عیدالفطر: تیوہار ایک مگر جشن منانے کا انداز جُدا جُدا
اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT
نیوزی لینڈ، سعودی عرب، مصر، آئس لینڈ، ترکی، سنگاپور، مراکش، انڈونیشیا اور افغانستان میں عید منانے کا انداز منفرد اور دلچسپ ہے۔ یہاں برسوں سے عید اسی طرح منائی جارہی ہے، یہ روایتیں آج بھی قائم ہیں۔
کل دنیا کے متعدد ممالک میں عیدالفطر منائی گئی جبکہ ہر ملک کا عید منانے کا اپنا الگ انداز ہے لیکن عید کے موقع پر میٹھا پکوان بنانا، ہر ملک میں مشترک ہے۔ لوگ رشتہ داروں اور عزیزوں کے ساتھ مل جل کر عید کی خوشیاں مناتے ہیں اور میٹھے پکوان ایک دوسرے کو تقسیم کرتے ہیں۔ عید اور دیگر خوشی کے مواقع پر نعمتِ الہیٰ کا شکر کرنے، نیا یا صاف ستھرا لباس پہننے، خوشدلی کے ساتھ ایک دوسرے سے ملاقات کرنے، تحائف دینے، غریبوں کی خیر خواہی کرنے، رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرنے اور ذکر اللہ اور درود پاک کی کثرت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسلامی ممالک میں عید کے دن روایتی پکوان بنائے جاتے ہیں اور مختلف قسم کے کھیلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے جبکہ بیشتر ممالک میں میلے لگتے ہیں جن میں رعایتی داموں میں مختلف قسم کی اشیا خریدی جا سکتی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ عید کے موقع پر برصغیر میں ایسے میلے خاص طور پر بچوں کے لیے لگتے ہیں۔
نیوزی لینڈ میں کارنیولیہاں کے ایڈن پارک، آکلینڈ میں ایک عظیم الشان کارنیول کا انعقاد کیا جاتا ہے جس میں کھانے پینے سے لے کر گھر کی سجاوٹ تک کی چیزیں خریدی جاسکتی ہیں۔ آکلینڈ میں عید منانے والے مسلمان اس کارنیول میں ضرور شرکت کرتے ہیں اور اپنی پسند کا سامان کم داموں میں خریدتے ہیں۔ اسی کارنیول میں فوڈ فیسٹیول بھی منعقد ہوتا ہے جہاں روایتی مسلم پکوان فروخت ہوتے ہیں۔ ان دونوں کارنیولز میں مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم بھی شرکت کرتے ہیں۔
سعودی عرب کا خاص پکوان
اسلام کے مقدس مقامات والی سرزمین کے مسلمان صبح بیدار ہونے کے بعد سب سے پہلے کھجور کھاتے ہیں۔ نمازِ فجر اور پھر نمازِ عید کی ادائیگی تک کچھ بھی کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ یہ چند گھنٹوں کا روزہ ہوتا ہے۔ نماز سے لوٹنے کے بعد ’کلیچا‘ کھایا جاتا ہے اور پھر رشتہ داروں وغیرہ سے ملنے کا اہتمام ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ کلیچا ایک قسم کی کوکی یا بسکٹ ہے جسے مختلف انداز میں تیار کیا جاتا ہے۔ تاہم، عید پر اسے گلاب کی پتیوں سے بنایا جاتا ہے۔
مصر میں دریائے نیل کے کنارےمصر میں صبح عید کی نماز ادا کرنے کے بعد لوگ رنگ برنگے غبارے اڑاتے ہیں، اور اپنی زندگی کے ایک نئے اور بہتر دور کی شروعات کرتے ہیں۔ لوگ بزرگوں سے ملاقات کرتے ہیں۔ مصر میں عید منانے کا خاص مقصد یہ ہوتا ہے کہ پورا خاندان مل بیٹھے۔ دریائے نیل کے کنارے پر دن کا آغاز مسجد میں خصوصی دعا سے ہوتا ہے، جس کے بعد خاندان ایک روایتی ناشتے کے لیے جمع ہوتے ہیں جسے ’فتح‘ کہا جاتا ہے۔ یہ چاول، گوشت اور روٹی کا پکوان ہے۔
آئس لینڈ میں مل جل کر ناشتہآئس لینڈ میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہاں کے لوگوں کا عید منانے کا انداز دلچسپ ہے۔ عید پر لوگ اپنے اپنے گھروں سے مختلف پکوان لے کر مسجد آتے ہیں۔ نمازِ عید اور طویل دعا کے بعد تمام افراد مسجد کے بیرونی حصے میں اپنے اپنے پکوان سجاتے ہیں اور سب مل جل کر ناشتہ کرتے ہیں۔ یہ روایت برسوں سے جاری ہے۔ ناشتہ کے بعد لوگ ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں۔ اس دن لوگ ملک کے پرکشش مقامات کی سیر بھی کرتے ہیں۔
ترکی: ہاتھوں کو بوسہ دیا جاتا ہےیورپ اور ایشیا دونوں براعظموں میں شمار ہونے والے اس ملک میں عید کی صبح نماز کے بعد بچے دوڑتے ہوئے اپنے بزرگوں کے پاس جاتے ہیں، ان کے ہاتھ چومتے ہیں اور دعائیں لیتے ہیں۔ ہاتھ چومنا ظاہر کرتا ہے کہ بچے اپنے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں۔ یہ بچوں کے درمیان ایک طرح سے مقابلہ ہوتا ہے کہ سب سے پہلے کون بزرگوں کے ہاتھ چومے گا۔ خاندان کے بڑے، بچوں کو میٹھی اشیا اور پیسے دیتے ہیں۔
سنگاپور میں روشنیاںسنگاپور میں گیلانگ سرائے روشنیوں میں نہا جاتا ہے، اور شام ہوتے ہی بازار لگ جاتے ہیں۔ بازار میں کھانے پینے کی سیکڑوں اشیا ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ عید پر مختلف قسم کے پکوان کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ یہ روشنیاں 50 سے زائد رنگوں کی ہوتی ہیں۔ بازار میں سو سے زیادہ اسٹال لگتے ہیں اور سبھی روایتی مالائی پکوان پیش کرتے ہیں۔ ان اسٹالز پر ضرورت مندوں کو مفت کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔
مراکش میں پکوانوں کی بہاریہاں عید کی نماز کے بعد جب نمازی مسجد کے باہر نکلتے ہیں تو نوجوان، کھجور کے بڑے بڑے تھال اور پانی کی بوتلیں لے کر کھڑے ہوتے ہیں، اور نمازیوں میں کھجور اور پانی تقسیم کیا جاتا ہے۔ عید پر مراکش کا مشہور پین کیک ’مسمن‘ اور ’بغریر‘ بھی بنایا جاتا ہے جسے ناشتے میں پودینے کی چائے کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ یہاں کے مرد ملک کا روایتی لباس ’جلابہ‘ اور جوتے ’بلغہ‘ پہنتے ہیں جبکہ خواتین خوبصورت رنگوں کے کفتان پہننے کو ترجیح دیتی ہیں۔
انڈونیشیا میں ’مودِک‘عید سے چند روز قبل کمپنیوں کو اپنے ملازمین کو لازمی طور پر تنخواہیں دینی ہوتی ہیں تاکہ وہ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھی طرح عید منا سکیں۔ عید پرانڈونیشیا کے لوگ، خاص طور پر گھر کی خواتین ’لاپس لیجٹ‘ نامی ایک کیک بناتی ہیں جس میں کئی تہیں ہوتی ہیں۔ یہاں ’مودِک‘ کی روایت ہے یعنی عید منانے کی غرض سے اپنے گھر لوٹنا۔ شہریوں کی بڑی تعداد اپنے آبائی وطن کا رُخ کرتی ہے جس کے لیے حکومت کو نقل و حمل کی مفت سہولت فراہم کرنا ہوتی ہے۔
افغانستان میں انڈوں کی جنگعید کی نماز کے بعد لوگ دوستوں سے ملنے جلنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اس ضمن میں تمام دوست کسی ایک دوست کے گھر پر جمع ہوتے ہیں اور عید کی خوشیاں مناتے ہیں۔ عید پر ’تخم جنگی‘ (انڈوں کی جنگ) کا خاص اہتمام ہوتا ہے۔ انڈوں کے چھلکوں پر رنگ کرکے انہیں ابالا جاتا ہے اور پھر لوگ ان سے مقابلہ کرتے ہیں۔ اس میں حریف کے انڈے کو توڑا جاتا ہے، لیکن اس عمل میں اپنے انڈے کو بچایا جاتا ہے۔ اس پر ایک دراڑ بھی نہیں پڑنی چاہیے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان پاکستان سنگاپور عید.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افغانستان پاکستان سنگاپور عید منانے کا کیا جاتا ہے لینڈ میں جاتے ہیں ہوتے ہیں کرتے ہیں ہوتی ہیں یہاں کے ہوتا ہے کے ساتھ ہیں اور اپنے ا کے بعد عید کی کے لیے
پڑھیں:
جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
راولپنڈی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 23 جولائی2025ء) عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے، وضو کیلئے دیے گئے پانی میں مٹی ملی ہوتی ہے، جس سے کوئی انسان وضو نہیں کر سکتا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کا اڈیالہ جیل سے اہم پیغام سامنے آیا ہے۔ اپنے تفصیلی پیغام میں سابق وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ "پاکستان کی تاریخ میں کسی سیاسی شخصیت کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا گیا جیسا میرے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ نواز شریف نے اربوں کی کرپشن کی مگر اسے ہر سہولت کے ساتھ جیل میں رکھا گیا۔کسی سیاسی رہنما کی بے گناہ غیر سیاسی اہلیہ کو کبھی ایسے جیل میں نہیں ڈالا گیا جیسے بشرٰی بیگم کے ساتھ کیا گیا ہے۔(جاری ہے)
میں صرف اور صرف اپنی قوم اور آئین کی بالادستی کے لیے ملکی تاریخ کی مشکل ترین جیل کاٹ رہا ہوں۔ جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے اور اس میں مٹی ملی ہوتی ہے، جس سے کوئی انسان وضو نہیں کر سکتا۔
میری کتابیں جو اہل خانہ کی جانب سے جیل حکام تک پہنچائی جاتی ہیں وہ بھی کئی ماہ سے نہیں دی گئیں، ٹی وی اور اخبار بھی بند ہے۔ بار بار پرانی کتب کا مطالعہ کر کے میں وقت گزارتا رہا ہوں مگر اب وہ سب ختم ہو چکی ہیں۔ میرے تمام بنیادی انسانی حقوق پامال ہیں۔ قانون اور جیل مینول کے مطابق ایک عام قیدی والی سہولیات بھی مجھے میسر نہیں ہیں۔ بار بار درخواست کے باوجود میری میرے بچوں سے بات نہیں کروائی جا رہی۔ میری سیاسی ملاقاتوں پر بھی پابندی اور ہے صرف "اپنی مرضی" کے بندوں سے ملوا دیتے ہیں اور دیگر ملاقاتیں بند ہیں۔ میں واضح پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت پارٹی کا ہر فرد اپنے تمام اختلافات فوری طور پر بھلا کر صرف اور صرف پانچ اگست کی تحریک پر توجہ مرکوز رکھے۔ مجھے فلحال اس تحریک کا کوئی مومینٹم نظر نہیں آ رہا۔ میں 78 سالہ نظام کے خلاف جنگ لڑ رہا ہوں، جس میں میری کامیابی یہی ہے کہ عوام تمام تر ظلم کے باوجود میرے ساتھ کھڑی ہے۔ 8 فروری کو عوام نے بغیر نشان کے جس طرح تحریک انصاف پر اعتماد کر کے آپ لوگوں کو ووٹ دئیے اس کے بعد سب کا فرض بنتا ہے کہ عوام کی آواز بنیں۔ اگر اس وقت تحریک انصاف کے ارکان آپسی اختلافات میں پڑ کر وقت ضائع کریں گے تو یہ انتہائی افسوسناک اور قابل سرزنش عمل ہے۔ پارٹی میں جس نے بھی گروہ بندی کی اسے میں پارٹی سے نکال دوں گا۔ میں اپنی نسلوں کے مستقبل کی جنگ لڑ رہا ہوں اور اس کے لیے قربانیاں دے رہا ہوں ایسے میں پارٹی میں اختلافات پیدا کرنا میرے مقصد اور ویژن کو نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔ فارم 47 کی حکومت نے چھبیسویں ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اسے مفلوج کر دیا ہے۔ چھبیسویں ترمیم والی عدالتوں سے ٹاوٹ ججوں کے ذریعے جیسے سیاہ فیصلے آ رہے ہیں وہ آپ سب کے سامنے ہیں۔ ہمیں عدلیہ کو آزاد کروانے کے لیے اپنی بھر پور جدوجہد کرنی ہو گی کیونکہ عدلیہ کی آزادی کے بغیر کسی ملک و قوم کی بقاء ممکن ہی نہیں ہے۔"