Express News:
2025-07-25@01:39:13 GMT

کامن پل کھلا رہنا چاہیے 

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

 مقبوضہ کشمیرکے سرحدی علاقے کا ایک 23سالہ نوجوان یاسر حسن اور لڑکی 20 سالہ آسیہ بانو ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، ان دونوں کی دوستی اتنی بڑھ گئی کہ شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے تیار ہوگئے مگر شاید ان دونوںکے بزرگ اس شادی کے حق میں نہ تھے۔ ان دونوں نے پوری کوشش کی کہ دونوں خاندان ان کی شادی کے لیے تیار ہوجائیں مگر شاید ان کے والدین اپنے بچوں کی خوشی کو سماج کی روایات کے سامنے اہمیت دینے کو تیار نہیں تھے۔ جب یاسر حسن اور آسیہ بی بی ہر طرف سے مایوس ہوگئے تو اس جوڑے نے مشترکہ طور پر دنیا کو الوداع کہنے کا فیصلہ کیا۔

یہ دونوں ایک دوسرے سے کیے گئے وعدوں پر اتنے زیادہ یقین رکھتے تھے کہ یاسر اور آسیہ نے 5 مارچ کو دریائے جہلم میں چھلانگ لگا دی۔ دریائے جہلم کشمیر میں چھوٹے چھوٹے دروں سے گزرتا ہے اور اس کا بہاؤ انتہائی تیز ہوتا ہے۔ شاید کچھ دیر کی کشمکش کے بعد یہ دونوں زندگی سے آزاد ہوگئے اور ان کی لاشیں تیرتی ہوئی آزاد کشمیر کے علاقے میں داخل ہوگئیں۔ دریائے جہلم نے ان لاشوں کو مظفر آباد کے مضافاتی علاقے تک پہنچا دیا۔ آسیہ بانو کی لاش لوئر چاٹاں اور یاسرکی لاش چکوٹھی یوری کراسنگ سے 12میل دور چنار سے برآمد ہوئی۔ یاسر حسن کی لاش رسی سے بندھی ہوئی تھی۔

یاسرکی لاش پہلے کنٹرول لائن کی دوسری طرف کامن پل کے قریب نظر آئی مگر پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ یہ لاش بہتی ہوئی گزرگئی۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان لاشوں کی تصاویر اور خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئیں۔ آسیہ کنٹرول لائن سے متصل گاؤں میں رہنے والے محبت خان کی بیٹی تھی۔ 

 پاکستانی حکام کا بھارتی حکام سے رابطہ ہوا۔ ان میتوں کو کشمیر کے دوسرے حصے میں منتقل کرنے کے لیے لائن آف کنٹرول پرکامن پل کو 6 سال بعد کھولا گیا۔ دونوں اطراف سول اور فوجی افسروں کی نگرانی میں دونوں کی میتیں ان کے رشتے داروں کے سپرد کردی گئیں۔ آسیہ بانو کے رشتے دار محمد رفیق نے دونوں طرف کے افسروں کا شکریہ ادا کیا کہ 15دن کی اذیت کے بعد ان کے عزیزوں کی لاشیں ان کے سپرد کردی گئیں۔ پہلی دفعہ بھارتی اور پاکستانی حکام کی جانب سے اس مسئلے کو انسانی نقطہ نگاہ سے دیکھا گیا، یوں غمزدہ خاندانوں کو اپنے پیاروں کی تدفین کر کے اپنی غلطیوں کی تلافی کا احساس ہوا۔ 

دریائے کشن گنگا وادئ نیلم میں بہتا ہے۔ جب یہ آزاد کشمیر میں داخل ہوتا ہے تو بعض مقامات پر اس کا پارٹ 5 سے 10گز تک رہ جاتا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والے لوگ پتھر میں کاغذ باندھ کر دوسری طرف پھینکتے ہیں۔ تہواروں کے موقعے پر دونوں طرف کے رشتے دار دریا کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور ایک دوسرے کو ہاتھ ہلا کر ہی عید کی مبارکباد دیتے ہیں۔ اگر کسی وجہ سے دریا کا شور کم ہوجائے تو کسی نوجوان کی آواز دوسری طرف سنائی جاتی ہے۔

 سابق صدر پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں بھارت اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے خاصی کوشش ہوئی۔ صدر پرویز مشرف بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی سے ملاقات کے لیے آگرہ گئے مگر Cross Border Terrorism کے مسئلے پر دونوں رہنما معاہدہ کرنے میں ناکام رہے، یوں یہ تاریخی موقع ضایع ہوگیا، مگر آگرہ سربراہی کانفرنس کی ناکامی کے بعد بھارت اور پاکستان میں رسمی اور غیر رسمی روابط برقرار رہے۔ 

 2003 میں بھارت اور پاکستانی حکام کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کو یقینی بنانے کا ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں علاقے میں سکون ہوا ۔ بھارت میں 2004میں ڈاکٹر من موہن سنگھ کی قیادت میں کانگریس کی حکومت قائم ہوئی۔ بھارت کے اس وقت کے وزیر خارجہ کنور نٹور سنگھ اسلام آباد آئے۔ انھوں نے صدر پرویز مشرف سے ملاقات کی اور مظفر آباد سے سری نگر بس سروس شروع کرنے پر اتفاقِ رائے ہوا۔ اس فیصلے کے تحت کارواں امن بس شروع ہوئی اورکشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان اسی راستے سے تجارت کا آغاز ہوا، یوں 17 اپریل 2005 کو بس سروس شروع ہوئی۔

بس سروس سے دونوں اطراف کے کشمیری خاندانوں کو خاطر خواہ فائدہ ہوا۔ دونوں اطراف تجارت کو فروغ دینے کے لیے ٹرک سروس شروع ہوئی۔ کشمیر کے دونوں حصوں سے آسانی سے سامان ایک دوسرے کے علاقے میں مہیا ہونے لگا۔ جب بھارت نے اپنے آئین کی شق 370 کو ختم کیا تو تحریک انصاف کی حکومت نے ایک غیر منطقی فیصلہ کرتے ہوئے بھارت کے تمام رابطے ختم کردیے، یوں بھارت سے سڑک اور ہوائی جہاز کے ذریعے تمام رابطے معطل ہوگئے اور دونوں ممالک نے اپنے اپنے ہائی کمشنروں کو واپس بلایا اور ہائی کمیشن میں عملہ انتہائی کم کردیا گیا۔ تحریک انصاف کی حکومت کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے پر بھارت کے خلاف مؤثر سفارتی مہم نہ چلا سکی۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت بند ہونے سے زیادہ نقصان پاکستان کا ہوا۔ پاکستان بھارت سے ادویات کی تیاری کا خام مال، ادویات اور ہیوی مشینری وغیرہ درآمد کرتا تھا اور پاکستان پھل،کھجوریں اورکمپیوٹر سوفٹ ویئر بھارت کو برآمد کرتا تھا۔ سندھ میں سب سے اعلیٰ نسل کی کھجوریں پیدا ہوتی ہیں۔ ان اعلیٰ معیار کی کھجوروں کی سب سے بڑی منڈی بھارت ہے۔ اب پھل دبئی کے ذریعے اسمگل ہوکر بھارت میں فروخت ہوتے ہیں جس سے ان پر آنے والی لاگت بڑھ جاتی ہے۔ 

 پاکستان اور بھارت براہِ راست کلائمنٹ چینج کا شکار ہو رہے ہیں۔ پہاڑی علاقوں میں وافر مقدار میں برف باری نہ ہونے سے پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں انتہائی کم بارش ہونے کی وجہ سے دریائے سندھ خشک ہو رہا ہے۔ بھارت کی ریاست پنجاب اور ہریانہ میں جب کسان فصل کی باقیات جلاتے ہیں تو اتنی آلودگی بڑھتی ہے کہ لاہورکے شہریوں کے لیے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس وقت دریائے سندھ خشک ہورہا ہے۔ پانی کی قلت پر صوبوں میں جھگڑے بڑھ رہے ہیں۔

کلائمنٹ چینج سے نمٹنے کے لیے پاکستان اور بھارت سے بات چیت ضروری ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھارت سے غیر رسمی تجارت میں چوتھی بار اضافہ ہوا ہے۔ صدر ٹرمپ سخت رویے کے باوجود چین سے تجارت کے لیے مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ چین اور بھارت میں تمام تر اختلافات کے باوجود تجارت بڑھ رہی ہے۔ پھرکیوں نہ پاکستان اور بھارت میں تجارت ہو جس کا زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا اور دونوں ملکوں کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ملک میں جانے کی آزادی ہو۔ جب کامن پل میتوں کے لیے کھل سکتا ہے تو اسے کشمیریوں کے لیے بھی کھلنا چاہیے۔ 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ طے پا گیا، دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر دستخط ہوگئے ہیں۔
اسلام آباد میں معاہدے پر دستخط کی تقریب منعقد ہوئی، جہاں پاکستان کے سیکریٹری تجارت جواد پال اور افغانستان کی جانب سے افغان ڈپٹی وزیر تجارت ملا احمد اللہ زاہد نے معاہدے پر دستخط کئے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت دونوں ممالک ایک دوسرے کی درآمدی اشیا پر ٹیرف میں نمایاں کمی کریں گے اور معاہدے کے تحت دونوں ممالک نے ٹیرف کی شرح 60 فیصد سے کم کر کے 27 فیصد تک لانے پر اتفاق کیا ہے۔

دونوں ممالک کا یہ اقدام دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے اور خطے میں اقتصادی تعاون بڑھانے کے لئے کیا گیا  ۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان طے پانے والا تجارتی معاہدہ یکم اگست 2025 سے نافذ العمل ہوگا اور ابتدائی طور پر ایک سال کے لئے مؤثر رہے گا۔
معاہدے کے تحت پاکستان افغانستان سے درآمد کیے جانے والے انگور، انار، سیب اور ٹماٹر پر ڈیوٹی کم کرے گا جب کہ افغانستان پاکستان سے آنے والے آم، کینو، کیلے اور آلو پر ٹیرف میں کمی کرے گا۔

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • پاکستان، یو اے ای تعاون میں نمایاں پیشرفت
  • برطانیہ اور بھارت کے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ طے پاگیا
  • بریگزٹ کے بعد برطانیہ کا بھارت کے ساتھ سب سے بڑا معاہدہ
  • عمران خان کے دونوں بیٹوں کی پاکستان آنے کی تصدیق
  • عمران خان کے دونوں بیٹوں کی پاکستان آنے کی تصدیق، پی ٹی آئی کا تفصیلات بتانے سے انکار
  • ہمت ہے توپکڑ کردکھائو،معروف ٹک ٹاکرکا پنجاب پولیس کو کھلا چیلنج، پستول کے ساتھ ویڈیو وائرل
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ طے
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان ترجیحی معاہدہ
  • فلسطین کی صورتحال پر مسلم ممالک اپنی خاموشی سے اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں، حافظ نعیم
  • سلامتی کونسل میں کھلا مباحثہ، پاکستانی سفیر نے بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب کردیا