازمین کو بھرتی کرنے کرنا حیران کن نہیں۔
رپورٹس کے مطابق یہ ملازمین اب نوکریوں کی تلاش میں بھی ہیں اس لیے مخالف ایجنسیاں انہیں باآسانی ہدف بناکر ان سے معلومات حاصل کرسکتے ہیں یا پھر انہیں بطور جاسوس بھرتی کرسکتے ہیں۔
ملازمتوں میں سے فارغ کیے جانے والے ان ملازمین میں سے کئی ایک انٹیلجنس اہلکار بھی شامل ہیں جبکہ اکثر افسران وہ ہیں جن کے پاس قومی سیکیورٹی یا حکومت کے آپریشنز سے متعلق حساس معلومات دستیاب ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: واٹس ایپ نے اسرائیل کی جانب سے صحافیوں کی جاسوسی مہم پکڑ لی، قانونی کارروائی کااعلان
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ہزاروں ملازمین کو نوکریوں سے نکالے جانے کے اس فیصلے کے بعد امریکا کی ایجنسیز کے لیے انسداد جاسوسی کا ایک اہم چیلنج سامنے آگیا ہے اور انہیں اب ان بےشمار ملازمین پر کڑی نگرانی رکھنی ہوگی جو نوکری کی تلاش یا پیسوں کے عوض دشمن ممالک یا جرائم پیشہ تنظیموں کو حساس معلومات فروخت کرسکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
intelligence agencies spy.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جاسوس بھرتی ملازمین کو
پڑھیں:
ٹرمپ کا ‘اے آئی ایکشن پلان’ کا اعلان، کیا امریکا چین کی مصنوعی ذہانت میں ترقی سے خوفزدہ ہے؟
ٹرمپ انتظامیہ نے مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے فروغ کے لیے ایک 28 صفحات پر مشتمل جامع ‘اے آئی ایکشن پلان’ جاری کیا ہے جس میں اگلے ایک سال میں نافذ کیے جانے والے 90 سے زائد حکومتی اقدامات شامل ہیں۔
اس منصوبے کا مقصد امریکا کو عالمی اے آئی دوڑ میں برتری دلانا، بیوروکریسی کم کرنا اور بقول انتظامیہ ‘نظریاتی تعصب’ سے پاک ٹیکنالوجی کو فروغ دینا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں بھارت میں نوکریاں دینا بند کریں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا انتباہ
ٹرمپ کے مشیر برائے ٹیکنالوجی ڈیوڈ ساکس کا کہنا ہے کہ اے آئی ایک انقلابی ٹیکنالوجی ہے جو معیشت اور قومی سلامتی پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے اور امریکا اس میدان میں چین پر سبقت چاہتا ہے۔ منصوبے میں ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر، امریکی ٹیکنالوجی کی عالمی برآمد اور سرکاری و نجی شعبے میں اے آئی کے استعمال کی حوصلہ افزائی شامل ہے۔
ایکشن پلان کے تحت وفاقی اداروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ایسی پالیسیوں کا ازسرِنو جائزہ لیں جو اے آئی کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔
صدر ٹرمپ نے 3 ایگزیکٹو آرڈرز پر بھی دستخط کردیے ہیں۔ ایک آرڈر امریکی اے آئی ٹیکنالوجی کی برآمد کو فروغ دے گا، دوسرا ‘نظریاتی تعصب’ والے اے آئی سسٹمز کے خاتمے کی کوشش کرے گا جبکہ تیسرا اے آئی سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کی نگرانی سے متعلق ہوگا۔ وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ اے آئی سسٹمز کو ‘سوشل ایجنڈا’ یا سیاسی نظریات سے پاک ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیے: مصنوعی ذہانت سے لیس لال بیگ میدانِ جنگ میں اترنے کے لیے تیار
تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ عوامی مفادات سے زیادہ بڑی ٹیک کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اے آئی ناؤ انسٹیٹیوٹ کی شریک ڈائریکٹر سارہ مائرز ویسٹ نے کہا کہ یہ منصوبہ عام لوگوں کے تحفظات کو نظر انداز کرتا ہے اور کارپوریٹ مفادات کو ترجیح دیتا ہے۔
سابق بائیڈن انتظامیہ کے عہدیدار جم سیکریٹو نے خبردار کیا کہ حفاظتی اصولوں کے بغیر اے آئی کی تیز رفتار ترقی ‘ریاستی خطرہ’ بن سکتی ہے۔ بائیڈن کا 2023 کا اے آئی آرڈر جو حفاظتی اصول فراہم کرتا تھا، ٹرمپ نے صدارت سنبھالتے ہی منسوخ کر دیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں