UrduPoint:
2025-11-03@16:11:24 GMT

امریکہ: غیر ملکی کاروں پر 'مستقل' اضافی محصولات کا اعلان

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

امریکہ: غیر ملکی کاروں پر 'مستقل' اضافی محصولات کا اعلان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز کہا کہ وہ امریکہ میں درآمد کی جانے والی کاروں اور ہلکے ٹرکوں پر 25 فیصد نیا اضافی ٹیرف عائد کر رہے ہیں۔

ٹرمپ کے اعلان کے مطابق یہ نئے محصولات مستقل ہوں گے اور ان کا نفاذ دو اپریل سے ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ یہ نئے محصولات تین اپریل سے وصول کیے جائیں گے۔

امریکہ میں فروخت ہونے والی تقریباً 50 فیصد کاریں مقامی طور پر ہی تیار کی جاتی ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ ٹیرف کا مقصد گھریلو مینوفیکچرنگ سیکٹرز کو فروغ دینا ہے۔

ٹرمپ نے نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ "یہ ترقی کو اس طرح فروغ دیتا رہے گا جیسا کہ آپ نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔

(جاری ہے)

"

امریکہ: لاکھوں تارکین وطن ملک بدر کیے جانے کا امکان

ٹیرف کے سبب کار کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں

ٹرمپ انتظامیہ نے کہا کہ وہ محصولات سے سالانہ 100 بلین کی آمدن بڑھانے کی توقع رکھتے ہیں۔

تاہم بیشتر امریکی کار ساز کمپنیاں گاڑیوں کے ساز و سامان دنیا کے دیگر ممالک سے ہی حاصل کرتے ہیں، اس لیے انہیں اب زیادہ لاگت اور کم فروخت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ٹرمپ کی پالیسیاں سائنسدانوں کو امریکہ چھوڑنے پر مجبور کر رہی ہیں

پیٹرسن انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس کی سینیئر فیلو ماہر معاشیات میری لولی نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، "ہم گاڑیوں کی قیمتوں میں بہت زیادہ اضافے کا امکان دیکھ رہے ہیں۔

ہم اب انتخاب یعنی کاروں کی چوائسز بھی کم دیکھنے جا رہے ہیں۔۔۔۔ اس قسم کے ٹیکس متوسط ​​اور محنت کش طبقے پر زیادہ بھاری پڑتے ہیں۔"

سینٹر فار آٹو موٹیو ریسرچ نے پہلے اندازہ لگایا تھا کہ درآمد کاروں پر امریکی ٹیرف ایک کار کی قیمت میں ہزاروں ڈالر تک اضافہ کر سکتا ہے۔

نئے امریکی محصولات جوابی کارروائیوں کے ساتھ ایک وسیع تجارتی جنگ بھی شروع کر سکتے ہیں، جو عالمی تجارت اور اقتصادی نمو کو منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔

اس سے صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے، کیونکہ ٹیکسوں کے کچھ اخراجات اس کی خرید و فروخت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یا اضافی ٹیرف اگر صارفین پر منتقل کیے جاتے ہیں، تو ایک گاڑی کی اوسط قیمت 12,500 ڈالر تک بڑھ سکتی ہے۔

ٹرمپ نے امریکی محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کے حکم نامے پر دستخط کر دیے

مزید برآں، درآمد شدہ کاروں کو نشانہ بنانے سے جاپان، جنوبی کوریا، کینیڈا، میکسیکو اور جرمنی جیسے ممالک کے ساتھ امریکہ کا تناؤ بھی بڑھ سکتا ہے، جو سبھی امریکہ کے قریبی شراکت دار ہیں۔

نئے امریکی محصولات پر بین الاقوامی ردعمل

کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی نے کاروں پر نئے ٹیرف پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ کینیڈا کے کارکنوں پر "براہ راست حملے" کا مظہر ہیں۔

کارنی نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ جمعرات کو کابینہ کے وزراء کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلائیں گے تاکہ تجارتی اختیارات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

جاپانی وزیر اعظم شیگیرو ایشیبا نے جمعرات کو کہا کہ ٹوکیو آٹوموبائل کے نئے ٹیرف سے نمٹنے کے لیے "تمام آپشنز پر غور کرے گا۔"

امریکی عدالت نے بھارتی اسکالر بدر خان سوری کی ملک بدری روک دی

ان کا کہنا تھا، "جاپان ایک ایسا ملک ہے جو امریکہ میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے، لہذا ہم سوچتے ہیں کہ کیا (واشنگٹن) کے لیے تمام ممالک پر یکساں ٹیرف لاگو کرنا کوئی معنی رکھتا ہے۔

یہ وہ نکتہ ہے جس پر ہم غور کر رہے ہیں اور ایسا کرتے رہیں گے۔"

یوروپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیرلائن نے ٹرمپ کے ٹیرف کے اعلان پر تنقید کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، "مجھے یورپی آٹوموٹیو برآمدات پر محصولات عائد کرنے کے امریکی فیصلے پر شدید افسوس ہے۔"

انہوں نے مزید کہا، "جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا، ٹیرف ٹیکس ہیں، یہ کاروبار کے لیے برا ہے، امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ ہی یکساں طور پر صارفین کے لیے بھی برا ہے۔"

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ کے تازہ ترین اعلان اور "امریکہ جو آئندہ دنوں میں ایسے دیگر اقدامات کا منصوبہ بنا رہا ہے" کا اب جائزہ لیا جائے گا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے انہوں نے رہے ہیں سکتا ہے کہ میں کہا کہ کے لیے

پڑھیں:

خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ

اسلام ٹائمز: ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں، جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔  خصوصی رپورٹ:
  ڈونلڈ ٹرمپ کا امریکہ میں جوہری تجربات دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ تجربات کے اسٹریٹجک، سفارتی اور ماحولیاتی سطحوں پر وسیع اثرات پیدا کر سکتا ہے۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر ایک پیغام میں اعلان کیا ہے کہ انہوں نے وزارتِ جنگ کو فوراً جوہری تجربات کے عمل کا آغاز کرنے کا حکم دیا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ یہ اقدام حریف طاقتوں کی جانب سے انجام دی جانے والی ایسی ہی پیشگی سرگرمیوں کے جواب میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ برسوں میں امریکہ کی کسی بھی حریف طاقت نے جوہری ہتھیاروں کے تجربات نہیں کیے۔ اگرچہ امریکہ نے بھی 1992ء سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا، تاہم یہ اعلان اسٹریٹجک، سفارتی، ماحولیاتی، صحتی، معاشی اور داخلی سطحوں پر گہرے مضمرات کا حامل ہے۔

اسٹریٹجک اور سیکیورٹی اثرات: ٹرمپ کے اس اعلان سے دنیا میں جوہری توازن اور سیکورٹی کا عالمی نظام بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔ فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ یہ اقدام مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقِ وسطیٰ تک ’’زیرِ زمین دھماکوں کے ایک سلسلے‘‘ کو جنم دے سکتا ہے۔ روس نومبر 2023ء میں سی ٹی بی ٹی سے نکل گیا تھا۔ انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے اپنے تجربات دوبارہ شروع کیے تو وہ بھی جوابی کارروائی کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں بوروستنیک جیسے جوہری میزائلوں کے تجربے کیے ہیں، مگر ان میں کوئی جوہری دھماکہ شامل نہیں تھا۔ ماہرین کے مطابق اب امریکہ کا یہ فیصلہ روس کو حقیقی جوہری دھماکوں کی طرف مائل کر سکتا ہے، جس سے غلط حساب کتاب (miscalculation) اور عالمی کشیدگی میں خطرناک اضافہ ممکن ہے۔

چین اور دیگر جوہری طاقتیں: چین نے اپنے جوہری ذخیرے کو 2020 میں 300 وارہیڈز سے بڑھا کر 2025 تک تقریباً 600 تک پہنچا دیا ہے، اندازہ ہے کہ 2030 تک یہ تعداد 1000 تک پہنچ جائے گی بین الاقوامی اسٹریٹیجک اسٹڈیز سنٹر کے مطابق اس فیصلے کے بعد چین بھی اپنے پروگرام کی رفتار مزید تیز کر سکتا ہے۔ کارنیگی انسٹیٹیوٹ فار انٹرنیشنل پیس کے آنکیٹ پانڈا نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام چین اور روس دونوں کے لیے ایک طرح کا کھلا چیک ہے، جس سے وہ بھی مکمل جوہری تجربات دوبارہ شروع کر سکتے ہیں، حالانکہ چین نے 1996 سے اور روس نے 1990 سے کوئی جوہری دھماکہ نہیں کیا۔ اسی طرح بھارت، پاکستان اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو بھی اپنے تجربات جاری رکھنے کا جواز مل سکتا ہے۔ یاد رہے کہ شمالی کوریا نے آخری تصدیق شدہ جوہری تجربہ ٹرمپ کی پہلی صدارت (2017) کے دوران کیا تھا۔   سفارتی اثرات: اس اعلان نے عالمی سطح پر شدید منفی ردِعمل پیدا کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریش کے ترجمان نے اس اقدام کو غیر پائیدار اور عالمی عدمِ پھیلاؤ کی کوششوں کے لیے نقصان دہ قرار دیا، اور گزشتہ 80 برسوں میں ہونے والے 2000 سے زائد جوہری تجربات کے تباہ کن ورثے کی یاد دہانی کرائی۔ ٹرمپ کے اعلان کے چند گھنٹے بعد چین نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ سی ٹی بی ٹی کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر قائم رہے گا اور جوہری عدمِ پھیلاؤ کے نظام کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا۔ 

برطانیہ اور فرانس جیسے اتحادی ممالک جو واشنگٹن کی جوہری چھتری (deterrence) پر انحصار کرتے ہیں، اس اعلان کے بعد امریکہ کی اخلاقی ساکھ کے کمزور ہونے پر تشویش میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر داریل کیمبال نے متنبہ کیا ہے کہ یہ قدم اسلحہ کنٹرول مذاکرات کو کمزور کرے گا اور امریکہ کے مخالفین کو یہ موقع دے گا کہ وہ اسے ایک غیر ذمہ دار طاقت کے طور پر پیش کریں۔ مزید برآں یہ اعلان جوہری عدمِ پھیلاؤ کے عالمی معاہدے (این پی ٹی) کے 191 رکن ممالک کو بھی کمزور کر سکتا ہے، جسے عالمی امن کے لیے ایک بنیادی ستون سمجھا جاتا ہے۔

ماحولیاتی اثرات: اگرچہ زیرِ زمین کیے جانے والے جوہری تجربات فضا میں ہونے والے تجربات کے مقابلے میں کم آلودگی پیدا کرتے ہیں، لیکن ان سے ماحولیاتی خطرات اب بھی شدید نوعیت کے رہتے ہیں۔ فاکس نیوز کی رپورٹ کے مطابق ان تجربات کے نمایاں ماحولیاتی اور حفاظتی اخراجات ہیں، جب کہ ماضی کا ریکارڈ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کے اثرات طویل المدت اور تباہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ 1945 سے اب تک دنیا بھر میں دو ہزار سے زیادہ جوہری تجربات کیے جا چکے ہیں، جنہوں نے فضا، سمندروں اور زیرِ زمین پانی میں تابکاری (ریڈیوایکٹیو) آلودگی پھیلائی ہے۔ مثال کے طور پر 1950 کی دہائی میں امریکہ کے بحرالکاہل کے اینیوٹاک اور بکینی ایٹول (مارشل جزائر) میں کیے گئے تجربات نے سیزیم 137 اور اسٹرانشیم 90 جیسے تابکار عناصر سے مسلسل آلودگی پیدا کی، جس کے نتیجے میں رونگلاپ جزیرہ ہمیشہ کے لیے غیر آباد ہو گیا۔   ریاست نیواڈا میں 1951 سے 1992 تک 928 سے زیادہ زیرِ زمین تجربات کیے گئے، جن سے زیرِ زمین پانیوں میں تابکاری رسنے لگی اور مقامی آبادی میں تھائرائڈ اور لیوکیمیا جیسے سرطانوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یہ زیرِ زمین دھماکے اکثر ریڈیوایکٹیو گیسوں کے اخراج کا سبب بنتے ہیں اور ٹریٹیم سمیت مختلف فِشَن (fission) مصنوعات کو ماحول میں داخل کرتے ہیں، جو ماحولیاتی نظام (ecosystem) اور خوراک کی زنجیر کو متاثر کرتے ہیں۔ سائنسی تحقیقات کے مطابق یہ تابکار آلودگی دہائیوں تک مٹی اور پانی میں برقرار رہ سکتی ہے، جس کے اثرات کئی نسلوں تک جاری رہتے ہیں۔ ایسے تجربات مصنوعی زلزلوں کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

جیسا کہ 1973 میں سوویت یونین کے ایک جوہری تجربے سے 6.97 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ ایسے زلزلے حیاتیاتی تنوع (biodiversity) کو نقصان پہنچاتے ہیں، مچھلیوں کی اجتماعی ہلاکت اور دریاؤں کی آلودگی جیسے نتائج پیدا کرتے ہیں۔ آرمز کنٹرول ایسوسی ایشن کے ماہرین اور تجزیہ کاروں نے حالیہ دنوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکہ کے پاس ایسے جوہری تجربات کے لیے ’’کوئی تکنیکی، عسکری، اور نہ ہی سیاسی جواز موجود ہے، لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی تجربات کے احکامات صادر کرنے کے اس فیصلے کے خطرات اس کے ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں۔ 

متعلقہ مضامین

  • اینویڈیا کی ایڈوانسڈ چپس کسی کو نہیں ملیں گی، ٹرمپ کا اعلان
  • حماس کیجانب سے 3 اسرائیلی قیدیوں کی لاشیں واپس کرنے پر خوشی ہوئی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • کینیڈین وزیرِاعظم نے ٹیرف مخالف اشتہار پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
  • متنازع اینٹی ٹیرف اشتہار: کینیڈین وزیراعظم نے صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
  • خطرناک تر ٹرمپ، امریکہ کے جوہری تجربات کی بحالی کا فیصلہ
  • اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم
  • غیرقانونی مقیم افغان باشندوں کے سہولت کاروں کی پکڑ دھکڑ
  • پاکستان میں کاروبار سے متعلق غیر ملکی انویسٹرز کے اعتماد میں اضافہ، رپورٹ جاری
  • او آئی سی سی آئی سروے میں 73فیصد افراد نے پاکستان کو سرمایہ کاری کیلئے موزوں قراردیدیا