کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
ہماری بدقسمتی ہے کہ کائناتوں کے خالق کی کتاب جسے اُس نے خود ہدایت، رحمت اور حکمت قرار دیا ہے، ہمارے پاس الماریوں میں پڑی رہتی ہے مگر ہم اس سے مستفیض نہیں ہوتے اور کھول کر نہیں دیکھتے۔ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، اس کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کتابِ حق کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں۔
اگر قرآنِ کریم کو بامحاورہ ترجمے اور کسی بڑے اسکالر کی تشریح کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر بے حد لطف آتا ہے، اپنے خالق کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے اور ہر صفحے پر اس کی رحمتیں اور اس کی حکمتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ کتابِ اﷲ کی سورہ الملک پڑھنی شروع کی تو خالقِ کائنات کی طاقت اور حکمت کا نئے سرے’’نہایت بزرگ وبرتر ہے، وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے۔
(یعنی تمام اختیارات کا مالک اور شہنشاہِ کائنات وہی ہے) اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگذر فرمانے والا بھی۔ جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمان کی تخلیق میں سے کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی‘‘
تاریخ انسانی میں خدا ہونے کا دعویٰ نمرود یا ایک آدھ اور بادشاہ نے کیا ضرور ہے مگر صرف حکمران ہونے کی حد تک۔ خالقِ کائنات ہونے کا دعویٰ کرنے کی ہمّت کسی نے نہیں کی۔ اور پھر اپنی تخلیق کے بارے میں اتنا یقین سے دعویٰ کرنا کہ ’کوشش کرکے دیکھ لو، پوری کائنات میں تمہیں کوئی نقص اور کوئی infimity نظر نہیں آئے گی‘ ، ایسا دعویٰ کائنات کے اصلی اور حقیقی خالق کے سوا کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ یہ دعویٰ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی بار دھرایا ہے مگر دنیا کا کوئی سائنسدان، ریاضی دان یا ماہرِ طبیعات آج تک اس دعوے کو نہیں جھٹلا سکا، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اس کائنات میں حیرت انگیز قسم کا توازن اور تناسب ہے جو ہر باشعور شخص کو نظر آتا ہے۔
اس کی عظیم الشّان کائنات میں کہیں معمولی سا بھی جھول، بدنظمی، بے ترتیبی یا بے ربطی نظر نہیں آتی۔ مفسّرین کی یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان، طاقتور ترین دوربینوں سے بھی دیکھ بیٹھے مگر کہیں کوئی معمولی سی بھی بے ترتیبی نہ ڈھونڈسکے۔ کیا کائنات کی تخلیق اور خالق کے بارے میں صاحبانِ عقل ودانش کے لیے یہی ثبوت کافی نہیں ہے کہ اتنی عظیم الشّان کائنات کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے۔
چند روز پہلے سورہ المرسلت پڑھنے کا موقع ملا ،اس کے آغاز میں ہی اﷲ تعالیٰ نے مختلف قسم کی ہواؤں کی قسم کھائی ہے۔ ہم نے کبھی ہواؤں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا حالانکہ ہوا انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہوا کو ہم اس طرح taken for granted لیتے ہیں کہ اس کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی جاتا رہا ہے۔یقینا ہوا کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ہوا کی قَسم ،ہواؤں کا خالق ہی اٹھا سکتا ہے۔
صاحبِ تفہیم القرآن لکھتے ہیں کہ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ھوا ہے۔ ہوا کا ہر قسم کی زندگی کے ساتھ جو تعلق ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق اور عظیم اور حکیم خالق ہے، جس نے اس کرّۂ خاکی پر زندگی کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا تو پھر ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔اس نے اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں بیشمار مختلف کیفیات پیدا کر دی ہیں جن کی بدولت لاکھوں کروڑوں سالوں سے موسم پیدا ہوتے ہیں۔کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی۔کبھی بادل آتے ہیں۔
کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی تباہ کن طوفان آ جاتے ہیں۔غرض ایک ہوا نہیں، طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔
یہ انتظام کمال درجے کی حکمت اور دانائی کا ثبوت ہے۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بے بس ہے کہ وہ اپنے لیے نہ ہی اپنے مطلب کی ہوا طلب کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے سے روک سکتا ہے۔ یہ ہوائیں انسان کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ اس کے اوپر کوئی زبردست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعے کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے،اور انسان اس کے کسی فیصلے کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
اسی سورہ میں روزِ قیامت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے ’’پھر جب ستارے ماند پڑجائیں گے، اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا، اور پہاڑ دُھنک ڈالے جائیں گے"۔پھر کہا ’’کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا اور ایک مُقرّرہ مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا؟ تو دیکھو ہم اس پر قادر تھے، پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں۔ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی اور اس میں بلند وبالا پہاڑ جمائے، اور تمہیں میٹھا پانی پلایا؟ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے‘‘۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
’’یہی زمین ہے جس پر ان تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں، مگر ایسا بے نظیر انتظام کردیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔
اِس زمین کو اسپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جس کا موسموں کے تعیّرات میں، بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں، زرخیز وادیوں کے وجود میں، بڑے بڑے شہتیر فراہم کرنے والے درختوں کے اُگنے میں، قسم قسم کی معدنیات اور طرح طرح پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے۔
پھر اس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کردیا گیا ہے، اِ س کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں، اور سمندر کے کھاری پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نِتھرا ہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتطام کیا گیا ہے، کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قادر مطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے، اور وہ محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم وحکیم بھی ہے؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور ان حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اُسی کی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں کیے ہیں؟‘‘
کچھ دوسرے دوستوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ صدیوں کے موسمی تغیرات اور آندھیوں کے سبب مٹی اکٹھی ہو ہو کر بالآخر پہاڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مگر قرآن کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ خالقِ کائنات نے ایک منصوبے کے تحت پہاڑوں کو تخلیق کیا ہے جن کے گونا گوں مقاصد ہیں جن میں سے کچھ کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
اب ماہرینِ ارضیات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پہاڑ صدیوں کے عمل سے وجود میں نہیں آئے بلکہ انھیں خاص طور پر تخلیق کیا گیا ہے۔ خالق نے اپنی تخلیقی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بھی ایک بڑی جاندار دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ انسانی نسل کے تسلسل کے لیے نر اور مادہ دونوں ہونے چاہئیں، اگر دنیا اپنے آپ تخلیق ہوئی ہوتی تو کسی بستی یا ملک میں صرف لڑکے ہی پیدا ہوجاتے اور کہیں صرف لڑکیاں پیدا ہوجاتیں مگر اس دنیا اور انسانوں کا خالق اپنی حکمت کے تحت ہر بستی اور ہرآبادی میں صدیوں سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں پیدا کررہا ہے۔
اگر کوئی نقلی خدا یا کوئی انسان خدائی کا دعویٰ کرتا تو اوّل تو وہ جادو ٹونے کے ذریعے کچھ کرامات دکھانے تک محدود رہتا اور کسی بھی صورت میں سورج، چاند، آسمان اور پوری کائنات کی تخلیق کا بڑا دعویٰ ہرگز نہ کرتا (یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے انسانوں اور آسمانوں کی تخلیق کا دعویٰ نہیں کیا) کیونکہ ایسا کرنے سے وہ بہت جلد پکڑا جاتا اور اس کا بھانڈا پھوٹ جاتا ۔ مگر اﷲ کے دعوے میں صدیوں سے کوئی معمولی سا سقم تلاش نہیں کرسکا۔ انسان کی پیدائش کا بھی قرآن میں بارہا ذکر کیا گیا ہے اور پندرہ صدیاں قبل پیدائش کی تمام stages بتادی گئیں جن سے ماں کے پیٹ میں وہ گذرتا ہے۔ یہ وہ stages ہیں جن سے چند دہائیاں پہلے تک آج کے انسان بھی بالکل ناواقف تھے۔سچّائی جاننے والوں کے لیے کیا یہ بہت بڑی دلیل نہیں ہے اور کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیا گیا ہے کائنات کی کی تخلیق اور حکمت سکتا ہے کا دعوی نہیں ہے کے ساتھ نہیں کی ہے کہ ا کے لیے کیا یہ ہیں کہ ہے اور اور ان قسم کی
پڑھیں:
غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
اسلام ٹائمز: اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔ تحریر: سید اسد عباس
9 جولائی 2024ء کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے 11 ماہرین نے غزہ میں قحط کے حوالے سے شدید خطرے کی گھنٹی بجائی۔ ان ماہرین نے مشترکہ بیان میں کہا: ”فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیل کی باہدف، سوچی سمجھی قحط کی صورتحال نسلی کشی کی ایک شکل ہے اور اس کے نتیجے میں پورے غزہ میں قحط پھیل چکا ہے۔ ہم عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی ضروری طریقے سے زمینی راستے سے انسانی امداد کی فراہمی کو ترجیح دے۔ اسرائیل کے محاصرے کو ختم کرے اور جنگ بندی قائم کرے۔" ان ماہرین میں "Right to food" کے خصوصی نمائندے مائیکل فخری، محفوظ پینے کے پانی اورسینیٹیشن کے انسانی حقوق سے متعلق خصوصی نمائندے پیڈرو آروجو-آگوڈو، اور 1967ء سے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق خصوصی نمائندے فرانسسکا البانیز شامل تھے۔
ان کی رائے میں، وسطی غزہ میں بچوں کو طبی امداد فراہم کرنے کی کوششوں کے باوجود بھوک سے ان کی اموات نے کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑی کہ غزہ قحط کا شکار ہوچکا ہے۔ "قحط" کو عام طور پر غذائیت کی شدید کمی سمجھا جاتا ہے، جو لوگوں کے ایک گروہ یا پوری آبادی کی بھوک اور موت کا باعث بنتی ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بین الاقوامی قانون میں قحط کے تصور کی کوئی متفقہ تعریف نہیں ہے۔ 2004ء میں فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (FAO) نے انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) تیار کی، جو آبادی کی غذائی عدم تحفظ کا نقشہ بنانے کے لیے ایک پانچ مراحل پر مشتمل پیمانہ ہے۔ اس تشخیصی نظام کا مقصد یہ ہے کہ جب غذائی عدم تحفظ کی نشاندہی کی جائے تو اجتماعی کارروائی کو تیز کیا جائے اور ایسی صورتحال کو IPC پیمانے پر لیول 5 تک پہنچنے سے روکا جائے، جہاں قحط کی تصدیق اور اعلان کیا جاتا ہے۔ اسے FAO، ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) اور ان کے شراکت داروں نے گذشتہ 20 سالوں سے ایک سائنسی، ڈیٹا پر مبنی پیمانے کے طور پر استعمال کیا ہے۔
انٹیگریٹڈ فوڈ سکیورٹی فیز کلاسیفیکیشن (IPC) کے تحت قحط کے اعلان کے لیے قابلِ پیمائش معیار خوفناک حد تک سیدھے سادھے ہیں: کسی علاقے میں 20 فیصد یا اس سے زیادہ گھرانوں کو خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہو اور ان کے پاس مقابلہ کرنے کی محدود صلاحیت ہو؛ بچوں میں شدید غذائی قلت 30 فیصد سے تجاوز کر جائے اور یومیہ اموات کی شرح فی 10,000 افراد میں دو سے زیادہ ہو تو یہ قحط ہے۔ جب یہ تینوں معیار پورے ہو جائیں، تو "قحط" کا اعلان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ یہ اعلان کسی قانونی یا اداراتی ذمہ داری کے نفاذ کا باعث نہیں بنتا ہے، لیکن بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی کارروائی کو راغب کرنے کے لیے ایک اہم سیاسی اشارہ ہے۔ اگر مذکورہ بالا ماہرین ایک سال سے بھی پہلے، متفقہ طور پر یہ نتیجہ اخذ کرسکتے تھے کہ محاصرہ زدہ غزہ کی پٹی میں قحط موجود ہے، تو یہ سمجھنا مشکل ہے کہ متعلقہ اقوام متحدہ کے ادارے اور ایگزیکٹو سربراہان اب تک اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچے کہ اس سال جولائی تک غزہ میں قحط کی سطح 5 (Level 5) تک پہنچ چکی ہے۔
آج جبکہ حقیقی معلومات سمٹ کر اسمارٹ فونز پر منتقل ہوچکی ہیں، غذائی عدم تحفظ کے مہلک درجے کی حقیقت عیاں اور قابل مشاہدہ ہے۔ لاغر جسموں کی تصاویر جو نازی حراستی کیمپوں میں لی گئی تصاویر کی یاد دلاتی ہیں، غزہ کی حقیقت کی المناک کہانی بیان کرتی ہیں۔ اس کے باوجود، 20 جولائی کو فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ایجنسی (UNRWA) کی ان وارننگز کے باوجود کہ غزہ میں دس لاکھ بچوں کو فاقہ کشی کا خطرہ ہے، "قحط" کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عالمی اداروں کے پاس IPC کے لیے درکار ضروری ڈیٹا موجود نہیں ہے، اسرائیلی پابندیوں کے باعث IPC کے تجزیہ کار غزہ نہیں جا پا رہے یا جانا نہیں چاہ رہے۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں، جن میں سے ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں بیٹھے افسران اپنی نوکریوں کو محفوظ نہیں سمجھتے۔
امریکی حکومت کے بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان اور اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیز پر ذاتی حملے اور ان پر عائد پابندیاں اس بات کی واضح یاد دہانی ہیں کہ یہ ملازمتیں خطرات سے خالی نہیں ہیں، نیز یہ کہ امریکہ اقوام متحدہ کے نظام میں سب سے بڑا مالی معاون ہے۔ کسی بھی ادارے یا افسر کے لیے امریکی ناراضگی مول لینا آسان نہیں ہے۔ آج فلسطینی دنیا کی گونجتی خاموشی کے درمیان بھوک سے مر رہے ہیں، جبکہ سرحد کے مصری حصے پر ٹنوں خوراک غزہ میں داخلے کی اجازت کا انتظار کرتے ہوئے ضائع ہو رہی ہے۔ اسرائیلی فوجیوں اور غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن کے ذریعے بھرتی کیے گئے غیر ملکی کرائے کے فوجیوں نے نام نہاد انسانی امداد کی تقسیم کی جگہوں پر امداد کے خواہاں 900 سے زیادہ فلسطینیوں کو ہلاک کر دیا ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام (WFP) کے مطابق تقریباً 90,000 بچے اور خواتین غذائی قلت کے فوری علاج کے محتاج ہیں؛ غزہ کی وزارت صحت نے رپورٹ کیا ہے کہ 20 جولائی کو ایک ہی دن میں 19 افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور اس سے بدتر حالات ابھی باقی ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، UNHCR، UNRWA، WHO اور اسی قبیل کے دسیوں ادارے اس وقت خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ دنیا کے مابین متفقہ طور تشکیل پانے والے ان اداروں کا مکمل نظام امریکی کنٹرول میں ہے، اب وہ قحط کہیں گے تو قحط ہوگا، وہ جنگ کہیں گے تو جنگ ہوگی، وہ نسل کشی کہیں گے تو نسل کشی ہوگی۔ ان انسانی المیوں کے جو معیارات ہم نے تشکیل دیئے تھے، وہ مالی معاونین کی سیاست اور پالیسیوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ دنیا بہت غیر محفوظ ہوگئی، بالکل ویسی جیسے اقوام متحدہ کے قیام سے قبل تھی بلکہ اس سے بھی بدتر۔
اقوام متحدہ کے قیام سے قبل ہمارے پاس انسانی المیوں سے نمٹنے کا نظام اور معیارات موجود نہیں تھے، تاہم آج ہمارے پاس نظام اور معیارات تو ہیں، تاہم جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے محاورے کا ہمارے پاس کوئی حل نہیں ہے۔ علامہ اقبال کا شعر ایک مرتبہ پھر یاد آگیا، جنھوں نے لیگ آف نیشنز کے قیام کے وقت کہا تھا:
برفتد تا روش رزم دریں بزم کہن
دردمندان جھان طرح نو انداختہ اند
من ازیں بینش ندانم کہ کفن دزدے چند
بہر تقسیم قبور انجمنے ساختہ اند
جہاں کا دُکھ درد رکھنے والوں نے نئی بنیاد ڈالی ہے، تاکہ دنیا سے جنگ کی ریت کو ختم کیا جائے، لیکن میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ کچھ کفن چوروں نے قبروں کو آپس میں بانٹنے کے لیے ایک انجمن بنائی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے مسلمان ممالک میں مشترکہ طور پر یک نکاتی ایجنڈے پر امریکی سفارتخانوں کے باہر مظاہرے ہوں، جس میں فقط ایک مطالبہ کیا جائے کہ مصر سے خوراک کے ٹرک بلا روک ٹوک غزہ پہنچنے چاہییں۔ یقیناً ہم سب مل کر یہ تو کر ہی سکتے ہیں۔