لیلۃ القدر: رحمت، برکت اور مغفرت
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
’’بے شک، ہم نے اسے (قرآن کو) لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ اور تمہیں کیا معلوم کہ لیلۃ القدر کیا ہے؟ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس میں فرشتے اور روح (جبریل علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ یہ (رات) سراسر سلامتی ہے، طلوعِ فجر تک۔‘‘
وقت گزرتے پتا ہی نہیں چلا اور رمضان کا آخری عشرہ آن پہنچا، جس میں ایک رات لیلۃ القدر ہوتی ہے۔ یہ آیات لیلۃ القدر کی عظمت، برکت اور اس میں نازل ہونے والی اللہ کی خاص رحمتوں کی وضاحت کرتی ہیں۔ اس رات میں کی گئی دعا، عبادت اور استغفار بے حد فضیلت رکھتا ہے۔ اللہ ہمیں بھی اس رات کی قدر کرنے اور خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
مجھے اس رات کی فضیلت سمجھنے میں کافی وقت لگا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات میں قرآن نازل فرمایا، ہزار ماہ سے افضل اس رات کو بنایا، تقدیر کے فیصلے رکھنا، اس رات میں فرشتوں کو زمین پر اتارنا اور طلوع فجر تک سلامتی ہی سلامتی رکھنا۔ اب جب بھی میں سورۃ القدر اور سورۃ الدخان کی آیات پر غور کرتی ہوں، تو مجھے لیلۃ القدر کی حقیقت صرف ایک عظیم رات کے طور پر نہیں، بلکہ ایک موقع کے طور پر نظر آتی ہے۔ ایسا موقع جو اللہ تعالیٰ نے اپنی بے پایاں رحمت کے دروازے کھولنے کےلیے عطا فرمایا ہے۔
ارشادی باری تعالی ہے:
إِنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ
(ترجمہ) بے شک، ہم نے اسے (قرآن کو) لیلۃ القدر میں نازل کیا۔ (سورۃ القدر: 1)
یعنی لیلۃ القدر کی سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ یہ رات ہدایت کے نور کی رات ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ جب اللہ نے اپنے بندوں کےلیے ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن نازل کیا، اسی رات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری وحی یعنی قرآن کریم کو نازل فرمایا۔ تو یہ رات کس قدر بابرکت ہو گی!
یہ صرف ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے، بلکہ ہر سال ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا اصل مقصد ہدایت حاصل کرنا ہے۔ اگر ہم واقعی اس رات کی برکت چاہتے ہیں تو ہمیں قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنا ہوگا۔ قرآن صرف پڑھنے کی کتاب نہیں، بلکہ زندگی بدلنے کی کتاب ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ لیلۃ القدر ہمیں فائدہ دے، تو ہمیں قرآن سے حقیقی تعلق جوڑنا ہوگا۔ جیسے ایک مسافر کے لیے نقشہ ضروری ہوتا ہے، ویسے ہی قرآن ہمارے لیے زندگی کا نقشہ ہے۔ اگر ہم اسے نظرانداز کریں، تو راستہ کھو دیں گے۔
پھر ارشاد ہے:
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَهْرٍ
(ترجمہ) لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (سورۃ القدر: 3)
یہ آیت مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز حقیقت ہے کہ ایک رات 83 سال اور 4 مہینوں (تقریباً پوری زندگی) کی عبادت سے بہتر ہے۔ یعنی اگر کوئی اس رات میں عبادت کرے تو گویا اس نے پوری زندگی اللہ کی بندگی میں گزاری۔ یہ آیت مجھے وقت کی حقیقت پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے اور سکھاتی ہے کہ وقت کی برکت تعداد میں نہیں، کیفیت میں ہے۔
ہم میں سے اکثر لوگ سوچتے ہیں کہ ’’کاش میری عمر لمبی ہو تاکہ میں زیادہ نیکیاں کرسکوں‘‘ لیکن اللہ ہمیں بتاتے ہیں کہ ’’ایک رات‘‘ ہزار مہینوں یعنی 83 سال اور 4 مہینے سے بہتر ہوسکتی ہے، ایک رات کی عبادت 83 سال کی عبادت سے بہتر ہوسکتی ہے! ایک لمحے کے لیے تصور کیجئے اس رات میں دو رکعت نوافل کی ادائیگی 83 سال کے نوافل کی ادائیگی سے بہتر، 10 منٹ سجدے میں سر رکھ اللہ سے بات کرنا 83 سال سے بہتر، اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي کا پڑھنا 83 سال سے بہتر، چند لمحے.
سورۃ الدخان میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ (الدخان:4)
(ترجمہ) اسی (رات) میں ہر حکمت والا معاملہ تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
لیلۃ القدر وہ رات ہے جب آئندہ سال کے فیصلے لکھے جاتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر میرا مقدر اس رات طے ہو رہا ہے، تو کیا میں نے اپنی تقدیر کے لیے اللہ سے خیر مانگی؟
ہم میں سے اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ ’’میری زندگی میں برکت نہیں، میرے کام نہیں بن رہے، میری صحت خراب رہتی ہے‘‘ لیکن کیا ہم نے لیلۃ القدر میں اللہ سے دعا مانگی کہ وہ ہمارے حق میں بہترین فیصلے کرے؟
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’میں دعا کی قبولیت کی فکر نہیں کرتا، بلکہ اس بات کی فکر کرتا ہوں کہ میں دعا صحیح کر رہا ہوں یا نہیں۔ کیونکہ جب دعا صحیح ہوجائے گی، تو قبولیت خود آ جائے گی۔‘‘ (أخرجه الإمام القسطلاني في المواھب اللّدنّیّۃ بِالْمنحِ الْمحمّدیّۃ، 3 / 350)
تَنَزَّلُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِم مِّن كُلِّ أَمْرٍ
(ترجمہ) اس میں فرشتے اور روح (جبریل علیہ السلام) اپنے رب کے حکم سے ہر امر کے ساتھ نازل ہوتے ہیں۔ (سورۃ القدر: 4)
یہ تصور کتنا شاندار ہے کہ آسمان کے فرشتے زمین پر نازل ہورہے ہیں! اگر اللہ نے فرشتوں کو نازل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تو یقیناً اس رات کی عبادات، دعائیں اور آنسو کسی خزانے سے کم نہیں۔ ایک لمحے کےلیے سوچتی ہوں اگر یہ فرشتے میری عبادت کا مشاہدہ کرنے آئیں، تو کیا میرا طرز عمل اس کے قابل ہوگا؟
اگر عام دنوں میں ہمیں معلوم ہو کہ بہت ہی خاص مہمان ہمارے گھر آنے والے ہیں تو ہم فوراً سے قبل خود کو، اپنے بچوں کو، اپنے گھر کو درست حلیے میں لاتے ہیں اور پھر ان کے سامنے انتہائی مہذب انداز اپناتے ہیں۔ تاکہ ان پر ہمارا اچھا تاثر پڑے۔ یہ چیز مجھے سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اللہ کے خاص فرشتے ہمارے گھر آئیں، تو ہم کیسا برتاؤ کریں گے؟ اگر ہم کسی بڑے مہمان کے استقبال کےلیے تیار ہو سکتے ہیں، تو کیا ہمیں لیلۃ القدر میں بھی اپنے دل، زبان اور اعمال کو پاک صاف نہیں کر لینا چاہیے؟
سَلَامٌ هِيَ حَتَّىٰ مَطْلَعِ الْفَجْرِ
(ترجمہ) یہ (رات) سراسر سلامتی ہے، طلوعِ فجر تک۔ (سورۃ القدر: 5)
یہ رات صرف مغفرت کی نہیں، بلکہ سکون کی بھی رات ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے پچھلے سال میں نیند کی گولیاں کھائے بغیر سو نہیں پاتی تھی اور میرا ڈپریشن کا علاج جاری تھا۔ ہم سب زندگی میں پریشانیوں اور بے سکونی کا شکار ہوتے ہیں۔ دنیا کی دولت، شہرت، اور کامیابی بھی بعض اوقات ہمیں سکون نہیں دے پاتی۔ مگر اللہ نے اس رات کو ’’سلامتی‘‘ کہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی شخص حقیقی سکون چاہتا ہے، تو اسے اللہ سے جڑنا ہوگا۔
ان آیات کو سمجھنے کے بعد میں یہ سوچتی ہوں کہ لیلۃ القدر صرف عبادت کی رات نہیں، بلکہ زندگی کو بدلنے کی رات ہے۔ میں خود سے سوال کرتی ہوں:
کیا میں واقعی اس رات کی قدر کر رہی ہوں؟
کیا میں نے اپنی تقدیر میں بھلائی لکھوانے کے لیے کوشش کی؟
کیا میں نے قرآن سے اپنی وابستگی مضبوط کی؟
کیا میں نے اللہ کی رحمت کو سمیٹنے کے لیے پورے دل سے دعا کی؟
لیلۃ القدر کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے کہ اللہ کی رحمت کبھی دیر سے نہیں آتی، اور اگر ایک رات میں 83 سال سے زیادہ نیکیاں حاصل ہو سکتی ہیں، تو اللہ کا فضل بے حد وسیع ہے!
اس بار فیصلہ کیا ہے لیلۃ القدر کو صرف رسمی عبادت میں گزارنے کے بجائے، اسے اپنی زندگی کو بدلنے کا موقع بنانا ہے!
اللھم بلغنا لیلۃ القدر، آمین!
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: لیلۃ القدر میں لیلۃ القدر کی سورۃ القدر اللہ تعالی اس رات میں کیا میں نے اس رات کی نے اپنی اللہ کی اللہ سے سے بہتر ایک رات کے لیے ہیں کہ رات ہے اگر ہم ہوں کہ
پڑھیں:
صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس
صحافی مطیع اللہ جان کیخلاف منشیات اور دہشتگردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس WhatsAppFacebookTwitter 0 31 October, 2025 سب نیوز
اسلام آباد(آئی پی ایس) اسلام آباد کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے سینئر صحافی مطیع اللّٰہ جان کے خلاف منشیات اور دہشت گردی کے مقدمے میں پولیس کو نوٹس جاری کردیا، یہ مقدمہ گزشتہ سال 28 نومبر کو مارگلہ پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا تھا، جس میں ان پر سرکاری اسلحہ چھیننے، پولیس ناکے پر گاڑی ٹکرانے اور منشیات رکھنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
مطیع اللّٰہ جان کے خلاف قانونی کارروائی پر صحافتی تنظیموں اور انسانی حقوق کے اداروں نے شدید تنقید کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ انہیں گزشتہ سال نومبر میں پی ٹی آئی مظاہرین کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی رپورٹنگ کرنے پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
آج کی سماعت کے آغاز پر وکیل میاں علی اشفاق نے مطیع اللّٰہ جان کی جانب سے عدالت میں وکالت نامہ جمع کرایا، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ صحافی کو اس مقدمے میں ’دہشت گرد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے‘۔
جج طاہر عباس سپرا نے ریمارکس دیے کہ معاملے میں پولیس کا مؤقف سننا بھی ضروری ہے، اور مطیع اللّٰہ جان کی مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کرنے کی درخواست پر پولیس کو 8 نومبر کے لیے نوٹس جاری کر دیا، سماعت اسی تاریخ تک ملتوی کر دی گئی۔
سماعت کے دوران وکیل ایمان زینب مزاری، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ، اور دیگر صحافی بھی موجود تھے۔
گزشتہ روز ہونے والی سماعت میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مطیع اللّٰہ جان کی بریت کی درخواست مسترد کر دی تھی اور انہیں مقدمے کی تمام دستاویزات فراہم کی تھیں۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ متعدد سینئر صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے مطیع اللّٰہ جان کے خلاف درج مقدمہ فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
مطیع اللّٰہ جان کی گرفتاری
پولیس کے مطابق، 26 نومبر 2024 کی رات مطیع اللّٰہ جان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب سیکٹر ای 9 میں پولیس نے ان کی گاڑی کو روکا اور انہوں نے مبینہ طور پر گرفتاری کے خلاف مزاحمت کی، گاڑی پولیس ناکے سے ٹکرا دی اور سرکاری اسلحہ چھین لیا۔
ایف آئی آر میں منشیات ایکٹ (سی این ایس اے) کی دفعہ 9(2)4 شامل کی گئی ہے، جس کے تحت ان پر 100 سے 500 گرام آئس رکھنے کا الزام ہے، جبکہ دہشت گردی ایکٹ (اے ٹی اے) کی دفعہ 7 بھی لگائی گئی ہے۔
ابتدائی طور پر انہیں جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے بعد میں یہ فیصلہ کالعدم قرار دے کر انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا، بعد ازاں وکلا ایمان زینب مزاری اور ہادی علی چٹھہ نے ان کی ضمانت بعد از گرفتاری حاصل کرلی تھی۔
مطیع اللّٰہ جان نے اس کے بعد اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کو ایک خط لکھا، جس میں انہوں نے اپنی گرفتاری سے قبل اغوا اور تشدد کے الزامات عائد کیے۔
خط میں ان کا کہنا تھا کہ 27 نومبر 2024 کو انہیں اور صحافی ثاقب بشیر کو پمز ہسپتال کی پارکنگ سے پولیس وردی میں ملبوس افراد نے اغوا کیا، آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر نامعلوم مقام پر لے جایا گیا، جہاں انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور غیرقانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعد میں پولیس نے مارگلہ تھانے میں ان کے خلاف جعلی مقدمہ درج کیا، جس میں دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے الزامات لگائے گئے، مطیع اللّٰہ جان کے مطابق ان کے ساتھی صحافی کا حلفیہ بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا، جس میں اغوا کی تصدیق کی گئی۔
انہوں نے اپنے 2020 کے اغوا کے واقعے کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات ان کے آئینی، پیشہ ورانہ اور صحافتی حقوق کی خلاف ورزی ہیں، جو 2021 کے ’تحفظِ صحافی و میڈیا پروفیشنلز ایکٹ‘ کے منافی ہیں۔
انہوں نے آئی جی اسلام آباد سے مطالبہ کیا کہ معاملے کی غیرجانبدار اور دیانت دار افسر کے ذریعے شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروفاق مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانے کیلئے 27ویں آئینی ترمیم کرے: پنجاب حکومت وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کن مرحلہ، پیپلزپارٹی کی بڑی بیٹھک آج ہوگی جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں، جسٹس مسرت ہلالی تباہ کن اسلحہ کے ساتھ گھروں کو لوٹنے والے پناہ گزین نہیں دہشت گرد ہیں، خواجہ آصف قطری وزیراعظم نے جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام فلسطینی گروہ پر عائد کردیا ٹی ایل پی پر پابندی لگنا اچھی بات ہے، پی ٹی آئی کی لیڈرشپ نابالغ ہے، فواد چودھری غزہ میں حماس نے مزید دو یرغمالیوں کی لاشیں اسرائیل کے حوالے کر دیںCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم