ہیکرز پرکشش ملازمت کی پیشکش کے ساتھ ملازمت کے متلاشی پیشہ ور افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

شمالی کوریا کا بدنام زمانہ ہیکنگ گروپ، لازارس، حساس ڈیٹا چوری کرنے اور کارپوریٹ نیٹ ورکس میں نوکری کی جعلی پیشکش کررہا ہے۔ اس گروپ نے، جو اپنی سائبر جاسوسی کی سرگرمیوں کے لیے جانا جاتا ہے، اپنی رسائی کو لنکڈان سے آگے بڑھا کر دیگر مقبول جاب پلیٹ فارمز جیسے اپ ورک، فری لانسر ڈاٹ کام، وی ورک روموٹلی، مون لائٹ اور کرپٹو جابز جیسے پلیٹ فارم  تک بڑھایا ہے۔

پیشہ ور افراد کوکیسے ٹریپ کیا جاتا ہے؟

اس ہیرا پھیری کی شروعات گھر بیٹھے کام، لچکدار وقت اور اعلی تنخواہوں کی پیشکش کرنے والی نوکری کی پیشکش سے ہوتی ہے۔ لیزارس گروپ آئی ٹی، سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ، اور کرپٹو کرنسی میں کام کرنے والے افراد کو نشانہ بناتا ہے۔ ایک بار جب کوئی امیدوار دلچسپی ظاہر کرتا ہے، تو ان سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی سی وی یا گٹ ہب لنک جمع کرائیں، جن سے ہیکرز معلومات اکٹھا کرتے ہیں اور ممکنہ اہداف کی توثیق بھی کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایف بی آئی کا شمالی کورین ہیکرز پر ڈیڑھ ارب ڈالر کے ورچوئل اثاثے چرانے کا الزام

اس کے بعد ہیکرز ایک فائل بھیجتے ہیں، جو ٹیسٹ پروجیکٹ یا ڈیمو کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ یہ درحقیقت لاگ ان کی اسناد، براؤزر ڈیٹااور کرپٹو کرنسی والیٹ کی معلومات کو چرانے کے لیے ڈیزائن کردہ میلویئر پر مشتمل ہے۔

اگر متاثرہ شخص کوڈ داخل کرتا ہے تو حملہ آور اس کے سسٹم تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور ذاتی اور کارپوریٹ ڈیٹا کو نکال سکتے ہیں۔

عام اسکیمرز کے برعکس لیزارس گروپ کا مقصد پورے کارپوریٹ نیٹ ورکس میں دخل اندازی کرنا ہے، خاص طور پر وہ جو کہ ایرو اسپیس، دفاع اور مالیات جیسی اعلیٰ قدر کی صنعتوں میں، یہ گروپ بڑی سائبر جاسوسی مہمیں شروع کرنے کے لیے جعلی نوکری کی پیشکشوں کو گیٹ وے کے طور پر استعمال کرتا ہے۔

کیسے معلوم کریں کہ آپ کو جال میں پھنسایا جارہا ہے؟

ہیکرز کے جال سے بچنے کے لیے پہلے آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کو پھنسایا جارہا ہے۔

اگر ملازمت کی تفصیل مبہم یا عہدے کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ پر درج نہیں ہیں۔

بھرتی کرنے والے نجی ای میل یا میسجنگ ایپس کے ذریعے بات چیت کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں وی پی این اور اے آئی صارفین ہیکرز کے نشان پر

مشکوک ذخیرے یا فائلیں جنہیں نامعلوم کوڈ پر عمل درآمد کی ضرورت ہوتی ہے۔

ہجے کی غلطیاں یا بھرتی کے پیغامات میں تضادات، یہ تمام نشانیاں ہیں کہ ہیکرز آپ کو پھنسانا چاہتے ہیں۔

احتیاطی تدابیر کیا ہیں؟

کمپنی کی آفیشل ویب سائٹ اور ای میل ڈومین چیک کرکے نوکری کی پیشکش کی تصدیق کریں۔

غیر تصدیق شدہ کوڈ کبھی نہ چلائیں۔ اگر آپ کو نامعلوم ذرائع سے فائلوں کا معائنہ کرنا ضروری ہے تو ورچوئل مشین یا سینڈ باکس استعمال کریں۔

اپنی محدود ذاتی معلومات دیں۔

بٹ ڈیفینڈر جیسے قابل اعتماد سیکیورٹی ٹولز کا استعمال کریں، جو آپ کے سسٹم میں دراندازی کرنے سے پہلے خطرات کا پتا لگاسکتے ہیں اور انہیں روک سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اپ ورک پیشہ ور افراد شمالی کوریا فائیور ہیکرز ورچوئل اثاثے.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اپ ورک پیشہ ور افراد شمالی کوریا فائیور ہیکرز ورچوئل اثاثے پیشہ ور افراد کی پیشکش نوکری کی کے لیے

پڑھیں:

اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250917-03-5

 

غلام حسین سوہو

یہ مضمون اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ تعلیمی کارکنوں کی اندرونی تحریک کو کس طرح دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ اس جمی ہوئی بے حسی کا مقابلہ کیا جا سکے جو ایک خطرناک اور ہر طرف پھیلی ہوئی بلا کی طرح پروان چڑھ چکی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم اس آفت سے ناآشنا ہیں جس نے ہماری قومی اساس کو خود انحصاری اور خوشحالی کے لیے کھوکھلا کر دیا ہے۔

“I hope when the going gets tough, the tough get going” کے مطابق اگر ہم کامیاب ہو گئے تو ہم تدریسی شعبے کو قربانی، ہمدردی اور مسلسل نشوونما کی بنیاد پر ایک باوقار پیشے میں بدل سکیں گے۔ لوگ استاد کے کردار کو محض تدریسی ذمے داری نہیں بلکہ طلبہ کو علم کی بھول بھلیوں میں رہنمائی کرنے، تجسس کی آگ جلانے، مہارتیں، قابلیتیں اور باوقار کردار حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اسی پیمانے پر جب ہم یہ سوال کرنے کی ہمت کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور تعلیمی رجحانات کس طرف بڑھ رہے ہیں، تو ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں ٹیکسٹ بْک، رٹے بازی اور مبہم تعلیمی منتقلی کا کلچر حاوی ہے۔ جدید بورڈز، اسمارٹ کلاس رومز اور ہائی ٹیک لیب کے باوجود تعلیمی ترقی جمود کا شکار ہے۔ مسئلہ ٹیکنالوجی کی موجودگی یا غیر موجودگی کا نہیں بلکہ جذبے، لگن اور جدت کی کمی کا ہے۔

یہ موجودہ کلچر گھوڑے کی لاش کو پیٹنے کے مترادف ہے، جہاں تعلیم حوصلہ افزا نہیں بلکہ مایوس کن ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کو زیادہ پیشہ ورانہ خودمختاری دی جائے تو وہ اپنے کام کو ذاتی ذمے داری سمجھیں گے۔ مثال کے طور پر اگر اساتذہ کو نصابی کتب اور باندھے ہوئے وسائل سے ہٹ کر اپنی تدریسی حکمت ِ عملیاں بنانے اور نافذ کرنے کی آزادی دی جائے تو وہ طلبہ کو ذمے دار شہری اور روزگار کے قابل بنانے میں زیادہ دلچسپی لیں گے۔ اسی طرح معاونتی نظام بھی فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ اساتذہ اپنی فلاح و بہبود کو ترجیح دے سکیں، مثلاً وسائل میں سہولت، رعایتیں اور انتظامی بوجھ میں کمی۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے معزز اساتذہ اپنی علمی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ بعض کا ماننا ہے کہ ہاں، مگر عملی رکاوٹیں جیسے نصاب کی تکمیل کے لیے وقت کی کمی، وسائل کی قلت اور ناکافی تحریک انہیں مزید ترقی سے روکتی ہے۔ دوسری طرف کچھ یہ رائے رکھتے ہیں کہ اساتذہ میں پائی جانے والی بے حسی پورے نظام تعلیم کو کمزور کر سکتی ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ ہم ایسا احتسابی کلچر پیدا کریں جو ہمدردی پر مبنی ہو۔ میں یہ واضح کرنا چاہوں گا کہ احتساب کا مطلب صرف سزا نہیں بلکہ نشوونما اور بہتری ہے۔ اساتذہ کو بااختیار بنانا ضروری ہے تاکہ وہ اپنے ساتھیوں کی رہنمائی کریں اور اجتماعی ذمے داری کا ماحول پیدا ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے تعلیمی کلچر میں جذبے، جدت اور لگن کی کمی ہے۔ ہمیں ایسے کلچر کی ضرورت ہے جہاں استاد خود کو تبدیلی کے ایجنٹ سمجھیں اور نئے تجربات کرنے سے نہ گھبرائیں۔ اسی طرح طلبہ پر مرکوز تدریسی طریقے مثلاً تحقیق پر مبنی اور منصوبہ جاتی تدریس اساتذہ میں تدریس کی خوشی دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں۔

’’سماج اکثر یہ خواب دیکھتا ہے کہ اساتذہ کو اپنے آپ کو روشنی کے نگہبان سمجھنا چاہیے — ایسے افراد جو دوسروں کی راہوں کو روشن کرنے کے لیے اپنی قربانی پیش کرتے ہیں‘‘۔ لیکن اس کے لیے ہمدردی اور نرمی پر زور دینا لازمی ہے۔ جذباتی ذہانت کی تربیت اساتذہ کو یہ سکھا سکتی ہے کہ طلبہ کے ساتھ بامعنی تعلقات کیسے قائم کیے جائیں، اعتماد اور تعاون کا ماحول کیسے پیدا کیا جائے۔

’’میٹا کوگنیٹو مہارتوں کی پرورش اساتذہ کو یہ قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی تدریسی حکمت ِ عملیوں کا تنقیدی جائزہ لیں اور طلبہ کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ضروری تبدیلیاں کریں‘‘۔ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے ٹیکنالوجی، واضح تدریسی طریقے اور عملی تربیت کو ملانا ضروری ہے تاکہ طلبہ کو صاف اور منظم رہنمائی ملے۔ اسی طرح مضمون پر مبنی تربیت اساتذہ کے علمی اثاثے کو گہرا کرتی ہے جس سے وہ زیادہ مؤثر اور دلچسپ اسباق فراہم کر سکیں۔

کامیاب تعلیمی نظام کا انحصار مسلسل سیکھنے، ہمدردی اور جدت پر ہے۔ اس طرح ہم اپنے اساتذہ کو حقیقی روشنی کے نگہبان میں بدل سکتے ہیں جو قربانی، نرمی اور غیر متزلزل لگن کے ساتھ اپنے کردار کو نبھائیں۔ جب ہم ان کی ترقی میں سرمایہ کاری کریں گے اور ان کو ضروری سہولتیں فراہم کریں گے تو ہم ایسا ماحول تشکیل دیں گے جہاں استاد اور طلبہ دونوں ترقی کریں اور آئندہ نسلوں کی زندگیوں کو روشن، بااختیار اور بہتر بنائیں۔

(مصنف ایک ماہر ِ تعلیم ہیں جنہوں نے مختلف اعلیٰ عہدوں پر خدمات انجام دی ہیں، جن میں: سینئر ڈائریکٹر، ڈپٹی ڈی جی ایجوکیشن، ایف ڈی ای اسلام آباد۔ ڈائریکٹر (سرٹیفکیشن) NAVTTC۔ ڈائریکٹر (آپریشنز اینڈ لیگل) STEVTA۔ ریجنل ڈائریکٹر وفاقی محتسب حیدرآباد۔ چیئرمین، بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کراچی)

متعلقہ مضامین

  • ایم جی پاکستان کی بڑی پیشکش: الیکٹرک گاڑیوں پر 13 لاکھ روپے سے زائد کی زبردست رعایت
  • کراچی پولیس نشانے پر، رواں سال میں اب تک افسر سمیت 14 جوان شہید
  • مخیرحضرات اور بین الاقوامی ڈونر تنظیمیں سیلاب سے متاثرہ افراد کے لئے امداد فراہم کریں،قائم مقام صدرسید یوسف رضا گیلانی
  • سوشل میڈیا ناقابل اعتبار ترین پیشہ ہے‘ سروے رپورٹ
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  • کراچی: ریڈ لائن منصوبے میں غیر معمولی تاخیر، شہری اذیت کا شکار
  • دہشتگرد گروپس میں جرائم پیشہ افراد کی موجودگی کے شواہد مل رہے ہیں: آئی جی پولیس
  • معروف بھارتی اداکار سائبر حملے کا شکار، ہیکرز نے کیا مطالبہ کیا؟
  • پاکستانی تارکین وطن کے بچوں کے لیے مفت پیشہ ورانہ تربیتی کورسز، رجسٹریشن کیسے کروائی جائے؟
  • کراچی، میں بوندا باندی کا سلسلہ جاری، ٹریفک پولیس نے احتیاطی تدابیر جاری کر دیں