بحیرہ اسود روس اور یوکرین کے لیے اہم کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 29th, March 2025 GMT
جنگ بندی کے لیے مذاکرات
گزشتہ ہفتے امریکہ نے روس اور یوکرین کے ساتھ علیحدہ مذاکرات کیے تاکہ بحیرہ اسود میں لڑائی کو روکا جا سکے۔ یہ مقام خوراک کی برآمدات کے لیے ایک اہم راستہ ہے۔ اس امریکی کوشش کا مقصد دراصل جنگ کا مکمل خاتمہ ممکن بنانا ہے۔
منگل کے روز وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ دونوں ممالک نے بحیرہ اسود کے علاقے میں جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے اور اس خطے میں جہاز رانی کو بحال کرنے کی اجازت جلد ہی دے دی جائے گی۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے اعلان کیا کہ جنگ بندی فوری طور پر نافذ العمل ہو گی۔تاہم کریملن کا کہنا ہے کہ جنگ بندی صرف اس وقت نافذ ہو گی، جب کچھ شرائط پوری ہوں گی۔ ان میں ایک اہم شرط یہ بھی ہے کہ ایسی روسی کمپنیوں اور بینکوں پر عائد پابندیوں کا جزوی خاتمہ کیا جائے، جو اس اہم بحری روٹ کی تجارت میں شامل ہیں۔
(جاری ہے)
اس سے قبل سن دو ہزار بائیس اور تیئس میں ترکی اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں ایک معاہدہ طے پایا تھا، جو یوکرین کے غلے کی بلا تعطل برآمدات کی اجازت دیتا تھا۔
تاہم روس نے بعد میں اس معاہدے کو ختم کر دیا تھا کیونکہ مغربی ممالک نے اس کی بعض شرائط پوری نہیں کیں تھیں۔ ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ روسی زرعی بینک کو SWIFT سسٹم سے دوبارہ منسلک دیا جائے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اگر ایک نیا معاہدہ طے پا جاتا ہے تو عالمی سطح پر خوراک کی دستیابی میں نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔
بحیرہ اسود: روس اور یوکرین کے لیے ایک اہم تجارتی راستہماہرین کا کہنا ہے کہ اختلافات کے باوجود فریقین جلد ہی جنگ بندی پر متفق ہو سکتے ہیں۔
تجزیہ کار اور محقق الیگزینڈرا فلیپنکو نے کہا کہ یہ معاہدہ ''چھوٹے اقدامات میں ایک بڑا قدم‘‘ ہے، جو کشیدگی کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ انہیں یقین ہے کہ اس ڈیل سے تناؤ میں کمی ہی آئے گی۔
اقوام متحدہ کے مطابق جولائی سن 2022 سے جولائی 2023ء کے درمیان ایک معاہدے کے تحت یوکرین نے 45 کو 32 ملین ٹن غلہ برآمد کیا تھا۔
روسی غذائی برآمدات کے لیے بھی بحیرہ اسود انتہائی اہم ہے۔ سن دو ہزار اکیس اور بائیس کے دوران روس کی چھیاسی فیصد زرعی اجناس کی برآمد بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کے ذریعے ہوئی تھیں۔
غلہ برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں یوکرین کا شمار بھی ہوتا ہے۔ اس کے زیادہ تر خریدار شمالی افریقہ، مشرق وسطیٰ اور جنوبی و جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک ہیں۔
اس لیے بحیرہ اسود میں استحکام یوکرین کی معیشت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ بحیرہ اسود کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟یوکرینی صدر زیلنسکی نے کہا کہ ان کا ملک اس علاقے پر کنٹرول رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''وہ (روس) طویل عرصے سے بحیرہ اسود کی راہداری پر کنٹرول کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ہم اس کے لیے لڑ رہے ہیں کیونکہ یہ جنگ کے خاتمے کی طرف ایک قدم ہے۔
ہم بحیرہ اسود کی صورتحال کو کنٹرول میں رکھے ہوئے ہیں۔‘‘یوکرینی تجزیہ کار الیگزینڈر پالی کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران روس کو بحیرہ اسود کے مشرقی حصے کی طرف دھکیل دیا گیا ہے اور اس لیے وہ بڑے حملے کرنے سے قاصر ہے، '' یہ یوکرین کے سمندری ڈرونز کے موثر استعمال کی وجہ سے ممکن ہوا۔‘‘
پالی کے مطابق اب یوکرین کی زرعی اجناس کی تجارت تقریباً جنگ سے پہلے کے سطح پر بحال ہو چکی ہے جبکہ روس کے لیے ایک نیا معاہدہ زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
پالی نے مزید کہا، ''یوکرین کسی بھی وقت روسی بحری جہازوں کو نشانہ بنا سکتا ہے، خاص طور پر ان جہازوں کو جو تیل اور دیگر اشیاء کی برآمدات کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔ تاہم یوکرین ماحولیات کے اثرات کو مدنظر رکھتا ہے اور ترکی اور امریکہ جیسے ممالک کی پوزیشن کو اہمیت دیتا ہے، اسی لیے وہ بہت محتاط ہے۔‘‘
بحیرہ اسود میں روس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخروس کا کہنا ہے کہ بحیرہ اسود نہ صرف تجارتی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ اس کی ملکی سلامتی کے لیے بھی اہم ہے۔
بین الاقوامی قوانین کے مطابق بحیرہ اسود کی ساحلی پٹی کا صرف دس فیصد روس میں آتا ہے۔ تاہم اپنے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی بدولت روس تقریباً ایک تہائی ساحلی علاقے کو کنٹرول کرنے کے قابل ہو چکا ہے۔
روس کے اس اثر و رسوخ کی بنیادی وجہ کریمیا میں اس کی فوجی موجودگی ہے، جیسے ماسکو حکومت نے سن 2014 میں غیر قانونی طور پر روس کے ساتھ ضم کر لیا تھا۔
اس کے علاوہ غیر تسلیم شدہ ریاست ابخازیہ میں روسی موجودگی بھی ایک اہم عنصر ہے۔روسی صدر پوٹن اس خطے میں روس کی موجودگی کو مزید بڑھانے کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ روس نے دھمکی دی ہے کہ اگر کییف حکومت روس کے زیر قبضہ یوکرینی ریجن کو روس کا حصہ تسلیم نہیں کرتا تو وہ ایک اور یوکرینی بندرگاہی شہر اوڈیسا پر بھی قبضے کر سکتا ہے۔
’’روس مذاکرات کو طول دے رہا ہے‘‘، یوکرینی صدرروسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے منگل کے روز کہا کہ روس نئے معاہدے کو زرعی اجناس کی برآمد کے گزشتہ معاہدے کی بنیاد پر تشکیل دینا چاہتا ہے لیکن اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ روسی مفادات محفوظ رہیں۔
پیرس میں نیٹو اور یورپی رہنماؤں کے ساتھ ملاقات کے بعد زیلنسکی نے کہا کہ روسی پابندیوں کا خاتمہ سفارتی تباہی ہو گی، ''وہ (روسی حکام) مذاکرات کو غیر ضروری طول دے رہے ہیں اور امریکہ کو بے معنی بحث میں الجھانا چاہتے ہیں تاکہ وقت حاصل کر کے مزید زمین پر قبضہ کیا جا سکے۔‘‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ روس کے لیے بحیرہ اسود میں جنگ بندی کا معاہدہ کسی نقصان کے بغیر بڑے فوائد لا سکتا ہے۔ کریملن کی شرائط ظاہر کرتی ہیں کہ وہ کم سے کم رعایت دے کر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بحیرہ اسود کی کا کہنا ہے کہ اور یوکرین یوکرین کے کی برآمد سکتا ہے میں ایک ایک اہم کے لیے روس کے کہ روس
پڑھیں:
اوباما نے 2016 امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق جعلی انٹیلیجنس تیار کی، ٹولسی گیبارڈ کا دعویٰ
امریکہ کی سابق کانگریس رکن اور موجودہ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس، ٹولسی گیبارڈ نے ایک ہنگامہ خیز بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق انٹیلیجنس معلومات کو ’گھڑ کر‘ پیش کیا تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو غیر قانونی قرار دیا جا سکے۔
گیبارڈ کے ان الزامات کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دہرایا ہے، جبکہ اوباما کے دفتر نے ان دعوؤں کو ‘مضحکہ خیز‘ اور ’حقیقت سے ماورا قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ڈونلڈ ٹرمپ کا باراک اوباما پر غداری کا الزام، سابق صدر نے ردعمل میں کیا کہا؟
یاد رہے کہ ٹولسی گیبارڈ نے اپنے دعویٰ میں اوباما انتظامیہ پر جھوٹی انٹیلیجنس تیار کرنے کا الزام لگایا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما کو ’سازش کا سرغنہ‘ قرار دیا۔ دوسری طرف اوباما کے دفتر نے الزامات کو سیاسی توجہ ہٹانے کی چال قرار دیا۔ CNN، NYT، اور سینیٹ کی رپورٹس اب تک روسی مداخلت کی تصدیق کر رہی ہیں۔
’یہ انٹیلیجنس ناکامی نہیں، جعل سازی تھی‘ایک پریس بریفنگ کے دوران ٹولسی گیبارڈ نے کہا کہ نئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکی تاریخ میں انٹیلیجنس کا سب سے زیادہ شرمناک سیاسی استعمال تھا۔ یہ کوئی ناکامی نہیں تھی بلکہ ایک دانستہ جعلی بیانیہ تیار کیا گیا تاکہ روس کو ٹرمپ کی جیت سے جوڑا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جنوری 2017 کی ’انٹیلیجنس کمیونٹی اسیسمنٹ (ICA)‘ کی تیاری جھوٹی بنیادوں پر کی گئی، اور اس کا مقصد ٹرمپ کی صدارت کو بدنام کرنا تھا۔
گیبارڈ نے اس رپورٹ کو امریکی محکمہ انصاف اور FBI کو تفتیش کے لیے بھی بھیج دیا ہے، اور کہا کہ چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، ملوث تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
’ہم نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑا‘، ٹرمپ کا ردعملصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گیبارڈ کے دعوے کی مکمل تائید کی اور کہا کہ اوباما، کلنٹن، سوسن رائس اور دوسرے اس سازش کے سرغنہ تھے۔ انہوں نے سوچا یہ سب کلاسیفائیڈ دستاویزات میں چھپا دیا جائے گا، مگر اب سچ باہر آ رہا ہے۔
انہوں نے گیبارڈ کو سراہتے ہوئے کہا
’ٹولسی نے کہا ہے کہ ابھی تو یہ شروعات ہے، اصل انکشافات ابھی باقی ہیں۔‘
ٹرمپ نے گیبارڈ کی تعریف کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’وہ سب سے زیادہ پرکشش بھی ہیں اور سب سے باخبر بھی۔‘
الزام کس پر ہے؟رپورٹ میں جن سابق اعلیٰ انٹیلیجنس افسران کے نام سامنے آئے، ان میں شامل ہیں:
جیمز کلاپر (سابق ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس)، جان برینن (سابق ڈائریکٹر سی آئی اے)، جیمز کومی (سابق ڈائریکٹر ایف بی آئی)۔
گیبارڈ کے مطابق، ان افراد نے جان بوجھ کر ایک سیاسی مقصد کے تحت یہ انٹیلیجنس تیار کی۔
’یہ الزامات بے بنیاد ہیں‘ ترجمان باراک اوبامااوباما کے ترجمان، پیٹرک روڈن بش نے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات نہ صرف غیر سنجیدہ ہیں بلکہ توجہ ہٹانے کی ایک کمزور کوشش بھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نئی رپورٹ کسی بھی طور پر یہ ثابت نہیں کرتی کہ روس نے مداخلت کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ 2020 کی دو طرفہ سینیٹ انٹیلیجنس کمیٹی کی رپورٹ، جو ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو کی سربراہی میں شائع ہوئی، اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ روس نے ٹرمپ کو فائدہ پہنچانے کے ارادے سے مداخلت کی تھی۔
دیگر ذرائع کیا کہتے ہیں؟CNN اور نیویارک ٹائمز نے رپورٹ شائع کی ہے کہ گیبارڈ کی طرف سے جاری کردہ دستاویزات دراصل 2017 میں ریپبلکن پارٹی کی زیرقیادت ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کی نظر ثانی شدہ رپورٹ ہیں، جو کئی مرتبہ سیاسی جانبداری کے الزامات کا شکار رہ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ٹرمپ کی کامیابی پر اوباما کا محتاط تبصرہ، اس میں خاص کیا ہے؟
اب تک سامنے آنے والی آزادانہ تحقیقات، بشمول رابرٹ مولر کی رپورٹ، اس بات پر متفق ہیں کہ روس نے 2016 کے انتخابات میں مداخلت کی، کوئی ثابت شدہ ساز باز (collusion) ٹرمپ ٹیم کے ساتھ نہیں ملی مگر مداخلت کا مقصد ٹرمپ کو فائدہ دینا تھا
سوالات جو ابھرتے ہیںاگر یہ الزامات درست ہیں تو اب تک انہیں خفیہ کیوں رکھا گیا؟ کیا گیبارڈ واقعی مزید شواہد منظر عام پر لائیں گی؟ کیا یہ معاملہ 2024 کے صدارتی انتخابات پر اثر ڈال سکتا ہے؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ ان بیانات کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے؟
ٹولسی گیبارڈ کے الزامات نے امریکی سیاست میں ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف، وہ اور ٹرمپ اس معاملے کو ’سیاسی سازش‘ قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف سابق حکام اور میڈیا ان دعوؤں کو غیر مصدقہ اور سیاسی طور پر جانبدار قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ مکمل شفاف انکوائری ہو، دستاویزی شواہد سامنے لائے جائیں اور اگر کوئی سیاسی یا قانونی خلاف ورزی ہوئی ہو، تو جواب دہی کی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
باراک اوباما ٹولسی گیبارڈ ڈونلڈ ٹرمپ