سیوریج کے گارے سے گاڑیاں چلانے کا طریقہ دریافت
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
لاہور:
نانینگ یونیورسٹی سنگاپور کے سائنس دانوں نے سیوریج کے گارے سے گاڑیاں چلاتی ہائیڈروجن گیس اور جانوروں کے لیے پروٹین سے بھرپور چارا بنانے کا انقلابی سائنسی طریق عمل دریافت کر لیا۔
یاد رہے کراچی و لاہور سمیت دنیا بھر کے شہر وقصبے ہر سال ’’10 کروڑ ٹن‘‘یہ گارا پیدا کرتے ہیں، یہ سیوریج کی نالیاں بند کرتا اور ضائع جاتا ہے۔
نئے طریقے میں پہلے مخصوص کیمیکل گارے میں ملا کر دھاتیں الگ کی جاتی ہیں پھر الیکٹرولائسیز عمل سے گارا فیٹی تیزابوں میں بدلتا ہے جبکہ پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم ہوتا ہے، ہائیڈروجن بطور ایندھن استعمال ہو گی۔
آخر میں جراثیم گارے کے فیٹی تیزابوں کو پروٹین میں بدل کر اسے جانوروں کا بہترین چارا بنا دیتے ہیں، سنگاپور کے علاوہ سبھی شہر اس طریقے سے گارے جیسی بظاہر فضول شے کو کارآمد بنا سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
سائنس دانوں کی حیران کن دریافت: نظروں سے اوجھل نئی طاقتور اینٹی بائیوٹک ڈھونڈ لی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ویانا: سائنس دانوں نے ایک حیران کن دریافت کی ہے، ایک نیا اینٹی بائیوٹک جو پچاس سال سے موجود تھا لیکن ہر کسی کی نظروں سے اوجھل تھا۔
یہ نیا مرکب ”پری میتھلینومائسن سی لیکٹون“ (Pre-methylenomycin C lactone) کہلاتا ہے۔ ماہرین نے بتایا کہ یہ مشہور اینٹی بایوٹک ”میتھلینومائسن اے“ بننے کے عمل کے دوران قدرتی طور پر بنتا ہے، مگر اب تک اسے نظرانداز کیا جاتا رہا۔
یہ تحقیق یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے مشترکہ طور پر کی اور اسے جرنل آف دی امریکن کیمیکل سوسائٹی (جے اےسی ایس) میں شائع کیا گیا ہے۔
یونیورسٹی آف واراِک اور موناش یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر گریگ چالس کے مطابق، ’میتھلینومائسن اے کو 50 سال قبل دریافت کیا گیا تھا۔ اگرچہ اسے کئی بار مصنوعی طور پر تیار کیا گیا، لیکن کسی نے اس کے درمیانی کیمیائی مراحل کو جانچنے کی زحمت نہیں کی۔ حیرت انگیز طور پر ہم نے دو ایسے درمیانی مرکبات شناخت کیے، جو اصل اینٹی بایوٹک سے کہیں زیادہ طاقتور ہیں۔ یہ واقعی حیرت انگیز دریافت ہے۔‘
اس تحقیق کی شریک مصنفہ اور یونیورسٹی آف واراِک کی اسسٹنٹ پروفیسر،ڈاکٹر لونا الخلف نے کہا، ’سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نیا اینٹی بایوٹک اسی بیکٹیریا میں پایا گیا ہے جسے سائنس دان 1950 کی دہائی سے بطور ماڈل جاندار استعمال کرتے آرہے ہیں۔ اس جانی پہچانی مخلوق میں ایک بالکل نیا طاقتور مرکب ملنا کسی معجزے سے کم نہیں۔‘
تحقیق سے پتا چلا ہے کہ شروع میں S. coelicolor نامی بیکٹیریا ایک بہت طاقتور اینٹی بایوٹک بناتا تھا، لیکن وقت کے ساتھ اس نے اسے بدل کر ایک کمزور دوائی، میتھلینومائسن اے، میں تبدیل کر دیا، جو شاید اب بیکٹیریا کے جسم میں کسی اور کام کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
ماہرین کے مطابق، یہ دریافت نہ صرف نئے اینٹی بایوٹکس کی تلاش میں ایک اہم پیش رفت ہے بلکہ اس بات کی یاد دہانی بھی کراتی ہے کہ پرانے تحقیقی راستوں اور نظرانداز شدہ مرکبات کا دوبارہ جائزہ لینا نئی دواؤں کے لیے نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔