مولانا فضل الرحمان کے بغیر پی ٹی آئی کچھ نہیں کر سکے گی، جاوید چوہدری
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
نجی ٹی وی سے گفتگو میں تجزیہ کار نے کہا کہ خان صاحب کی رہائی اس صورت حال میں تو ممکن نہیں ہو سکتی جب اس ٹائپ کے لیڈر پھنستے ہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے یا وہ کسی قانون کے شکنجے میں آ جاتے ہیں یا جرم سرزرد ہوتا ہے تو انھیں سزا ہو جاتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ سینیئر تجزیہ کار جاوید چوہدری کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کے سوا پی ٹی آئی کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے، اگر مولانا فضل الرحمان عمران خان کی طرف داری نہیں کرتے، پی ٹی آئی کچھ نہیں کر سکے گی، پی ٹی آئی کے پاس ایک آپشن ہے لیکن مولانا فضل الرحمان اپنے ہاتھ کاٹ کر تحریک انصاف کو نہیں دیں گے، اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی مشین ہوتی ہے یہ کسی ایک بندے کا نام نہیں ہے، ایک مشینری کا نام ہوتا ہے، اور مشینری میں کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو اس کی جگہ نیا پرزہ آ جاتا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر تجزیہ کار و صصافی جاوید چوہدری نے کہا کہ تحریک انصاف، مولانا فضل الرحمان پر انحصار کر رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان ہوں گے تو پاکستان تحریک انصاف کا احتجاج کامیاب ہوگا اور اگر مولانا فضل الرحمان عمران خان کی طرف داری نہیں کرتے، پی ٹی آئی کچھ نہیں کر سکے گی۔ جاوید چوہدری نے تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ اب عمران خان کی خواہش یہ تھی کہ عید کے دنوں کے دوران بھی احتجاج ہو اورعید کے بعد بھی، کیوں کہ انھوں نے کہ دیا کہ کچھ نہ کچھ سرگرمیاں کرنی ہیں، اب پارٹی ایک طرف مولانا فضل الرحمان کے ساتھ رابطے میں ہے تو دوسری طرف بھی اپنے طور پر کوشش کر رہی ہے، مولانا فضل الرحمان نے اپنی مجلس عمل ہے جس میں وہ فیصلہ کرتے ہیں جو 26 اپریل کو بلاوایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان کی سنجیدگی کا اندازہ خود لگا لیں کہ عمران خان اپریل کے شروع میں سڑکیں گرم کرنا چاہتے ہیں اور مولانا صاحب نے اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے اپریل کے آخر میں اجلاس بلاتے ہیں۔ سینئر تجزیہ کار نے پی ٹی آئی کے لائحہ عمل کے سوال پر جواب دیا کہ اے پی سی اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب کوئی بڑی پارٹی ان کے ساتھ نہیں بیٹھتی، پی ٹی آئی کے ساتھ پیپلز پارٹی یا ن لیگ بیٹھتی ہے یا ایم کیو ایم یا پھر مولانا فضل الرحمان خود بیٹھ جاتے ہیں تو پھر تو کہا جا سکتا ہے کہ اے پی سی ہوگی اور کامیابی کے چانسز ہوں گے۔
جاوید چوہدری نے کہا کہ اس سے قبل بھی تحریک انصاف نے آل پارٹیز کانفرنس اسلام آباد میں کی تھی اور اس میں مولانا فضل الرحمان صاحب شریک نہیں ہوئے تھے۔ وہ اچانک عمرے پر چلے گئے اور وہاں سے قطر چلے گئے انھوں نے اپنا ایک وفد بھیجا تھا لیکن اس نے اس اے پی سی کے اعلامیے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، انھوں نے کہا کہ ہمیں تحفظات ہیں اس اے پی سی کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اب آپ اگر کراچی، کوئٹہ کر لیں لیکن اگر اس میں کوئی بڑی پارٹی شامل نہیں ہوتی اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اگر ایسی پارٹیاں جن کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
عمران خان کے اقتدار سے نکلنے اور خطرناک ہونے کے سوال کے جواب میں جاوید چوہدری نے کہا کہ ہیجان انگیزی ہوسکتی ہے لیکن اب ہر چیز سیٹل ہو چکی ہے، اسٹیبلشمنٹ ایک بڑی مشین ہوتی ہے یہ کسی ایک بندے کا نام نہیں ہے، ایک مشینری کا نام ہوتا ہے، اور مشینری میں کوئی پرزہ خراب ہو جائے تو اس کی جگہ نیا پرزہ آ جاتا ہے اور اس مشینری کو چلانے کے لیے ایک مشین مین ہوتا ہے، وہ ریٹائر ہو جائے یا چلا جائے۔ مشین اپنی جگہ باقی رہتی ہے، اس کے پاس بہت زیادہ افرادی قوت اور بہت زیادہ بجٹ بھی ہوتا ہے، انھوں نے بہت سارے لوگ عمران خان پر وقف کر دیے ہیں اور وہ اپنا کام کرتے جا رہے ہیں۔
جاوید چوہدری نے کہا کہ باقی جو ریاست ہے وہ اپنا کام کر رہی ہے، اکانومی اسٹیبل کر لی اور آئی ایم ایف کو انھوں نے راضی کر لیا جیسے تیسے بھی اور پاکستان میں استحکام بھی آ گیا اور مہنگائی بھی کم ہو گئی۔ یہ ساری چیزیں ہیں جس کوہمیں ماننا پڑے گا، تو اسٹیبلشمنٹ کا 99 فیصد حصہ ہے وہ یہ کام کر رہا ہے۔ اور جو ایک فیصد ہے وہ انھوں نے عمران خان پر وقف کیا ہوا ہے جس نے عمران خان کو اور پی ٹی آئی کو کنٹرول کرنا ہے۔ سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ آل از ویل ہے، رائے مختلف ہو سکتی ہے، آپ 2021، 2022، 2023 اور 2024 کی صورتحال کو 2025 میں رکھ کر دیکھ لیں اور آپ کو مختلف نظر آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ سڑکیں ساری کھلی ہوئی ہیں، پہلے سڑکیں بند ہوتی تھیں کئی کئی ماہ لیکن اب کوئی یلغار نہیں ہو رہی، آپ کو 10 سے 15 ہزار پولیس بلانی پڑتی تھی اور 50 کروڑ کی شیلنگ ہو جاتی تھی تو اس سے نکل آئے، اکانومی میں ڈاؤن تھی۔ مارچ کے سوال پر انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اب مارچ کا نہیں کہہ سکتی، 26 نومبر کو جو ریاست نے کیا اسے بھی اندازہ ہو گیا کہ ان کا علاج کیا ہے، اب دوسری پارٹی کو بھی معلوم ہو چکا ہے لہذا ان کے ساتھ کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کرنی۔ 26 نومبر کے بعد کوئی ایک احتجاج مجھے بتائیں جو ہوا ہو اور کامیاب ہوا ہو۔ پی ٹی آئی کے بہت سے لوگ چاہتے ہیں کہ جیل کے سامنے احتجاج کر لیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ایڈجسٹ منٹ ہو چکی ہے، عمران خان جیل میں سکون میں ہیں، دیسی گھی اور دیسی مرغے کھا رہے ہیں۔ پیسے ہونے کے باوجود جیل میں ہر کسی کو سہولتیں میسر نہیں ہوتیں، لوگوں کو جیل کی دال بھی کھانی پرتی ہے، چونکہ عمران خان سابق وزیراعظم ہیں تو جیل کا ایک مینوئیل ہے، اس کے مطابق سب ہو رہا ہے حالانکہ بہت کھرب پتی قیدی بھی جیل میں ہیں لیکن انھیں وہی دال کھانی پڑتی ہے۔ پی ٹی آئی سے کوئی مسئلہ نہیں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو، شاہ محمود قریشی کی شکل میں مجھے لگتا ہے کہ فارورڈ بلاک بنے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ شیر افضل مروت کو پارٹی نے نکال دیا ہے، پی ٹی آئی انھیں نہیں مانتی، عمران خان ساتھ نہیں ہے تو کراؤڈ کہاں سے لے آئے گا، باقی کوئی بھی شور کر لے وزن پیدا ہو جاتا ہے، میری اطلاع کے مطابق فارورڈ بلاک کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کوئی ایفرٹ نہیں کر رہی انھیں کوئی فائدہ نہیں اس سے، جب سارے معاملات کنٹرول میں ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ ایک نیا پھڈا کرنے کے لیے۔ عمران خان نے خود پارٹی کو تقسیم کیا، انھوں نے جنید اکبر کو اختیار دیا ہے اب پارٹی گنڈا پور کے ہاتھ میں نہیں اور جو اختیارات اور پیسا ہے وہ گنڈا پور کے پاس ہے اور دونوں ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔
جاوید چوہدری کا کہنا تھا کہ عمران خان صاحب کی ایک موو سے خیبر پختون خوا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو اسٹیبلشمنٹ کو مزید کیا ضرورت ہوگی، اب دوسرا یہ ہے کہ کے پی کو سینٹرل سے تحفظات ہیں وہ ان کو نہیں مانتی، وہ گوہر خان، سلمان اکرام راجہ اور نہ وقاص شیخ کو مانتے ہیں، یہ سب ایک دوسرے کو نہیں مانتے، جیسے جنید اکبر نے اعلان کیا تھا کہ عید کے تین دن اڈیالہ جیل کے سامنے احتجاج کریں گے تو سئینٹرل پارٹی نے کہا کہ آپ کون ہوتے ہیں یہ فیصلہ کرنے والے، یہ فیصلہ تو ہم نے کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ کس بندے کی جیل میں ملاقات ہوگی اور کس کی نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ اب باقی سارے لوگ حیران ہیں پریشان ہیں وہ اس چیز کو نہیں مان رہے، جب یہ چیزیں پہلے سے موجود ہیں تو کیا ضرورت ہے کہ پارٹی کو توڑا جائے۔ اس سے تو بہت سے لوگوں کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ بہت سارے لوگ ہیں جن کے پیچھے میڈیا نہیں جاتا، جو بھی اندر سے باہر آتا تھا میڈیا وہاں پر کھڑا ہوتا تھا۔ بابر اعوان کی لڑائی چیمبرز وار ہے سیاسی لڑائی نہیں ہے، اگلے ہفتے کی لسٹ میں نام تھا کیوں کہ وہ سینئر وکیل تھے وہ چلے گئے انھیں جیل حکام نے جانے دیا۔ جاوید چوہدری نے پروگرام میں تجزیہ دیتے ہوئے کہا کہ صورت حال بہت دلچسپ ہے، پنجاب میں ان کی پارٹی موجود نہیں، وہاں کوئی بندہ نہیں نکلتا۔ یہ کون سا انقلاب ہے کہ اجازت دی جائے، انقلاب میں تو آپ دیواریں توڑ کے باہر نکلنا ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کاش عمران خان نے آئین کو مانا ہوتا اور آئین کے اختیارات آئین کو دیے ہوتے تو آج یہ صورت حال نہ ہوتی، خود تو آئین کو روندتے رہے۔ مورچے بنائے ہوئے تھے، فوج کو حکم دے دیا تھا کہ گولی چلا دیں وہ تو جنرل باجوہ صاحب نے سوچا کہ اگر گولی کا آرڈر دے دیا تو یہاں تو 3 سو بندہ مر جائے گا اور لاشیں ہمارے گلے پڑ جائیں گی، عمران خان صاحب نے باقاعدہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔ انھوں نے مزید گفتگو کرتے ہوئے پروگرام میں کہا کہ خان صاحب کی رہائی اس صورت حال میں تو ممکن نہیں ہو سکتی جب اس ٹائپ کے لیڈر پھنستے ہیں اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہونے یا وہ کسی قانون کے شکنجے میں آ جاتے ہیں یا جرم سرزرد ہوتا ہے تو انھیں سزا ہو جاتی ہے۔
جاوید چوہدری نے کہا کہ وہاں سے نکلنے کے 3 طریقے ہوتے ہیں جو پوری دنیا میں ہیں۔ ایک تو باہر کی طاقت ان کی دوست ہو وہاں آگے بڑھے، دوسرا یہ ہوتا ہے کہ فیملی کے کلوز لوگ ہوتے ہیں ان کا اس میں بنیادی کردار ہو سکتا ہے۔ جاوید چوہدری نے مزید کہا کہ جب میاں نواز شریف کو چھڑاوایا گیا تھا بیگم کلثوم نواز درمیان میں تھیں یا انقلاب ایسا آ جائے جیسے خمینی کے لیے آ گیا تھا۔ پی ٹی آئی پارٹی عوام کو نکالنے میں ناکام ہو چکی ہے، بلکہ پارٹی اپنے آپ کو نکالنے میں ناکام ہوئی، جتنے احتجاج ہوئے سب گنڈا پور کی وجہ سے ہوئے اسے داد دینی پڑے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب وہ پیچھے ہٹے تو جیسے تیسے بھی ختم ہو گیا۔ باہر سے کوئی بندہ نہیں آ رہا، فیملی میں کوئی ایسا بندہ نہیں ہے جو ڈیل کرسکے، پارٹی میں ڈیل کر نہیں سکتی۔ جاوید چوہدری نے کہا کہ پی ٹی آئی کے پاس ایک آپشن ہے لیکن مولانا فضل الرحمان اپنے ہاتھ کاٹ کر تحریک انصاف کو نہیں دیں گے۔ جب گوہر خان کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب سے ملاقات ہوئی پشاور میں تو کیا انھوں نے مولانا فضل الرحمان کو اعتماد میں لیا تھا؟ جب حکومت سے مذاکرات ہو رہے تھے، عمران خان نے اپنے لوگوں کے نام دے دیے، کیا مولانا فضل الرحمان سے انھوں نے پوچھا تھا ابھی جو پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں نام دیے تو وہاں مولانا فضل الرحمان اسمبلی پہنچ گئے۔
انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ آئے نہیں، اس پر انھوں نے احتجاج بھی کیا تھا مصطفٰی نواز کھوکھر کے گھر پر افطاری کے دوران، مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ آپ لوگ بے اعتبارے ہیں، میں وہاں انتظار کرتا رہا اور آپ کے لوگوں نے فون کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب یہ صورت حال تو مولانا فضل الرحمان کو ان پر اعتماد کریں گے؟ مولانا بھی نہیں چاہیں گے کہ علی امین گنڈا پور چیف منسٹر رہیں جو پی ٹی آئی نہیں بدلے گی، ایک قائم مقام حکومت بن جائے گی خیبر پختون خوا میں۔ عمران خان کے پاس آپشن یہی ہے کہ میاں شہباز شریف آرمی چیف سے لڑ پڑیں، اسٹیبلشمنٹ کو میاں شہباز شریف سے بہتر امیدوار کوئی نہیں مل سکتا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمان ان کا کہنا تھا کہ کوئی فائدہ نہیں اسٹیبلشمنٹ کو پی ٹی آئی کے تحریک انصاف انھوں نے کہ کرتے ہوئے تجزیہ کار گنڈا پور میں کوئی صورت حال اے پی سی میں ہیں جیل میں کے ساتھ ہو سکتی ہو جائے کو نہیں ہوتا ہے نہیں کر نہیں ہے نہیں ہو کے پاس خان کی کر رہی کا نام ہیں تو میں تو کے لیے
پڑھیں:
چولستان کینال کو پنجاب کی کون سی نہر کا پانی دیں گے؟ چوہدری منظور
پاکستان پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما چوہدری منظور نے سوال کیا ہے کہ چولستان کینال کو پنجاب کی کون سی نہر کا پانی دیں گے؟ غریب کسانوں کا پانی چھین کر چولستان مین کارپوریٹ سیکٹر کو دینا چاہتےہیں، حکومت کو ایک سال ہوگیا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہیں بلایا۔
اسلام آباد میں ندیم افضل چن سمیت پارٹی رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے پانی کے مسئلے پر وزیراعظم کے سامنے 4،5 سوالات اٹھائے تھے جن میں سے صرف ایک کا جواب آیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے پہلا سوال وزیراعظم سے کیا تھا کہ ارسا ایکٹ میں لکھا ہے جب بھی پانی کا کوئی مسئلہ سامنے آئے گا تو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلایا جائے گا، حکومت کو آئے ایک سال کا عرصہ گزرچکا ہے مگر مشترکہ مفادات کونسل کا ایک بھی اجلاس کیوں نہیں بلایا گیا۔
انہوں نے کہاکہ بہت شور ہوتا ہے کہ صدر پاکستان نے منظوری دے دی، میں نے سوال اٹھایا تھا کہ صدر پاکستان دو چیزوں کی منظوری دیتے ہیں کہ اگر پارلیمنٹ کوئی قانون منظور کرے یا حکومت انہیں کوئی آرڈیننس بھیجتی ہے۔
چوہدری منظور نے کہا کہ راناثنااللہ نے کل اس سوال کا جواب دیا ہے کہ نہ تو یہ منصوبہ ایکنک نے منظور کیا ہے، نہ مشترکہ مفادات کونسل نے منظور کیا ہے اور نہ ہی صدر پاکستان نے اس کی منظوری دی ہے، ہمارا یہ موقف ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد صدر پاکستان کے پاس کسی بھی انتظامی کام کی منظوری دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ غریب کسانوں کا پانی چھین کر کارپوریٹ سیکٹر پر لگانا چاہ رہے ہیں، تمام آبی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ منصوبہ ناممکن ہے، عام نہر سے 7 سے 14 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑجاتا ہے جبکہ اس نہر سے 30 سے 40 فیصد پانی بھاپ بن کر اڑ جائے گا، آپ اگر اسپرنکل یا ڈرپ ایریگیشن کے ذریعے جدید فارمنگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ نہیں کے پانی سے نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس سے نوزل بند ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جدید فارمنگ کے لیے نہر کے بجائے بڑے بڑے تالاب بنانے ہوں گے، ڈی سلٹنگ کے لیے پانی کھڑا کرنا پڑے گا، وہاں کے موسم میں 3،4 دن کھڑے رہنے والے پانی میں کائی جم جائے گی، جب کائی جمے گی تو وہ بھی نوزل بند کردے گی۔
چوہدری منظور نے مزید کہا کہ آپ کہ رہے ہیں سیلاب کا پانی دیں گے، سیلاب تو جولائی، اگست اور ستمبر میں دو سے تین مہینے تک ہوتا ہے، باقی 9ماہ آپ کیا کریں گے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں پہلی مرتبہ ریورس انجینئرنگ ہورہی ہے، دنیا بھر میں نہر جہاں سے نکلتی ہے وہاں سے تعمیر شروع ہوتی ہے، انہوں نے چولستان سے تعمیر شروع کی ہے۔
چوہدری منظور نے کہا کہ میں نے وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال کیا تھا مگر ابھی تک جواب نہیں آیا کہ کس نہر کا پانی بند کرکے چولستان کینال کو دیں گے؟
انہوں نے کہا کہ ارسا کی رپورٹ کے مطابق پنجاب کو پانی کی 43 فیصد کمی کا سامنا ہے، انہوں نے کہاکہ پنجاب میں پینے کا 80 سے 90 فیصد پانی زیرزمین سے آتا ہے جبکہ سندھ کا یہ مسئلہ ہے کہ وہاں پینے 80 سے 90 فیصد پانی دریا اور جھیلوں سے آتا ہے، یہ ان کی حساسیت ہے اور اس مسئلے کو کسی فارمولے کے تحت نہیں انسانیت کی بنیاد پر دیکھنے کی ضرورت ہے۔
چوہدری منظور نے کہا کہ پنجاب حکومت کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے پنجاب کے کسانوں کے ساتھ جو ظلم کرنے جارہی ہے، پیپلزپارٹی اس پر تمام متاثرہ اضلاع کے مظلوم کسانوں کے ساتھ کھڑی ہے، اس پانی کے مسئلے پر کسانوں کے ساتھ جہاں مظاہرے کرنے پڑیں گے کریں گے۔
کینالز کے مسئلے پر صوبوں کو آپس میں نہ لڑائیں، ندیم افضل چن
اس موقع پر پیپلزپارٹی کے سیکریٹری اطلاعات ندیم افضل چن نے پنجاب حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ پاکستان کی ریاست کو مضبوط کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے، اس منصوبے میں آپ کی بدنیتی شامل ہے، انہیں چولستان اور ریگستان سے کوئی پیار نہیں ہے نہ یہ کاشتکاروں، ہاریوں اور پڑھے لکھے کسانوں کو زمینیں دینا چاہتے ہیں۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو پنجاب کے وارث سمجھتے ہیں مگر یہ جنرل جیلانی اور جنرل ضیا کے وارث تو ہوسکتے ہیں، لیکن یہ پنجاب کے وارث نہیں ہیں، یہ بتادیں کہ انہوں نے پنجاب کے کسی ایک کاشتکار کو بھی ایک ایکڑ زرعی زمین دی ہو، اگر آپ کسی سرمایہ دار یا کسی بیورو کریٹ کو زمین دے رہے ہیں تو یہ پنجاب کا مقدمہ نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ پنجاب کا وارث محکمہ آبپاشی ہے، اس کے ریسٹ ہاؤس کس نے بیچے؟ کیونکہ آپ 40،50 سال حکمران رہے ہیں، یہ ریسٹ ہاؤس مراد علی شاہ نے نہیں بیچے جسے آپ طعنہ دے رہے ہیں نہ پیپلزپارٹی نے بیچے، کیا وارث زمینیں بیچتے ہیں یا جائیداد بڑھاتے ہیں؟ آپ خریدار ہوسکتے ہیں، وارث نہیں ہوسکتے، آپ بیچنے والے ہوسکتے ہیں۔
ندیم افضل چن نے کہا کہ گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس ( جی ٹی ایس) غریبوں کی ایک سہولت ہوا کرتی تھی، آپ نے پنجاب میں حکمرانی کی اور وہ بس بیچ دی، اب آپ سبسڈائزڈ میٹرو، سبسڈائزڈ پیلی بس، نیلی بس چلارہے ہیں، اربوں کی گاڑیاں بیچ دیں اور اب پھر عوام کے پیسے سبسڈائزڈ ٹرانسپورٹ چلا رہے ہیں، آپ کی وہ پالیسی ٹھیک تھی یا یہ پالیسی ٹھیک ہے؟
ندیم افضل چن نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہم آپ کے اتحادی ہے جس کی ہم ایک قیمت دے رہے ہیں، ہم آپ کے اتحادی نہیں، اس نظام، ملک اور آئین کے اتحادی ہیں، ہم پارلیمانی نظام کے اتحادی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے بنیادی صحت کے مراکز پر اربوں روپے لگانے کے بعد انہیں پرائیویٹائز کردیا، غریب کا بچہ پرائیویٹ اسکولوں میں نہیں پڑھ سکتا، وہ سرکاری اسکولوں میں پڑھتا تھا، آپ نے آج سرکاری اسکول بیچنا شروع کردیے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا وارث اسکول، ہسپتال، آبپاشی کی زمینیں اور اپنی ٹرانسپورٹ بیچتا ہے؟ اپنے گھر کے برتن بیچنے والا وارث نہیں ہوتا، وہ ڈنگ ٹپاؤ ٹھگ ہوتا ہے، ہم حکومت سے بات چیت کے لیے تیار ہیں،کینالز کے مسئلے پر صوبوں کو آپس میں نہ لڑائیں۔
Post Views: 1