لوگ تو خواہ مخواہ گھبرا رہے ہیں تشویش میں مبتلا ہورہے ہیں دکھی ہورہے ہیں ورنہ حالات نہایت ہی آئیڈل اور خواہشات کے عین مطابق چل رہے ہیں بلکہ روز بروز اور زیادہ سے زیادہ تسلی بخش اطمینان بخش اور دل خوش کن ہورہے ہیں۔مرنے والوں کا کیا ہے وہ تو مرتے رہتے ہیں کہ جو پیدا ہوا ہے وہ مرنے کے لیے ہی پیدا ہوا ہے، باقی مایا ہے سب مایا ہے۔جلد یا بدیر مسافر کو منزل تک پہنچنا ہے۔کون جیا۔یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے اور انسان تو حریص ہے کہ
ہوعمر خضر بھی تو کہیں گے بوقت مرگ
ہم کیا رہے یہاں ابھی آئے ابھی چلے
ہم ان دھماکے دار،دھواں دار اور خون بار خبروں کی بات کررہے ہیں جو ہر روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں جن پر چھوٹے بڑے حسب معمول اور حسب روایت ’’دکھ‘‘ کا اظہار کرنے کے لیے پہلے سے چھپے ہوئے بیانات جاری ہوتے ہیں۔ دانا دانشور،چینلوں پر دانش کے دریا بہاتے ہیں بلکہ آنسوؤں کے بھی۔ اخبارات میں دانا دانشور کاغذ سیاہ کرتے ہیں یہ کہ سارے دھندے چل رہے ہیں۔یہ تو آپ مانتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور مومن کی نشانی کیا ہے؟
نشان مرد مومن باتو گوئم
چوں مرگ آئیدتبسم برلب اوست
دراصل لوگ اس معاملے کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں گہرائی اور گیرائی سے نہیں سوچتے چلوبھرپانی میں خود کو بھگوتے ہیں اور’’غور‘‘ کے حوض میں اطمینان سے غوطہ زنی نہیں کرتے ورنہ ان کو پتہ چل جاتا۔کہ یہ خون جو اسکولوں اور گلی کوچوں میں بہہ رہا ہے رائیگاں نہیں جارہا ہے کیونکہ ایک تو’’دانہ‘‘ خاک میں مل کر گل وگلزار ہوتا ہے دوسرے خون بہتا ہے تو رنگ لاتا ہے
مریض عشق کا کیا ہے جیا،جیا نہ جیا
یہ چاک چاک گریباں سیا،سیا نہ سیا
چلیے ہم آپ کو سمجھاتے ہیں۔یہ جو ہمارا پیارا پیارا راج دلارا سب سے نیارا پاکستان ہے یہ ہم نے کس لیے بنایا ہے؟اسلام کے لیے۔کچھ اور بھی مقاصد ہوں گے لیکن مین پوائنٹ یہی تھا اور رہے گا۔پھر یہ بتائیں کہ مومنوں میں کس کا درجہ زیادہ بلند ہوتا ہے؟نمازیوں اور شہیدوں کا
پناکرد مدخوش رسمے یہ خون و خاک غلطیدن
خدا رحمت کندایں عاشقاں پاک طنیت
اور۔شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔ مطلب یہ کہ مطلب واضح ہے۔یہ دو درجات غازی اور شہید کی بلند درجات ہیں اور
یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی
اب اگر ہم’’وہاں‘‘ رہتے ان ہندوؤں اسلام دشمنوں کے ساتھ تو کیا ہوتا؟۔یہ ہوتا کہ اگر کوئی مسلمان ہندو کو مارتا۔تومسلمان’’غازی‘‘ تو ہوجاتا۔ لیکن شہادت کا مرتبہ ہاتھ سے نکل جاتا۔اور اگر کوئی ہندو مسلمان کو مارتا تو مسلمان شہید ہوتا لیکن غازی کا رتبہ ہاتھ سے جاتا رہتا۔سوچنے والی بات ہے اس پر ایک مرتبہ پھر سوچیے۔۔۔۔ارے۔۔ہاں یہ سوچنے کا فضول کام توآپ کرتے نہیں ہم خواہ مخواہ ’’آم‘‘ سے سیب کی توقع رکھتے ہیں یا آم کے پیڑ میں خربوزے ڈھونڈتے ہیں۔اس لیے ہم ہی بتائے دیتے ہیں۔کہ سعادت ادھوری رہ جاتی
وحشت میں کوئی ساتھ ہمارا نہ دے سکا
دامن کی فکر کی تو گریباں نگل گیا
اس لیے سوچنے والوں نے سوچا اور بہت اچھا سوچا کہ کیوں نہ ایسی کوئی تدبیر کی جائے کہ چٹ بھی اپنی پٹ بھی اپنی ہوجائے۔رند کے رند رہیں اور ہاتھ سے جنت بھی نہ جائے۔اب کیا خیال ہے۔بات آئی سمجھ میں۔۔۔ارے۔سوری ہم پھر کیکر میں گلاب ڈھونڈنے لگے۔بہرحال نتیجہ سامنے ہے۔ دونوں سعادتیں ہم ہی سمیٹ رہے ہیں اور خوب سمیٹ رہے ہیں بلکہ ابتدا ہی سے یہ سلسلہ چل رہا ہے۔
معمول کا سلسلہ تو ہمیشہ چلتا رہتا ہے لیکن اس میں کبھی کبھی بڑے بڑے سعادت خیز ’’مواقع‘‘ بھی آجاتے ہیں جیسے بنگلہ دیش میں آیا تھا یا پھر یہاں آج کل زوروں سے چل رہا ہے دراصل پاکستان میں اور بھی بہت کچھ ہونے کے علاوہ’’ٹوان ون‘‘ کا سلسلہ بھی چل رہا ہے۔یہاں جو رہبر ہوتا ہے وہ رہزن بھی ہوتا ہے جو افسر ہے وہ دانشور بھی ہوتا ہے جو دانا ہے وہ احمق بھی ہوتا ہے جو چور ہے وہ سپاہی بھی ہوتا ہے جو شاہ ہے وہ گدا بھی ہوجاتا ہے الیکشن کے دنوں میں۔ جو سبز ہے وہ اندر سے سرخ بھی ہوتا ہے مطلب یہ کہ جناب شیخ کا نقش قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی۔ ایک اور خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمیں ڈبل ڈبل سعادتیں حاصل کرنے میں کچھ اور لوگ بھی ہمارے مددگار ہیں۔مثلاً یورپ والے امریکا والے۔ یہاں تک کہ یہودی بھی۔جو ہمیں دھڑا دھڑ ہتھیار بنا بناکر پہنچارہے ہیں اور ہماری مدد کر رہے ہیں دامے درمے سخنے اور ہتھیارے۔پیانے آفرینے۔اور اگر یہی سلسلہ اسی طرح جاری رہا مسلسل رہا ہے ، متواتر رہا۔لگاتار رہا موسلادھار رہا۔ تو توقع ہے کہ مسلمان دونوں سعادتوں سے مالا مال ہوتے رہیں گے اس لیے فکرناٹ،یشویش نو۔ہم نے معاملے کا اصل اور پوشیدہ بلکہ’’مین‘‘ اینگل بتادیا ہے اس اینگل سے دیکھیے تو سب کچھ اطمینان بخش نظر آجائے گا اور دیواستبداد کی جگہ نیل پری ناچتی ہوئی دکھائی دے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بھی ہوتا ہے جو ہیں اور رہے ہیں رہا ہے
پڑھیں:
جب بھی کراچی آتا ہوں یہاں کا انفرااسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے، وفاقی وزیر عبد العلیم خان
کراچی(ڈیلی پاکستان آن لائن)وفاقی وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان نے کہا ہے کہ جب بھی کراچی آتا ہوں مجھے یہاں کا انفرااسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے۔اپنے بیان میں عبدالعلیم خان کا کہنا تھاکہ کراچی کا موجودہ انفرااسٹرکچر ہمارے معاشی مرکز کے شایانِ شان نہیں۔ انہوں نے کہاکہ جب بھی کراچی آتا ہوں مجھے یہاں کا انفرااسٹرکچر دیکھ کر انتہائی دکھ ہوتا ہے۔
عبدالعلیم خان کا کہنا تھاکہ لیاری ایکسپریس وے پرجاری کام غیرتسلی بخش ہے، ممبر ساؤتھ کومعطل کرنےکی ہدایت کردی، لیاری ایکسپریس وے کومثالی منصوبےمیں تبدیل کیا جائےگا۔انہوں نے کہا کہ ایم-6 اور ایم-10 موٹروے منصوبے اسی مالی سال کے دوران شروع ہوں گے اور یہ سندھ کی عوام کےلیے ایم 6 اور ایم10 موٹروے وفاقی حکومت کا تحفہ ہیں۔وفاقی وزیر کا کہنا تھاکہ کراچی کی عوام کوصاف ستھرا شہر اور معیاری انفرااسٹرکچر فراہم کریں گے، موٹرویز کی تکمیل سے کراچی پورٹ پورے ملک سے براہِ راست منسلک ہو جائے گا۔
خیبر پختونخوا حکومت کو چاہئے ڈی جی آئی ایس پی آر کے خیرمقدمی بیان پر مثبت ردعمل دیا جائے،فواد چودھری
مزید :