Express News:
2025-07-26@14:19:09 GMT

عید؛ خوشیوں کا تہوار یا روایات کا بوجھ ؟

اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT

عیدالفطر صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ خوشیوں، محبت اور بھائی چارے کا حسین موقع ہے، جہاں مسلمان رمضان کے بابرکت مہینے کے بعد رب کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے ہیں۔

دنیا کے مختلف ممالک میں عید مختلف انداز میں منائی جاتی ہے، اور ہر قوم نے اپنی ثقافت، روایات اور رسم و رواج کے مطابق اس دن کو خاص بنانے کے لیے الگ الگ طریقے اپنائے ہیں۔

پہلے عید صرف ایک دن کا تہوار نہیں، بلکہ کئی دنوں پر محیط جشن ہوا کرتی تھی۔ محلے کی گلیاں بچوں کی چہچہاہٹ سے آباد رہتیں، دوست احباب ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر عید کی خوشیوں میں شریک ہوتے، اور بزرگ اپنی دعاؤں سے ان محفلوں کو بابرکت بناتے۔ نئے کپڑے، چوڑیاں، مہندی اور روایتی پکوان عید کی خاص پہچان تھے۔

مگر وقت کے ساتھ عید کا رنگ بدل گیا ہے۔ اب عید کی خوشیاں اسکرینز میں قید ہو گئی ہیں۔ گلے ملنے کی جگہ ایموجیز نے لے لی ہے، عید کارڈز کی جگہ واٹس ایپ کے رسمی پیغامات آ گئے ہیں، اور روایتی پکوانوں کی جگہ فاسٹ فوڈ اور آن لائن ڈیلیوری نے لے لی ہے۔

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل دنیا نے عید کے جوش و خروش کو مزید محدود کر دیا ہے۔ جہاں پہلے گھروں میں مہمانوں کی آمدورفت لگی رہتی تھی، وہیں اب زیادہ تر وقت موبائل اسکرینز کے ساتھ گزرتا ہے۔ بچوں کے کھیل کود کی جگہ موبائل گیمز نے لے لی ہے اور عیدی لینے کے بجائے اب زیادہ تر بچے آن لائن شاپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔

دنیا کے مختلف مسلم ممالک میں عیدی دینے کے انداز بھی مختلف ہیں۔ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، افغانستان، سعودی عرب اور مصر میں نقد عیدی دینے کا رواج عام ہے۔ چھوٹے بچے بزرگوں سے عیدی لیتے ہیں، جو اکثر رسمی طور پر ایک دوسرے کو واپس چلی جاتی ہے۔ ترکی، ملائیشیا اور ایران میں عیدی کے بجائے تحائف دینے کی روایت زیادہ عام ہے۔

والدین اور بزرگ بچوں کو نئے کپڑے، جوتے یا کھلونے دیتے ہیں، جو محبت اور اپنائیت کی علامت ہوتے ہیں۔ انڈونیشیا میں عید کے موقع پر لوگ اپنے والدین اور بزرگوں سے معافی مانگتے ہیں۔ یہ روایت نہایت خوبصورت اور روحانی ہے، جس میں لوگ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور رشتوں میں مضبوطی لاتے ہیں۔

یہ سب پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ دنیا میں کہیں نہ کہیں عید آج بھی رشتوں کو جوڑنے اور خوشیاں بانٹنے کا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔ مگر ہمارے ہاں، جیسے جیسے وقت بدل رہا ہے، عید کی رونقیں محدود ہوتی جا رہی ہیں۔ مجھے انڈونیشیا کی روایت بہت پسند آئی، جہاں عید کے دن والدین اور بزرگوں سے معافی مانگی جاتی ہے۔

کاش ہمارے معاشرے میں بھی یہ روایت آ جائے! ہمارے ہاں لوگ شب برات پر اللہ سے معافی مانگ لیتے ہیں، مگر رشتہ داروں، دوستوں اور پڑوسیوں سے معافی مانگنے کے لیے بس فیس بک یا واٹس ایپ کا سہارا لیتے ہیں۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم کم از کم اپنے گھر میں، اپنے والدین، بہن بھائیوں، یا قریبی رشتہ داروں سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگنے کی روایت شروع کریں؟ اگر ہم باہر کے لوگوں سے معافی مانگنے میں جھجکتے ہیں، تو کم از کم اپنے گھر میں تو اس کی شروعات کر سکتے ہیں۔

عید کو محض روایتی پیسوں کے لین دین تک محدود رکھنے کے بجائے، اگر ہم اس میں محبت، تحائف، اور معافی جیسے حقیقی جذبات شامل کر لیں تو یہ دن مزید بامقصد بن سکتا ہے۔ اگر ہم خود بھی کچھ دیر کے لیے موبائل سے دور ہو جائیں، تو شاید ہمارے بچے بھی عید کی روایتی خوشیوں میں دلچسپی لینے لگیں۔

ہر نسل کو لگتا ہے کہ ان کے وقت کی خوشیاں زیادہ حقیقی تھیں۔ ہمارے والدین ہمیں سناتے تھے کہ "ہماری عیدیں زیادہ پُرمسرت ہوتی تھیں، تم لوگ بس گانے سنتے اور ٹی وی دیکھتے ہو۔" آج ہم اپنے بچوں سے یہی شکوہ کرتے ہیں کہ "وہ موبائل اور گیمز میں مگن رہتے ہیں، روایتی عید کی خوشیاں محسوس ہی نہیں کرتے!" لیکن کیا خوشی کا مطلب وقت کے ساتھ بدل نہیں جاتا؟ کیا ہر نسل اپنے دور کی سہولتوں اور رجحانات میں خوشی تلاش نہیں کرتی؟ اصل مسئلہ روایات کو چھوڑنے یا اپنانے کا نہیں، بلکہ "اپنائیت" کا ہے۔

اگر بچوں کی خوشیاں اب ڈیجیٹل دنیا سے جڑی ہیں، تو کیا ہم اس میں کوئی ایسا توازن لا سکتے ہیں جہاں ٹیکنالوجی اور روایتی تعلقات دونوں ساتھ چل سکیں؟ ہمیں انہیں زبردستی اپنی پرانی عیدوں میں گھسیٹنے کے بجائے، ان کے انداز کو سمجھنا ہوگا اور انہیں ایسا ماحول دینا ہوگا جہاں روایت اور جدیدیت دونوں میں خوشی تلاش کی جا سکے۔ یہ تبھی ممکن ہوگا جب ہم انہیں یہ احساس دلائیں کہ عید صرف ایک دن کی تقریبات کا نام نہیں، بلکہ اپنوں کے ساتھ وقت گزارنے اور خوشیاں بانٹنے کا موقع ہے۔

اگر ہم خود بھی موبائل سے کچھ دیر کے لیے دور ہو جائیں، تو شاید وہ بھی روایتی انداز کی خوشیوں کو اپنانے میں دلچسپی لینے لگیں۔ اس طرح ہم ایک ایسا توازن پیدا کر سکتے ہیں جہاں نہ تو پرانی روایات ختم ہوں اور نہ ہی جدید دور کی سہولتوں کو ترک کرنا پڑے۔

عید کا اصل مطلب صرف نئے کپڑے پہننا یا دعوتیں کرنا نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنا، رشتوں کو مضبوط کرنا، اور ایک دوسرے کی خوشیوں میں حقیقی معنوں میں شریک ہونا ہے۔ اگر ہم اپنی نسلوں کے درمیان ایک ایسا پل بنا سکیں جہاں جدید سہولتوں کے ساتھ ساتھ روایتی تعلقات بھی زندہ رہیں، تو شاید ہم عید کی اصل روح کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی خوشیاں کے بجائے کی روایت سے معافی کے ساتھ اگر ہم کی جگہ کے لیے عید کی

پڑھیں:

ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کیلئے کلید رہیں گے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں۔

محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔

سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے۔

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • چین اور مالدیپ روایتی دوست اور  ہمسایہ ممالک ہیں، چینی صدر
  • جگن کاظم نے علیزے شاہ سے معافی مانگ لی، غیر مناسب رویے کا اعتراف
  • جگن کاظم نے علیزے شاہ سے معافی کیوں مانگی؟
  • (فیلڈ مارشل کا دورہ چین، سیاسی و عسکری قیادت سے ملاقاتیں )ہائبرڈ اور روایتی خطرات سے نمٹنے کیلئے مشترکہ عزم کا اعادہ
  • جگن کاظم نے علیزہ شاہ سے معافی کیوں مانگی؟
  • جگن کاظم نے علیزے شاہ سے معافی مانگ لی، ویڈیو بیان وائرل
  • آنے والوں دنوں میں 5 اہم تہوار جن کا سب کو انتظار ہے
  • جب ’غیر ملکی ایجنٹ‘ کی رپورٹیں ’آرٹ کا شہکار‘ بن گئیں
  • شازیہ منظور نے جان بوجھ کر دھکے دے کر ریمپ واک کے دوران اسٹیج پر گرایا، علیزے شاہ
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ