اسلام ٹائمز: امریکی انڈوپیسفک کمانڈ کے فوجی حکام کو خدشہ ہے کہ اس کارروائی سے بحرالکاہل میں امریکی فوج کی تیاری پر منفی اثر پڑے گا۔ امریکی افواج کی سینٹرل کمانڈ مشرق وسطیٰ سمیت خطے کے ممالک میں امریکی اہداف کے لئے لڑنے کی ذمہ دار ہے اور انڈوپیسفک کمانڈ، مشرقی ایشیا میں امریکی مفادات کے لئے جنگ کی ذمہ دار ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد امریکی سرپرستی میں غاصب اسرائیلی فوج نے ہزاروں فلسطینی شہید کر دیئے ہیں اور خطے کے عرب ممالک مجرمانہ طور پر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔ خصوصی رپورٹ: 

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے رپورٹ کیا ہے کہ 15 مارچ سے جاری یمن کے انصار اللہ کے خلاف تازہ امریکی فوجی آپریشن میں تین ہفتوں سے بھی کم عرصے میں تقریباً 1 بلین ڈالر خرچ ہوچکے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق تین باخبر ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ امریکی حملوں کا انصار اللہ کی صلاحیتوں کو کم کرنے پر محدود اثر پڑا ہے۔ جبکہ ا مریکی فوج نے یمن میں اپنی کارروائیوں میں میزائلوں اور گائیڈڈ بموں سمیت متعدد قسم کا گولہ بارود استعمال کیا ہے، لیکن وہ یمن کی انصار اللہ کی صلاحیتوں کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

امریکہ کے بقول یمن میں کارروائیوں کا مقصد انصار اللہ کو زیر کر کے بحیرہ احمر میں اسرائیل سے منسلک بحری جہازوں پر یمنی فورسز کے حملوں کو روکنا ہے۔ یاد رہے کہ اکتوبر 2023 میں غزہ پر غاصب اسرائیلی حکومت کے حملوں کے کچھ ہی دیر بعد یمن کی تحریک انصار اللہ نے فلسطینی عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اسرائیلی حکومت سے وابستہ بحری جہازوں کو بحیرہ احمر سے گزرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس دوران سابق امریکی صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ نے امریکہ کے اتحادیوں کا مشترکہ محاذ تشکیل دیا اور یمن کے انصار اللہ کو "کنٹرول" کرنے کے نام پر یمن کے مختلف علاقوں پر حملے شروع کر دیئے، لیکن ٹرمپ یا بائیڈن، دونوں امریکی صدور کے دور میں یہ حملے یمن کے انصار اللہ کے خلاف کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کر سکے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال تھا کہ بائیڈن کے دور میں یمن کے خلاف آپریشن اتنے موثر نہیں تھے جتنے کہ ہونے چاہیے تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے 15 مارچ کو یمنیوں کے خلاف حملوں کا ایک نیا دور شروع کرنے کا اعلان کیا۔

سی این این کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے حملوں کے نئے دور میں حوثیوں (انصار اللہ) کے خلاف سیکڑوں ملین ڈالر مالیت کا گولہ بارود استعمال کیا ہے، جن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائل، گائیڈڈ بم اور ٹوماہاک میزائل شامل ہیں، ڈیاگو گارشیا کے B-2 بمبار بھی ان حملوں میں حصہ لے رہے ہیں اور مزید طیارہ بردار بحری جہاز، کئی فائٹر سکواڈرن اور فضائی دفاعی نظام جلد ہی امریکی سینٹرل کمانڈ (CENTCOM) کے تحت خطے میں منتقل کیے جائیں گے۔ سی این این کی رپورٹ کے مطابق ذرائع میں سے ایک نے کہا ہے کہ پینٹاگون کو ممکنہ طور پر آپریشن جاری رکھنے کے لیے کانگریس سے اضافی فنڈنگ ​​کی درخواست کرنے کی ضرورت ہوگی، لیکن ہو سکتا ہے کہ اسے یہ فنڈز موصول نہ ہوں کیونکہ یمن کیخلاف اس آپریشن کو امریکی کانگریس میں دونوں جماعتوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے، حتیٰ کہ نائب صدر جے ڈی وینس نے بھی گزشتہ ہفتے دی اٹلانٹک میگزین میں شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں اسے "ایک غلطی" قرار دیا تھا۔

 سی این این کا باخبر ذرائع کے حوالے سے یہ بھی کہنا ہے کہ "انہوں نے یمن کے کچھ مراکز کو تباہ کر دیا ہے، لیکن اس سے حوثیوں کی بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملے جاری رکھنے یا امریکی ڈرونز کو مار گرانے کی صلاحیت میں کمی نہیں آئی ہے، اس کے بجائے ہم گولہ بارود، ایندھن اور افواج کی خطے میں طویل مدتی تعیناتی جیسے اپنے وسائل استعمال کر رہے ہیں۔"

اسی طرح رپورٹ میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یمن کیخلاف اس بڑے آپریشن نے امریکی انڈو پیسیفک کمانڈ کے کچھ عہدیداروں کو بھی پریشان کر دیا ہے، انہوں نے CENTCOM کی جانب سے حالیہ دنوں میں بڑی تعداد میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں بالخصوص JASSM اور Tomahawk میزائلوں کے استعمال پر تنقید کی ہے۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہتھیار چین کے ساتھ جنگ ​​کی صورت میں بہت اہم ذخیرہ ہیں۔

امریکی انڈوپیسفک کمانڈ کے فوجی حکام کو خدشہ ہے کہ اس کارروائی سے بحرالکاہل میں امریکی فوج کی تیاری پر منفی اثر پڑے گا۔ واضح رہے کہ امریکی افواج کی سینٹرل کمانڈ مشرق وسطیٰ سمیت خطے کے ممالک میں امریکی اہداف کے لئے لڑنے کی ذمہ دار ہے اور انڈوپیسفک کمانڈ، مشرقی ایشیا میں امریکی مفادات کے لئے جنگ کی ذمہ دار ہے۔ طوفان الاقصیٰ کے بعد امریکی سرپرستی میں غاصب اسرائیلی فوج نے ہزاروں فلسطینی شہید کر دیئے ہیں اور خطے کے عرب ممالک مجرمانہ طور پر اسرائیل کا ساتھ دے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کی ذمہ دار ہے میں امریکی امریکی فوج انصار اللہ رہے ہیں کے خلاف یمن کی خطے کے یمن کے فوج نے کے لئے

پڑھیں:

عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے

اسلام ٹائمز: علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔ تحریر: سید عدنان زیدی

امریکہ اور جولانی کے باہمی تعاون سے عراق کے خلاف ایک نیا اور خطرناک منصوبہ تیار کیا جا رہا ہے۔ شام کے الحسکہ صوبے میں واقع الہول کیمپ میں موجود تقریباً 20 ہزار تربیت یافتہ داعشی دہشت گردوں کو عراق منتقل کرنے کی تیاریاں زیرِ عمل ہیں اور یہ منصوبہ محض عسکری حرکت نہیں، بلکہ سیاسی انتشار، انتخابی مداخلت اور علاقائی تسلط کے لیے ایک سازش ہے۔ لیکن یہ سلسلہ صرف عراق تک محدود نہیں رہا۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالیہ سیاسی و عسکری منظرنامے میں ایک اور اہم نکتہ سامنے آرہا ہے: حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کی امریکی کوششیں اور اس کے نتیجے میں لبنان کی داخلی اور علاقائی پالیسی میں پیدا ہونے والا شدید تناؤ۔ الہول کیمپ میں مقیم شدت پسندوں کی منتقلی کا مقصد واضح ہے: عراق میں خوف و ہراس پھیلانا، تاکہ آئندہ انتخابات سے قبل مرجعیت اور مزاحمتی بلاک کا اثر کم کیا جا سکے۔

امریکہ کے پالیسی ساز اپنے حامی پروکسیز کے ذریعے ایسی صورتحال پیدا کرنا چاہتے ہیں، جو عوامی رائے کو تقسیم کرے اور انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوسکے۔ یہ ایک گہرا اور خطرناک جال ہے، جس میں عوامی جان و مال اور سیاسی آزادی دونوں داؤ پر ہیں۔ اس خطے میں جب بھی کسی طاقت نے مزاحمتی تنظیموں کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تو اس کے نتیجے میں عدم استحکام اور جوابی ردِعمل سامنے آیا۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن کی جانب سے حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنے کے مطالبات اور دباؤ میں اضافہ ہوا۔۔۔ مگر لبنان کے اعلیٰ سرکاری حلقوں نے اس خیال کو محض بعید بلکہ ناممکن قرار دیا ہے۔ لبنان کے صدر نے سرکاری طور پر واضح کیا کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ملک کی سیاسی حقیقت اور دفاعی ضرورت کے تناظر میں ممکن نہیں۔ صدر کا مؤقف ہے کہ حزبِ اللہ لبنان کی قومی حقیقت کا حصہ ہے اور اسے ختم کرنے یا غیر فعال کرنے کے مطالبات لبنان کی سالمیت اور عوامی امن کے خلاف جائیں گے۔

واشنگٹن نے لبنان پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک اور راستہ اپنایا۔۔۔ کہا گیا کہ اگر حزبِ اللہ غیر مسلح نہ ہوئی تو اسرائیل کے ساتھ تعاون یا سیاسی دباؤ کے ذریعے لبنان کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ واضح دھمکیاں لبنان کے سیاسی استحکام کو مزید خطرے میں ڈالتی ہیں اور خطے میں جنگ کے امکانات بڑھا دیتی ہیں۔ ایسی بلیک میلنگ سے یہ تاثر جنم لیتا ہے کہ طاقتیں علاقائی معاملات کو حل کرنے کے بجائے دھمکی اور جنگ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔۔۔۔ حالانکہ یہ طریقہ کار نہ تو پائیدار امن لائے گا، نہ ہی عوامی بھلائی کا ضامن بنے گا۔ قریبِ مشرق کی متعدد صحافتی رپورٹس میں بھی اس بات کی تصدیق ملتی ہے کہ حزبِ اللہ نے اپنی دفاعی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے بڑی سطح پر تیاری کی ہے۔ اسرائیلی ذرائع ابلاغ نے متعدد رپورٹس میں حزبِ اللہ کی عسکری تیاریوں، نئے اسٹرائیک صلاحیتوں اور دفاعی منصوبہ بندی کے بارے میں نشاندہی کی ہے۔۔۔ جو ظاہر کرتی ہیں کہ لبنان کی مزاحمتی قوتیں کسی بھی بیرونی دباؤ کے جواب میں مضبوطی سے قابو پانے کے لیے تیار ہیں۔

یہ رپورٹس ان دھمکیوں کے پیشِ نظر اہم پیغام دیتی ہیں: حزبِ اللہ اپنی عوامی حمایت اور علاقائی تجربے کی بنیاد پر اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے سنجیدہ دفاعی اقدامات کر رہی ہے اور اس میں تیزی دیکھنے میں آرہی ہے۔ واشنگٹن کی خواہش ہے کہ عراق میں ایک ایسا سیاسی توازن قائم رہے، جو امریکی مفادات کے مطابق ہو۔ اسی لیے الہول کے جنگجوؤں کی منتقلی، سکیورٹی صورتحال میں ردوبدل اور معلوماتی آپریشنز۔۔۔ سب ایک جامع حکمتِ عملی کا حصہ لگتے ہیں۔ قومی انتخابات سے قبل خوف و دہشت پھیلانے کا مقصد ووٹروں کی سرِ حراستی صورتحال پیدا کرنا ہے، تاکہ عوامی مزاحمتی اور مرجعیت پسند جماعتوں کی سیاسی قوت کمزور پڑ جائے۔ یہ وہی کلاسِک طریقہ ہے، جس کے ذریعے بیرونی قوتیں اندرونی تقاضوں کو متاثر کرکے اپنے سیناریو نافذ کرواتی ہیں۔

موجودہ حالات واضح کرتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں امن کے نام پر چلنے والی پالیسیوں کے پیچھے اکثر سیاستِ تسلط کام کرتی ہے۔ عراق میں داعش کی واپسی جیسی کہانیاں، لبنان میں حزبِ اللہ کے خلاف دباؤ اور یمن میں القاعدہ کو استعمال کرنے کی کوششیں۔۔۔۔ یہ سب ایک مربوط تصویر پیش کرتی ہیں: وہی پرانا جال، نئے حربے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ تاریخی تجربات نے بارہا دکھایا ہے کہ طاقت کے ذریعے امن مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک علاقائی اقوام اپنی خود مختاری، سیاسی وفاق اور عوامی امن کے لیے متحد منصوبہ بندی نہیں کریں گی، تب تک بیرونی طاقتیں اپنی سفارتی اور عسکری حکمتِ عملیاں جاری رکھیں گی۔ لبنان کا صدر جب کہتا ہے کہ حزبِ اللہ کو غیر مسلح کرنا ناممکن ہے، وہ دراصل ایک حقیقت کا اعتراف کر رہا ہے۔۔۔

وہ حقیقت جو واشنگٹن سمجھنے سے قاصر ہے: خطے کی مزاحمتی قوتیں عوامی حمایت اور تاریخی پس منظر کی حامل ہیں، انہیں زباں سے نہیں، پالیسی سے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ علاقائی صورتحال بتا رہی ہے کہ امریکہ اپنی عالمی حکمتِ عملی کو برقرار رکھنے کے لیے مختلف پروکسیز، فوجی حرکات اور سیاسی دباؤ کا استعمال کر رہا ہے۔ مگر اب خطے کے ممالک۔۔۔۔ چاہے ایران، عراق، لبنان، پاکستان یا یمن ہوں۔۔۔۔ اپنی خود مختاری کی حفاظت کے لیے زیادہ باخبر اور منظم ہو رہے ہیں۔ یہ لڑائی محض بندوقوں کی نہیں؛ یہ سیاست، بیداری اور عوامی ارادے کی جنگ ہے۔ جو قومیں اپنی داخلی یک جہتی قائم رکھیں گی، وہی آخر میں اپنی مظلوم انسانیت کے لیے پائیدار امن اور استحکام یقینی بنا سکیں گی۔۔۔۔ نہ کہ وہ لوگ جو "امن" کے نام پر تسلط بیچتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • بھارت ابھی تک پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہے، عطا اللہ تارڑ
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • 20 برس کی محنت، مصر میں اربوں ڈالر کی مالیت سے فرعونی تاریخ کا سب سے بڑا میوزیم کھل گیا
  • یوکرین کو کروز میزائل کی فراہمی سے مسائل کے حل میں مدد نہیں ملے گی، روس
  • پینٹاگون نے یوکرین کو ٹوماہاک میزائل فراہم کرنے کی منظوری دے دی
  • جاپان: ریچھوں کے حملے روکنے کے لیے شکاریوں کے فنڈ مختص
  • پینٹاگون نے یوکرین کو ٹوماہاک میزائل فراہمی کی منظوری دے دی
  • پینٹاگون کی یوکرین کو ٹوماہاک میزائل دینے کی منظوری
  • پینٹاگون: یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹاماہاک میزائلوں کی فراہمی منظور
  • پینٹاگون نے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنیوالے ٹوماہاک میزائل فراہم کرنےکی منظوری دیدی