UrduPoint:
2025-11-03@14:30:20 GMT

’’جنگی معیشت‘‘ : یورپ کی پرامن سوچ بدل رہی ہے کیا؟

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

’’جنگی معیشت‘‘ : یورپ کی پرامن سوچ بدل رہی ہے کیا؟

’’جنگی معیشت‘‘ کیا ہے؟

’’جنگی معیشت‘‘ کی کوئی باضابطہ تعریف نہیں ہے لیکن اس کی تشکیل میں متعدد عناصر پنہاں ہوتے ہیں۔

یہ اصطلاح اس وقت استعمال کی جاتی ہے، جب کوئی ملک اپنے وسائل، صنعتی پیداواری صلاحیتوں اور افرادی قوت کو جنگی تیاریوں اور ہتھیاروں کی پیداوار کے لیے وقف کر دیتا ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا جاتا ہے، جب جنگ جاری ہو یا چاہے جنگ کا خطرہ ہی کیوں نہ ہو۔

جب کوئی ملک ''جنگی معیشت‘‘ کی طرف بڑھتا ہے تو سب سے نمایاں تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ صارفین کی ضروریات کی اشیاء سے ہٹ کر اس کی توجہ صنعتی پیداوار ہتھیاروں، گولہ بارود اور دیگر فوجی سازوسامان کی تیاری پر ہی مرکوز ہو جاتی ہے۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں قائم جرمن مارشل فنڈ سے وابستہ پبلک پالیسی ماہر پینی ناس کے مطابق اس صورت میں روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ جدید ہتھیاروں کی تیاری میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل سروسز جیسے سافٹ ویئرز، ڈیٹا اینالیٹکس، سیٹلائٹ سسٹمز اور قابل اعتماد انٹرنیٹ میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اس سب کو منظم کرنے کے لیے حکومت مرکزی کنٹرول حاصل کر لیتی ہے اور ضروری صنعتوں اور وسائل کی تقسیم پر کنٹرول حاصل کر لیتی ہے۔ یہ کنٹرول پھر حکومت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ خام مال کو جنگ سے متعلق صنعتوں اور اشیاء کی تیاری کے لیے مخصوص کر سکے۔ اسی طرح دیگر وسائل کی طرح ایندھن اور خوراک کو راشن کیا جا سکتا ہے تاکہ فوج کو ترجیح دی جا سکے۔

’’جنگی معیشت‘‘ سے کون فائدہ اٹھاتا ہے؟

پینی ناس کے مطابق، ''ایک حقیقی جنگی معیشت میں معاشرے کے تمام وسائل کو قومی دفاع کے لیے وقف کر دیا جاتا ہے۔‘‘

یہ عمل انتہائی مہنگا ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں حکومتی اخراجات میں زبردست اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے قرضوں میں اضافہ، مہنگائی، زیادہ ٹیکس اور فلاحی اخراجات میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔

برسلز میں قائم تھنک ٹینک بیروگل سے منسلک محقق پروفیسر آرمین اشٹائن باخ کے مطابق جنگی معیشت سے ایسی کمپنیاں سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں، جو فوجی سامان، ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز، معلومات و انٹیلی جنس، دوا سازی اور طبی ٹیکنالوجی سے متعلق سروسز مہیا کرتی ہیں۔

اشٹائن باخ کے بقول، ''جنگی معیشت سائنسی اور تکنیکی ترقی کا باعث بن سکتی ہے۔

نئے کمیونیکیشن سسٹمز، جیٹ انجنز، ریڈار اور انٹیلی جنس ٹیکنالوجیز ترقی کرتی ہیں، جو دیگر صنعتوں پر بھی مثبت انداز میں اثر انداز ہوتی ہیں۔‘‘ ’’جنگی معیشت‘‘ کی طرف منتقلی کیسے ہوتی ہے؟

کسی ملک کی عام معیشت سے ''جنگی معیشت‘‘ میں منتقلی تیزی سے یا آہستہ آہستہ ہو سکتی ہے، اس بات کا انحصار حالات پر ہی ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر دوسری عالمی جنگ کے دوران جرمنی کو پہلے سے حملے کی تیاری کا موقع ملا جبکہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر اتحادیوں کو اچانک اور فوری طور پر ردعمل ظاہر کرنا پڑا۔

فی الوقت روس اور یوکرین بھی اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ روس نے فوجی اخراجات میں نمایاں اضافہ کیا ہے، ہتھیاروں کی پیداوار کو بڑھایا ہے اور سرمائے کی منتقلی پر سخت کنٹرول نافذ کیا ہے۔

اس کے نتیجے میں روس میں افراط زر اضافہ ہوا ہے اور حکومت نے عام معیشت کو متوازن رکھنے کے لیے عوامی اخراجات بڑھا دیے ہیں۔

یوکرین کی معیشت زیادہ کمزور ہے، چونکہ وہ حملے کی زد میں ہے، اس لیے اس نے اپنی بقا کے لیے جنگی صلاحتیں بہتر بنانے پر بھرپور توجہ دے رہا ہے۔ اس وقت یوکرین اپنے بجٹ کا اٹھاون فیصد فوجی اخراجات پر خرچ کر رہا ہے۔

روس کی طرح یوکرین نے بھی بڑی تعداد میں افرادی قوت کو فوج کے لیے متحرک کیا ہے، جس کے نتیجے میں کئی ہنر مند ملازمین عام معیشت سے باہر ہو گئے ہیں۔ ساتھ ہی حکومت کی درخواست پر کئی کارخانوں کو ہتھیار اور گولہ بارود بنانے کے لیے دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے۔

جنگی معیشت سے کون سے ممالک چل رہے ہیں

کئی دیگر ممالک بھی جنگوں کے باعث کسی نہ کسی حد تک جنگی معیشت پر انحصار کرنے لگے ہیں، جیسے میانمار، سوڈان اور یمن، جہاں خانہ جنگی جاری ہے۔

اسی طرح، اسرائیل، شام، ایتھوپیا اور اریٹیریا میں بھی جنگی حالات کے باعث اقتصادی نظام متاثر ہوا ہے۔

اسی طرح پاکستان میں بھی فوجی اخراجات کو ترجیح دینے کے نتیجے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ملک کے دفاعی بجٹ میں نمایاں اور مستقل اضافہ ہوا ہے۔ مثال کے طور پر مالی سال دو ہزار اکیس۔ بائیس میں قومی بجٹ کا 16 فیصد سے زیادہ حصہ دفاع کے لیے مختص کیا گیا جبکہ تعلیم کو صرف 2.

5 فیصد اور صحت کو اس سے بھی کم فنڈز ملے۔

یہ غیر متوازن تقسیم اس گہری سوچ کی عکاسی کرتی ہے کہ قومی بقا کے لیے فوجی طاقت ناگزیر ہے، خواہ اس کی قیمت انسانی ترقی کی قربانی کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانا پڑے۔

اسرائیل نے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا ہے اور زیادہ فوجی سازوسامان تیار کر رہا ہے۔ ساتھ ہی بڑی تعداد میں شہریوں کو جنگ کے لیے بھرتی کیا گیا ہے، جس سے عام معیشت میں کارکنوں کی کمی واقع ہو رہی ہے۔

اس کے اخراجات پورے کرنے کے لیے حکومت نے ویلیو ایڈڈ ٹیکس VAT، بجلی اور پراپرٹی کے ٹیکس میں اضافہ کر دیا ہے۔ یورپی یونین دوبارہ مسلح ہونے کے لیے تیار

امریکہ کی جانب سے یوکرین، نیٹو اور یورپ کے لیے کم ہوتی حمایت کے پیش نظر یورپی یونین نے اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

نیٹو کے 23 یورپی رکن ممالک پہلے ہی اپنی اپنی قومی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کا دو فیصد دفاع پر خرچ کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے لیکن اب یہ شرح بھی ناکافی سمجھی جا رہی ہے۔

4 مارچ کو یورپی کمیشن کی صدر اوزلا فان ڈیر لاین نے آٹھ سو ارب کے 'ری آرمر یورپ‘ نامی ایک دفاعی منصوبے کا اعلان کیا۔ اس منصوبے کے تحت یورپی یونین کے رکن ممالک کو ڈیڑھ سو ارب کے قرضے دیے جائیں گے جبکہ سخت بجٹ خسارے کے قوانین میں نرمی سے اضافی ساڑھے چھ سو ارب فوجی اخراجات کے لیے مختص کیے جا سکیں گے۔

جرمنی کی فوجی سرمایہ کاری میں اضافہ

جرمنی نے 21 مارچ کو اپنے بجٹ کے قوانین میں بڑی تبدیلی کی منظوری دی ہے، جس سے دفاعی اخراجات بجٹ کے خسارے کے قواعد و ضوابط سے آزاد ہو جائیں گے۔

یہ تبدیلی یورپ کی سکیورٹی پالیسی میں ایک بڑا موڑ ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کے لیے جرمن آئین میں ترمیم کی ضرورت ہو گی۔ تاہم یورپ اور جرمنی کے لیے مالی وسائل کی ترجیح بندی ایک اہم پہلا قدم ہو گا۔

پینی ناس کے مطابق توانائی کے بہتر ذرائع اور یورپی سطح پر قومی صلاحیتوں کو ہم آہنگ کرنے کے لیے مزید تعاون ضروری ہے۔ ان کے بقول مشترکہ اسلحہ سازی اور تحقیق و ترقی کے اشتراک سے اخراجات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

پینی ناس نے مزید کہا، ''سیاسی سطح پر یورپ کی فوجی صلاحیتوں میں اضافے کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو ہو رہی ہے، لیکن یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ یورپ ایک مضبوط پوزیشن سے آغاز کر رہا ہے، مضبوط مالی وسائل اور صنعتی صلاحیتوں کے ساتھ۔‘‘

ادارت: عاطف توقیر

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے فوجی اخراجات کے نتیجے میں اخراجات میں جنگی معیشت میں اضافہ کے مطابق پینی ناس کی تیاری سکتی ہے ہے اور رہا ہے رہی ہے کے لیے کیا ہے

پڑھیں:

کراچی میں اسپتال کے اخراجات کی ادائیگی کیلیے نومولود بچہ فروخت کرنے کا انکشاف

شہر قائد کے علاقے میمن گوٹھ میں اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلیے نومولود کو فروخت کرنے کا انکشاف ہوا جسے خاتون نے خرید کر پنجاب میں کسی کو پیسوں کے عوض دے دیا تھا۔

تفصیلات کے مطابق میمن گوٹھ میں قائم نجی اسپتال میں شمع نامی حاملہ خاتون ڈاکٹر سے معائنہ کروانے کیلیے گئی تو وہاں پر ڈاکٹر نے زچگی آپریشن کیلیے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کیا۔

خاتون نے جب ڈاکٹر سے رقم نہ ہونے کا تذکرہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک خاتون بچے کی خواہش مند ہے اور وہ بچے کو نہ صرف پالے گی بلکہ آپریشن کے اخراجات بھی ادا کردے گی۔

خاتون کے آپریشن کے بعد لڑکے کی پیدائش ہوئی جسے ڈاکٹر نے مذکورہ خاتون کے حوالے کیا جس پر والد سارنگ نے مقدمہ درج کروایا۔

والد سارنگ نے مقدمے میں بتایا کہ وہ جامشورو کے علاقے نوری آباد کے جوکھیو گوٹھ کا رہائشی ہے۔ مدعی مقدمہ کے مطابق اہلیہ چند ماہ قبل حاملہ ہونے کے باوجود ناراض ہوکر والدین کے گھر چلی گئی تھی۔

’پانچ اکتوبر کو اہلیہ اپنی والدہ کے ساتھ معائنے کیلیے کلینک گئی تو ڈاکٹر زہرا نے آپریشن تجویز کرتے ہوئے رقم ادائیگی کا مطالبہ کیا، رقم نہ ہونے پر ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ ایک عورت کو جانتی ہیں جو غریبوں کی مدد کرتی اور غریب بچوں کو پالتی ہے‘۔

سارنگ کے مطابق ڈاکٹر نے مشورہ دیا کہ وہ عورت نہ صرف بچے کو پالے گی بلکہ آپریشن کے تمام اخراجات بھی ادا کردے گی، جس پر میری اہلیہ نے رضامندی ظاہر کی تو خاتون شمع بلوچ نے آکر اخراجات ادا کیے اور بچہ لے کر چلی گئی۔

والد کے مطابق مجھے جب لڑکے کی پیدائش کا علم ہوا تو اسپتال پہنچا جہاں پر یہ ساری صورت حال سامنے آئی اور پھر اہلیہ نے شمع بلوچ  نامی خاتون کا نمبر دیا تاہم متعدد بار فون کرنے کے باوجود کوئی رابطہ نہیں ہوا کیونکہ موبائل نمبر بند ہے۔

شوہر نے مؤقف اختیار کیا کہ مجھے شبہ ہے کہ شمع نامی خاتون نے میرا بچہ کسی اور کو فروخت کر دیا ہے لہذا قانونی کارروائی کی جائے۔ پولیس نے مقدمے کی تفتیش اینٹی وائلنٹ کرائم سیل کے حوالے کیا۔

اینٹی وائلنٹ کرائم سیل نے کارروائی کرتے ہوئے پنجاب سے بچے کو بازیاب کروا کے والدین کے حوالے کردیا جبکہ اسپتال کو سیل کردیا ہے۔ پولیس کے مطابق شمع بلوچ اسپتال کی ملازمہ ہے اور اُس نے ڈاکٹر زہرا کے ساتھ ملکر یہ کام انجام دیا۔

ایس ایس پی ملیر عبدالخالق پیرزادہ کے مطابق بچے کو شمع بلوچ اور ڈاکٹر زہرا نے ملکر پنجاب میں فروخت کردیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر زہرا اور شمع بلوچ کی گرفتاری کیلیے چھاپے مارے گئے ہیں تاہم کامیابی نہ مل سکی، دونوں کو جلد گرفتار کر کے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی، اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلئے بچہ فروخت
  • کراچی ، اسپتال کے اخراجات ادائیگی کیلئے نومولودکی فروخت کا انکشاف
  • کراچی میں اسپتال کے اخراجات کی ادائیگی کیلیے نومولود بچہ فروخت کرنے کا انکشاف
  • کراچی: اسپتال کے اخراجات ادا کرنے کیلئے نومولود کو فروخت کر دیا گیا
  • ٹیکس آمدن میں اضافہ ایف بی آر اصلاحات کا نتیجہ، غیررسمی معیشت کا خاتمہ کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف
  • گورنر خیبرپختونخوا سے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی ملاقات،‘متحد ہو کر صوبے کو پرامن بنائیں گے’
  • بین الاقوامی نظام انصاف میں ’تاریخی مثال‘، جنگی جرائم میں ملوث روسی اہلکار لتھوانیا کے حوالے
  • ای چالان یورپ جیسا اور سڑکیں کھنڈر، کراچی کے شہریوں کی تنقید
  • سوڈان، امریکی ایجنڈا و عرب امارات کا کردار؟ تجزیہ کار سید راشد احد کا خصوصی انٹرویو
  • متحدہ عرب امارات کے طیاروں کے ذریعے سوڈان میں جنگی ساز و سامان کی ترسیل کا انکشاف