Express News:
2025-09-18@13:53:18 GMT

کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT

ہماری بدقسمتی ہے کہ کائناتوں کے خالق کی کتاب جسے اُس نے خود ہدایت، رحمت اور حکمت قرار دیا ہے، ہمارے پاس الماریوں میں پڑی رہتی ہے مگر ہم اس سے مستفیض نہیں ہوتے اور کھول کر نہیں دیکھتے۔ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، اس کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کتابِ حق کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں۔

اگر قرآنِ کریم کو بامحاورہ ترجمے اور کسی بڑے اسکالر کی تشریح کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر بے حد لطف آتا ہے، اپنے خالق کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے اور ہر صفحے پر اس کی رحمتیں اور اس کی حکمتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ کتابِ اﷲ کی سورہ الملک پڑھنی شروع کی تو خالقِ کائنات کی طاقت اور حکمت کا نئے سرے’’نہایت بزرگ وبرتر ہے، وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے۔

(یعنی تمام اختیارات کا مالک اور شہنشاہِ کائنات وہی ہے) اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگذر فرمانے والا بھی۔ جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمان کی تخلیق میں سے کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی‘‘

تاریخ انسانی میں خدا ہونے کا دعویٰ نمرود یا ایک آدھ اور بادشاہ نے کیا ضرور ہے مگر صرف حکمران ہونے کی حد تک۔ خالقِ کائنات ہونے کا دعویٰ کرنے کی ہمّت کسی نے نہیں کی۔ اور پھر اپنی تخلیق کے بارے میں اتنا یقین سے دعویٰ کرنا کہ ’کوشش کرکے دیکھ لو، پوری کائنات میں تمہیں کوئی نقص اور کوئی infimity نظر نہیں آئے گی‘ ، ایسا دعویٰ کائنات کے اصلی اور حقیقی خالق کے سوا کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ یہ دعویٰ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی بار دھرایا ہے مگر دنیا کا کوئی سائنسدان، ریاضی دان یا ماہرِ طبیعات آج تک اس دعوے کو نہیں جھٹلا سکا، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اس کائنات میں حیرت انگیز قسم کا توازن اور تناسب ہے جو ہر باشعور شخص کو نظر آتا ہے۔

اس کی عظیم الشّان کائنات میں کہیں معمولی سا بھی جھول، بدنظمی، بے ترتیبی یا بے ربطی نظر نہیں آتی۔ مفسّرین کی یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان، طاقتور ترین دوربینوں سے بھی دیکھ بیٹھے مگر کہیں کوئی معمولی سی بھی بے ترتیبی نہ ڈھونڈسکے۔ کیا کائنات کی تخلیق اور خالق کے بارے میں صاحبانِ عقل ودانش کے لیے یہی ثبوت کافی نہیں ہے کہ اتنی عظیم الشّان کائنات کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے۔

چند روز پہلے سورہ المرسلت پڑھنے کا موقع ملا ،اس کے آغاز میں ہی اﷲ تعالیٰ نے مختلف قسم کی ہواؤں کی قسم کھائی ہے۔ ہم نے کبھی ہواؤں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا حالانکہ ہوا انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہوا کو ہم اس طرح taken for granted لیتے ہیں کہ اس کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی جاتا رہا ہے۔یقینا ہوا کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ہوا کی قَسم ،ہواؤں کا خالق ہی اٹھا سکتا ہے۔

صاحبِ تفہیم القرآن لکھتے ہیں کہ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ھوا ہے۔ ہوا کا ہر قسم کی زندگی کے ساتھ جو تعلق ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق اور عظیم اور حکیم خالق ہے، جس نے اس کرّۂ خاکی پر زندگی کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا تو پھر ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔اس نے اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں بیشمار مختلف کیفیات پیدا کر دی ہیں جن کی بدولت لاکھوں کروڑوں سالوں سے موسم پیدا ہوتے ہیں۔کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی۔کبھی بادل آتے ہیں۔

کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی تباہ کن طوفان آ جاتے ہیں۔غرض ایک ہوا نہیں، طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔

یہ انتظام کمال درجے کی حکمت اور دانائی کا ثبوت ہے۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بے بس ہے کہ وہ اپنے لیے نہ ہی اپنے مطلب کی ہوا طلب کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے سے روک سکتا ہے۔ یہ ہوائیں انسان کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ اس کے اوپر کوئی زبردست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعے کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے،اور انسان اس کے کسی فیصلے کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اسی سورہ میں روزِ قیامت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے ’’پھر جب ستارے ماند پڑجائیں گے، اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا، اور پہاڑ دُھنک ڈالے جائیں گے"۔پھر کہا ’’کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا اور ایک مُقرّرہ مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا؟ تو دیکھو ہم اس پر قادر تھے، پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں۔ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی اور اس میں بلند وبالا پہاڑ جمائے، اور تمہیں میٹھا پانی پلایا؟ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے‘‘۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں

’’یہی زمین ہے جس پر ان تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں، مگر ایسا بے نظیر انتظام کردیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔

اِس زمین کو اسپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جس کا موسموں کے تعیّرات میں، بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں، زرخیز وادیوں کے وجود میں، بڑے بڑے شہتیر فراہم کرنے والے درختوں کے اُگنے میں، قسم قسم کی معدنیات اور طرح طرح پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے۔

پھر اس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کردیا گیا ہے، اِ س کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں، اور سمندر کے کھاری پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نِتھرا ہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتطام کیا گیا ہے، کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قادر مطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے، اور وہ محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم وحکیم بھی ہے؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور ان حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اُسی کی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں کیے ہیں؟‘‘

کچھ دوسرے دوستوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ صدیوں کے موسمی تغیرات اور آندھیوں کے سبب مٹی اکٹھی ہو ہو کر بالآخر پہاڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مگر قرآن کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ خالقِ کائنات نے ایک منصوبے کے تحت پہاڑوں کو تخلیق کیا ہے جن کے گونا گوں مقاصد ہیں جن میں سے کچھ کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

اب ماہرینِ ارضیات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پہاڑ صدیوں کے عمل سے وجود میں نہیں آئے بلکہ انھیں خاص طور پر تخلیق کیا گیا ہے۔ خالق نے اپنی تخلیقی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بھی ایک بڑی جاندار دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ انسانی نسل کے تسلسل کے لیے نر اور مادہ دونوں ہونے چاہئیں، اگر دنیا اپنے آپ تخلیق ہوئی ہوتی تو کسی بستی یا ملک میں صرف لڑکے ہی پیدا ہوجاتے اور کہیں صرف لڑکیاں پیدا ہوجاتیں مگر اس دنیا اور انسانوں کا خالق اپنی حکمت کے تحت ہر بستی اور ہرآبادی میں صدیوں سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں پیدا کررہا ہے۔

اگر کوئی نقلی خدا یا کوئی انسان خدائی کا دعویٰ کرتا تو اوّل تو وہ جادو ٹونے کے ذریعے کچھ کرامات دکھانے تک محدود رہتا اور کسی بھی صورت میں سورج، چاند، آسمان اور پوری کائنات کی تخلیق کا بڑا دعویٰ ہرگز نہ کرتا (یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے انسانوں اور آسمانوں کی تخلیق کا دعویٰ نہیں کیا) کیونکہ ایسا کرنے سے وہ بہت جلد پکڑا جاتا اور اس کا بھانڈا پھوٹ جاتا ۔ مگر اﷲ کے دعوے میں صدیوں سے کوئی معمولی سا سقم تلاش نہیں کرسکا۔ انسان کی پیدائش کا بھی قرآن میں بارہا ذکر کیا گیا ہے اور پندرہ صدیاں قبل پیدائش کی تمام stages بتادی گئیں جن سے ماں کے پیٹ میں وہ گذرتا ہے۔ یہ وہ stages ہیں جن سے چند دہائیاں پہلے تک آج کے انسان بھی بالکل ناواقف تھے۔سچّائی جاننے والوں کے لیے کیا یہ بہت بڑی دلیل نہیں ہے اور کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیا گیا ہے کائنات کی کی تخلیق اور حکمت سکتا ہے کا دعوی نہیں ہے کے ساتھ نہیں کی ہے کہ ا کے لیے کیا یہ ہیں کہ ہے اور اور ان قسم کی

پڑھیں:

جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !

بچھڑے آبائی شہرمیں قدم رکھتے ہی یادوں کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں، مگر آج اس شہر میں قدم رکھا، تو یوں لگا، جیسے یہ کوئی اور ہی شہر ہو۔ پورا شہر پانی میں ڈوبا ہوا، کسی دریا کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بعض محلوں میں کشتیوں کے ذریعہ شہریوں کو کھانے پینے کا سامان پہنچایا جا رہا تھا۔

یہ دلدوز مناظر آج تک اس شہر کی آنکھوں نے نہیں دیکھے تھے؛ اس وقت بھی نہیں، جب کہتے ہیں کہ دریاے چناب شہر کے ایک بیرونی دروازے کے پاس سے گزرتا تھا۔ یہ دروازہ، جو بعد میں اس مقام پر صاحب مزار شاہدولہ دریائی کے نام سے منسوب ہوا، گجرات شہر کے ان چار بیرونی دروازوں میں سے ایک تھا، جو مغل بادشاہ اکبرکے زمانے میں دریائے چناب کے کنارے بلند ٹیلے پر’اکبری قلعہ‘ کی تعمیر کے بعد اس کے گردا گرد بتدریج بس جانے والی بستی کے داخلی و خارجی راستے تھے، اور رات کو بند کر دیے جاتے تھے۔ تاہم، یہ شہر اس سے دو ہزار سال قبل راجہ پورس کے عہد میں بھی آباد تھا، جس کی راجدھانی دوآبہ چج ( دریاے چناب اور دریاے جہلم کے درمیانی علاقہ، موجودہ ضلع گجرات ) میں قائم تھی، اور عسکری طورپر یہ اس کا اہم ترین شہر تھا۔

یاد رہے کہ سنسکرت اور قدیم ہندی میں گج کے معنی ’ہاتھی‘ اورگجرات کے ’ہاتھی بان‘ کے ہیں۔ راجہ پورس اور اس کی فوج کی وجہ شہرت یہی ہاتھی اور ہاتھی بان تھے، ا ور یہ شہرت اس وقت مقدونیہ ( یونان ) تک پہنچ گئی، جب راجہ پورس نے مقدونیہ کے خلاف ایران کے بادشاہ دارا کو ہاتھی دستے کی کمک فراہم کی تھی۔ ابھی چند سال پہلے تک بھی یہ شہر اپنی سیاسی اہمیت کے لحاظ سےKing's City  کہلاتا تھا۔ اس پس منظر میں اندرون اور بیرون ملک ہر جگہ گجرات شہر ڈوبنے کے روح فرسا مناظر ناقابل یقین تھے۔

حیرت انگیز طور پر اکبری قلعہ سے متصل شہر کا مرکزی بازار بھی زیرآب آ چکا تھا۔ شورومز کے بیسمنٹ اسٹور تباہ، جب کہ اونچی عمارتوںکے زیرزمین پارکنگ سینٹر تالاب بن گئے تھے۔ محلوں میں گھروں کے آگے اس طرح جم کے کھڑا ہو گیا تھا کہ شہریوں کا باہر نکلنا ناممکن تھا۔ شہر کے وسط میں مسلم اسکول اور نارمل ایلیمنٹری اسکول، جو سڑک کی سطح سے نیچے ہیں، کے اندونی مناظر دل دہلا دینے والے تھے۔

مجھے یاد ہے کہ جب مسلم ہائی اسکول شیشیانوالہ گیٹ کی پرانی عمارت چھن جانے کے بعد نارمل اسکول کی اس عمارت میں منتقل ہوا، تو پہلے پہل ہم انھی کمروں، برآمدوں اور ان کے باہر سبزہ زاروں میں درختوں اور پیڑوں کے نیچے بیٹھ کے پڑھا کرتے تھے، جو آج گہرے پانی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ وہ بڑا کمرہ جو ہیڈماسٹر نیک عالم صاحب کا دفتر ہوتا تھا، اس کے اندر دیوار پر صرف قائداعظم کی تصویر سلامت بچی تھی، نیچے سب کچھ پانی میں گم ہو چکا تھا۔ اسکول کے عقب میں وسیع گراونڈ، جس میں چھٹی کے بعد شام تک بیک وقت درجنوں کرکٹ ٹیمیں کھیل رہی ہوتی تھیں، جوہڑ بن چکی تھی۔

علامہ اقبال نے میٹرک کا امتحان اسی اسکول کے امتحانی ہال میں دیا تھا ،جو اب ’اقبال ہال‘ کہلاتا ہے، وہ بھی غرق ِآب تھا۔ محلہ غریب پورہ، اس میں واقع گورنمنٹ گرلز اسکول، ا ورگردونواح کے محلے بھی آفت زدہ علاقوں کا نقشہ پیش کر رہے تھے۔ اسٹیڈیم،کچہری، اسپتال، اسکول،کالج، یونیورسٹی، میونسپل کارپوریشن، سرکاری دفاتر، قبرستان، کوئی چیز بھی پانی کی دستبرد سے محفوظ نظر نہ آرہی تھی۔ اس سے بھی کرب ناک احساس یہ تھا کہ اس نازک اور مشکل گھڑی میںگجرات کے نام نہاد ’ ’منتخب نمایندوں‘‘ میں سے کوئی بھی تباہ حال شہر اور اس کے شہریوں کی ڈھارس بندھانے کے لیے موجود نہ تھا، یا عوامی غیظ و غضب کے خوف سے اس کی جرات نہیں کر پا رہا تھا۔

معلوم ہوا، گزشتہ شب پانی شہر میں داخل ہوا، تو اس سے قبل شہر میں طوفانی بارش ضرور ہوئی، مگر یہ تھم چکی تھی، بلکہ دریائے چناب سے پانی کا خطرناک سیلابی ریلا بھی شہر کو گزند پہنچائے بغیرگزر چکا تھا۔ آزادکشمیر سے موسلادھار بارشوں اور ندی نالوں کے بپھرنے کی اطلاعات ضرور آ رہی تھیں، مگر انتظامیہ اور’منتخب نمایندوں‘ کی طرف سے کہا جا رہا تھا کہ خطرے کی بات نہیں، ان نالوں کے آگے حفاظتی بند باندھے جا چکے ہیں۔

یوں اہل شہر ان کے بھروسے پر اطمینان سے سو گئے؛ مگرسوہنی کے شہر کے باسیوں کو کیا خبر تھی کہ اس طرح کے طوفانوں میں وہ کبھی جس کے مضبوط کندھوں کے سہارے دریا کے پار محفوظ اُتر جایا کرتے تھے، وہ پکا گھڑا کب کا کچے گھڑوں سے بدلا جا چکا ہے۔ سو، آدھی رات کے بعد جب شہر میں اچانک سائرن بجنا اور مسجدوں سے اذانیں اور اعلانات ہونا شروع ہوئے، اورشہری بازاروںکی طرف اپنی جمع پونجی بچانے کے لیے بھاگ رہے تھے، اورگھروں میں ضروری سامان چھتوں اور ممٹیوں پر پھینک رہے تھے، جو اس طوفانی رات میں ’ سوہنی‘ کی تھی، جس کا کچا گھڑا پانی میںگھل رہا تھا،وہ پکار رہی تھی، ’مینوں پار لنگھا دے وے گھڑیا منتاں تیریاں کردی‘۔ مگر،کوئی آہ و فریادکام نہ آئی۔

کچھ ہی دیر میں ’سوہنی‘ ڈوب چکی تھی، اور پانی اس کے شہر پر قابض ہو چکا، اورسانپ کی طرح پھنکار رہا تھا۔ کہا جاتا ہے، بہت سارے شہری اس وجہ سے بھی اپنا مال اسباب بچانے کے لیے بروقت کاروباری مراکز، دکانوں، بیسمنٹوں اور زیرزمین پارکنگز میں نہ پہنچ سکے کہ آخری وقت پر بھی ان کو خطرے کی حقیقی نوعیت کے بارے میںکچھ بتانے کی ضرورت نہ سمجھی گئی۔ ستم یہ ہے، جب سارا شہر ڈوب چکا تھا، تب بھی وزیراعلیٰ کو انتظامیہ کی طرف سے یہی بتایا جا رہا تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں، صرف شہر کے بیس فی صد حصہ میں کچھ ’اضافی پانی‘ جمع ہو گیا ہے۔

شہر کیوں ڈوبا ؟ اس حوالہ سے متعدد کہانیاں زیر ِگردش ہیں۔ ایک کہانی یہ ہے کہ نالہ بھمبرکے سیلابی پانی کو شہر کی طرف جانے سے روکنے کے لیے جو بند باندھے گئے، رات کو کسی نے ان کو توڑ کر پانی کا رخ شہرکی طرف موڑ دیا، اور ایک نہیں، دومرتبہ یہ وقوعہ ہوا۔ اس پر لوگ سوال کرتے ہیں کہ کس طرح محض چند افراد بغیر کسی موثر پشت پناہی کے پورا شہر ڈبونے کی جرات کر سکتے ہیں۔

ایک کہانی یہ ہے کہ مون سون میں آزادکشمیر کی طرف سے آنے والے بارشی پانی کی راہ میں ناجائز تجاوزات کے باعث اس کے دریا کی طرف قدرتی بہاو کے راستے بند ہو چکے ہیں۔ جب اس پانی کو نکاس کے لیے قدرتی راستہ نہیں ملا، تو اس نے شہر کا رخ کر لیا۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شہر چونکہ حکومت مخالف تحریک انصاف اور چوہدری پرویزالٰہی کا سپورٹر ہے۔

 اس لیے حکومت اور اس کے مقامی اتحادیوں کو شہرکی کوئی پروا نہ تھی کہ جب شہر نے انھیں ووٹ ہی نہیں دیا، تو ان کی بلا سے شہر ڈوبے یا ترے۔ ماضی میں اس طرح کی صورتحال میں جو لوگ شہر کے ’ناقص سیوریج سسٹم‘کو مورد الزام ٹھیرا کے بری الذمہ ہو جاتے تھے، آج ان کی مشکل یہ ہے کہ اپنی وزیراعلیٰ کے ہمراہ اسی گروپ کے پہلو میں بیٹھے ہیں۔ تحریک انصاف کے صدر چوہدری پرویزالٰہی اور سلمان اکرم راجہ چند روز پہلے متاثرین کی دلجوئی کے لیے آئے اور جو انکشاف کیا ، وہ بھی ان دنوں شہر میں زبان زد خاص وعام ہے۔ ان کا کہنا تھا، انھوں نے جیل چوک سے بولے پل تک بارشی پانی کی نکاسی کے لیے جو پائب لائن بچھائی تھی، اسے شاہ حسین اور چاہ ترنگ نالوں پرکنکریٹ کی سڑکیں بنا کر غیر موثر کر دیا گیا، بلکہ ان کی مخالفت میں نکاسی آب کے ان کے دوسرے منصوبے بھی روک دیے گئے۔

یہ حقیقت ہے، اگر دریاے چناب کے پانی کو شہر میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے چوہدری پرویزالٰہی نے اپنے پہلے دور میں بند نہ بنوائے ہوتے، اور دریا ے چناب کا پانی بھی شہر میں داخل ہو جاتا، تو جو خوفناک حالات پیدا ہوتے، ان کے تصور ہی سے روح کانپ اٹھتی ہے۔

بہرحال یہ تو شاید کبھی معلوم نہ ہو سکے کہ شہر محض کسی کی غفلت یا نااہلی سے ڈوبا، یا انتہائی درجہ کی سفاکی کا شکار ہوا، مگر یہ واضح ہے کہ اس تباہی و بربادی کا ازالہ کرنا اب آسان نہیں، بلکہ سیاسی طور پر بھی یہ شہر اب عرصہ تک اس خوداعتمادی سے محروم رہے گا، جو گزشتہ دو عشروں میں سیاسی، تجارتی اور تعلیمی میدانوں میں شہر کی مسلسل پیش رفت سے اس کے اندر پیدا ہو چکی تھی۔ جن لوگوں نے یہ شہر ڈوبتے اور اس کے کئی روز بعد تک اسے بے یارومدگاراور خانماں برباد دیکھا ہے، وہ یہ اندوہ گیں مناظرکبھی فراموش نہیں کر سکیں گے، بلکہ حیرت اور افسوس کے ساتھ اپنے بچوں کو بھی سنایا کریں گے، بقول حافظؔ

 شب ِ تاریک و بیم ِ موج و گردابی چنین ہائل

کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحلہا

متعلقہ مضامین

  • اسپین نے غزہ میں اسرائیلی جرائم کی تحقیقات کی منظوری دے دی
  • سیاسی بیروزگاری کے رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی‘ پی پی اس بیانیے میں شامل نہ ہو: عظمیٰ بخاری
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی، عظمیٰ بخاری
  •  اسرائیل کی مذمت کافی نہیں، دنیا کو اب اسرائیل کا راستہ روکنا ہوگا: نائب وزیراعظم
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی ہی کافی تھی، پیپلزپارٹی کو شامل ہونے کی ضرورت نہیں تھی
  • سیاسی بیروزگاری کا رونا رونے کیلئے پی ٹی آئی کافی، پیپلز پارٹی کو کیا ضرورت پڑگئی؟ عظمی بخاری
  • اسرائیل کے حملوں کی صرف مذمت کافی نہیں اب واضح لائحہ عمل دینا ہوگا، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار