Express News:
2025-04-26@19:40:37 GMT

کرکٹ ایجنٹس کرکٹ پر حاوی

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

’’دیکھو اگر تم کو جلدی قومی ٹیم میں آنا ہے تو اس کمپنی کو اپنا نمائندہ بنا لو‘‘

’’دیکھو اگر تم کو کم بیک کرنا ہے تو اس کمپنی کو اپنا نمائندہ بنا لو‘‘

جب کسی نوجوان کرکٹر کو کوئی ایسا سابق کپتان ایسی پیشکش کرے جو اچھی ساکھ کا مالک بھی ہو تو وہ کیسے انکار کر سکتا ہے، پھر اس کے سامنے کئی دیگر پلیئرز کی مثالیں بھی موجود ہوں تب تو ناں کہنے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں رہتی۔

یہ کسی ایک کمپنی کے ساتھ نہیں ہے ماضی میں دوسرے بھی یہی کرتے رہے، چند برس قبل پاکستان کرکٹ میں ایجنٹس کا کوئی تصور نہ تھا لیکن جب کرکٹ میں پیسہ آیا تو دیگر ممالک کے کرکٹرز کو دیکھ کر پاکستانیوں میں بھی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ رقم کمانے کی چاہت پیدا ہوئی، اس پر انھیں لیگز، تشہیری معاہدوں اور دیگر پْرکشش آفرز کر کے ایجنٹس اپنی جانب راغب کرتے رہے۔ 

بعض نے آغاز قیمتی موبائل فون تحفے میں پیش کر کے کیا، پاکستانی کوچز کی اتنی گہری نظر نہیں جتنی بعض ایجنٹس کی ہے،یہ بعض نوجوان کرکٹرز کا ٹیلنٹ جانچ کر انھیں کم عمری میں ہی قابو کر لیتے ہیں، پھر وہ کھلاڑی جب اسٹار بن جائے تب بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ 

موجودہ دور کے کئی کرکٹرز اس کی روشن مثال ہیں، آپ اگر مجھ سے پوچھیں کہ بابر اعظم کا زوال کیوں آیا تو میں اس کی ایک وجہ سینٹرل کنٹریکٹ تنازع کو بھی قرار دوں گا جب بابر سمیت چند سینئرز نے بورڈ کو بہت ٹف ٹائم دیا، ون ڈے ورلڈکپ سے قبل نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اگر آئی سی سی کی آمدنی سے حصہ نہ ملا تو ٹیم بھارت میں آفیشل تشہیری سرگرمیوں کا بھی بائیکاٹ کر دے گی۔ 

ان کھلاڑیوں کی ڈوریاں کون ہلا رہا تھا یہ سب جانتے ہیں، آپ اس تنازع کے بعد بابر کا کیریئر  دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کارکردگی میں کتنا زوال آیا، پی سی بی نے کھلاڑیوں کے دباؤ پر گھٹنے ٹیکتے ہوئے مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔

لیکن آپ اس کے بعد سے ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنا فرق آیا، کئی ہیرو زیرو بن گئے، پیسہ کمانا سب کا حق ہے لیکن اگر آپ اپنے اصل کام کو بھول کر صرف معاوضوں کے چیکس پر نظر رکھیں تو مسائل ہوتے ہیں۔

احسان مانی، ذکا اشرف، نجم سیٹھی، مرحوم شہریار خان سمیت کئی بورڈ سربراہان بخوبی جانتے تھے کہ ایجنٹس کا بڑھتا اثرورسوخ پاکستان کرکٹ کو کھوکھلا کر رہا ہے، انھوں نے اپنے طور پر اقدامات بھی کیے لیکن ایک کو پیچھے کرنے کے بعد دوسرے کو اس سے بھی بڑا بنا دیا گیا۔

سلمان بٹ، عامر اور آصف کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پاکستان کرکٹ کے چہرے پر بدنما داغ ہے،اس کا آغاز بھی ایک ایجنٹ مظہر مجید سے ہی ہوا، جیکٹ سے شروع ہونے والا معاملہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچنے پر ختم ہوا۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا نام ڈبونے والے یہ افراد اب بھی کرکٹ میں فعال ہیں، ماضی میں سایا کارپوریشن کا کنٹرول تھا، بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی سمیت بیشتر کرکٹرز اسی کا حصہ رہے، پھر جب میں نے اسٹوری بریک کی کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق،ان کے بھائی، سایا کارپوریشن کے روح رواں طلحہ رحمانی اور رضوان ایک برطانوی کمپنی ’’یازو انٹرنیشنل‘‘ کے ڈائریکٹرز ہیں تو سابق کپتان پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام لگا، انھیں مستعفی ہونا پڑا۔ 

اب ایک نیا تنازع سامنے آیا جب انگلش کرکٹ بورڈ نے کئی پاکستانی کرکٹرز اور آفیشلز کی نمائندگی کرنے والی تنظیم آئی سی اے کے سربراہ مغیز احمد شیخ کو اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر معطل کر دیا، اس حوالے سے میں نے جو خبر دی اگر آپ اسے پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ بیشتر کرکٹرز اسی کمپنی کے ساتھ منسلک ہیں۔ 

ہیڈ کوچ و سلیکٹر عاقب جاوید کی نمائندگی بھی یہی کرتی ہے، حال ہی میں جو نئے کھلاڑی سامنے آئے یقینی طور پر انھیں ٹیلنٹ کی بنیاد پر ہی مواقع ملے ہوں گے، ان کی نمائندگی آئی سی اے کا کرنا محض اتفاق ہی ہوگا۔

لیکن سوال تو اٹھ رہے ہیں، پی سی بی کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیئں کہ کہیں اس کے بعض آفیشلز پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام تو نہیں لگ سکتا، اگر کوئی زد میں آتا دکھائی دے تو کیا یہ درست نہ ہو گا کہ اسے عہدے سے ہٹا دیا جائے، مسئلہ یہ ہے کہ ایجنٹس والے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، کل سایا تو آج آئی سی اے کا راج ہے، پھر کوئی اور کمپنی آ جائے گی،البتہ سایا کا نام کبھی آئی سی اے کی طرح کسی کرپشن کیس میں سامنے نہیں آیا بلکہ اس نے تو ملک میں سروگیٹ ایڈورٹائزنگ کیخلاف آواز اٹھائی تھی۔ 

ذکا اشرف نے اپنے دور میں ایک حد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ ہر کمپنی کو اتنی تعداد میں اسٹارز اور اتنے دیگر کھلاڑیوں سے معاہدوں کی اجازت ہوگی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا،اس وجہ سے مسائل برقرار رہے۔ 

اب پی سی بی کو کوئی پالیسی بنانی ہوگی، محسن نقوی پاکستان کرکٹ کو ٹھیک کرنے کیلیے انتھک محنت کر رہے ہیں، انھیں اس جانب بھی دیکھنا چاہیے، اسی طرح جو سابق کھلاڑی کسی ایسی کمپنی سے منسلک ہو اسے بورڈ میں نہیں آنے دیں، ورنہ جس طرح ایک سابق کپتان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے متعدد کھلاڑیوں کو آئی سی اے کے ساتھ منسلک کرایا کل کو کوئی اور کسی اور کمپنی سے معاہدے کراتا نظر آئے گا۔ 

بورڈ ایک پالیسی بنائے اس کے بعد ایجنٹس کی کمپنیز کو سخت چھان بین کے بعد اپنے ساتھ منسلک کرے، ان پر نظر بھی رکھے تاکہ بعد میں کسی وجہ سے کوئی کھلاڑی مشکل میں نہ پڑے، جب کوئی تنازع ہو تو ملک کی ہی بدنامی ہوتی ہے، ایک کے پاس ہی سب کے جانے سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ 

نوجوان کھلاڑی بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ کمپنی اچھی ہے یہاں چلے گئے تو جلدی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع مل جائے گا، موجودہ دور کے ایک ’’سپراسٹار‘‘ پر بھی یہی الزام لگتا رہا کہ وہ مخصوص کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کرتے تھے، آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلیے کوششیں کرنی چاہیئں، محسن نقوی نے کئی بڑے کام کیے ہیں، وہ اس حوالے سے بھی بہتری لا سکتے ہیں،اس کا فائدہ پاکستان کرکٹ کو ہی ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ ا ئی سی اے کے بعد لیکن ا

پڑھیں:

کیا کوئی خاتون پوپ فرانسس کی جگہ پوپ بن سکتی ہیں ؟

پوپ فرانسس کی ایسٹر کے روز وفات کے بعد دنیا بھر سے تعزیت کرنے والے ویٹی کن پہنچ رہے ہیں، جہاں ان کی تدفین ہفتے کے روز سینٹ پیٹرز اسکوائر میں کی جائے گی۔

88 سالہ پوپ فرانسس کی تدفین کے بعد نئے پوپ کا انتخاب کیا جائے گا جس کے لیے موجودہ کارڈینلز میں ایک خاتون بھی ممکنہ امیدوار ہوسکتی ہیں۔

جس کے بعد سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا ایک عورت پوپ بن سکتی ہے کیوں کہ کیتھولک چرچ کے قوانین کے مطابق پوپ بننے کی شرائط میں امیدوار کا مرد ہونا بھی شامل ہیں۔

کیتھولک چرچ کے سربراہ بننے کے لیے بپتسمہ یافتہ کیتھولک اور پادری کے طور پر مقرر ہونا بھی ضروری ہے اور یہ دونوں عہدے صرف مردوں کے لیے مخصوص ہیں۔

اس حوالے سے 1994 میں پوپ جان پال دوم نے واضح طور پر کہا تھا کہ چرچ کے پاس عورتوں کو پادری مقرر کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یسوع مسیح نے صرف مرد حواری منتخب کیے تھے اور چرچ کی صدیوں پرانی روایت اسی اصول پر مبنی ہے اس لیے عورت نہ تو پادری اور نہ ہی پوپ نہیں بن سکتی۔

البتہ 21 اپریل کو انتقال کر جانے والے پوپ فرانسس کا مؤقف زرا مختلف تھا۔ انھوں نے اپنے دور میں خواتین کو چرچ میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا۔

تاہم پوپ فرانسس بھی عورت کے پادری یا پوپ بننے کے حق میں نہیں تھے۔

ماضی میں جھانکیں تو تاریخ میں ایک مشہور افسانہ "پوپ جون" کا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ نویں صدی میں ایک عورت نے مرد کا روپ دھار کر پوپ کا عہدہ سنبھالا اور بعد میں بچے کی پیدائش کے دوران ان کا راز فاش ہو گیا۔

تاہم مؤرخین اس کہانی کو محض ایک دیومالا قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کے کوئی مستند شواہد موجود نہیں ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • چیٹ جی پی ٹی کا نیا تہلکہ خیز فیچر
  • کوڑا کرکٹ بھی کسی چیلنج سے کم نہیں
  • پہلگام واقعہ؛ سابق بھارتی کپتان بھی مودی کی زبان بولنے لگے
  • کیا کوئی خاتون پوپ فرانسس کی جگہ پوپ بن سکتی ہیں ؟
  • قومی ایئرلائن کی خریدار کمپنی پہلے سے بہت زیادہ فائدے میں رہے گی، معاون خصوصی برائے نجکاری
  • پاکستان کیساتھ آئندہ دو طرفہ کرکٹ سیریز نہیں کھیلیں گے، نائب صدر بی سی سی آئی
  • کرکٹ میں بھی سیاست، پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کو کیا پیغام دیا؟
  • ورلڈکپ میں پاک بھارت میچ ہو گا یا نہیں ؟ بھارتی کرکٹ بورڈ نے حیران کن کا اعلان کر دیا
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! کرکٹ نہیں کھیلیں گے