امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دروازے بند نہیں، ایرانی رہنما
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) تہران نے اب تک امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس وارننگ کو مسترد کیا ہے کہ یا تو وہ معاہدہ کرے یا فوجی نتائج کا سامنا کرے۔ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے اس پیغام کو دھوکہ دہی پر مبنی قرار دے دیا ہے جبکہ وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا کہ جب تک واشنگٹن اپنی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی تبدیل نہیں کرتا، تب تک مذاکرات ناممکن ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر کے مشیر کمال خرازی نے کہا، ''اسلامی جمہوریہ نے تمام دروازے بند نہیں کیے ہیں۔ وہ امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کے لیے تیار ہے تاکہ دوسرے فریق کا جائزہ لے، اپنی شرائط پیش کرے اور مناسب فیصلہ کرے۔‘‘
ایران جلد ہی ٹرمپ کے خط کا جواب دینے والا ہے۔
(جاری ہے)
صدر ٹرمپ نے اس حوالے سے ایران کو اسی ماہ دو ماہ کی مہلت دی تھی۔
عراقچی نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ تہران اپنے جواب میں ٹرمپ کی دھمکی اور مواقع دونوں کو مدنظر رکھے گا۔اپنے پہلے دور حکومت میں صدر ٹرمپ نے ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 میں طے پانے والے جوہری معاہدے سے امریکہ کو نکال لیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت ایران کی طرف سے جوہری سرگرمیوں کو روکنے کے عوض اقتصادی پابندیوں میں نرمی کر دی گئی تھی۔
2018ء میں ٹرمپ کے معاہدے سے نکلنے اور امریکہ کی طرف سے وسیع پابندیاں دوبارہ عائد کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس کے بعد یورینیم کی افزودگی کے اپنے پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھایا۔
مغربی طاقتیں ایران پر خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے کا الزام لگاتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ یورینیم کو انتہائی خالص سطح پر افزودہ کر رہا ہے، جو ان کے مطابق صرف سول جوہری توانائی کے پروگرام کے لیے ضروری سطح سے کہیں زیادہ ہے۔
تہران کا مؤقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر شہری توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے
پڑھیں:
بمبار بمقابلہ فائٹر جیٹ؛ اسٹریٹجک اور ٹیکٹیکل بمبار میں کیا فرق ہے؟
ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے دوران امریکا کے بی-2 اسٹیلتھ بمبار کے استعمال سے دنیا میں بمبار سسٹم کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے اور رپورٹس کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک جدید بمبار سسٹمز کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
امریکا کا بی-2 بمبار اپنی ہیبت اور جدت کے اعتبار سے دنیا کا خطرناک ترین بمبار مانا جاتا ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر 13.6 ٹن جی بی یو-57 مواد گرایا تھا اور دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران کا انتہائی محفوظ تصور کیا جانا والا جوہری مرکز فردو کو تباہ کردیا ہے جبکہ ایران نے اس کو نقصان پہنچنے کی تصدیق کی تھی۔
غیرملکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایران اور اسرائیل کی جنگ کے بعد متعدد ممالک کی جانب سے جدید بمبار طیاروں کے حصول کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن فائٹر جیٹ اور طویل رینج کا ٹیکٹیکل یا اسٹریٹجک بمبار میں کیا فرق ہے؟ آئیے جانتے ہیں؛
فائٹر جیٹس اور بمبار کو مختلف مقاصد کے لیے تیار کیا جاتا ہے، فائٹر جیٹس بنیادی طور پر فضائی بالادستی، فضا سے فضا میں ہدف کو نشانہ بنانے اور فوجی بیسز، زیرزمین بنکرز اور کمانڈ سینٹرز اور بحری اہداف تباہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
دوسری جانب فائٹر جیٹ کا بنیادی مقصد دشمن کے جنگی جہازوں کو نشانہ بنانے، اپنی فضائی حدود کے دفاع اور فضائی بالادستی قائم کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
فائٹر جیٹس عام طور پر بمبار طیاروں سے تیز رفتار ہوتے ہیں اور ساتھ ہی جوہری اور روایتی ہتھیاروں پر مشتمل میزائلوں سے لیس ہوتے ہیں اور سیکڑوں ہزاروں کلومیٹر دور دشمن کے اہداف پر حملے کرسکتے ہیں۔
اسی طرح بمبار طیارے قدرے سست ہوتے ہیں ایک پرواز میں 10 ہزار کلومیٹر سے زیادہ فاصلے تک پرواز کرسکتے ہیں۔
گوکہ اسٹریٹجک یا ٹیکٹیکل بمبار کے ڈیزائن اور آرکیٹکچر میں بنیادی طور پر بڑا فرق نہیں ہوتا بلکہ اصل فرق دونوں بمبار طیاروں میں ہتھیار لے جانے کی صلاحیت ہے کیونکہ اسٹریٹجک بمبار روایتی مواد لے جاتا ہے جیسا کہ ہیوی بم وغیرہ۔
دوسری طرف ٹیکٹیکل بمبار جوہری بمبار گرانے کے لیے استعمال ہوتا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی بمبار دونوں روایتی اور ٹیکٹیکل جوہری بم گرانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا کے تین ممالک امریکا، روس اور چین کے پاس جدید بمبار طیارے ہیں اور اس کی وجہ جدید بمبار طیاروں پر ہونے والے اخراجات ہیں، اسی لیے یہ تین ممالک تک محدود ہے۔
مزید بتایا گیا کہ امریکا کے پاس بی-2 اسپرٹ اور بی-21 ریڈر، روس کے پاس ٹی یو-160 جیسے جدید بمبار ہیں اور چین کے پاس ایچ-20 بمبار ہیں۔