لبنان اور صیہونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کا نتیجے میں 106 افراد شہید
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
لبنانی وزارت صحت نے چند لمحے قبل ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس حملے میں دو افراد کی شہادت کی تصدیق کی اور اعلان کیا کہ لبنان اور صیہونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اب تک 106 لبنانی شہری شہید ہو چکے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ صیہونی ریاست نے لبنان کے ساتھ جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزی کرتے ہوئے، ایک گاڑی کو نشانہ بنا کر دو شہریوں کو شہید کر دیا۔ فارس نیوز کے مطابق، المیادین نیوز چینل نے رپورٹ دی کہ صیہونی ریاست نے جنوبی لبنان کے علاقے برعشیت میں ایک گاڑی پر ڈرون حملہ کیا۔ اس حملے میں متعدد افراد زخمی ہوئے، جبکہ کچھ ذرائع کے مطابق دو شہری شہید ہو گئے۔ لبنان کی سرکاری خبر رساں ایجنسی نے آج صبح اطلاع دی کہ اسرائیلی ڈرون حملے میں دبش کے علاقے میں ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا، جو کہ یحمر الشقیف کے مشرق میں واقع ہے، اور اسی وقت اس علاقے پر توپ خانے سے حملہ بھی کیا گیا۔
صیہونی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس حملے میں حزب اللہ کے چند اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا، جبکہ خبری ذرائع کے مطابق اس ڈرون حملے میں تین افراد شہید ہو گئے۔ اگرچہ حزب اللہ لبنان جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں کے باوجود ضبط و تحمل کا مظاہرہ کر رہا ہے، لیکن اسرائیل کے حملے جنوبی لبنان اور البقاع کے علاقوں میں بدستور جاری ہیں، اور صیہونی قابضین لبنان کی سرزمین چھوڑنے سے انکاری ہیں۔ لبنانی وزارت صحت نے چند لمحے قبل ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس حملے میں دو افراد کی شہادت کی تصدیق کی اور اعلان کیا کہ لبنان اور صیہونی ریاست کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اب تک 106 لبنانی شہری شہید ہو چکے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: صیہونی ریاست اس حملے میں اور صیہونی لبنان اور شہید ہو
پڑھیں:
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاحوں پر حملہ، 24 افراد ہلاک
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 اپریل 2025ء) ایک سینئر پولیس اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ آج 22 اپریل بروز منگل کیے گئے اس حملے میں کم از کم 24 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
اس سے قبل جموں و کشمیر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کا کہنا تھا، ''میں پہلگام میں سیاحوں پر اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتی ہوں، جس میں بدقسمتی سے پانچ افراد ہلاک اور کئی دیگر زخمی ہوئے ہیں۔
‘‘ حالیہ برسوں میں ہونے والا ہلاکت خیز حملہموجودہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا، ''یہ حملہ حالیہ برسوں میں شہریوں پر ہونے والے کسی بھی حملے سے کہیں زیادہ بڑا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد کا ابھی تعین کیا جا رہا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارے مہمانوں پر یہ حملہ ایک گھناؤنا فعل ہے۔ اس حملے کے مرتکب افراد حیوان ہیں اور وہ حقارت کے مستحق ہیں۔
‘‘خطے کے گورنر منوج سنہا، جو نئی دہلی کے نمائندے ہیں، نے بھی ''سیاحوں پر اس بزدلانہ اور دہشت گردانہ حملے‘‘ کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں عوام کو یقین دلاتا ہوں کہ اس مکروہ حملے کے ذمہ داروں کو سزا سے نہیں بچایا جا سکے گا۔‘‘
ابھی تک کسی بھی گروہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن اس مسلم اکثریتی خطے میں سن 1989 سے کشمیری عسکریت پسند ایک مسلح تحریک چلا رہے ہیں۔
یہ عسکریت پسند یا تو آزادی مانگتے ہیں یا پھر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں۔یہ حملہ پہلگام کے مشہور سیاحتی مقام پر ہوا، جو مرکزی شہر سرینگر سے تقریباً 90 کلومیٹر (55 میل) کے فاصلے پر ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے تعلق رکھنے والے رویندر رینا نے بھارتی نشریاتی اداروں سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ان بزدل دہشت گردوں نے نہتے معصوم سیاحوں کو نشانہ بنایا، جو کشمیر کی سیر کے لیے گئے تھے۔
کچھ زخمی سیاحوں کو مقامی ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا ہے۔‘‘ کشمیر میں سیاحت اور سکیورٹیسرکاری اعداد و شمار کے مطابق سن 2024 میں تقریباً 35 لاکھ سیاحوں نے کشمیر کا رخ کیا، جن میں اکثریت ملکی سیاحوں کی تھی۔ سن 2019 میں مودی حکومت کی جانب سے خطے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور نئی دہلی کا براہ راست کنٹرول نافذ کرنے کے بعد سے لڑائی میں کمی آئی ہے۔
اس کے بعد سے حکام نے اس پہاڑی خطے میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے بھرپور اقدامات کیے ہیں۔ کشمیر سردیوں میں اسکیئنگ اور گرمیوں میں بھارت کے دیگر حصوں کی شدید گرمی سے نجات کے لیے ایک پرکشش سیاحتی مقام ہے۔
سن 2023 میں بھارت نے سرینگر میں سخت سکیورٹی کے حصار میں جی ٹوئنٹی ممالک کے سیاحت سے متعلق اجلاس کی میزبانی کی تھی۔ حکام کے مطابق اس کا مقصد ''امن اور معمولات‘‘ کی بحالی کو ظاہر کرنا تھا۔
اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول کے قریب کئی نئے ریزورٹس بھی تیار کیے جا رہے ہیں۔بھارت نے اس خطے میں مستقل طور پر اپنے تقریباً پانچ لاکھ فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ بھارت اکثر پاکستان پر الزام عائد کرتا ہے کہ کشمیر میں سرگرم عسکریت پسندوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے، جبکہ اسلام آباد حکومت ان الزامات کی سختی سے تردید کرتی ہے۔
ادارت: مقبول ملک