فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے پر جنوبی کوریا کے صدر کی چھٹی
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
سیئول: جنوبی کوریا کی آئینی عدالت نے ملک میں مارشل لا نافذ کرنے پر صدر یون سک یول کو عہدے سے ہٹا دیا ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق، عدالت کے 8 ججز نے متفقہ طور پر فیصلہ سناتے ہوئے صدر کے مواخذے کی توثیق کر دی۔
عدالت نے فیصلے میں کہا کہ مارشل لا کا اعلان اور پارلیمنٹ میں فوج بھیجنا آئین کی کھلی خلاف ورزی تھی، اور یہ اقدام جمہوریت کے لیے سنگین خطرہ تھا۔
عدالت کے مطابق، صدر نے فوج کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، جو کہ آئینی عہدے کی خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ یون سک یول نے 3 دسمبر 2024 کو مختصر مارشل لا نافذ کیا تھا، جس پر اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد پیش کی۔ ابتدائی طور پر تحریک ناکام ہوئی، مگر دوسری کوشش میں اپوزیشن نے صدر کا مواخذہ منظور کروایا۔
فیصلے کے بعد، جنوبی کوریا میں 60 دن کے اندر نئے صدارتی انتخابات کرائے جائیں گے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل یون سک یول پر بغاوت کے الزام میں فرد جرم عائد کی گئی تھی اور مارشل لا کی تحقیقات کے دوران انہیں گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مارشل لا
پڑھیں:
ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
ایرانی وزیرخارجہ نے اپنے صدر کے قریب ہوتے ہوئے نشاندہی کی تووہ دو تین بار آرمی چیف عاصم منیر سے بغلگیر ہوئے
ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم کی وفد کے ہمراہ ایرانی صدر اور ان کے وفد سے ملاقات ہوئی
ایرانی صدر دوحہ ملاقات میں فیلڈ مارشل کو پہچانے بنا آگے بڑھ گئے، جس کی نشاندہی پر ان کی جانب سے دلچسپ ردعمل سامنے آیا۔ ملاقات کے دوران اس وقت دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی جب ایران کے صدر پاکستانی وفد کا استقبال کر رہے تھے اور وزیراعظم شہباز شریف سے مصافحہ کرتے ہوئے فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، جس پر ایرانی وزیرخارجہ نے اپنے صدر کے قریب ہوتے ہوئے نشاندہی کی تو انہوں نے دلچسپ ردعمل دیتے ہوئے اس پر معذرت کی اور پھر دو تین بار آرمی چیف سے بغلگیر ہوئے۔ دوحہ میں ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہبازشریف کی اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر مسعود پزشکیان کے ساتھ ملاقات ہوئی جہاں نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، چیف آف آرمی سٹاف، وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اور وزیر اطلاعات و نشریات عطاء اللہ تارڑ بھی موجود تھے۔