امریکہ نے بھارت میں دو ہزار سے زائد ویزا درخواستیں منسوخ کر دی ہیں۔ یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امیگریشن اور ویزا پالیسی کو مزید سخت کر دیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کے مطابق، بھارت میں ویزا اپوائنٹمنٹ کے نظام میں دھوکہ دہی اور بدنظمی کے شواہد ملے، جس میں بوٹس اور دیگر ”بدنیت عناصر“ شامل تھے۔ اس کے نتیجے میں سفارت خانے نے ان مشتبہ اکاؤنٹس کو معطل کر دیا اور ان کے ویزا اپوائنٹمنٹس منسوخ کر دیے۔

سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں لکھا، ’قونصلر ٹیم انڈیا تقریباً 2,000 ویزا اپوائنٹمنٹس منسوخ کر رہی ہے جو بوٹس کے ذریعے حاصل کی گئی تھیں۔ ہم ایسے ایجنٹس اور افراد کے لیے زیرو ٹالرنس رکھتے ہیں جو ہمارے شیڈولنگ قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ان تمام اپوائنٹمنٹس کو فوری طور پر منسوخ کیا جا رہا ہے اور متعلقہ اکاؤنٹس کو معطل کر دیا گیا ہے۔‘

بھارت میں امریکی ویزا درخواست گزار پہلے ہی شدید مشکلات کا شکار ہیں، خاص طور پر ”B1“ (کاروباری) اور ”B2“ (سیاحتی) ویزا کے امیدواروں کو کئی سالوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ 2022-23 میں ویزا کے لیے انتظار کا وقت 800 سے 1,000 دن تک جا پہنچا تھا۔

اس طویل انتظار کے مسئلے کو کم کرنے کے لیے امریکہ نے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ اور تھائی لینڈ کے دارالحکومت بینکاک میں بھارتی شہریوں کے لیے ویزا اپوائنٹمنٹس کی سہولت فراہم کی تھی۔

بھارتی حکومت کئی بار اس طویل انتظار کے مسئلے پر واشنگٹن سے شکایت کر چکی ہے۔ 2022 میں بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سے اس معاملے پر بات کی تھی۔ بائیڈن انتظامیہ نے اس تاخیر کی بڑی وجہ ”COVID-19“ وبا کو قرار دیا تھا۔

رواں سال جنوری میں، جب جے شنکر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت کے لیے واشنگٹن کا دورہ کیا، تو انہوں نے بلنکن کے جانشین، مارکو روبیو، سے اس مسئلے پر دوبارہ بات کی۔

ویزوں کے اجرا میں تاخیر کے علاوہ، مجموعی طور پر ویزا کی منظوری کی شرح میں بھی کمی آئی ہے، جس سے خاص طور پر بھارتی طلبہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اب ویزا درخواستوں میں دھوکہ دہی کے انکشاف کے بعد، امریکہ جانے کے خواہشمند افراد کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: کے لیے

پڑھیں:

امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 جولائی 2025ء) امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یونیسکو سے علیحدگی کی وجہ ادارے کی جانب سے ''تفریق کرنے والے سماجی و ثقافتی نظریات کو فروغ دینا‘‘ ہے۔

بروس نے کہا کہ یونیسکو کا فیصلہ کہ وہ ’’فلسطین کی ریاست‘‘ کو رکن ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے، امریکی پالیسی کے منافی ہے اور اس سے ادارے میں اسرائیل مخالف بیانیہ کو فروغ ملا ہے۔

وائٹ ہاؤس کی اسسٹنٹ پریس سیکرٹری اینا کیلی نے کہا، ''یونیسکو ایسے تقسیم پسند ثقافتی و سماجی مقاصد کی حمایت کرتا ہے جو ان عام فہم پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں جن کے لیے امریکی عوام نے نومبر میں ووٹ دیا۔

(جاری ہے)

‘‘

یونیسکو کا ردِعمل

یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے واشنگٹن کے فیصلے پر ''گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ادارہ اس صورتحال کے لیے پہلے سے تیار تھا۔

انہوں نے اسرائیل مخالف تعصب کے الزامات کو رد کرتے ہوئے کہا، ''یہ دعوے یونیسکو کی اصل کوششوں کے برخلاف ہیں۔‘‘

اس دوران فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے ایکس پر ایک پوسٹ میں یونیسکو کے لیے ''غیر متزلزل حمایت‘‘ کا اعلان کیا اور کہا کہ امریکہ کا فیصلہ فرانس کی وابستگی کو کمزور نہیں کرے گا۔

یونیسکو کے اہلکاروں نے کہا کہ امریکی علیحدگی سے ادارے کے کچھ امریکی فنڈ سے چلنے والے منصوبوں پر محدود اثر پڑے گا، کیونکہ ادارہ اب متنوع مالی ذرائع سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور اس کا صرف 8 فیصد بجٹ ہی امریکہ سے آتا ہے۔

اسرائیل کا ردعمل

اسرائیل نے امریکہ کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا۔ اقوام متحدہ میں اسرائیلی سفیر ڈینی ڈینون نے یونیسکو پر ''مسلسل غلط اور اسرائیل مخالف جانبداری‘‘ کا الزام عائد کیا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ نے ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں امریکہ کی ''اخلاقی حمایت اور قیادت‘‘ کا شکریہ ادا کیا اور کہا ’’اسرائیل کو نشانہ بنانے اور رکن ممالک کی سیاسی چالوں کا خاتمہ ضروری ہے، چاہے وہ یونیسکو ہو یا اقوام متحدہ کے دیگر پیشہ ور ادارے۔

‘‘ امریکہ پہلے بھی یونیسکو چھوڑ چکا ہے

یونیسکو طویل عرصے سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ایک بین الاقوامی محاذ رہا ہے، جہاں فلسطینی عالمی اداروں اور معاہدوں میں شمولیت کے ذریعے اپنی ریاستی حیثیت تسلیم کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسرائیل اور امریکہ کا مؤقف ہے کہ فلسطین کو اس وقت تک کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں شامل نہیں ہونا چاہیے جب تک وہ اسرائیل کے ساتھ ایک مکمل امن معاہدے کے تحت ریاستی درجہ حاصل نہ کر لے۔

امریکہ نے پہلی بار 1980 کی دہائی میں یونیسکو پر سوویت نواز جانبداری کا الزام لگا کر اس سے علیحدگی اختیار کی تھی، لیکن 2003 میں دوبارہ شمولیت اختیار کی۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن سابق صدر جو بائیڈن کے دور حکومت میں دو سال قبل امریکہ نے یونیسکو میں دوبارہ شمولیت اختیار کی تھی ۔

ادارت: صلاح الدین زین

متعلقہ مضامین

  • انسداد دہشتگردی عدالت؛ پی ٹی آئی رہنما کے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد منسوخ
  • لاہور کے 9 مئی مقدمات میں ضمانت منسوخ ہونے پر بانی پی ٹی آئی کا سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ
  • کوہستان کرپشن اسکینڈل سے متعلق اعداد وشمار سامنے آگئے
  • گوگل اور مائیکروسافٹ کو بھارتیوں کو ملازمتیں دینے سے منع کر دیا گیا
  • ایران اور امریکی جنگی جہاز ایک بار پھر آمنے سامنے ، صورتحال کشیدہ
  • 9 مئی کیس میں 10، 10 سال کی سزا پانے والے پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل سامنے آگیا
  • کوہستان کرپشن اسکینڈل، ملزمان کی جانب سے پلی بارگین کیلئے درخواستیں دائر
  • امریکہ نے ایک بار پھر یونیسکو سے تعلق ختم کر لیا
  • امریکہ جانے کے خواہشمند افراد کیلئے بری خبر آگئی
  • دریائے شگر میں بڑھتی طغیانی، ہزاروں کنال اراضی اور آبادی خطرے میں