کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
ہماری بدقسمتی ہے کہ کائناتوں کے خالق کی کتاب جسے اُس نے خود ہدایت، رحمت اور حکمت قرار دیا ہے، ہمارے پاس الماریوں میں پڑی رہتی ہے مگر ہم اس سے مستفیض نہیں ہوتے اور کھول کر نہیں دیکھتے۔ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، اس کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کتابِ حق کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں۔
اگر قرآنِ کریم کو بامحاورہ ترجمے اور کسی بڑے اسکالر کی تشریح کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر بے حد لطف آتا ہے، اپنے خالق کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے اور ہر صفحے پر اس کی رحمتیں اور اس کی حکمتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ کتابِ اﷲ کی سورہ الملک پڑھنی شروع کی تو خالقِ کائنات کی طاقت اور حکمت کا نئے سرے’’نہایت بزرگ وبرتر ہے، وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے۔
(یعنی تمام اختیارات کا مالک اور شہنشاہِ کائنات وہی ہے) اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگذر فرمانے والا بھی۔ جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمان کی تخلیق میں سے کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی‘‘
تاریخ انسانی میں خدا ہونے کا دعویٰ نمرود یا ایک آدھ اور بادشاہ نے کیا ضرور ہے مگر صرف حکمران ہونے کی حد تک۔ خالقِ کائنات ہونے کا دعویٰ کرنے کی ہمّت کسی نے نہیں کی۔ اور پھر اپنی تخلیق کے بارے میں اتنا یقین سے دعویٰ کرنا کہ ’کوشش کرکے دیکھ لو، پوری کائنات میں تمہیں کوئی نقص اور کوئی infimity نظر نہیں آئے گی‘ ، ایسا دعویٰ کائنات کے اصلی اور حقیقی خالق کے سوا کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ یہ دعویٰ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی بار دھرایا ہے مگر دنیا کا کوئی سائنسدان، ریاضی دان یا ماہرِ طبیعات آج تک اس دعوے کو نہیں جھٹلا سکا، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اس کائنات میں حیرت انگیز قسم کا توازن اور تناسب ہے جو ہر باشعور شخص کو نظر آتا ہے۔
اس کی عظیم الشّان کائنات میں کہیں معمولی سا بھی جھول، بدنظمی، بے ترتیبی یا بے ربطی نظر نہیں آتی۔ مفسّرین کی یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان، طاقتور ترین دوربینوں سے بھی دیکھ بیٹھے مگر کہیں کوئی معمولی سی بھی بے ترتیبی نہ ڈھونڈسکے۔ کیا کائنات کی تخلیق اور خالق کے بارے میں صاحبانِ عقل ودانش کے لیے یہی ثبوت کافی نہیں ہے کہ اتنی عظیم الشّان کائنات کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے۔
چند روز پہلے سورہ المرسلت پڑھنے کا موقع ملا ،اس کے آغاز میں ہی اﷲ تعالیٰ نے مختلف قسم کی ہواؤں کی قسم کھائی ہے۔ ہم نے کبھی ہواؤں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا حالانکہ ہوا انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہوا کو ہم اس طرح taken for granted لیتے ہیں کہ اس کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی جاتا رہا ہے۔یقینا ہوا کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ہوا کی قَسم ،ہواؤں کا خالق ہی اٹھا سکتا ہے۔
صاحبِ تفہیم القرآن لکھتے ہیں کہ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ھوا ہے۔ ہوا کا ہر قسم کی زندگی کے ساتھ جو تعلق ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق اور عظیم اور حکیم خالق ہے، جس نے اس کرّۂ خاکی پر زندگی کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا تو پھر ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔اس نے اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں بیشمار مختلف کیفیات پیدا کر دی ہیں جن کی بدولت لاکھوں کروڑوں سالوں سے موسم پیدا ہوتے ہیں۔کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی۔کبھی بادل آتے ہیں۔
کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی تباہ کن طوفان آ جاتے ہیں۔غرض ایک ہوا نہیں، طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔
یہ انتظام کمال درجے کی حکمت اور دانائی کا ثبوت ہے۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بے بس ہے کہ وہ اپنے لیے نہ ہی اپنے مطلب کی ہوا طلب کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے سے روک سکتا ہے۔ یہ ہوائیں انسان کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ اس کے اوپر کوئی زبردست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعے کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے،اور انسان اس کے کسی فیصلے کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
اسی سورہ میں روزِ قیامت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے ’’پھر جب ستارے ماند پڑجائیں گے، اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا، اور پہاڑ دُھنک ڈالے جائیں گے"۔پھر کہا ’’کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا اور ایک مُقرّرہ مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا؟ تو دیکھو ہم اس پر قادر تھے، پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں۔ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی اور اس میں بلند وبالا پہاڑ جمائے، اور تمہیں میٹھا پانی پلایا؟ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے‘‘۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں
’’یہی زمین ہے جس پر ان تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں، مگر ایسا بے نظیر انتظام کردیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔
اِس زمین کو اسپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جس کا موسموں کے تعیّرات میں، بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں، زرخیز وادیوں کے وجود میں، بڑے بڑے شہتیر فراہم کرنے والے درختوں کے اُگنے میں، قسم قسم کی معدنیات اور طرح طرح پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے۔
پھر اس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کردیا گیا ہے، اِ س کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں، اور سمندر کے کھاری پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نِتھرا ہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتطام کیا گیا ہے، کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قادر مطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے، اور وہ محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم وحکیم بھی ہے؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور ان حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اُسی کی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں کیے ہیں؟‘‘
کچھ دوسرے دوستوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ صدیوں کے موسمی تغیرات اور آندھیوں کے سبب مٹی اکٹھی ہو ہو کر بالآخر پہاڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مگر قرآن کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ خالقِ کائنات نے ایک منصوبے کے تحت پہاڑوں کو تخلیق کیا ہے جن کے گونا گوں مقاصد ہیں جن میں سے کچھ کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
اب ماہرینِ ارضیات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پہاڑ صدیوں کے عمل سے وجود میں نہیں آئے بلکہ انھیں خاص طور پر تخلیق کیا گیا ہے۔ خالق نے اپنی تخلیقی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بھی ایک بڑی جاندار دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ انسانی نسل کے تسلسل کے لیے نر اور مادہ دونوں ہونے چاہئیں، اگر دنیا اپنے آپ تخلیق ہوئی ہوتی تو کسی بستی یا ملک میں صرف لڑکے ہی پیدا ہوجاتے اور کہیں صرف لڑکیاں پیدا ہوجاتیں مگر اس دنیا اور انسانوں کا خالق اپنی حکمت کے تحت ہر بستی اور ہرآبادی میں صدیوں سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں پیدا کررہا ہے۔
اگر کوئی نقلی خدا یا کوئی انسان خدائی کا دعویٰ کرتا تو اوّل تو وہ جادو ٹونے کے ذریعے کچھ کرامات دکھانے تک محدود رہتا اور کسی بھی صورت میں سورج، چاند، آسمان اور پوری کائنات کی تخلیق کا بڑا دعویٰ ہرگز نہ کرتا (یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے انسانوں اور آسمانوں کی تخلیق کا دعویٰ نہیں کیا) کیونکہ ایسا کرنے سے وہ بہت جلد پکڑا جاتا اور اس کا بھانڈا پھوٹ جاتا ۔ مگر اﷲ کے دعوے میں صدیوں سے کوئی معمولی سا سقم تلاش نہیں کرسکا۔ انسان کی پیدائش کا بھی قرآن میں بارہا ذکر کیا گیا ہے اور پندرہ صدیاں قبل پیدائش کی تمام stages بتادی گئیں جن سے ماں کے پیٹ میں وہ گذرتا ہے۔ یہ وہ stages ہیں جن سے چند دہائیاں پہلے تک آج کے انسان بھی بالکل ناواقف تھے۔سچّائی جاننے والوں کے لیے کیا یہ بہت بڑی دلیل نہیں ہے اور کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کیا گیا ہے کائنات کی کی تخلیق اور حکمت سکتا ہے کا دعوی نہیں ہے کے ساتھ نہیں کی ہے کہ ا کے لیے کیا یہ ہیں کہ ہے اور اور ان قسم کی
پڑھیں:
تاریخ کی نئی سمت
ایک امیدکی کرن تھی، غزہ کا امن معاہدہ کہ اس کے بعد جنگ کے بادل چھٹ جائیں گے، مگر ایسا لگ نہیں رہا ہے۔ غزہ امن معاہدے کے فوراً بعد امریکا نے روسی تیل کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، یوں ٹرمپ اور پیوتن کے مابین ہنگری میں ہونے والی ملاقات ملتوی ہوگئی۔
پیوتن صاحب اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پچھلے دورکا صدر ٹرمپ واپس آئے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ صدر ٹرمپ جو پہلے روس کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں تھا، تھک گیا اور اب وہ یوکرین کے ساتھ اسی طرح کھڑے ہیں جیسے جوبائیڈن کھڑا تھا۔
نیٹو آج بھی یوکرین کے ساتھ ہے۔ روس کی تیل کمپنیوں پر امریکی پابندی کے بعد، ہندوستان نے اندرونی طور پر امریکا کو یہ یقین دلایا ہے کہ وہ روس سے تیل نہیں خریدیں گے اور ایسا ہی وعدہ چین نے بھی کیا ہے، توکیا ایسا کہنا درست ہوگا کہ جو اتحاد چین نے امریکا کے خلاف بنایا تھا۔
لگ بھگ دو مہینے قبل تقریباً تیس ممالک کے سربراہان کی بیجنگ میں میزبانی کی وہ اس امیج کو برقرار نہ رکھ سکا۔ البتہ چین کی تیز رفتار ٹیکنالوجی نے امریکا کو پریشان ضرورکردیا ہے۔ مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں امریکا کے بعد چین ہی سب سے بڑا نام ہے۔ اس سال کی سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اور چین کے صدرکی ملاقات ہے۔
اس منظر نامے میں روس اب نیوکلیئر جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ روس کا یہ اسٹیٹمنٹ دنیا کو ایک خطرناک موڑ پر لاسکتا ہے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ روس کبھی یہ بیان جاری کرتا ہے کہ انھوں نے اپنے ایٹمی میزائلوں کا رخ برطانیہ کے مخصوص شہروں کی طرف کردیا ہے، پھر وہ جرمنی کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیتے ہیں۔
نیٹو اور یورپین یونین کی تیاری مکمل ہے اگر روس نے کوئی پہل کی۔ کچھ ہی دن قبل روس کے ڈرون نے پولینڈ کی سرحدیں پارکیں اور ایک دو دن پہلے ہی نیٹو نے یورپین یونین کی حدود میں داخل ہوتا روس کا ڈرون مارگرا یا۔
ہندوستان اور پاکستان کشیدگی میں اب افغانستان بھی حصہ دار بن گیا ہے ۔ ہم نے جو ماضی میں غلطیاں کی تھیں، ان سے ہم سبق تو ضرور سیکھ رہے ہیں لیکن وقت بہت گزر چکا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خیال آرائی کی جاتی ہے کہ اندرونی مسائل کے باعث جنگ جھیل نہیں سکے گا اور (خاکم بدہن) پاکستان ٹکڑوں میں بٹ جائے گا۔
یہ تمام خیالات افغان پالیسی سے جڑے تھے۔ جس طرح سے انگریز یہاں اپنے وفاداروں کو جاگیریں بطور انعام بانٹتے تھے، اسی طرح سے ہم نے بھی افغانوں اور ان کے پاکستانی ہم نشینوں اور حامی شرفاء کی ایک نسل تیارکی جنھیں پڑھایا اور یقین دلایا گیا کہ افغانستان کبھی غلام نہیں رہا اور افغان جنگجو قوم ہے۔
ہم نے یہاں مدرسوں میں افغانوں اور پاکستانیوں کی ایک ایسی نسل تیارکی جوکل تک سائیکل چلاتے تھے اور آج درجنوں مسلح محافظوں کے ہجوم میں لگژری گاڑیوں اورڈالوں پر سواری کرتے ہیں ۔
افغان پالیسی کا دیمک ہمیں اندرونی طور پر لگا،اب ہمارے ہر شہر، قصبوں اور گاؤں میں ان کے مفادات کا تحفظ کرنے والے لوگ موجود ہیں، افغان تو حکومت افغانستان میں کرتے تھے، ان کے کاروبار پاکستان میں تھے اور وہ رہتے بھی پاکستان میں تھے۔
پاکستان کے خلاف قوتیں جہاں بھی موجود تھیں، وہاں ہندوستان نے اپنے مراسم بڑھائے۔ ہندوستان نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بڑھائے ، جب ٹرمپ صاحب نے اپنے کارڈزکھیلے تو پتا چلا کہ دوست کو ن اور دشمن کون! جو دوست بن کرکام کررہے تھے، وہ ڈبل گیم کھیل رہے تھے ۔
فرض کریں کہ اگر امریکا کی پالیسی ہندوستان کے حوالے سے اب بھی ویسی ہی ہوتی جیسی کہ جوبائیڈن کے دورِ میں تھی تو یقیناً پاکستان آج بہت مشکل میں ہوتا ، آج پاکستان کے ساتھ امریکا بھی ہے اور چین بھی۔ سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ہمیشہ ہی اچھے رہے لیکن اب ان میں مزید مضبوطی پیدا ہوئی ہے۔
اپنی صف میں ہم نے دراصل ایک دشمن کی پہچان کی ہے۔ وہ دشمن جو بھائی بنا رہا لیکن اب ہندوستان کی گود میں بیٹھا ہے ۔ اور طالبان کو یہ سمجھ آگیا ہے کہ اگر وہ حدیں پارکرتا ہے تو پاکستان ان کی حکومت کو ختم کرسکتا ہے۔ اب ہندوستان میں آنے والے انتخابات میں مودی کی شکست واضح نظر آرہی ہے ۔
ہندوستان کے اندر متبادل قیادت ابھرنے والی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں برِصغیر ہیں، دونوں کی تاریخ ایک ہے، دونوں نے حملہ آوروں کا مقابلہ کیا ہے، لہٰذا دونوں ممالک کے درمیان امن ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کے درمیان جنگ میں دنیا خوش ہوگی لیکن دونوں ممالک کی عوام نہیں۔ افغانستان بھی امن کے ساتھ رہنا چا ہتا ہے، ’ہاں‘ اگر طالبان اور انتہاپسند افغانستان کا ماضی بن جائیں۔
مودی صاحب جو ہندوستان کو دنیا کی چوتھی طاقت بنانا چاہتا تھا وہ اب ہندوستان کی معیشت کے لیے خود مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نریندر مودی کے دور میں ہندوستان کی معیشت مضبوط ہوئی مگر اب ہندوستان کی تجارت کو مشکلات کا سامنا ہے اور وجہ ہے امریکا کی ناراضگی۔
گزشتہ تین چار برسوں میں پاکستان نے اپنی خارجہ پالیسی میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ بہتری کے حوالے سے ہماری معیشت نے وہ ٹارگٹ تو حاصل نہیں کیا لیکن مستحکم ضرور ہوئی ہے اور ترقی کی رفتار بھی بہتر ہے۔
افغانستان والے گوریلا وار کے ماہر ہیں۔ وہ پاکستان کے ساتھ روایتی جنگ نہیں لڑ سکتے۔ ہندوستان کا افغانستان کے ساتھ مل کر جنگ لڑنا آسان نہیں۔ جنگ کے لیے جذبہ ہونا لازمی ہے اور اس حوالے سے ہندوستان کی فوج بہت کمزور ہے۔
اسی جذبے کی تحت پاکستان کے افواج آج دنیا میں سرخرو ہیں۔ مودی صاحب کی ہٹ دھرمی کو ٹرمپ صاحب ایک ہی وار میں توڑ دیا۔ یہ چرچا پوری دنیا میں عام ہے۔ہندوستان نے اپنے اتحادیوں کو بری طرح سے نالاں کیا ہے، جن پتوں پر ان کو ناز تھا آج وہ ہی پتے ہوا دینے لگے۔
نادرن افغانستان، محمد شاہ مسعود اب ہماری طرف دیکھ رہے ہیں۔ ایک لبرل اور اعتدال پسند افغانستان کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہیں۔ ہمیں ان ماڈرن افغانستان کی بات کرنے والی قوتوں کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
پاکستان کی سیاست میں ایک نئی فالٹ لائن پیدا ہوئی ہے۔ موجودہ حکومت یقینا ایک ہائبرڈ گورنمنٹ ہے اور بری حکمرانی ہے سکہ رائج الوقت لیکن اس وقت کوئی نعم البدل نہیں اور اگر ہے بھی تو تباہی ہے،کیونکہ ان کے تانے بانے بھی طالبان سے ملتے ہیں۔
نو مئی کا واقعہ یا اسلام آباد پر حملے ان تمام کاروائیوں میں افغان بھی ملوث تھا۔نئے بین الاقوامی اتحاد بن بھی رہے ہیں اور ٹوٹ بھی رہے ہیں۔ یوکرین کی جنگ کے تناظر میں یہاں بہت کچھ بدل گیا ہے۔
ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کے اس دور میں ہمیں اپنی بقاء کے لیے اتنی ہی تیزی سے تبدیلیاں لانی ہونگی۔ یقینا پاکستان آگے بڑھے گا، بہ شرط کہ ہم اپنی تاریخ کی سمت درست کریں۔