معاشی اشاریے بہتر، لیکن کیا عوام کو بھی کوئی فائدہ ہوگا؟
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کی حکومت کو ایک سال سے زیادہ وقت ہوگیا ہے، حکومت کی جانب سے مختلف اوقات میں دعویٰ کیا گیا کہ ملکی معاشی حالات بہتر ہو گئے ہیں اور معاشی اشاریے مثبت ہیں، جبکہ مہنگائی کی شرح 38 فیصد سے کم ہو کر 1.5 فیصد پر آگئی ہے اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں 48 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ایک سال میں برآمدات میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے، کراچی اسٹاک مارکیٹ نے 22 سال میں بہترین منافع کمایا اور 100 انڈیکس میں 84 فیصد کا اضافہ ہوا، شرح سود میں 900 بیسز پوائنٹس کی کمی ہوئی، رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں غیر ملکی براہِ راست سرمایہ کاری میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے اور وہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں، جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر سے بڑھ گئے ہیں اور ترسیلات زر 17 ارب 80 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس ایک ارب 21 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
نجی خبررساں ادارے نے معاشی ماہرین سے گفتگو کی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر معاشی اشاریے مثبت ہوگئے ہیں تو اس کا عوام کو کیا فائدہ ہوگا، یا عوام کو اس کا ریلیف کب تک ملے گا؟
جن معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، شہباز رانا
ماہر معیشت شہباز رانا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جن معاشی اشاریوں میں بہتری آئی ہے ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں، میرے خیال میں معاشی اشاریوں میں بہتری تو ابھی نہیں آئی لیکن کچھ ٹھہراؤ ضرور آیا ہے، اس وقت بھی گروتھ ریٹ ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ جو مہنگائی میں کمی کی بات کی جا رہی ہے وہ دراصل مہنگائی بڑھنے کی شرح کم ہونے کی بات ہے، مہنگائی تو بڑھ رہی ہے صرف اس کے بڑھنے کی شرح کم ہوئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عوام کے لیے ایک سال میں اشیا کی قیمتوں میں مزید 6 سے ساڑھے 6 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس کے علاوہ بے روزگاری بھی اپنی جگہ موجود ہے اور غربت میں بھی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔
شہباز رانا نے کہاکہ گزشتہ چند سالوں سے معیشت میں ایک ڈاؤن فال تھا، اس وقت معاشی اشاریے بہتر تو ہیں لیکن آئیڈیل نہیں ہیں، اس وقت ملک میں معاشی استحکام آیا ہے اگر یہ استحکام مزید ایک سے ڈیڑھ سال رہتا ہے تو اس کے بعد ہی عوام کو کوئی ریلیف مل سکے گا۔
معاشی اشارے بہتر ہونے سے عوام کو کچھ ریلیف ضرور ملا، شعیب نظامی
معاشی تجزیہ کار شعیب نظامی نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ملک میں مہنگائی کی شرح بڑھنے کی رفتار کم ہوئی ہے جس کی وجہ سے روزمرہ استعمال کی کھانے پینے کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی اور من مانی قیمت وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہے۔
انہوں نے کہاکہ معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں جس کا عوام کو کچھ ریلیف ملا ہے، پاکستان میں اس سال پیاز کی بلند ترین قیمت 120 روپے تک گئی جو کہ گزشتہ سال 300 روپے تک تھی، آلو کی بلند ترین قیمت 110 روپے تک گئی جو گزشتہ سال 180 روپے تک پہنچی تھی، خوردنی تیل کی قیمت 595 روپے لیٹر تک گئی جو گزشتہ سال 630 روپے تک تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مختلف سبزیوں کے ریٹ اتنے کم ہوئے ہیں کہ کاشتکار کی لاگت بھی پوری نہیں ہورہی، لیکن اس سب کی وجہ حکومتی کارکردگی نہیں بلکہ طلب اور رسد سمیت دیگر عوامل کا شامل ہونا ہے۔
شعیب نظامی نے کہاکہ گزشتہ چند ماہ سے شرح سود میں مسلسل کمی کی وجہ سے چھوٹے پیمانے پر چلنے والی صنعتوں کی پیداواری لاگت کم ہوئی ہے، اسی لیے روزمرہ استعمال کی کچھ بنیادی اشیا جن میں جوتے، کپڑے، موزے سمیت دیگر کی قیمتوں میں اضافہ نظر نہیں آیا۔
آئی ایم ایف شرائط کی وجہ سے عوام کو ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا، شکیل احمد
ماہر معیشت شکیل احمد نے نجی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں شامل ہے حکومت کو ایک ڈسپلن فالو کرنا ہوتا ہے، جس طرح کی عالمی مالیاتی ادارے کی شرائط ہیں عوام کو ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا، حکومت کا دعویٰ ہے کہ افراطِ زر 1.
شکیل احمد نے کہاکہ فی الحال تو مارکیٹ میں کھانے پینے کی اشیا سبزی، فروٹ سستا ہے لیکن دیگر اشیا مہنگی ہیں، ایک سال قبل انفلیشن ریٹ 28 فیصد تھا تو اشیا کی قیمتوں میں اس طرح کمی نہیں آئی جس طرح آنی چاہیے تھی۔
شکیل احمد نے کہاکہ حکومت نے عوام کو ریلیف نہیں دیا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جا سکتی تھی تاہم حکومت نے لیوی بڑھا دی ہے اور اب 60 سے بڑھا کر 70 روپے فی لیٹر لیوی وصول کی جا رہی ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی سے ریلیف دیا جائے گا لیکن دراصل اضافی پیٹرولیم لیوی کی مد میں جو ٹیکس وصول کیا جائے گا اسی سے ریلیف دیا جائے گا، یعنی عوام کی جیبوں سے پیسے نکال کے ہی عوام کو ریلیف دینے کی بات ہو رہی ہے۔
مزید پڑھیں:اسپیکر پنجاب اسمبلی نے عوام سے رابطے کیلئے بڑا اعلان کردیا
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عوام کو ریلیف کی قیمتوں میں معاشی اشاریے شکیل احمد اضافہ ہوا نے کہاکہ سے گفتگو ایک سال کا عوام روپے تک کی قیمت کی شرح ہے اور کی وجہ رہی ہے
پڑھیں:
قومی اقتصادی سروے کل پیش کیا جائے گا، معاشی ترقی کا ہدف حاصل نہ ہو سکا
اسلام آباد:قومی اقتصادی سروے کل پیش کیا جائے گا جب کہ حکومت معاشی ترقی کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے مالی سال 2024-25 کی اقتصادی کارکردگی پر مبنی اکنامک سروے کل پیش کیا جائے گا، جس کے مطابق رواں مالی سال پاکستان کی معیشت کی عبوری شرح نمو 2.68 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 3.6 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے۔
ذرائع کے مطابق رواں مالی سال کے دوران معیشت کا حجم 39 ارب 30 کروڑ ڈالر کے اضافے سے 410 ارب 96 کروڑ ڈالر تک پہنچا جب کہ گزشتہ سال یہ حجم 371 ارب 66 کروڑ ڈالر تھا۔
معیشت کا حجم ملکی سطح پر 9600 ارب روپے بڑھا اور مجموعی حجم 114.7 ہزار ارب روپے رہا، جو گزشتہ سال کے 105.1 ہزار ارب روپے کے مقابلے میں نمایاں اضافہ ہے۔ اسی طرح فی کس سالانہ آمدن 144 ڈالر کے اضافے سے 1680 ڈالر رہی۔
ملکی زرعی شعبے کی کارکردگی مجموعی طور پر مایوس کن رہی۔ اہم فصلوں کی شرح نمو منفی 13.49 فیصد رہی جب کہ ہدف منفی 4.5 فیصد تھا۔ کاٹن جیننگ میں بھی شدید کمی دیکھی گئی اور یہ شعبہ منفی 19 فیصد تک سکڑ گیا۔ زرعی شعبے کی مجموعی گروتھ 0.56 فیصد رہی، جو کہ ہدف یعنی 2 فیصد سے کم تھی۔
اسی طرح لائیو اسٹاک اور دیگر فصلوں میں قدرے بہتری دیکھی گئی، جن کی شرح نمو بالترتیب 4.72 اور 4.78 فیصد رہی۔ جنگلات اور ماہی گیری کے شعبے بھی اہداف سے پیچھے رہے۔
صنعتی شعبے کی مجموعی شرح نمو 4.77 فیصد رہی، جو کہ 4.4 فیصد کے ہدف سے زیادہ تھی۔ چھوٹی صنعتوں اور سلاٹرنگ میں بالترتیب 8.81 اور 6.34 فیصد گروتھ ریکارڈ کی گئی، جبکہ بڑی صنعتیں منفی 1.53 فیصد کی شرح سے سکڑ گئیں۔ بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی کے شعبے میں غیر معمولی گروتھ 28.88 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 2.5 فیصد سے کئی گنا زیادہ ہے۔
تعمیرات کے شعبے نے بھی 6.61 فیصد گروتھ کے ساتھ توقعات سے زیادہ بہتر کارکردگی دکھائی۔
خدمات کے شعبے کی مجموعی گروتھ 2.91 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 4.1 فیصد سے کم ہے۔ ہول سیل اور ریٹیل ٹریڈ کی گروتھ انتہائی کم یعنی صرف 0.14 فیصد رہی۔
انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن، فنانس، رئیل اسٹیٹ، تعلیم، صحت اور سوشل ورک میں معتدل اضافہ ہوا۔ پبلک ایڈمنسٹریشن اور سوشل سیکورٹی کی گروتھ 9.92 فیصد رہی، جو مقررہ ہدف 3.4 فیصد سے تقریباً 3 گنا زیادہ ہے۔
اقتصادی سروے میں مجموعی طور پر معیشت کی غیر متوازن اور شعبہ وار مخلوط کارکردگی سامنے آئی ہے، جہاں چند شعبے نمایاں ترقی کرتے دکھائی دیے جبکہ کئی اہم شعبے اہداف سے پیچھے رہے۔