امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ( یو ایس سی آر ایف) نے اقلیتوں کے ساتھ بدترسلوک پر پاکستانی حکام اور سرکاری اداروں جبکہ بھارت کی جاسوس ایجنسی ’ را ’ پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کردی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق مذہبی آزادی سے متعلق امریکی پینل ’ امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی ’ نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک بدتر ہوتا جا رہا ہے، کمیشن نے پاکستان کے حکام اور سرکاری ایجنسیوں پر پابندیاں عائد کرنے ، اور بھارت کی بیرونی جاسوسی ایجنسی ( را ) پر سکھ علیحدگی پسندوں کو قتل کرنے کی مبینہ سازشوں میں ملوث ہونے پر پابندیاں عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔ یہ کمیشن ایک دو طرفہ امریکی حکومتی مشاورتی ادارہ ہے جو بیرون ملک مذہبی آزادی کی نگرانی کرتا ہے اور پالیسی سفارشات پیش کرتا ہے۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2024 میں، پاکستان میں مذہبی آزادی کے حوالے سے حالات بدستور خراب ہوتے رہے۔
مذہبی اقلیتی برادریاں – خاص طور پر عیسائی، ہندو اور شیعہ(مسلمان)اور (احمدی) – پاکستان کے سخت توہین رسالت قانون کے تحت ظلم و ستم اور مقدمات کا بوجھ برداشت کرتی رہیں اور پولیس اور عوام دونوں کی طرف سے تشدد کا شکار ہوتی رہیں، جبکہ اس طرح کے تشدد کے ذمے دار افراد کو شاذ و نادر ہی قانونی نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات نے خوف، عدم برداشت اور تشدد کے بدتر مذہبی اور سیاسی ماحول کو فروغ دیا۔
یو ایس سی آئی آر ایف کی جانب سے منگل کو جاری ہونے والی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ توہین رسالت کے الزامات اور اس کے نتیجے میں ہونے والے ہجوم کے تشدد کی وجہ سے پاکستان میں مذہبی اقلیتی برادریاں شدید متاثر ہورہی ہیں۔ رپورٹ میں اس توہین رسالت کے کئی واقعات بھی درج کیے گئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ احمدی برادری کے خلاف ’ پر تشدد حملے اور منظم ہراسانی’ پورے سال جاری رہی جس کے نتیجے میں کل چار اموات ہوئیں۔
ایک اور مسئلہ جس پر روشنی ڈالی گئی وہ ملک کی مسیحی اور ہندو خواتین اور لڑکیوں میں ’ جبری تبدیلی مذہب کا بدتر ہوتا ہوا رجحان’ تھا۔
کمیشن نے سفارش کی کہ امریکی انتظامیہ ’ مذہبی آزادی کی سنگین خلاف ورزیوں کے ذمہ دار پاکستانی عہدیداروں اور سرکاری ایجنسیوں پر ہدفی پابندیاں عائد کرے’۔ ادارے نے مخصوص مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی انتظامیہ سے پاکستانی عہدیداروں کے اثاثے منجمد کرنے اور/یا انسانی حقوق سے متعلق مالی اور ویزا حکام کے تحت امریکا میں ان کے داخلے پر پابندی عائد کرنے کی سفارش کی ہے۔
پینل نے سفارش کی کہ پاکستان کو بین الاقوامی مذہبی آزادی ایکٹ کے تحت بیان کردہ ’ مذہبی آزادی کی منظم، جاری اور سنگین خلاف ورزیوں’ میں ملوث ہونے پر ’ خاص تشویش والے ملک’ کے طور پر دوبارہ نامزد کیا جانا چاہیے۔
پینل نے مزید تجویز دی کہ امریکی حکومت کو آئی آر ایف اے کے سیکشن 405 کے تحت پاکستان کے ساتھ ایک پابند معاہدہ کرنا چاہیے تاکہ مذہب یا عقیدے کی آزادی کی خلاف ورزیوں سے نمٹنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔
ان اقدامات میں توہین رسالت کے قیدیوں اور مذہب یا عقائد کی وجہ سے قید دیگر افراد کو رہا کرنا؛ توہین رسالت اور احمدی مخالف قوانین کو منسوخ کرنا، اور جب تک ایسی منسوخی نہ ہو، توہین رسالت کو قابل ضمانت جرم بنانے کے لیے اصلاحات نافذ کرنا، مدعیوں کی طرف سے ثبوت طلب کرنا، سینئر پولیس افسران کے ذریعہ مناسب تحقیقات کروانا، اور حکام کو بے بنیاد الزامات کو مسترد کرنے کی اجازت دینا؛ جھوٹی گواہی اور جھوٹے الزامات کو جرم قرار دینے والے موجودہ ضابطہ فوجداری کے مضامین کو نافذ کرنا اور ان افراد کو جوابدہ ٹھہرانا جو تشدد، ٹارگٹ کلنگ، جبری تبدیلی مذہب اور دیگر مذہبی بنیاد پر جرائم پر اکساتے یا ان میں حصہ لیتے ہیں۔
پاکستان کو آخری بار جنوری 2024 میں ’ خاص تشویش والا ملک’ نامزد کیا گیا تھا، جبکہ بھارت کو نہیں۔
دریں اثناءرپورٹ میں بھارت کے بارے میں کہا گیا کہ 2024 میں، بھارت میں مذہبی آزادی کے حوالے سے حالات بدستور خراب ہوتے رہے کیونکہ مذہبی اقلیتوں کے خلاف حملے اور امتیازی سلوک میں اضافہ جاری رہا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے گزشتہ سال کی انتخابی مہم کے دوران ’مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کی اور غلط معلومات پھیلائیں۔
بھارت نے آج اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے ’ جانبدار اور سیاسی طور پر محرک اندازوں’ کے سلسلے کا حصہ قرار دیا۔

بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے ایک بیان میں کہا، ’ یو ایس سی آئی آر ایف کی طرف سے خال خال واقعات کو غلط انداز میں پیش کرنے اور بھارت کے متحرک کثیر الثقافتی معاشرے پر نازیبا تبصرے کرنے کی مسلسل کوششیں مذہبی آزادی کے لیے حقیقی تشویش کے بجائے ایک سوچے سمجھے ایجنڈے کی عکاسی کرتی ہیں۔’
واشنگٹن نے ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے بارے میں مشترکہ خدشات کے پیش نظر بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں، واشنگٹن نے انسانی حقوق کے مسائل کو نظر انداز کیا ہے۔
2023 سے، امریکا اور کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کو مبینہ طور پر نشانہ بنانے کا بھارتی عمل امریکا-بھارت تعلقات میں ایک رکاوٹ کے طور پر سامنے آیا ہے، واشنگٹن نے ایک ناکام سازش میں سابق بھارتی انٹیلی جنس افسر، وِکاش یادو پر فرد جرم عائد کی ہے۔دوسری جانب بھارت سکھ علیحدگی پسندوں کو سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے اور اس نے سکھ علیحدگی پسندوں کو نشانہ بنانے میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
مود ی نے گزشتہ سال اپریل میں مسلمانوں کو ’ درانداز’ قرار دیا تھا جن کے ’ زیادہ بچے’ ہوتے ہیں۔ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹس میں حالیہ برسوں میں اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر کیا گیا ہے۔ نئی دہلی ان رپورٹس کو ’ انتہائی جانبدار’ قرار دیتا ہے۔
نریندر مودی، جو 2014 سے وزیر اعظم ہیں، اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی حکومت کی پالیسیاں تمام برادریوں کی مدد کرتی ہیں جیسے بجلی کی فراہمی کی مہمات اور سبسڈی اسکیمیں۔
انسانی حقوق کے علمبردار اس کے جواب میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیز تقاریر، ایک شہریت کا قانون جسے اقوام متحدہ نے’ بنیادی طور پر امتیازی“’ قرار دیا، تبدیلی مذہب مخالف قانون جسے ناقدین عقیدے کی آزادی کو چیلنج کرنے والا کہتے ہیں، مسلم اکثریتی بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی، اور مسلمانوں کی ملکیت والی املاک کی مسماری کی نشاندہی کرتے ہیں۔
امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے امریکی حکومت کو سفارش کی ہے کہ وہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو ’ خاص تشویش والے ملک’ کے طور پرنامزد کرے اور یادو اور بھارت کی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ (را) جاسوسی سروس کے خلاف ہدفی پابندیاں عائد کرے۔  تاہم، یہ امکان نہیں ہے کہ امریکی حکومت ’ را ’ پر پابندیاں عائد کرے گی کیونکہ وہ کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی ا زادی مذہبی ا زادی کی پابندیاں عائد امریکی حکومت خلاف ورزیوں توہین رسالت ا ئی ا ر ایف اقلیتوں کے یو ایس سی ا رپورٹ میں اور بھارت کی حکومت سفارش کی کی سفارش میں کہا کے خلاف کرنے کی کے ساتھ کے لیے کے تحت

پڑھیں:

ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک بار خفگی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب امریکی عدالت نے ان کے ایک اور حکم نامے کو معطل کردیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایک وفاقی جج نے وائس آف امریکا (VOA) کو بند کرنے کے ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی حکم نامے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے عمل درآمد سے روک دیا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت کی جانب سے فنڈنگ میں کٹوتیوں کے باعث وائس آف امریکا اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار خبر رسانی سے قاصر رہا۔

جج رائس لیمبرتھ نے کہا کہ حکومت نے وائس آف امریکا کو بند کرنے کا اقدام ملازمین، صحافیوں اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین پر پڑنے والے اثرات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُٹھایا۔

عدالت نے حکم دیا کہ وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا، اور مڈل ایسٹ براڈ کاسٹنگ نیٹ ورکس کے تمام ملازمین اور کنٹریکٹرز کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے۔

جج نے یہ بھی کہا کہ حکومت نے ان اقدامات کے ذریعے انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ ایکٹ اور کانگریس کے فنڈز مختص کرنے کے اختیار کی خلاف ورزی کی۔

وائس آف امریکا VOA کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور مقدمے میں مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے انصاف پر مبنی فیصلے پر عدالت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ حکومت عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

انہوں نے مزید کہا ہم وائس آف امریکا کو غیر قانونی طور پر خاموش کرنے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، جب تک کہ ہم اپنے اصل مشن کی جانب واپس نہ آ جائیں۔

امریکی عدالت نے ٹرمپ حکومت کو حکم دیا ہے کہ ان اداروں کے تمام ملازمین کی نوکریوں اور فنڈنگ کو فوری طور پر بحال کرے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکا سمیت دیگر اداروں کے 1,300 سے زائد ملازمین جن میں تقریباً 1,000 صحافی شامل تھے کو جبری چھٹی پر بھیج دیا گیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے ان اداروں پر " ٹرمپ مخالف" اور "انتہا پسند" ہونے کا الزام لگایا تھا۔

وائس آف امریکا نے ریڈیو نشریات سے دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے آغاز کیا تھا اور آج یہ دنیا بھر میں ایک اہم میڈیا ادارہ بن چکا ہے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ طویل عرصے سے VOA اور دیگر میڈیا اداروں پر جانبداری کا الزام عائد کرتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بناتے آئے ہیں۔

اپنے دوسرے دورِ صدارت کے آغاز میں ٹرمپ نے اپنی سیاسی اتحادی کاری لیک کو VOA کا سربراہ مقرر کیا تھا جو ماضی میں 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے دھاندلی کے دعووں کی حمایت کر چکی ہیں۔

 

 

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اقدامات کے خلاف اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کے باہر احتجاجی مظاہرہ
  • بھارتی شہری 48 گھنٹے میں پاکستان چھوڑ دیں،سکھ یاتریوں پر ویزہ پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوگا،نائب وزیر اعظم
  • پہلگام واقعہ مودی کی ہندوتوا پالیسی کا نتیجہ ہے؛ کانگریس رہنما
  • پہلگام واقعے کے بعد بھارت کی اوچھی حرکت؛ حکومت پاکستان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک
  • یمن کیجانب سے ہمارے قیمتی اثاثوں پر حملے جاری ہیں، واشنگٹن کی دہائی
  • بھارت کا سندھ طاس معاہدہ معطل ، واہگہ بارڈر بند کرنے کا اعلان
  • بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا، نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن بند کرنے کا اعلان
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • امریکا: ٹیکساس کے گورنر نے مسلمانوں کو گھروں اور مساجد کی تعمیر سے روک دیا
  • امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط