Daily Ausaf:
2025-11-03@09:56:18 GMT

دو وزیر اعظم، مشترکہ نظریات مگر کردار مختلف

اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT

ڈاکٹر افضل مرحوم سویڈن میں پاکستان کے سابق سفیر تھے۔ وہ ا علیٰ تعلیم یافتہ اور دانشور تھے جنہوں نے کئی ایک کتابیں لکھیں۔ ان کی پیدائش 1919ء میں ہوئی اور 1938ء میں وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے اور مجلہ راوی کے اسسٹنٹ ایڈیٹر تھے۔ اس دور میں انہیں برصغیر کی کئی نامور شخصیات جن میں مولانا ابوالکلام آزاد، جواہر لال نہرو، ڈاکٹر ذاکر حسین اور دیگر سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ ڈاکٹر افضل اقبال دسمبر 1973ء سے جنوری 1977ء تک سویڈن میں پاکستان کے سفیر رہے۔ انہوں نے کئی ایک کتابیں لکھیں جن میں ایک Diary of a Diplomat ہے جس میں انہوں نے اپنے دور سفارت کی یادیں تحریر کی ہیں۔ انہیں یاداشتوں میں وہ اپنے سویڈن کے دور سفارت کاذکر کرتے ہوئے اس دور کے سویڈش وزیر اعظم اولف پالمے کا بہت دلچسپ انداز میں ذکر کرتے ہیں اور پھر پاکستان کے وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کے دورہ سویڈن کا تذکرہ بہت اہم ہے۔ ان کی تحریر سے دونوں راہنمائوں کی سوچ، طرز عمل اور شخصیت کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ڈاکٹر افضل کے بقول سویڈن کے د و وزیراعظم اولوف پالمے پنے ترقی پسند نظریات کے لیے مشہور تھے بلکہ ان کی سادگی اور عوامی اندازِ حکمرانی بھی ایک مثال تھی۔ یورپ کے ایک امیر ترین ملک کے وزیراعظم ہونے کے باوجود وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک عام سا دفتر، نہ کوئی پروٹوکول اور نہ ہی بڑی بڑی گاڑیاں لیکن اپنے انوکھے انداز اور عظیم سیاسی بصیرت کے لیے دنیا بھر میں شہرت رکھتے تھے۔وزیراعظم اپنی گاڑی خود چلاتے تھے۔ ان کے دفتر میں نہ چائے پیش کی جاتی تھی اور نہ کافی۔ پالمے کی سادگی صرف ان کے دفتر تک محدود نہیں تھی۔ وہ اپنی بیوی اور تین بیٹوں کے ساتھ ایک عام ٹیرس ہاؤس میں رہتے تھے۔ ان کی بیوی ایک بچوں کی ماہر نفسیات تھیں، اور دونوں اپنے گھر کے کام خود کرتے تھے۔ کھانا پکانا، کپڑے دھونا، اور گھاس کاٹنا ان کی روزمرہ کی زندگی کا حصہ تھا۔
اولوف پالمے سویڈن کے ایک ایسے رہنما تھے جو سرمایہ داری کے بے رحم استحصال کے مخالف تھے، لیکن کمیونزم کی سخت گیر پالیسیوں کو بھی مسترد کرتے تھے۔ وہ سوشلسٹ نظریے کے حامی تھے، لیکن ان کا ماننا تھا کہ سوشل ڈیموکریسی ہی اصل راستہ ہے، جہاں معاشی ترقی اور سماجی برابری کا توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ان کی قیادت میں سویڈن نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی اہم شعبوں میں نمایاں ترقی کی اور سویڈن نے دنیا کی بہترین فلاحی مملکت کے طور پر شہرت حاصل کی۔ اولف پالمے 1969ء سے 1976ء اور پھر 1982ء سے 1988ء اپنے قتل ہونے تک سویڈن کے وزیر اعظم رہے۔ ان کے پہلے دور میں پاکستان میںذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے۔ ان میں میں دوستانہ تعلقات کا آغاز اس وقت سے ہوا جب دونوں برکلے امریکہ میں ہم مکتب تھے۔ دونوں میں بہت نظریاتی ہم آہنگی تھی اور وہ سوشل ڈیموکریسی کے علمبردار تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1976ء میں سویڈن کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے دورے سے قبل ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا۔سویڈن میں پاکستانی سفیر ڈاکٹر افضل اقبال کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان سے انہیں فون کرکے کہا کہ وہ اپنا سویڈن کا دورہ منسوخ کررہے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے دورے کی تفصیلات کے مطابق سویڈش وزیر اعظم اولف پالمے ہوائی اڈہ پر ان کا استقبال نہیں کریں گے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے اپنی اور اہل پاکستان کی بے عزتی خیال کیا۔ ڈاکٹر افضل اقبال نے بھٹو کو سمجھانے کی کوشش کی کہ سویڈن میں ایسا نہیں ہوتا کہ وزیر اعظم ائیر پورٹ پر استقبال کرے لیکن بھٹو بضد تھے۔ اس صورت حال میں ڈاکٹر اٖفضل اقبال نے اولف پالمے سے ملاقات کی اور صورت حال سے آگاہ کیا۔ الوف پالمے نے پہلے تو ا نکار کیا لیکن بعد میں سفارتی تعلقات کے احترام میں ہوائی اڈے پر آنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک نادر موقع تھا جب انہوں نے اپنی پالیسی کے خلاف جا کر کسی کا استقبال کیا۔ذوالفقار علی بھٹو ستر افراد پر مشتمل ایک بھاری بھروفد ے ساتھ سویڈن آئے جس پر سویڈش پریس نے بہت تنقید کی۔ ایک غریب ملک کا وزیر اعظم اتنے بڑے وفد کے ساتھ دورے پر کیوں آیا؟اسی دورے کے دوران جب ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے اولف پالمے کے اعزاز میں ایک تقریب رکھی، تو وہاں ایک اور حیرت انگیز لمحہ آیا۔اولوف پالمے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے تقریب میں پہنچے، بارش کا کوٹ کندھے پر ڈالے ہوئے، اوربغیرکسی پروٹوکول کے ۔ تقریب کے بعد، جب وہ جانے لگے تو اچانک رک گئے۔وہ اپنا بارش کا کوٹ بھول گئے تھے! چونکہ کوئی اور اس کوٹ کو پہچان نہیں سکتا تھا، اس لیے انہوں نے خود جا کر اسے اٹھایا اور چل دیئے۔
جب بھٹو سویڈن کے بادشاہ سے ملنے گئے تو وہاںانہیں صرف ایک مشروب پیش کیا گیاکیونکہ تیسری منزل پر باورچی خانہ ہی نہیں تھا، چائے یا کافی کا انتظام ممکن نہ تھا۔یہ منظرپاکستان میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے بالکل برعکس تھا، جہاں چمک دار وردیوں میں ملبوس خدام کی ایک قطار نارویجن وزیر خارجہ کو چائے پیش کر رہی ہوتی، جبکہ نارو ے میں، اسی وزیر خارجہ نے خود چائے کی ٹرے اٹھا کرپاکستانی سفیر ڈاکٹر افضل اقبال کے سامنے رکھی تھی۔ یہ مشرق اور مغرب کے درمیان نمایاں فرق ہے۔برکلے اور آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، بھٹو اپنی فطرت میں جاگیردار ہی رہے۔ ان کی شاہانہ طرز زندگی تھی جبکہ سویڈش وزیر اعظم سادہ طبیعت کے حامل تھی۔ایک جیسے سیاسی نظریات کے باوجود دونوں کا کردار بہت مختلف تھا اور اس کا فرق دونوں کے مرنے کے بعد بھی صاف ظاہر ہے۔ اولف پالمے کی سٹاک ہوم میں ایک عام سی قبر ہے جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کا لاڑکانہ میں عالی شان مقبرہ اس فرق کو ہمیشہ نمایاں کیے رکھے گا۔ ایک جیسے سیاسی نظریات رکھنے والے راہنمائوں کی عملی زندگی اور کردار میں نمایاں فرق تھا۔ حقیقی لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوامی انداز اپنائے،سادگی اختیار کرے، اور طاقت کو صرف اقتدار کے لیے نہیں بلکہ عوام کی خدمت کے لیے استعمال کرے۔ ایسے ہی راہنما ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں اور دنیا بھی انہیں خراج عقیدت پیش کرتی ہے۔یہ سلسلہ بھٹوتک محدود نہیں تھا بلکہ اس کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ذوالفقار علی بھٹو ڈاکٹر افضل اقبال میں پاکستان سویڈن میں انہوں نے سویڈن کے ڈاکٹر ا کے لیے کے دور

پڑھیں:

پی کے ایل آئی میں جگر کی پیوند کاری کے 1ہزار کامیاب آپریشن مکمل ہو گئے

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) میں جگر کی پیوند کاری کے 1ہزار کامیاب آپریشن مکمل ہو گئے۔وزیرِ اعظم شہباز شریف نے پی کے ایل آئی کے جگر کی پیوند کاری کے 1 ہزار کامیاب آپریشن کا سنگِ میل عبور کرنے پر تشکر کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں پی کے ایل آئی کو تباہ کرنے کی مزموم سازشیں ہوتی رہیں، اللّٰہ کے فضل و کرم سے جو پودا 2017ء میں لگایا تھا، وہ آج تناور درخت بن گیا ہے۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ پی کے ایل آئی سے اب تک 40 لاکھ مریض مستفید ہو چکے ہیں، ادارہ 80 فیصد مریضوں کا مفت علاج کرتا ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ پی کے ایل آئی کے بورڈ آف گورنرز کو ختم کیا گیا اور ادارے کو غیر فعال کیا گیا، 2022ء میں پی کے ایل آئی کی ازسرِ نو بحالی پر کام شروع کیا۔

ہو کیا رہا ہے ۔۔؟کہیں خوشی کہیں غم ۔۔ ایک اور دھمکی ۔۔ انسانی بحران بڑھتاجا رہا ہے۔۔ لاکھوں سڑکوں پر ،جیلیں تفریحی کیمپ نہیں ۔۔ چہروں سے مسکراہٹیں مٹا دی گئی ہیں

شہباز شریف نے کہا کہ وزیرِاعلیٰ مریم نواز نے اس ادارے کو بھرپور استعداد پر دوبارہ لانے کے لیے بھرپور محنت کی، پی کے ایل آئی میں غریب عوام بین الاقوامی معیار کی سہولتوں سے مستفید ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی کے ایل آئی کے قیام اور اس کو بھرپور استعداد پر لانے کے لیے محنت کرنے والی ٹیم لائقِ تحسین ہے، دکھی انسانیت کی خدمت اور زندگیاں بچانے میں اس کا شاندار کردار ہے۔وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس خدمت کے لیے ڈاکٹر سعید اختر اور اُن کی پوری ٹیم خراجِ تحسین کی مستحق ہے۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • وزیرِاعظم کا شاندار انتخاب، خواجہ آصف کا مشرف زیدی کی تقرری کا خیرمقدم
  • پائیدار ترقی کے لیے ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں، حکومتی معاشی ٹیم کی مشترکہ پریس کانفرنس
  • وزیرِاعظم نے پیپلز پارٹی سے 27ویں ترمیم کی حمایت کی درخواست کی ہے: بلاول بھٹو زرداری
  • میری دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • عمران خان کو مشترکہ لائحہ عمل کے تحت رہا کروائیں گے، سہیل آفریدی
  • پی کے ایل آئی میں جگر کی پیوند کاری کے 1ہزار کامیاب آپریشن مکمل ہو گئے
  • معاشی بہتری کیلئے کردار ادا نہ کیا تو یہ فورسز کی قربانیوں کیساتھ زیادتی ہوگی، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال
  • مشترکہ لائحہ عمل کے تحت بانی پی ٹی آئی کو رہا کروائیں گے،وزیراعلیٰ سہیل آفریدی
  • سابق وزیر دفاع اور پیپلز پارٹی کے رہنما آفتاب شعبان میرانی انتقال کر گئے
  • ٹیکس نظام میں اصلاحات سے مثبت نتائج وصول ہو رہے ہیں؛ وزیر اعظم