LONDON:

مغل حکمرانوں کے آخری تاج دار بہادر شاہ ظفر کی سبکدوشی، قید اور شاعری کے بارے میں اکثریت جانتی ہے لیکن مغل شہنشاہیت کے جاہ و جلال کی نشانی تاج جو آخری بادشاہ کے سر پر تھی وہ کہاں ہے؟ اس حوالے سے معلومات بہت کم لوگوں کے پاس ہیں۔

ہندوستان کی تاریخ میں تاج کو بڑی اہم علامت تصور کیا جاتا ہے، اسی طرح بہادر شاہ ظفر کو جب تخت سے اتارا گیا تو ان کا تاج بھی ان سے چھین لیا گیا لیکن اس کی تاریخی حیثیت ہمیشہ رہے گی۔

جب 1857 کی جنگ آزادی کے نتیجے میں انگریزوں نے مغل حکمرانی کا خاتمہ کیا تو اس وقت کے بادشاہ بہادر شاہ کا ظفر انگریزی فوج کے میجر رابرٹ ٹیلر کے ہاتھوں میں آگیا اور وہ اس کو انگلینڈ لے آیا۔

میجر رابرٹ ٹیلر نے انگلینڈ پہنچ کر بہادر شاہ ظفر کا تاج اس وقت کی ملکہ برطانیہ وکٹوریا کے حوالے کردیا، جس کے بعد مغل شہنشاہیت کی وہ عروج کی نشانی لندن میں واقع برطانوی میوزیم منتقل کردی گئی۔

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا تاج آج بھی لندن میں موجود ہے جہاں اس سے دیکھا جاسکتا ہے۔

انگریز فوج کے خلاف 1857 کی جنگ آزادی لڑنے والی ہندوستانی فوج نے بہادر شاہ ظفر کو اپنا لیڈر بنایا تھا اور انہیں ہندوستانی فوج کا سربراہ قرار دیا گیا اور جب انگریز فوج نے انہیں شکست دی تو انہیں نہ صرف حکمرانی سے ہاتھ دھونے پڑے بلکہ انہیں ہندوستان سے بھی بے دخل کرکے برما کے دارالحکومت رنگون بھیج دیا گیا۔

بہادر شاہ ظفر اپنی جنم بھومی سے دور رنگون میں 5 سال تک انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے کے بعد خالق حقیقی سے جا ملے، گوکہ مغل جاہ و جلال کا خاتمہ 1857 میں ہوگیا تھا لیکن 1862 میں اس کی آخری نشانی بہادر شاہ ظفر بھی نہ رہے۔

بہادر شاہ ظفر کی طرح ان کے تاج کی کہانی بھی اتنی ہی درد ناک ہے جو ان کے سر سے اترا تو نجانے کن ہاتھوں سے گزر کر کہاں پہنچا۔

مغل تاج کی نیلامی کے بعد رابرٹ کرسٹورفر ٹائٹلر نے اس سے حال کیا اور اس کے بعد برطانیہ نے بہادر شاہ ظفر کے تمام شاہی نوادرات کی نیلامی کی، اس نیلامی میں رابرٹ کرسٹوفر ٹائٹلر نے تاج اور دو تخت شاہی خرید لیے اور یوں واپس انگلینڈ لے کر آگئے۔

انگلینڈ میں ایک جیولر نے ایک ہزار پونڈ کی پیش کش کی لیکن ٹائٹلر نے اس سے ملکہ وکٹوریہ کو پیش کردیا، تاج کو خصوصی طور پر مغل شہنشاہی روایات کے مطابق تیار کیا گیا تھا، جس میں سونا، ہیرے، موتی اور نایاب قیمتی پتھر جڑے ہوئےتھے۔

ملکہ وکٹوریا نے اس سے خریدا اور برطانوی شاہی نوادرات کے ساتھ رکھ دیا اور ٹائٹلر کو ایک تاج اور دو تخت کے بدلے 500 پونڈ ملے تاہم وہ اس پر ناخوش ہوئے تھے۔

بہادر شاہ ظفر کا تاج آج لندن کے میوزیم میں رکھا ہوا ہے، بہادر شاہ ظفر جو اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور انہیں اردو شاعری میں اہم مقام حاصل ہے اور خاص طور پر ان کی بے بسی اور شکست پر کہے گئے وہ اشعار ہمیشہ کے لیے امر ہوئے اور ان کی دردناک کہانی کا بے رحم اظہار ہے؛۔

کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے

دوگز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بہادر شاہ ظفر کا کا تاج کے بعد

پڑھیں:

عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘

سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اور معروف سیاست دان پرویز خٹک وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر بننے کے بعد ایک بار پھر سیاست میں سرگرم ہو گئے ہیں اور اپنے حلقے نوشہرہ میں غیر جماعتی بنیادوں پر سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ عام انتخابات میں شکست کی بنا پر عوام سے بدستور ناراض ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پرویز خٹک بادام نہیں توڑ سکتا پی ٹی آئی کو کیا توڑے گا، اختیار ولی کی شدید تنقید

پرویز خٹک کے قریبی حلقوں کے مطابق وہ اسلام آباد ہی میں رہتے ہیں تاہم ہفتہ اور اتوار کو آبائی علاقے منکی شریف نوشہرہ آتے ہیں اور ووٹرز سے ملتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے بھی پرویز خٹک نوشہرہ ائے اور کارنر میٹنگ سے خطاب بھی کیا۔ جس میں انہوں نے حلقے کے ووٹرز سے کھل کر اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔

’جن کو ووٹ دیا ہے وہ جانیں ترقیاتی کام‘

پرویز خٹک نے کہا کہ جن کو ووٹ دیا ہے، وہی جانیں، اور جنہوں نے ترقیاتی کام دیکھے ہیں، انہیں بھی جانچنا ہوگا۔ میں نے آپ لوگوں کی خدمت کی، لیکن اس کا صلہ کچھ اور ملا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جن لوگوں نے میرا ساتھ دیا ہے، میں بھی ہر حد تک ان کا ساتھ دوں گا۔

اپنے خطاب میں پرویز خٹک نے واضح بتا دیا کہ اب وہ کوئی کام نہیں کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں کام کرنے کے لیے کسی عہدے کی ضرورت نہیں۔ جبکہ انہیں دکھ اس وقت ہوا انہیں ان کی خدمات اور کاموں کا صلہ نہیں دیا گیا۔

انہوں نے اپنے ووٹرز کو بتایا کہ انہوں نے ترقیاتی کام کیے، لوگوں کو نوکریاں دیں، لیکن ووٹ کے وقت کسی نے انہیں یاد نہیں رکھا۔

پرویز خٹک حلقے کے ووٹرز سے خفا کیوں؟

سال 2023 میں عمران خان سے راہیں جدا کرنے کے بعد پرویز خٹک نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنا لی اور عام انتخابات کے لیے مہم شروع کی، وہ جیت کر وزیر اعلیٰ بننے کا کھلم کھلا اعلان کررہے تھے، وہ پُر امید تھے کہ اپنے حلقے میں ترقیاتی کاموں کی بنیاد لوگ انہیں ووٹ دیں گے۔ لیکن انتخابات میں نتائج یکسر مختلف آئے اور انہیں بری طرح شکست ہوئی۔ اس شکست کے بعد انہوں نے اپنی ہی جماعت کی سربراہی اور رکنیت سے استعفی دیا اور سیاست سے دوری اختیار کر لی۔

پرویز خٹک اپنے قریبی حلقوں سے بھی ناراض ہیں

پرویز خٹک کافی عرصے تک سیاسی منظر نامے سے غائب رہے۔ نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی شہاب الرحمن بتاتے ہیں پرویز خٹک اپنے قریبی حلقوں سے بھی ناراض ہیں۔ اور پہلے کی طرح حلقے پر توجہ نہیں دے رہے۔

یہ بھی پڑھیں:عوام خیبرپختونخوا حکومت سے مایوس، عام انتخابات میں لوگ اندھے بہرے ہوگئے تھے، پرویز خٹک

انہوں نے کہا پرویز خٹک کی ناراضگی کی وجہ کچھ اور نہیں بلکہ عام انتخابات میں شکست ہے۔ اور اسی وجہ سے حلقے میں آنا بھی کم کر دیا تھا اور اسلام آباد میں رہائش کو ترجیح دیتے تھے۔ تاہم مشیر بننے کے بعد وہ ایک بار پھر سرگرم ہو گئے ہیں اور حلقے کا رخ بھی کر رہے ہیں۔

خوشی اور غم میں شرکت

شہاب نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے کے عوام کے خوشی اور غم میں ضرور شریک ہوتے ہیں۔ لیکن شکست کے بعد اب لوگوں کا کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ پرویز خٹک  حلقے میں اپنے مخالفیں کو بتا رہے ہیں کہ انہیں ووٹ کی ضرورت نہیں اور ووٹ کے بغیر بھی وہ عہدہ لے سکتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ پرویز خٹک حلقے میں غیر سیاسی بنیادوں پر سرگرم ہیں اور ابھی تک کسی سیاسی جماعت میں باقاعدہ اعلان نہیں کیا ہے۔

پرویز خٹک اپنی سیاست زندہ رکھنا چاہتے ہیں

شہاب کے مطابق پرویز خٹک ناراض ضرور ہیں لیکن وہ اپنی سیاست کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور ہفتے میں 2 دن باقاعدگی سے حلقے میں گزرتے ہیں۔ اور لوگوں کو احساس دلانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں کنتے ترقیاتی کام ہو رہے تھے اور اب کیا صورت حال ہے۔ پرویز خٹک کے پاس اب عہدہ ہے۔ اب وہ ووٹرز کا اعتماد دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

پرویز خٹک کا مختصر سیاسی پس منظر

پرویز خٹک کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع  نوشہرہ سے ہے۔ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما رہے اور 2013 سے 2018 تک خیبر پختونخوا کے وزیرِاعلیٰ کے عہدے پر فائز رہے۔ جبکہ 2018 سے 2023 تک وفاقی وزیر دفاع بھی رہے۔ ان کا شمار عمران خان کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا

پروی

پی ٹی آئی پی

2023 کے بعد انہوں نے اپنی الگ سیاسی راہ اختیار کی۔ اور پی ٹی آئی پی کے نام سے ایک الگ سیاسی جماعت بنا کر الیکشن میں حصہ لیا۔ لیکن انہیں بری طرح شکست ہوئی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق پرویز خٹک کو عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف خیبر پختونخوا میں لانج لیا گیا تھا،مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ عام انتخابات میں شکست کے بعد پرویز خٹک نے سیاست سے آرام لینے کا اعلان کیا اور کافی عرصے تک سیاست سے دور رہے۔ جبکہ کچھ عرصہ قبل انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کیا گیا اور وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ بن گئے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پرویز خٹک پی ٹی آئی پی ٹی آئی پی عمران خان نوشہرہ

متعلقہ مضامین

  • قائد اعظم سے ملاقات کر چکا ہوں، فیصل رحمٰن
  • ایک تاریخی دستاویز۔۔۔۔۔۔ ماہنامہ پیام اسلام آباد کا "ختم نبوت نمبر"
  • مقبوضہ کشمیر میں سوگ کا سماں ، سیاحوں کے 25 تابوت سرینگر سے بھارت روانہ
  • چیف سیکریٹری سندھ نے تاریخی عمارت خارس ہاؤس گرائے جانے کا نوٹس لے لیا
  • رشتہ ایک سرد مہری کا
  • عوام سے ناراض پرویز خٹک نے سیاسی سرگرمیاں کا آغاز کردیا، ’کسی کا کوئی کام نہیں کروں گا‘
  • ایران میں قتل کیے جانے والے پاکستانی مزدوروں کے ورثا کیا کہہ رہے ہیں؟
  • عوامی مقامات پرتھوکنے والے کو 10 ہزار جرمانہ ہوگا
  • پنجاب نے ایک سال میں  کسانوں کو تاریخی پیکیج دیا : عظمیٰ بخاری
  • لاہور، تاریخی مقامات پر تھوکنے، کوڑا پھینکنے اور توڑ پھوڑ پر جرمانہ ہوگا