ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ اگر امریکا صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر عمل کرتا ہے کہ ایران سے نیا جوہری معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایران پر بمباری کی جائے گی تو امریکا کو ایک سخت ضرب کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایرانی میڈیا کے مطابق خامنہ ای نے کہا کہ امریکا اور اسرائیل کی دشمنی ہمیشہ رہی ہے۔ وہ ہم پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں، جو ہمیں بہت زیادہ ممکن نہیں لگتا، لیکن اگر وہ کوئی شرارت کرتے ہیں تو وہ یقیناً ایک مضبوط جوابی ضرب کا سامنا کریں گے۔ اور اگر وہ ماضی کے برسوں کی طرح ملک میں فتنہ پیدا کرنے کا سوچ رہے ہیں، تو ایرانی عوام خود ان سے نمٹ لیں گے۔

مزید پڑھیں: ایران نے معاہدہ نہ کیا تو ایسی بمباری ہوگی جو اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی، ٹرمپ کی کھلی دھمکی

پچھلے ہفتے، ایران نے امریکی خط کا جواب دیا تھا اور صدر مسعود پزشکیان نے اتوار کو وضاحت کی تھی کہ تہران واشنگٹن کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں شامل نہیں ہوگا لیکن وہ خامنہ ای کے حکم کے مطابق بالواسطہ بات چیت جاری رکھنے کے لیے تیار ہے۔

ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل باقائی نے ایکس پوسٹ میں کہا کہ ایک ریاستی سربراہ کی طرف سے ایران کے خلاف ‘بمباری’ کی کھلی دھمکی بین الاقوامی امن اور سلامتی کے اصل جوہر پر ایک حیران کن حملہ ہے۔ تشدد تشدد کو جنم دیتا ہے، امن امن کو جنم دیتا ہے۔ امریکا راستہ منتخب کر سکتا ہے اور اس کے نتائج کو تسلیم کر سکتا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا سے بالواسطہ بات چیت کے لیے تیار، ایران نے ٹرمپ کے خط کا جواب دیدیا

اپنی پہلی مدت صدارت میں، ٹرمپ نے امریکا کو 2015 کے معاہدے سے نکال لیا تھا جس میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان تہران کی متنازع جوہری سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئی تھیں، بدلے میں ایران کو پابندیوں میں نرمی دی گئی تھی۔ ٹرمپ نے امریکی پابندیاں دوبارہ عائد کر دیں۔ اس کے بعد سے، ایران نے یورینیم کی افزودگی کے حوالے سے اس معاہدے کی حدود کو بہت آگے بڑھا دیا ہے۔

مغربی طاقتیں ایران پر یہ الزام عائد کرتی ہیں کہ وہ جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے یورینیم کی افزودگی کی ایک خفیہ منصوبہ بندی کر رہا ہے، جو ان کے مطابق ایک شہری جوہری توانائی پروگرام کے لیے جواز کے طور پر قابل قبول سطح سے کہیں زیادہ ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر شہری توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔

واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو خبردار کیا تھا کہ اگر وہ امریکا کے ساتھ جوہری معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ این بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ایسی بمباری کی جائے گی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آیت اللہ علی خامنہ ای ایران ٹرمپ دھمکی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: آیت اللہ علی خامنہ ای ایران دھمکی خامنہ ای ایران نے کے لیے

پڑھیں:

وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار

امریکا کی وفاقی عدالت نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے تحت وائس آف امریکا (VOA) اور اس کی ماتحت ایجنسیوں کی بندش کو غیر آئینی اور غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے ادارے کے سینکڑوں معطل صحافیوں کو فوری طور پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

امریکی خبر رساں ادارے واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ڈی سی کی ضلعی عدالت کے جج رائس لیمبرتھ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ حکومت نے یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا (USAGM) جو وائس آف امریکا سمیت کئی بین الاقوامی نشریاتی اداروں کو چلاتی ہے، کو بند کرتے وقت کوئی ’معقول تجزیہ یا جواز‘ پیش نہیں کیا۔ یہ حکومتی اقدام من مانا، غیر شفاف اور آئینی حدود سے متجاوز ہے۔

واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر کے بعد VOA کے قریباً 1,200 ملازمین کو بغیر کسی وضاحت کے انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا تھا، جن میں قریباً ایک ہزار صحافی شامل تھے۔ اس اقدام کے نتیجے میں ادارہ اپنی 80 سالہ تاریخ میں پہلی بار مکمل طور پر خاموش ہوگیا تھا۔

مزید پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ نے وائس آف امریکا (VOA) کے ملازمین کو تنخواہ کے ساتھ چھٹی پر کیوں بھیجا؟

VOA کی ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز اور وائٹ ہاؤس بیورو چیف پیٹسی وڈاکوسوارا نے دیگر متاثرہ ملازمین کے ساتھ مل کر عدالت سے رجوع کیا تھا۔ جج نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف ان ملازمین کو بحال کیا جائے، بلکہ Radio Free Asia اور Middle East Broadcasting Networks کے فنڈز بھی بحال کیے جائیں تاکہ ادارے اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھا سکیں۔

وڈاکوسوارا نے عدالتی فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صرف ہماری ملازمتوں کا معاملہ نہیں بلکہ آزاد صحافت، آئینی آزادی اور قومی سلامتی کا سوال ہے۔ وائس آف امریکا کی خاموشی عالمی سطح پر معلوماتی خلا پیدا کرتی ہے، جسے ہمارے مخالفین جھوٹ اور پروپیگنڈا سے بھر سکتے ہیں۔ ڈائریکٹر مائیکل ابرامووٹز نے کہا کہ یہ فیصلہ ہماری اس دلیل کی توثیق ہے کہ کسی حکومتی ادارے کو ختم کرنا صرف کانگریس کا اختیار ہے، صدارتی فرمان کے ذریعے نہیں۔

1942 میں نازی پروپیگنڈا کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم ہونے والا VOA آج دنیا کے قریباً 50 زبانوں میں 354 ملین سے زائد افراد تک رسائی رکھتا ہے۔ اسے امریکا کی ’سافٹ پاور‘ کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ USAGM، جسے پہلے براڈکاسٹنگ بورڈ آف گورنرز کہا جاتا تھا، دیگر اداروں کی بھی مالی مدد کرتا ہے۔ جج نے Radio Free Europe/Radio Liberty کو قانونی پیچیدگیوں کے باعث وقتی ریلیف دینے سے معذرت کی، کیونکہ ان کے گرانٹ کی تجدید تاحال زیر التوا ہے۔

مزید پڑھیں: بی بی سی اور وائس آف امریکا پر پابندی عائد

صدر ٹرمپ نے سابق نیوز اینکر اور گورنر کی امیدوار کیری لیک کو VOA سے وابستہ USAGM میں بطور سینیئر مشیر مقرر کیا تھا۔ لیک نے کہا تھا کہ وہ VOA کو انفارمیشن وار کے ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گی، اور اس ادارے کو غیر ضروری اور ناقابل اصلاح قرار دیا تھا۔ تاہم اب عدالتی فیصلے نے حکومتی اقدام کو روک دیا ہے، اور صحافیوں کو اپنی اصل ذمہ داریوں کی طرف لوٹنے کا موقع فراہم کیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف نے تاحال اس فیصلے پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور نہ ہی یہ واضح کیا ہے کہ وہ اس کے خلاف اپیل کرے گا یا نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

VOA بحال ٹرمپ صحافی غیر آئینی وائس آف امریکا

متعلقہ مضامین

  • ٹریڈوار، مذاکرات واحد اچھا راستہ
  • جب اسرائیل نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کا نادر موقع ضائع کر دیا؛ رپورٹ
  • امریکی وزیر خارجہ کے تازہ ریمارکس پر ایرانی اہلکار کا دوٹوک "انکار"
  • جب جب بھارت کو پاکستان میں سبکی کا سامنا کرنا پڑا؟
  • امریکا نے ایرانی ایل پی جی کمپنی اور اس کے کارپوریٹ نیٹ ورک پر بھی پابندیاں عائد کردی
  • ایران اور امریکا کے درمیان معاہدہ
  • ایران مذاکرات میں سنجیدہ ہے، رافائل گروسی
  • ٹرمپ کو ایک اور جھٹکا، امریکی عدالت کا وائس آف امریکا کو بحال کرنے کا حکم
  • وائس آف امریکا کی بحالی کا عدالتی حکم، ٹرمپ انتظامیہ کا اقدام ’من مانا اور غیر آئینی‘ قرار
  • ایران جوہری مذاکرات: پوٹن اور عمان کے سلطان میں تبادلہ خیال