یہ 2014 کی بات ہے جب مایئکروسافٹ بربادی کے دہانے پر تھا۔ اس کی سافٹ ویئر کی دنیا پر قائم حکمرانی کا تخت سرک رہا تھا۔ کمپنی نے اس سے کچھ وقت پہلے نوکیا کو خریدا تھا اور یہ 7 ارب ڈالر سے زائد کی ڈیل تھی۔ یہ ڈیل توقعات کے بالکل برعکس تھی، نوکیا تھا کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو رہا تھا۔
دنیا بہت تیزی سے بدل رہی تھی اور یہ وہ وقت تھا جب ایپل، ایمازون اور گوگل اسٹاک مارکیٹ میں راج کر رہے تھے۔ اگر کوئی کمپنی نیچے جا رہی تھی تو وہ مایئکرو سافٹ تھی۔ صرف سرمایہ کاروں کا ہی نہیں بلکہ کمپنی کے اندر بیٹھے فیصلہ ساز لوگوں کا اعتماد بھی متزلزل تھا۔ اس پر انہوں نے بالآخر کمپنی میں بڑے ردوبدل کا فیصلہ کیا۔ مائیکروسافٹ نے اپنا سی ای او بدل دیا۔ بورڈ نے ستیا نڈال نامی ایک گمنام انسان کو اس کمپنی کا سی ای او مقرر کیا۔
ستیا نڈال مائیکرو سافٹ میں نرم گفتگو کرنے والا انجنیئر تھا جو کمپنی کے اندر سے ترقی کرتے ہوئے بالاخر سی ای او بنا تھا۔ ستیا کے سوچنے اور آگے بڑھنے کی صلاحیت دیگر سب سے منفرد تھی۔ اس کے ذہن میں وہ ہوتا تھا جو کمپنی میں کسی کے بھی ذہن میں نہیں ہوتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ اس فیصلہ کن موڑ پر بورڈ کی نگاہ انتخاب ستیا نڈال پر ٹھہری۔
ستیا کے سی ای او بننے سے پہلے مائیکروسافٹ کا بزنس ماڈل بہت سادہ تھا۔ یہ سافٹ ویئرز بناتے تھے اور انہیں مارکیٹ میں بیچتے تھے۔ مائیکرو سافٹ ونڈوز اور آفس کی کمائی کی کمپنی کےلیے کافی ہوتی تھی۔ باقی سافٹ ویئر ایک سائیڈ پر اور ان دو سافٹ ویئرز کی سالانہ فروخت ہی کئی بلین ڈالرز ہوتی تھی۔ ایسا کئی دہائیوں سے ہورہا تھا اور چونکہ کمپنی کا بنیادی کام ہی سافٹ ویئر فروخت کرنا تھا لہٰذا اس ماڈل کو کسی نے بھی چھیڑنے کی ہمت نہیں کی تھی۔
لیکن 2008 کے فنانشل کرائسز نے دنیا کو بدلنا شروع کردیا تھا۔ موبائل فون اور سوشل میڈیا کے بعد اب پی سی اس طرح سے کارآمد نہیں تھے جیسا کہ یہ ماضی میں ہوتے تھے۔ دوسری جانب انڈروائیڈ سمیت کئی اوپن سورس سافٹ ویئرز نے بھی مائیکرو سافٹ کو مارکیٹ میں ٹکر دینا شروع کردی تھی۔ یہاں یہ سوال تھا کہ اگر کمپنی کو پیسہ ونڈوز اور آفس نے کما کر دینا ہے تو باقی سافٹ ویئرز اور انجینئرز کی فوج کا کیا فائدہ ہے؟ اس سے اگلا سوال یہ بھی تھا کہ کمپنی اگلے 5 سال میں کتنا سافٹ ویئر بیچ لے گی؟
اب دنیا کلاؤڈ کمپیوٹنگ کی جانب شفٹ ہو رہی تھی اور ستیا سے پہلے اس کی طرف دیکھنے کے بجائے مائیکروسافٹ نے ایک احمقانہ فیصلہ کرتے ہوئے ونڈوز فون مارکیٹ میں متعارف کروائے جو کہ بڑی طرح سے فیل ہوگئے۔ یہ وہ وقت تھا جب بلیک بیری اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے پٹ چکا تھا، نوکیا کو مائیکروسافٹ خرید چکا تھا اور دنیا پر مقابلہ ایپل اور انڈروائیڈ میں چل رہا تھا۔ حتیٰ کہ کمپنی کے فیصلہ سازوں کو دیوار پر لکھا نظر آںے لگا تھا مائیکرو سافٹ کا انجام بھی آئی بی ایم، نوکیا اور بلیک بیری سے مختلف نہیں ہے۔
ستیا کی سوچ منفرد تھی۔ اس نے آتے ساتھ ہی کلاؤڈ کمپیوٹنگ میں بھاری سرمایہ کاری کا حکم دیا۔ یہ کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری تھی اور یہ وہ فیصلہ تھا جس نے اصل میں مائیکروسافٹ کو نہ صرف دیوالیہ ہونے سے بچایا بلکہ اس کو 3 کھرب ڈالر کے ایمپائر میں بدل دیا۔ ستیا کے وژن نے دیوالیہ ہوتی کمپنی کو دوبارہ سے نامور اور منافع بخش کمپنیوں کی فہرست میں لا کھڑا کیا تھا۔
ستیا نے آزور میں بھاری سرمایہ کاری کی۔ اس نے مائیکروسافٹ آفس کو سبسکرپشن کی بنیاد پر 345 میں بدل دیا۔ اس نے اپنے حریفوں یعنی ایپل اور لینکس سمیت کئی ایک سے تجارتی معاہدے اور شراکت داری کی۔ ان تمام ہی فیصلوں کے نتائج پہلے ہی سال کی بیلنس شیٹ میں نظر آنا شروع ہوگئے۔ آج مائیکروسافٹ کلاؤڈ کمپوٹنگ، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور انٹرپرائز سافٹ ویئر میں دوبارہ سے صف اول میں شامل ہوچکا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ستیا نے لنکڈاِن کو 2014 میں 24 ارب ڈالر میں خریدا اور یہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی پروفیشنل ویب سائٹ ہے۔ اس نے گٹ ہب کو 2018 میں ساڑھے 7 ارب ڈالر میں خریدا۔ اس نے ایکٹیویشن بلیذارڈ کو 2023 میں 48 ارب ڈالر میں خریدا اور اوپن اے آئی میں سب سے بڑا حصہ دار بن گیا۔ ستیا یہاں ہی نہیں رکا بلکہ اس نے گوگل، لینکس اور ایپل کے ساتھ بھی شراکت داری میں کام شروع کردیا۔ ان تمام فیصلوں نے کمپنی کو محفوظ بنا دیا۔
اس تمام کہانی میں سیکھنے کی جو باتیں ہیں، وہ میں یہاں لکھ دیتا ہوں کہ اگر کسی نوجوان نے کچھ سیکھنا ہو تو وہ باآسانی سیکھ لے۔ پہلی بات یہ کہ زندگی میں وژن کا ہونا بہت ضروری ہے۔ اگر ستیا کی طرح وژن واضح ہے تو ڈوبتی ہوئی کمپنی ایک دہائی میں 3 کھرب ڈالر تک جاسکتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ تبدیل ہوتے رحجانات کو نظر انداز کرنا اور اپنے ہی ڈبے میں بند رہنا انسان کو کھوکھلا کر سکتا ہے اور بڑی بڑی کمپنیوں کے دروازے پر تالے لگوا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں بلیک بیری کی مثال سب کے سامنے ہے۔
اس کے بعد یہ کہ بزنس جائنٹس بھی غلطی کرسکتے ہیں، نقصان لے سکتے ہیں۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ کتنا جلدی غلطی سے سیکھ کر آپ اصلاح کرتے ہیں۔ پھر، کاروبار میں شراکت داری زیادہ کارآمد حکمت عملی ہے۔ جیسا کہ ستیا نے اپنے حریفوں کے ساتھ شراکت داری کرکے ان مخصوص میدانوں میں مقابلے بازی کی گیم ہی ختم کردی۔
ایک اہم بات کہ بدلتے رحجانات میں پیسہ کمانے کے طریقے بھی بدل چکے ہیں۔ آج مائیکروسافٹ اصل میں آفس سے سالانہ بنیادوں پر پیسہ کماتا ہے۔ پہلے ایک مرتبہ سافٹ ویئر بیچ دیا تو بیچ دیا والی بات تھی۔ اس بزنس ماڈل کو سبسکرپشن میں بدلنے کی وجہ سے کمپنی اس سے بھی اربوں ڈالر کما رہی ہے۔ آج مائیکروسافٹ کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور اے آئی سے بھی سالانہ بنیادوں پر اربوں ڈالر کماتا ہے۔
اس کے بعد ایک اور حکمت عملی مستقبل بینی ہے۔ ستیا کو لنکڈاِن سمیت کئی ایک میں مستقبل نظر آیا تو اس نے ان کے مقابلے میں مکھی پر مکھی مارنے کے بجائے ان ویب سائٹس کو ہی خرید لیا اور پھر وہاں سے بھی کمپنی کو منافع ملنے لگا۔ اس پوری کہانی میں بنیادی طور پر سیکھنے کی باتوں میں سے روایتی سوچ سے ہٹ کر سوچنا، تبدیلی کو قبول کرنا، بدلتے رحجانات کا درست مطالعہ کرنا اور پھر اُن کے مطابق فیصلہ لینا شامل ہیں اور سب سے بڑھ کر وسیع وژن کا ہونا ہے۔
اگر ستیا بھی روایتی طریقہ کار اپناتا اور محدود وژن کے ساتھ ہی رہنے کو ترجیح دیتا تو یقین کیجیے آج مائیکروسافٹ بھی ماضی کی داستان بن چکا ہوتا۔ میری رائے میں ستیا بھی ایک کیس اسٹڈی ہے جس سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: آج مائیکروسافٹ مائیکرو سافٹ مارکیٹ میں سافٹ ویئرز شراکت داری سافٹ ویئر ارب ڈالر کمپنی کے کمپنی کو کہ کمپنی سی ای او کے ساتھ تھا اور اور ان اور یہ
پڑھیں:
ایئرپورٹ پر کپڑے اتروا کر طبی معائنہ؛ آسٹریلوی خواتین کی مقدمے میں کامیابی
آسٹریلوی خواتین کو قطر ایئرویز کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی اجازت مل گئی۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ان 5 آسٹریلوی خواتین نے دعویٰ کیا تھا کہ 2020 میں انھیں دوحہ ایئرپورٹ پر مسلح محافظوں نے زبردستی جہاز سے اتار کر ان کی جامہ تلاشی لی اور زبردستی طبی معائنے کیا۔
متاثرہ خواتین میں سے پانچ نے 2022 میں قطر ایئرویز، ایئرپورٹ آپریٹر "مطار" اور قطر کی سول ایوی ایشن اتھارٹی کے خلاف آسٹریلیا میں مقدمہ دائر کیا تھا۔
انھوں نے "مونٹریال کنونشن" کے تحت ہوائی جہاز کے سفر کے دوران ہونے والی زیادتیوں کی بنیاد پر ذمہ داری کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ غفلت، حملہ، اور غیر قانونی حراست کے الزامات بھی عائد کیے۔
متاثرہ خواتین نے دعویٰ کیا کہ ان کے ساتھ ہونے والے غیر رضامندانہ جسمانی معائنے کے نتیجے میں انہیں شدید ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کا سامنا کرنا پڑا۔
گزشتہ برس وفاقی عدالت کے جسٹس جان ہیلی نے مقدمے کو خارج قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کامیابی کا کوئی حقیقی امکان نہیں ہے۔
عدالت نے یہ بھی قرار دیا تھا کہ قطر کی سول ایوی ایشن اتھارٹی ایک "غیر ملکی ریاست" ہے جس پر آسٹریلوی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
تاہم آج عدالت کے مکمل بینچ نے قطر ایئرویز کے خلاف مقدمے کو جاری رکھنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ معاملہ پیچیدہ ہے اور اسے ابتدائی مرحلے پر مسترد کرنا مناسب نہیں۔
جس پر آج فیصلہ سناتے ہوئے آسٹریلیا کی وفاقی عدالت نے ابتدائی طور پر مقدمہ خارج کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ فیصلہ کرنا کہ آیا دعوے مونٹریال کنونشن کے دائرہ کار میں آتے ہیں یا نہیں، ایک پیچیدہ معاملہ ہے اس لیے یہ مقدمہ سمری طور پر خارج کرنے کے قابل نہیں۔
عدالت نے قطر ایئرویز اور مطار کو مقدمے کی اپیل کے اخراجات ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔
متاثرہ خواتین کے وکیل ڈیمین سٹورزیکر نے کہا کہ ہماری مؤکلین نے اس رات دوحہ میں ایک تکلیف دہ تجربہ برداشت کیا، اور وہ انصاف کی مستحق ہیں۔ انہیں عدالت میں اپنے مقدمے کی پیروی کرنے کا حق دیا جانا چاہیے تاکہ وہ اس اذیت کا ازالہ حاصل کر سکیں۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2020 میں دوحہ کے حماد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے بیت الخلاء سے ایک نومولود بچہ ملا تھا۔
اس کے بعد دس مختلف پروازوں کی خواتین جن میں 13 آسٹریلوی شہری بھی شامل تھیں کو تلاشی کے لیے روک لیا گیا اور بعض کو مبینہ طور پر زبردستی کپڑے اتارنے اور طبی معائنہ کروانے پر مجبور کیا گیا۔
قطری حکام کی جانب سے انہیں ہوائی جہاز سے اتار کر رن وے پر کھڑی ایمبولینسوں میں لے جایا گیا، جہاں ایک نرس نے ان کا ذاتی معائنہ کیا۔ بعض خواتین نے کہا کہ ان سے زیر جامہ بھی اتروایا گیا۔