Daily Ausaf:
2025-05-29@11:53:44 GMT

ریاست قوم اور اشرافیہ

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

جب لوگوں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ ریاست کسی قوم کے فائدے کے لئے نہیں،بلکہ اشرافیہ کے فائدے کے لئے چلائی جاتی ہے،تو فرد قوم کی خاطر قربانی دینے سے قاصر ہو جاتا ہے،اور اپنے مفادات کی تلاش میں مگن ہو جاتا ہے! مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا تھا کہ ہمارے نزدیک اسلام کے دامن تقدیس پر اس سے بڑھ کر اور کوئی بدنما دھبہ نہیں ہو سکتا کہ انسانی حریت اور ملکی فلاح کا سبق مسلمان دوسری قوموں سے لیں، آپ کے ہاں اگر شمع کافوری جل رہی ہے تو آپ کو کسی فقیر کے جھونپڑے سے اس کا ٹمٹماتا ہوا دیا چرانے کی کیا ضرورت ہے؟ ایک اسلامی فلاحی مملکت کے قیام اور اس میں آزادانہ طور پر اللہ کے دین متین کے عملی غلبے اور نفاذ کے لئے کی گئی نبی کریم ﷺاور ان کی مقدس جماعت کی ہجرت کو چودہ سو پینتالیس سال بیت گئے،اس طویل دورانیے میں اس کائنات نے بارہا مسلمانوں کے عروج و زوال کو دیکھا اور تاریخ نے ان حالات و واقعات اور ان کے اسباب کو اپنے دامن میں محفوظ کیا جب تک من حیث المجموع مسلمانوں میں ملی احساس بیدار رہا ،قرآن و سنت کی الٰہی تعلیمات مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ العمل رہیں۔
اسلامی نظام خلافت و حکومت کا سانچہ کسی بھی صورت میں برقرار رہا، اقوام عالم پر مسلمانوں کا رعب و دبدبہ قائم رہا، نصف دنیا پر مسلمانوں کی حکومت و سیادت رہی اور مسلمان ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دنیا کی برادری میں قائدانہ کردار ادا کرتے رہے اور پھر جب سے مسلمانوں نے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں الٰہی تعلیمات کو پس پشت ڈالا قرآن و سنت اور نبی کریم ﷺ اور خلفائے راشدین کے دیئے ہوئے اسلامی مملکتی نظام کی جگہ اقوام باطل کے نظاموں کو اپنایا اپنے سنہرے ماضی سے خود کو کاٹ دیا تو کرئہ ارض پر ذلت و پستی کا نشان بن گئے ہر گزرتا دن ان کی رسوائی کا باعث بنتا گیا جس دنیا کے ذخائر اور خزانوں کے کل تک مالک تھے آج وہی دنیا اپنی تمام تر وسعتوں اور خزانوں سمیت ان کے لئے تنگ کردی گئی کل تک جو قومیں ایک ایک نوالے کے لئے ان کے دست سخاوت کی محتاج تھی وہ سیادت و قیادت کی مالک بن کر مسلمانوں کو اپنا نظریاتی فکری معاشی اور معاشرتی غلام بنانے لگیں اور آج پوری دنیا کا مسلمان قدم قدم پر ان کا محتاج ہے۔ ایک بار پھر مسلم قوم کو اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے سوچنا ہوگااور اس دنیا کے بوسیدہ نظاموں کو انقلاب اسلامی کی تیز ہوائوں کے جھونکوں سے خس و خاشاک کی طرح اڑاکر پھر سے دنیا میں اسلامی علم لہرانا ہوگا، آئیں عہد کریں کہ اپنے حصے کا دیا جلائیں گے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اپنی بساط کی حد تک اسلامی روح کو زندہ کریں گے دنیا کے فرسودہ نظاموں اور روایات سے بغاوت کریں گے اور ساڑھے چودہ سو سال پہلے کے اسلامی فلاحی معاشرے کو اپنا رول ماڈل بناکر اپنی دنیا و آخرت کی ترقی و کامیابی کے ہر باب کو وا کریں گے۔ یہی ہماری عزت و عظمت ترقی و کامیابی کا راستہ ہے، تاریخ آج چودہ سو سال بعد بھی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے کارناموں کو سلام پیش کرتی ہے، رات کا وقت تھا، مدینہ کی گلیوں میں مکمل خاموشی تھی،صرف ہوا کی سرسراہٹ اور کبھی کبھار کسی جانور کی آواز سنائی دیتی تھی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ، خلیفہ دوم، اپنی عادت کے مطابق اپنی رعایا کی حالت جاننے کے لئے شہر کی گلیوں میں نکلے ہوئے تھے،ان کا لباس سادہ اور چہرے پر ایک فکر مند تاثرات تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنی رعایا کی فلاح و بہبود کے بارے میں فکر مند رہتے تھے، اس رات بھی وہ مختلف گھروں کے قریب جا کر لوگوں کی گفتگو سن رہے تھے تاکہ انہیں حقیقی حالات کا علم ہو سکے،اسی دوران، ایک گھر سے ایک عورت کی آواز سنائی دی جو اپنی بچیوں کو دلاسہ دے رہی تھی کہ صبر کریں، صبح کچھ کھانے کو ملے گا،یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ کا دل بھر آیا اور وہ اس گھر کی طرف بڑھے، حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور اندر جا کر معلوم کیا کہ یہ عورت کیوں پریشان ہے،عورت نے بتایا کہ ان کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں ہے اور بچے بھوک سے بے حال ہیں،حضرت عمر رضی اللہ عنہ فورا ًواپس پلٹے اور بیت المال سے اناج اور دیگر ضروریات کا سامان خود اپنے کندھے پر اٹھا کر اس عورت کے گھر پہنچا دیا، حضرت عمرؓ کے خادم نے کہا حضرت آپ یہ بوجھ نہ اٹھائیں یہ اناج کی بوری مجھے دے دیں اسے میں اٹھا لیتا ہوں حضرت عمرؓ نے جواب دیا کیا قیامت کے دن میرا بوجھ بھی تم اٹھائو گے،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلامی ریاست کی حدود میں زبردست اضافہ ہوا۔
ان کے دور میں عراق، شام، مصر اور ایران کے بڑے علاقے اسلامی ریاست کا حصہ بنے،انہوں نے اپنی بہترین حکمرانی کی بدولت لوگوں کو انصاف اور امن کی فراہمی کو یقینی بنایا۔ حضرت عمر فاروق ؓ ریاست کے انتظام و انصرام کے لئے متعدد اصلاحات کیں، جن میں بیت المال کی تشکیل، پولیس کا قیام اور عدالتوں کی بنیاد شامل ہے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور حکومت ایک مثالی دور تھا، ہمیں بھی اگر خوشحالی اور ترقی چاہیے تو دور فاروقی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا،حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظیم حکمرانی اور اصلاحات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی،انہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کی راہ میں اور اپنی رعایا کی خدمت میں گزارا اور اپنے عمل سے دنیا کو یہ سبق دیا کہ ایک حقیقی حکمران کیسا ہونا چاہیے،مغربی دنیا میں بھی ان کی قیادت اور انصاف پسندی کو سراہا جاتا ہے ، اس کی ایک مثال ہارورڈ یونیورسٹی ہے، جہاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو بطور موضوع پڑھایا جاتا ہے،ان کے عدل و انصاف، اصلاحات اور حکمرانی کے اصول آج بھی دنیا بھر کے طالب علموں کے لئے ایک روشن مثال ہیں۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جاتا ہے کے لئے اور ان

پڑھیں:

مالٹا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا

نیویاک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 26 مئی2025ء)یورپی ملک مالٹا نے اگلے ماہ فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کر دیا۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے اتوار کے روز ایک سیاسی تقریب کے دوران یہ اعلان کیا، جس میں انہوں نے عالمی و مقامی معاملات بالخصوص غزہ میں جاری انسانی بحران پر روشنی ڈالی۔

وزیر اعظم رابرٹ ابیلا نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم غزہ میں جاری انسانیت سوز المیے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتے۔فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا نہ صرف ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے بلکہ انصاف اور انسانی وقار کے تقاضوں کے بھی عین مطابق ہے۔انہوں نے اعلان کیا کہ مالٹا فلسطینی ریاست کو 20 جون کو ہونے والی اقوام متحدہ کی کانفرنس کے بعد باضابطہ طور پر تسلیم کرے گا۔

(جاری ہے)

واضح رہے کہ مالٹا نے اپریل 2023 میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کو مکمل رکنیت دینے کے حق میں ووٹ دیا تھا، تاہم اس کے باوجود ملک نے تاحال فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تھا۔اقوام متحدہ کے 193 میں سے 147 رکن ممالک اب تک فلسطین کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کر چکے ہیں۔حالیہ برسوں میں آرمینیا، سلووینیا، آئرلینڈ، ناروے، اسپین، بہاماس، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، جمیکا اور بارباڈوس جیسے ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔

تاہم اس بڑھتی ہوئی عالمی حمایت کے باوجود امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت کئی اہم مغربی طاقتوں نے اب تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ گزشتہ ماہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے عندیہ دیا تھا کہ فرانس آئندہ مہینوں میں اس بارے میں فیصلہ کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اپنی خودمختاری، وقار اور سلامتی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کریں گے، سید محمد نقی
  • ڈریگن بوٹ فیسٹیول کی دلچسپ داستان
  • پاکستان نے بھارت کو پولیس مین بنانے کا خواب ناکام بنایا، نائب امیر جماعت اسلامی
  • سعودی عرب سمیت متعدد ممالک میں ذی الحج کا چاند نظر آگیا؛ عید الاضحیٰ 6 جون کو ہوگی
  • فلسطین پر پاکستان کا موقف نہایت قابل ستائش ہے.آیت اللہ خامنہ ای
  • وزیر داخلہ محسن نقوی کی ایران میں حضرت امام رضاؑ کے روضہ پر حاضری
  • وزیر داخلہ محسن نقوی ایران پہنچ گئے، حضرت امام رضاؑ کے روضہ پر حاضری
  • شہباز شریف کی رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات
  • شہباز شریف رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای سے ملاقات
  • مالٹا نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا