’’جنگی معیشت‘‘ : یورپ کی پرامن سوچ بدل رہی ہے کیا؟
اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT
’’جنگی معیشت‘‘ کیا ہے؟
’’جنگی معیشت‘‘ کی کوئی باضابطہ تعریف نہیں ہے لیکن اس کی تشکیل میں متعدد عناصر پنہاں ہوتے ہیں۔
یہ اصطلاح اس وقت استعمال کی جاتی ہے، جب کوئی ملک اپنے وسائل، صنعتی پیداواری صلاحیتوں اور افرادی قوت کو جنگی تیاریوں اور ہتھیاروں کی پیداوار کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا جاتا ہے، جب جنگ جاری ہو یا چاہے جنگ کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔
جب کوئی ملک ''جنگی معیشت‘‘ کی طرف بڑھتا ہے تو سب سے نمایاں تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ صارفین کی ضروریات کی اشیاء سے ہٹ کر اس کی توجہ صنعتی پیداوار ہتھیاروں، گولہ بارود اور دیگر فوجی سازوسامان کی تیاری پر ہی مرکوز ہو جاتی ہے۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم جرمن مارشل فنڈ سے وابستہ پبلک پالیسی ماہر پینی ناس کے مطابق اس صورت میں روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ جدید ہتھیاروں کی تیاری میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل سروسز جیسے سافٹ ویئرز، ڈیٹا اینالیٹکس، سیٹلائٹ سسٹمز اور قابل اعتماد انٹرنیٹ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔
(جاری ہے)
اس سب کو منظم کرنے کے لیے حکومت مرکزی کنٹرول حاصل کر لیتی ہے اور ضروری صنعتوں اور وسائل کی تقسیم پر کنٹرول حاصل کر لیتی ہے۔ یہ کنٹرول پھر حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ خام مال کو جنگ سے متعلق صنعتوں اور اشیاء کی تیاری کے لیے مخصوص کر سکے۔ اسی طرح دیگر وسائل کی طرح ایندھن اور خوراک کو راشن کیا جا سکتا ہے تاکہ فوج کو ترجیح دی جا سکے۔
’’جنگی معیشت‘‘ سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟پینی ناس کے مطابق، ''ایک حقیقی جنگی معیشت میں معاشرے کے تمام وسائل کو قومی دفاع کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔‘‘
یہ عمل انتہائی مہنگا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں حکومتی اخراجات میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے قرضوں میں اضافہ، مہنگائی، زیادہ ٹیکس اور فلاحی اخراجات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
برسلز میں قائم تھنک ٹینک بیروگل سے منسلک محقق پروفیسر آرمین اشٹائن باخ کے مطابق جنگی معیشت سے ایسی کمپنیاں سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں، جو فوجی سامان، ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، معلومات و انٹیلی جنس، دوا سازی اور طبی ٹیکنالوجی سے متعلق سروسز مہیا کرتی ہیں۔
اشٹائن باخ کے بقول، ''جنگی معیشت سائنسی اور تکنیکی ترقی کا باعث بن سکتی ہے۔
نئے کمیونیکیشن سسٹمز، جیٹ انجنز، ریڈار اور انٹیلی جنس ٹیکنالوجیز ترقی کرتی ہیں، جو دیگر صنعتوں پر بھی مثبت انداز میں اثر انداز ہوتی ہیں۔‘‘ ’’جنگی معیشت‘‘ کی طرف منتقلی کیسے ہوتی ہے؟کسی ملک کی عام معیشت سے ''جنگی معیشت‘‘ میں منتقلی تیزی سے یا آہستہ آہستہ ہو سکتی ہے، اس بات کا انحصار حالات پر ہی ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کو پہلے سے حملے کی تیاری کا موقع ملا جبکہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کو اچانک اور فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنا پڑا۔
فی الوقت روس اور یوکرین بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ روس نے فوجی اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے، ہتھیاروں کی پیداوار کو بڑھایا ہے اور سرمائے کی منتقلی پر سخت کنٹرول نافذ کیا ہے۔
اس کے نتیجے میں روس میں افراط زر اضافہ ہوا ہے اور حکومت نے عام معیشت کو متوازن رکھنے کے لیے عوامی اخراجات بڑھا دیے ہیں۔یوکرین کی معیشت زیادہ کمزور ہے، چونکہ وہ حملے کی زد میں ہے، اس لیے اس نے اپنی بقا کے لیے جنگی صلاحتیں بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دے رہا ہے۔ اس وقت یوکرین اپنے بجٹ کا اٹھاون فیصد فوجی اخراجات پر خرچ کر رہا ہے۔
روس کی طرح یوکرین نے بھی بڑی تعداد میں افرادی قوت کو فوج کے لیے متحرک کیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی ہنر مند ملازمین عام معیشت سے باہر ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت کی درخواست پر کئی کارخانوں کو ہتھیار اور گولہ بارود بنانے کے لیے دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے۔
جنگی معیشت سے کون سے ممالک چل رہے ہیںکئی دیگر ممالک بھی جنگوں کے باعث کسی نہ کسی حد تک جنگی معیشت پر انحصار کرنے لگے ہیں، جیسے میانمار، سوڈان اور یمن، جہاں خانہ جنگی جاری ہے۔
اسی طرح، اسرائیل، شام، ایتھوپیا اور اریٹیریا میں بھی جنگی حالات کے باعث اقتصادی نظام متاثر ہوا ہے۔اسی طرح پاکستان میں بھی فوجی اخراجات کو ترجیح دینے کے نتیجے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک کے دفاعی بجٹ میں نمایاں اور مستقل اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال دو ہزار اکیس۔ بائیس میں قومی بجٹ کا 16 فیصد سے زیادہ حصہ دفاع کے لیے مختص کیا گیا جبکہ تعلیم کو صرف 2.
اسرائیل نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور زیادہ فوجی سازوسامان تیار کر رہا ہے۔ ساتھ ہی بڑی تعداد میں شہریوں کو جنگ کے لیے بھرتی کیا گیا ہے، جس سے عام معیشت میں کارکنوں کی کمی واقع ہو رہی ہے۔
اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس VAT، بجلی اور پراپرٹی کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا ہے۔ یورپی یونین دوبارہ مسلح ہونے کے لیے تیارامریکہ کی جانب سے یوکرین، نیٹو اور یورپ کے لیے کم ہوتی حمایت کے پیش نظر یورپی یونین نے اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
نیٹو کے 23 یورپی رکن ممالک پہلے ہی اپنی اپنی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے لیکن اب یہ شرح بھی ناکافی سمجھی جا رہی ہے۔
4 مارچ کو یورپی کمیشن کی صدر اوزلا فان ڈیر لاین نے آٹھ سو ارب کے 'ری آرمر یورپ‘ نامی ایک دفاعی منصوبے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کے تحت یورپی یونین کے رکن ممالک کو ڈیڑھ سو ارب کے قرضے دیے جائیں گے جبکہ سخت بجٹ خسارے کے قوانین میں نرمی سے اضافی ساڑھے چھ سو ارب فوجی اخراجات کے لیے مختص کیے جا سکیں گے۔
جرمنی کی فوجی سرمایہ کاری میں اضافہجرمنی نے 21 مارچ کو اپنے بجٹ کے قوانین میں بڑی تبدیلی کی منظوری دی ہے، جس سے دفاعی اخراجات بجٹ کے خسارے کے قواعد و ضوابط سے آزاد ہو جائیں گے۔
یہ تبدیلی یورپ کی سکیورٹی پالیسی میں ایک بڑا موڑ ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے جرمن آئین میں ترمیم کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یورپ اور جرمنی کے لیے مالی وسائل کی ترجیح بندی ایک اہم پہلا قدم ہو گا۔
پینی ناس کے مطابق توانائی کے بہتر ذرائع اور یورپی سطح پر قومی صلاحیتوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے مزید تعاون ضروری ہے۔ ان کے بقول مشترکہ اسلحہ سازی اور تحقیق و ترقی کے اشتراک سے اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے۔
پینی ناس نے مزید کہا، ''سیاسی سطح پر یورپ کی فوجی صلاحیتوں میں اضافے کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو ہو رہی ہے، لیکن یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ یورپ ایک مضبوط پوزیشن سے آغاز کر رہا ہے، مضبوط مالی وسائل اور صنعتی صلاحیتوں کے ساتھ۔‘‘
ادارت: عاطف توقیر
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فوجی اخراجات کے نتیجے میں اخراجات میں جنگی معیشت میں اضافہ کے مطابق پینی ناس کی تیاری سکتی ہے ہے اور رہا ہے رہی ہے کے لیے کیا ہے
پڑھیں:
میانمار کے فوجی جنرل کی خوشامد کارگر، امریکا نے پابندیاں نرم کردیں
امریکا نے جمعرات کے روز میانمار کے حکمران جرنیلوں کے متعدد قریبی اتحادیوں پر عائد پابندیاں ختم کر دیں، یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب 2 ہفتے قبل میانمار کی فوجی حکومت کے سربراہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تعریف کی تھی اور ایک خط میں تجارتی محصولات میں نرمی اور پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اس فیصلے کو انتہائی تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام امریکا کی میانمار کی فوجی حکومت کے حوالے سے پالیسی میں بڑی تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے، وہی فوجی حکومت جس نے 2021 میں ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا اور جو انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی میں ملوث رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے عالمی قوانین کو پس پشت ڈال دیا، میانمار پر ڈرونز سے حملہ
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے جاری کردہ نوٹس میں بتایا گیا کہ کے ٹی سروسز اینڈ لاجسٹکس اور اس کے بانی جوناتھن میو کیاو تھونگ، ایم سی ایم گروپ اور اس کے مالک آنگ ہلائنگ او، سنٹیک ٹیکنالوجیز اور اس کے مالک سِت تائنگ آنگ، اور ایک اور شخصیت ٹن لاٹ مِن کو امریکی پابندیوں کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔
کے ٹی سروسز اور جوناتھن میو کیاو تھونگ کو جنوری 2022 میں صدر بائیڈن کی حکومت کے تحت پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا، جو کہ میانمار میں فوجی قبضے کی پہلی سالگرہ کے موقع پر ایک علامتی اقدام تھا۔ سِت تائنگ آنگ اور آنگ ہلائنگ او کو اسی سال میانمار کے دفاعی شعبے میں سرگرمیوں کی بنیاد پر پابندیوں کا نشانہ بنایا گیا، جب کہ ٹن لاٹ مِن کو 2024 میں، فوجی بغاوت کی تیسری سالگرہ کے موقع پر، فہرست میں شامل کیا گیا تھا کیونکہ وہ بھی فوجی حکام کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔
مزید پڑھیں: روہنگیا مسلمانوں پر میانمار فوج کا ڈرون حملہ، 200 سے زائد جاں بحق
محکمہ خزانہ نے پابندیاں ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں بتائی، اور وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی اس معاملے پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔
11 جولائی کو میانمار کے فوجی حکمران جنرل مِن آنگ ہلائنگ نے ایک خط میں صدر ٹرمپ سے درخواست کی تھی کہ امریکا میانمار کی برآمدات پر عائد 40 فیصد ٹیرف کو کم کرے، اور یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ مذاکرات کے لیے ایک وفد واشنگٹن بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔
ریاستی میڈیا کے مطابق، سینیئر جنرل نے ملک کو قومی خوشحالی کی طرف لے جانے میں صدر ٹرمپ کی محب وطن قیادت کو سراہا۔
مزید پڑھیں: میانمار میں 500 سے زیادہ پاکستانیوں کو جبری طور پر قید میں رکھنے کا انکشاف
صدر ٹرمپ کی جانب سے بھیجے گئے خط کے جواب میں، جس میں یکم اگست سے ٹیرف کے نفاذ کی اطلاع دی گئی تھی، مِن آنگ ہلائنگ نے ٹیرف کو 10 سے 20 فیصد تک کم کرنے کی تجویز دی، جب کہ میانمار کی طرف سے امریکی درآمدات پر محصول کو صفر سے 10 فیصد تک کرنے کی پیشکش کی گئی۔
اس کے ساتھ ہی، مِن آنگ ہلائنگ نے صدر ٹرمپ سے یہ بھی درخواست کی کہ میانمار پر عائد اقتصادی پابندیوں کو ختم کرنے پر غور کریں، کیونکہ یہ دونوں ممالک اور ان کے عوام کے باہمی مفادات اور خوشحالی میں رکاوٹ ہیں۔
مزید پڑھیں: میانمار کی جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کو معافی مل گئی
واضح رہے کہ میانمار دنیا میں نایاب زمینوں سے حاصل ہونے والے معدنیات کا ایک اہم ذریعہ ہے، جنہیں جدید دفاعی اور صارف ٹیکنالوجی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ان معدنیات کی دستیابی امریکی حکمتِ عملی میں ایک مرکزی عنصر ہے، خاص طور پر چین کے ساتھ جاری مسابقت کے تناظر میں، جو کہ دنیا کے 90 فیصد ریئر ارتھ پروسیسنگ کا مرکز ہے۔
میانمار کی زیادہ تر کانیں کاچن آزادی فوج کے زیر اثر علاقوں میں واقع ہیں، جو فوجی حکومت کے خلاف برسرِ پیکار ایک نسلی گروہ ہے اور ان معدنیات کی پراسیسنگ چین میں کی جاتی ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایشیا کے لیے ڈائریکٹر جان سفٹن نے امریکی اقدام کو ’چونکا دینے والا‘ قرار دیتے ہوئے اس کی وجہ کو غیر واضح کہا ہے۔
مزید پڑھیں:
’یہ اقدام اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ امریکا کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی آ رہی ہے، جو اب تک میانمار کی فوجی حکومت کے خلاف سخت اقدامات پر مبنی رہی تھی، وہی حکومت جس نے صرف 4 سال قبل ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا تھا اور جو انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کی مرتکب ہے۔‘
جان سفٹن نے مزید کہا کہ یہ فیصلہ میانمار کی فوج کے متاثرین اور ان تمام افراد کے لیے شدید تشویش کا باعث بنے گا جو جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا امریکی صدر ایشیا تجارتی محصولات ٹیرف ڈونلڈ ٹرمپ معدنیات میانمار ہیومن رائٹس واچ