نہری پانی کا مسئلہ، کیا پاکستان پیپلز پارٹی حکومتی حمایت سے دستبردار ہوسکتی ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 5th, April 2025 GMT
پاکستان میں نہری پانی کی تقسیم کے مسئلہ خاصہ گھمبیر ہوتا چلا جا رہا ہے اور سندھ حکومت نہری پانی کی تقسیم کے لئے نئی نہریں نکالے جانے پر شدید معترض ہے لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی کے اندر حکومت کی حمایت سے دستبرداری کی تجویز زیرغور نہیں اور ہم حکومت کا حصہ رہتے ہوئے زیادہ مؤثر انداز میں آواز بُلند کر سکتے ہیں۔ جبکہ پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی سحر کامران کا کہنا تھا کہ پانی کے مسئلے پر ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:سندھ کے پانی کا ایک قطرہ بھی چھیننے نہیں دیں گے، مراد علی شاہ
10 مارچ کو صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میری ذاتی ذمہ داری ہے کہ میں ایوان اور حکومت کو خبردار کروں کہ آپ کی کچھ یکطرفہ پالیسیاں وفاق پر شدید دباؤ کا باعث بن رہی ہیں، خاص طور پر، وفاقی اکائیوں کی شدید مخالفت کے باوجود حکومت کا دریائے سندھ کے نظام سے مزید نہریں نکالنے کا یکطرفہ فیصلہ، میں اس تجویز کی بطور صدر حمایت نہیں کر سکتا، میں اس حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موجودہ تجویز کو ترک کرے، تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملکر کام کرے تاکہ وفاق کی اکائیوں کے درمیان متفقہ اتفاق رائے کی بنیاد پر قابل عمل، پائیدار حل نکالا جا سکے‘۔
بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر زرداری نے 8 جولائی 2024 کو دریائے سندھ سے 6 نئی نہروں کی منظوری دی تھی۔
آج سکھر میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ نئی نہروں کے خلاف کھڑے ہیں اور جس مفروضے کی بنیاد پر یہ نہریں بنانے کی تجویز دی جا رہی ہے اُس کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ اُنہوں نے اِس بات کو بھی مسترد کر دیا کہ صدر زداری نے نئی نہروں کی کوئی منظوری دی ہے۔
یہ پانی کا مسئلہ کیا ہے؟1991 میں چاروں صوبوں میں پانی کا تقسیم کا ایک معاہدہ طے پایا۔ اُس معاہدے کی رو سے دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ کا سالانہ تخمینہ 114.
سندھ کا کہنا ہے کہ پنجاب چشمہ اور تونسہ بیراج کی وجہ سے اپنے حصے سے زیادہ پانی لے جاتا ہے اور خاص طور اُس وقت جب مُلک میں معمول سے کم بارشیں ہوں۔
پیپلز پارٹی حکومت میں رہتے ہوئے مؤثر آواز اُٹھا رہی ہے؛ فرحت اللہ بابرپاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے وی نیوزسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پانی کا یہ مسئلہ انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے اور اُس کو مشترکہ مفادات کونسل میں طے کیا جانا ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ 1991 کے پانی کے معاہدے پر عمل درآمد کیا جائے۔ کیونکہ اگر آپ اُس پر عمل نہیں کرتے اور نئی نہریں نکالتے ہیں تو اُس سے سندھ بنجر ہو جائے گا، سندھ کو پانی نہیں ملے گا۔
ان کہنا تھا کہ اگر آپ کی دلیل یہ ہے کہ ہم تو پنجاب کے حصے کا پانی استعمال کر رہے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب کا کوئی حصہ پانی سے محروم ہو جائے گا۔ مثلاً پنجاب کا کوئی ایسا علاقہ جو آبپاش ہے اور وہاں زرخیز زرعی زمینیں ہیں تو اُس علاقے کے پانی میں کمی کر کے اگر چولستان کو دیا جاتا ہے تو اِس سے عدم اعتماد کی فضا جنم لے گی کہ اُن علاقوں اور زمینوں کو پانی دیا جا رہا ہے جو فوج کے زیرِانتظام ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کینال تنازع: پیپلز پارٹی نے پیچھے نہ ہٹنے کا فیصلہ کرلیا
اس صورتحال میں کیا پیپلز پارٹی حکومت سے علیحدہ ہونے کے بارے میں سوچ رہی ہے، اس سوال کے جواب میں فرحت اللہ بابر نے کہا کہ بالکل بھی نہیں۔ حکومت میں رہ کر ہماری آواز بہت مضبوط ہے،، اور پانی کے مسئلے پر قانون سازی ہماری شمولیت کے بغیر ہو نہیں سکتی۔ ہم حکومت کے اندر رہتے ہوئے بھرپور آواز اُٹھا رہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میں اب پاکستان پیپلز پارٹی کا سیکرٹری جنرل نہیں ہوں اور نہیں جانتا کہ کیا فیصلہ ہوگا لیکن اتنا کہہ سکتا ہوں کہ حکومت سے علیحدہ ہونے کا آپشن زیرِ غور نہیں۔
پانی کی کمی کا مسئلہ مزید گمبھیر ہو جائے گا، سحر کامرانپاکستان پیپلز پارٹی کی رُکن قومی اسمبلی سحر کامران نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے بہت زیادہ متاثر ہے، ایسے میں اگر آپ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے پانی دیں گے تو اس سے پانی کی کمی کا مسئلہ مزید گمبھیر ہو جائے گا اور آپ کا گرین انیشیئیٹو کہیں گرے انیشیئیٹو نہ بن جائے۔
سحر کامران نے کہا کہ کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے سے ایلیٹ کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ سندھ کی 80 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے اور سندھ پہلے ہی پانی کے مسئلے سے دوچار ہے۔
ایلیٹ کلچر کا فروغاُنہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اِس سلسلے میں ایک خط وفاقی حکومت کو لکھ چُکے ہیں اور ایک سال سے ہم کہہ رہے ہیں کہ مشترکہ مفادات کا اجلاس بُلائیں جو کہ نہیں بُلایا جا رہا۔ پانی صرف سندھ اور بلوچستان کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پنجاب کا مسئلہ بھی ہے اور اگر پنجاب کے کچھ حصوں کا پانی کم کر کے کارپوریٹ فارمنگ کے لیے دیا جائے گا تو یہ ایلیٹ کلچر کا فروغ ہو گا۔
حکومت کسانوں کا استحصال کر رہی ہےسحر کامران نے کہا کہ موجودہ حکومت پہلے ہی کسانوں کا استحصال کر رہی ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ سال حکومت کو گندم درآمد کرنا پڑی جبکہ گزشتہ سال حکومت نے گندم کی خریداری بہت کم کی جس سے کسانوں کو نقصان ہوا۔ اسی طرح سے کپاس کی فصل پر 18 فیصد ٹیکس نافذ کر کے بھی کسانوں کا نقصان کیا گیا۔
ایک سوال کا جواب کہ آیا اس معاملے پر پیپلز پارٹی حکومت سے الگ ہو سکتی ہے، سحر کامران نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے عوام کے حقوق کے لیے جانوں کے نذرانے دیے ہیں، یہ عوامی مسئلہ ہے اور پیپلز پارٹی اِس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آصف زرداری پیپلزپارٹی چولستان دریائے سندھ سحرکامران سکھربیراج صدرمملکت فرحت اللہ بابر وفاقی حکومتذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پیپلزپارٹی چولستان دریائے سندھ سحرکامران سکھربیراج صدرمملکت فرحت اللہ بابر وفاقی حکومت پاکستان پیپلز پارٹی پیپلز پارٹی حکومت کرتے ہوئے کہا کہ فرحت اللہ بابر سحر کامران نے ملین ایکڑ ف ٹ دریائے سندھ ہو جائے گا نے کہا کہ حکومت سے کا مسئلہ پانی کے پانی کا نہیں کر پانی کی دیا جا رہی ہے جا رہا کے لیے ہے اور
پڑھیں:
ایران جوہری پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا، ایرانی وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 22 جولائی 2025ء) ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے امریکی میڈیا ادارے فاکس نیوز کو بتایا کہ تہران اپنے یورینیم افزودگی کے پروگرام سے دستبردار نہیں ہو سکتا جسے گزشتہ ماہ اسرائیل ایران لڑائی کے دوران شدید نقصان پہنچا تھا۔
لڑائی سے قبل تہران اور واشنگٹن نے عمان کی ثالثی میں جوہری مذاکرات کے پانچ دور منعقد کیے لیکن اس بات پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ ایران کو یورینیم افزودہ کرنے کی کس حد تک اجازت دی جائے۔
اسرائیل اور امریکہ کا کہنا ہے کہ ایران افزودگی کے اس سطح تک پہنچنے کے قریب ہے جو اسے فوری طور پر جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت دے گا، جبکہ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا افزودگی کا پروگرام صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔(جاری ہے)
وزیر خارجہ نے پیر کو نشر ہونے والے ایک کلپ میں فاکس نیوز کے شو ''بریٹ بائر کے ساتھ خصوصی رپورٹ‘‘ کو بتایا، ''اسے (جوہری پروگرام کو) روک دیا گیا ہے کیونکہ، ہاں، نقصانات سنگین اور شدید ہیں۔
لیکن ظاہر ہے کہ ہم افزودگی ترک نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہمارے اپنے سائنسدانوں کا کارنامہ ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ قومی فخر کا سوال ہے۔‘‘ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکی اور اسرائیلی حملوں کے بعد ایران میں جوہری تنصیبات کو پہنچنے والا نقصان سنگین تھا اور اس کا مزید جائزہ لیا جا رہا ہے۔
عباس عراقچی نے کہا، ''یہ درست ہے کہ ہماری تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے، شدید نقصان پہنچا ہے، جس کی اب ہماری جوہری توانائی کی تنظیم کی طرف سے جانچ کی جا رہی ہے۔
لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں، انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔‘‘ ’بات چیت کے لئے تیار ہیں‘عراقچی نے انٹرویو کے آغاز میں کہا کہ ایران امریکہ کے ساتھ ''بات چیت کے لیے تیار ہے‘‘، لیکن یہ کہ وہ ''فی الحال‘‘ براہ راست بات چیت نہیں کریں گے۔
عراقچی کا کہنا تھا، ''اگر وہ (امریکہ) حل کے لیے آ رہے ہیں، تو میں ان کے ساتھ مشغول ہونے کے لیے تیار ہوں۔
‘‘وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ''ہم اعتماد سازی کے لیے ہر وہ اقدام کرنے کے لیے تیار ہیں جو یہ ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور ہمیشہ پرامن رہے گا، اور ایران کبھی بھی جوہری ہتھیاروں کی طرف نہیں جائے گا، اور اس کے بدلے میں ہم ان سے پابندیاں اٹھانے کی توقع رکھتے ہیں۔‘‘
’’لہذا، میرا امریکہ کو پیغام ہے کہ آئیے ایران کے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل تلاش کریں۔
‘‘عراقچی نے کہا، ''ہمارے جوہری پروگرام کے لیے بات چیت کے ذریعے حل موجود ہے۔ ہم ماضی میں ایک بار ایسا کر چکے ہیں۔ ہم اسے ایک بار پھر کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
مشرق وسطیٰ میں جوہری طاقتامریکہ کے اتحادی اسرائیل نے 13 جون کو ایران پر حملہ کیا جس کے بعد مشرق وسطیٰ کے حریف 12 دن تک فضائی حملوں میں مصروف رہے، جس میں واشنگٹن نے ایران کی جوہری تنصیبات پر بمباری بھی کی۔
جون کے آخر میں فائر بندی ہوئی تھی۔ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کا فریق ہے جبکہ اسرائیل نہیں۔ اقوام متحدہ کے جوہری نگراں ادارے کا کہنا ہے کہ اس کے پاس ایران میں ایک فعال، مربوط ہتھیاروں کے پروگرام کے بارے میں ''کوئی قابل اعتماد اشارہ‘‘ نہیں ہے۔ تہران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف اور صرف پرامن شہری مقاصد کے لیے ہے۔
اسرائیل مشرق وسطیٰ کا واحد ملک ہے جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف اس کی جنگ کا مقصد تہران کو اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے روکنا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین