Express News:
2025-06-12@22:49:45 GMT

کرکٹ ایجنٹس کرکٹ پر حاوی

اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT

’’دیکھو اگر تم کو جلدی قومی ٹیم میں آنا ہے تو اس کمپنی کو اپنا نمائندہ بنا لو‘‘

’’دیکھو اگر تم کو کم بیک کرنا ہے تو اس کمپنی کو اپنا نمائندہ بنا لو‘‘

جب کسی نوجوان کرکٹر کو کوئی ایسا سابق کپتان ایسی پیشکش کرے جو اچھی ساکھ کا مالک بھی ہو تو وہ کیسے انکار کر سکتا ہے، پھر اس کے سامنے کئی دیگر پلیئرز کی مثالیں بھی موجود ہوں تب تو ناں کہنے کی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں رہتی۔

یہ کسی ایک کمپنی کے ساتھ نہیں ہے ماضی میں دوسرے بھی یہی کرتے رہے، چند برس قبل پاکستان کرکٹ میں ایجنٹس کا کوئی تصور نہ تھا لیکن جب کرکٹ میں پیسہ آیا تو دیگر ممالک کے کرکٹرز کو دیکھ کر پاکستانیوں میں بھی کم وقت میں زیادہ سے زیادہ رقم کمانے کی چاہت پیدا ہوئی، اس پر انھیں لیگز، تشہیری معاہدوں اور دیگر پْرکشش آفرز کر کے ایجنٹس اپنی جانب راغب کرتے رہے۔ 

بعض نے آغاز قیمتی موبائل فون تحفے میں پیش کر کے کیا، پاکستانی کوچز کی اتنی گہری نظر نہیں جتنی بعض ایجنٹس کی ہے،یہ بعض نوجوان کرکٹرز کا ٹیلنٹ جانچ کر انھیں کم عمری میں ہی قابو کر لیتے ہیں، پھر وہ کھلاڑی جب اسٹار بن جائے تب بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ 

موجودہ دور کے کئی کرکٹرز اس کی روشن مثال ہیں، آپ اگر مجھ سے پوچھیں کہ بابر اعظم کا زوال کیوں آیا تو میں اس کی ایک وجہ سینٹرل کنٹریکٹ تنازع کو بھی قرار دوں گا جب بابر سمیت چند سینئرز نے بورڈ کو بہت ٹف ٹائم دیا، ون ڈے ورلڈکپ سے قبل نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اگر آئی سی سی کی آمدنی سے حصہ نہ ملا تو ٹیم بھارت میں آفیشل تشہیری سرگرمیوں کا بھی بائیکاٹ کر دے گی۔ 

ان کھلاڑیوں کی ڈوریاں کون ہلا رہا تھا یہ سب جانتے ہیں، آپ اس تنازع کے بعد بابر کا کیریئر  دیکھیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کارکردگی میں کتنا زوال آیا، پی سی بی نے کھلاڑیوں کے دباؤ پر گھٹنے ٹیکتے ہوئے مطالبات تسلیم کر لیے تھے۔

لیکن آپ اس کے بعد سے ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنا فرق آیا، کئی ہیرو زیرو بن گئے، پیسہ کمانا سب کا حق ہے لیکن اگر آپ اپنے اصل کام کو بھول کر صرف معاوضوں کے چیکس پر نظر رکھیں تو مسائل ہوتے ہیں۔

احسان مانی، ذکا اشرف، نجم سیٹھی، مرحوم شہریار خان سمیت کئی بورڈ سربراہان بخوبی جانتے تھے کہ ایجنٹس کا بڑھتا اثرورسوخ پاکستان کرکٹ کو کھوکھلا کر رہا ہے، انھوں نے اپنے طور پر اقدامات بھی کیے لیکن ایک کو پیچھے کرنے کے بعد دوسرے کو اس سے بھی بڑا بنا دیا گیا۔

سلمان بٹ، عامر اور آصف کا اسپاٹ فکسنگ اسکینڈل پاکستان کرکٹ کے چہرے پر بدنما داغ ہے،اس کا آغاز بھی ایک ایجنٹ مظہر مجید سے ہی ہوا، جیکٹ سے شروع ہونے والا معاملہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے پہنچنے پر ختم ہوا۔ 

دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کا نام ڈبونے والے یہ افراد اب بھی کرکٹ میں فعال ہیں، ماضی میں سایا کارپوریشن کا کنٹرول تھا، بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین آفریدی سمیت بیشتر کرکٹرز اسی کا حصہ رہے، پھر جب میں نے اسٹوری بریک کی کہ چیف سلیکٹر انضمام الحق،ان کے بھائی، سایا کارپوریشن کے روح رواں طلحہ رحمانی اور رضوان ایک برطانوی کمپنی ’’یازو انٹرنیشنل‘‘ کے ڈائریکٹرز ہیں تو سابق کپتان پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام لگا، انھیں مستعفی ہونا پڑا۔ 

اب ایک نیا تنازع سامنے آیا جب انگلش کرکٹ بورڈ نے کئی پاکستانی کرکٹرز اور آفیشلز کی نمائندگی کرنے والی تنظیم آئی سی اے کے سربراہ مغیز احمد شیخ کو اینٹی کرپشن کوڈ کی خلاف ورزی پر معطل کر دیا، اس حوالے سے میں نے جو خبر دی اگر آپ اسے پڑھیں تو اندازہ ہوگا کہ موجودہ بیشتر کرکٹرز اسی کمپنی کے ساتھ منسلک ہیں۔ 

ہیڈ کوچ و سلیکٹر عاقب جاوید کی نمائندگی بھی یہی کرتی ہے، حال ہی میں جو نئے کھلاڑی سامنے آئے یقینی طور پر انھیں ٹیلنٹ کی بنیاد پر ہی مواقع ملے ہوں گے، ان کی نمائندگی آئی سی اے کا کرنا محض اتفاق ہی ہوگا۔

لیکن سوال تو اٹھ رہے ہیں، پی سی بی کو اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیئں کہ کہیں اس کے بعض آفیشلز پر مفادات کے ٹکراؤ کا الزام تو نہیں لگ سکتا، اگر کوئی زد میں آتا دکھائی دے تو کیا یہ درست نہ ہو گا کہ اسے عہدے سے ہٹا دیا جائے، مسئلہ یہ ہے کہ ایجنٹس والے معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، کل سایا تو آج آئی سی اے کا راج ہے، پھر کوئی اور کمپنی آ جائے گی،البتہ سایا کا نام کبھی آئی سی اے کی طرح کسی کرپشن کیس میں سامنے نہیں آیا بلکہ اس نے تو ملک میں سروگیٹ ایڈورٹائزنگ کیخلاف آواز اٹھائی تھی۔ 

ذکا اشرف نے اپنے دور میں ایک حد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا کہ ہر کمپنی کو اتنی تعداد میں اسٹارز اور اتنے دیگر کھلاڑیوں سے معاہدوں کی اجازت ہوگی لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا،اس وجہ سے مسائل برقرار رہے۔ 

اب پی سی بی کو کوئی پالیسی بنانی ہوگی، محسن نقوی پاکستان کرکٹ کو ٹھیک کرنے کیلیے انتھک محنت کر رہے ہیں، انھیں اس جانب بھی دیکھنا چاہیے، اسی طرح جو سابق کھلاڑی کسی ایسی کمپنی سے منسلک ہو اسے بورڈ میں نہیں آنے دیں، ورنہ جس طرح ایک سابق کپتان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھوں نے اپنی پوزیشن کا استعمال کرتے ہوئے متعدد کھلاڑیوں کو آئی سی اے کے ساتھ منسلک کرایا کل کو کوئی اور کسی اور کمپنی سے معاہدے کراتا نظر آئے گا۔ 

بورڈ ایک پالیسی بنائے اس کے بعد ایجنٹس کی کمپنیز کو سخت چھان بین کے بعد اپنے ساتھ منسلک کرے، ان پر نظر بھی رکھے تاکہ بعد میں کسی وجہ سے کوئی کھلاڑی مشکل میں نہ پڑے، جب کوئی تنازع ہو تو ملک کی ہی بدنامی ہوتی ہے، ایک کے پاس ہی سب کے جانے سے طاقت کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ 

نوجوان کھلاڑی بھی سوچتے ہوں گے کہ یہ کمپنی اچھی ہے یہاں چلے گئے تو جلدی انٹرنیشنل کرکٹ کھیلنے کا موقع مل جائے گا، موجودہ دور کے ایک ’’سپراسٹار‘‘ پر بھی یہی الزام لگتا رہا کہ وہ مخصوص کھلاڑیوں پر ہی بھروسہ کرتے تھے، آئندہ ایسا نہ ہو اس کیلیے کوششیں کرنی چاہیئں، محسن نقوی نے کئی بڑے کام کیے ہیں، وہ اس حوالے سے بھی بہتری لا سکتے ہیں،اس کا فائدہ پاکستان کرکٹ کو ہی ہوگا۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کرکٹ ا ئی سی اے کے بعد لیکن ا

پڑھیں:

بانی سے کوئی ڈیل نہیں ،رہائی عدالت سے ہو گی، وفاقی وزیرریلوے

حجرہ شاہ مقیم (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جون2025ء)وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے واضح کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی ڈیل نہیں کی جا رہی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائی کا واحد راستہ عدالت ہے، ریلوے اسٹیشن کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت اور کارکن اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے بھی جیلیں کاٹی ہیں، الیکشن سے قبل سزا یافتہ ہو کر جیل گئے لیکن کبھی رونا دھونا نہیں کیا کیونکہ ہمارا ضمیر مطمئن تھا کہ ہم حق پر ہیں۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پی ٹی آئی کو اپنی ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگنی چاہیے، جب بھارت پاکستان پر حملہ آور تھا، اس وقت وہ پاک فوج پر طعن و تشنیع کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے دعوی کیا کہ بھارت سے بھی کہا گیا تھا کہ وہ معافی مانگے مگر اس نے ایسا نہیں کیا تو پاکستان کی بہادر افواج نے بھارت کے 26ایئر بیس تباہ کیے، 22چوکیاں فتح کیں اور دشمن کے چھ جنگی طیارے، جن میں رافیل طیارے بھی شامل تھے، مار گرائے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب دشمن حملہ آور ہو، تو قوم کو متحد ہو کر اپنی افواج کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔حنیف عباسی نے مزید کہا کہ جنرل سید عاصم منیر میدان کے فیلڈ مارشل ہیں جبکہ ماضی میں ایک شخص ڈرائنگ روم سے فیلڈ مارشل بن بیٹھا تھا۔

ریلوے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر ریلوے نے کہا کہ بولان ایکسپریس، جو پہلے ہفتے میں صرف دو دن چلتی تھی، اب روزانہ چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ریلوے کو اپ گریڈ نہیں کیا جائے گا، اس وقت تک تھر کول اور ریکوڈک منصوبے بھی ترقی نہیں کر سکیں گے۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ریلوے کی بہتری کے بغیر ہم سنٹرل ایشیا، یورپ اور ماسکو تک ریلوے روابط کا خواب پورا نہیں کر سکتے۔

ریلوے ملازم ایس ٹی محمد اکرم کی ناگہانی وفات پر بات کرتے ہوئے حنیف عباسی نے کہا کہ انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں، لیکن ریلوے نے متاثرہ خاندان کی مالی معاونت کر دی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مستقبل میں صرف وہی ریلوے ملازم ادارے میں کام کرے گا جو اپنی ذمہ داری پوری کرے گا، بصورت دیگر غفلت کے مرتکب افراد کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔بعد ازاں وفاقی وزیر نے اوکاڑہ ریلوے اسٹیشن کا دورہ کیا اور جاری تعمیراتی کاموں کا جائزہ لیا۔

متعلقہ مضامین

  • کب کوئی بلا صرف دُعاؤں سے ٹلی ہے
  • بوئنگ طیارے محفوظ نہیں رہے؟ طیارہ ساز انجینیئر کے خطرناک انکشافات پھر زیرِ بحث
  • جے یو آئی نظریاتی نے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا
  • بجٹ میں عوام کو کوئی ریلیف نہیں دیا گیا ہے، ترجمان پیپلز پارٹی
  • بجٹ میں زراعت اور بزنس کمیونٹی کیلئے کوئی ریلیف نہیں: پی بی ایف
  • ختم نبوت دین‘ ایمان
  • جنگ کا کوئی جواز نہیں تھا، حملہ بلا اشتعال کیا گیا، شیری رحمان
  • پی ٹی آئی کا بجٹ کیخلاف احتجاج کا فیصلہ، اہم اجلاس آج طلب
  • فیصل آباد، گرفتار بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے 3 ایجنٹس کا 5 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
  • بانی سے کوئی ڈیل نہیں ،رہائی عدالت سے ہو گی، وفاقی وزیرریلوے