WE News:
2025-09-18@13:42:13 GMT

پاک افغان تعلقات میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

پاک افغان تعلقات میں کیا رکاوٹیں حائل ہیں؟

10 فروری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ دہشتگرد تنظیم دولتِ اسلامیہ یا داعش کو عراق اور شام میں تو دبا دیا گیا لیکن اُس کی شاخیں افغانستان اور افریقہ کے اندر کُھل چُکی ہیں اور ہمیں افغانستان کے جانب سے دہشتگردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ غور و فکر کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل گزشتہ برس 24 جون کو سلامتی کونسل سے خطاب کرتے ہوئے منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان سے ہونے والی دہشتگردی کے خلاف فیصلہ کُن اقدام کی ضرورت ہے۔

اِس سال کے آغاز میں 4 جنوری کو پہلا دہشتگردی کا واقعہ تربت میں پیش آیا جس میں ایک سپاہی شہید اور 35 زخمی ہو گئے۔ اِس کے بعد 9 جنوری کو لکی مروت میں دہشتگردوں نے 16 کان کنوں کو اغواء کر لیا، 16 جنوری کو کُرم ایجنسی میں انسانی امداد لے جانے والے قافلے پر حملہ کیا گیا، ایسی درجنوں وارداتوں کے بعد 11 مارچ کو بی ایل اے بلوچستان نے ٹرین ہائی جیک کی جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 21 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔

اُس کے بعد 15 مارچ کو بلوچستان کے مختلف علاقوں میں 10 سے زائد دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔ اس سال دہشتگردی کی اِس بڑھتی ہوئی لہر نے ملک بھر کے سنجیدہ حلقوں کو گہری تشویش میں مُبتلا کر دیا ہے۔ سال کے ابتدائی 3 مہینوں میں درجنوں دہشتگرد حملے اور سینکڑوں شہادتیں کسی بھی ملک کے لیے لمحہ فکریہ ہیں۔

ریاستِ پاکستان کافی عرصے سے اِس مؤقف کو دہراتی آئی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کا تعلق افغانستان سے ہے جہاں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی پاکستان میں دہشتگردی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان اکثر و بیشتر اپنے اِس مؤقف کو بین الاقوامی فورمز پر پیش کرتا ہے، ثبوت بھی پیش کیے جاتے ہیں لیکن خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔

افغانستان اِس وقت درجنوں دہشتگردی تنظیموں کا بیس کیمپ بنا ہوا ہے وہ ٹی ٹی پی ہو، حافظ گُل بہادر گروپ، داعش، بی ایل اے اور کئی دیگر گروپس افغان سرزمین سے آپریٹ کرتے ہیں۔ 11 مارچ ٹرین ہائی جیکنگ واقعے میں ملوث کردار بھی افغانستان میں موجود اپنے ہینڈلرز سے رابطے میں تھے۔ تاہم افغان عبوری حکومت نے پاکستان کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔

پاکستانی دفترِ خارجہ کا تسلسل کے ساتھ یہ مؤقف رہا ہے کہ افغان عبوری حکومت دوحہ معاہدے کے تحت خود پر عائد ہونے والی ذمے داریوں کو پورا نہیں کر رہی۔ دفترِخارجہ کا مسلسل مؤقف ہے کہ ٹی ٹی پی یا دوسری دہشتگردی تنظیموں کو افغان سرزمین کے استعمال سے روکنا افغان طالبان کا فرض ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان نے مُلک میں موجود افغان شہریوں کو 31 مارچ تک مُلک چھوڑنے کی ڈیڈلائن بھی دے رکھی ہے۔

سوال یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کی خرابی کے اصل محرکات کیا ہیں۔ پاکستان افغانستان کے ساتھ معاملات طے کیوں نہیں کر پا رہا۔ خیبرپُختونخوا کی حکومت افغان طالبان سے بات کرنا چاہتے ہیں لیکن قانونی طور پر یہ اختیار وفاق کا ہے۔گزشتہ سال جنوری میں جمیعت علمائے اِسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے افغانستان کا خیر سگالی دورہ کیا۔

پاکستان کی جانب بڑھتی ہوئی بے چینی اور دہشتگردی کو ختم کرنے کی خواہش کے باوجود یہ ختم کیوں نہیں ہو رہی اور پاک افغان تعلقات میں ایسی کون سی رکاوٹیں ہیں جو اِس مسئلے کی راہ میں حائل ہیں، اِس کے لیے ہم نے ماہرین سے بات کی ہے۔

حل یہ ہے کہ وفاق خیبرپُختونخوا اور بلوچستان کو بھی اپنا سمجھے، فخر کاکاخیل

معروف صحافی اور دہشتگردی سے جُڑے معاملات پر ماہر مبصر فخر کاکاخیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاملات ہمیشہ اِسلام آباد اور کابل کے درمیان ہوتے ہیں اور وہیں اِن معاملات کو سیاسی رنگ دے کر خراب کر دیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان معاملات مقامی نوعیت کے ہوتے ہیں لیکن اُن کو علاقائی رنگ دے دیا جاتا ہے۔

اصل ایشو یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں نہ کوئی صنعت ہے نہ روزگار۔ یہاں کے لوگوں کا سارا انحصار تجارت پر ہوتا ہے، جب طورخم اور چمن کو بند کیا جاتا ہے تو اُس سے لوگوں کے اندر نفرت جنم لیتی ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تلخیاں سیاسی نوعیت کی ہوتی ہیں جن کو بڑھا دیا جاتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اِن لوگوں کو معاملات کی سمجھ نہیں ہے۔

بنیادی طور پر معاملات تب خراب ہونا شروع ہوئے جب پاکستان کے وزیرِداخلہ نصیر اللہ بابر نے طالبان کے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے بچے ہیں اور پھر جنرل فیض حمید 15 اگست کو کابل میں پائے گئے اور اُنہوں نے کہا کہ’سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ‘۔

دنیا جس گند سے خود کو دور کرتی ہے ہم اُسے اپنانے پہنچ جاتے ہیں۔ ہم نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ طالبان وہ حکومت ہے جو خاتون کو زمین میں گاڑ کے اُس پر پتھر برساتی ہے۔ یہ لوگ بڑے بڑے میدانوں میں مجمع لگا کر لوگوں کے سروں میں گولیاں مارتے ہیں، اِنہوں نے میڈیا، میوزک اور ثقافت کا بیڑہ غرق کر دیا۔ یہ خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں۔

ہم نے اپنے رویے سے پوری افغان قوم کو اپنا دشمن بنا لیا۔ اب ہم طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن لے جبکہ افغانستان کی موجودہ نسل ہمیں اپنا دشمن سمجھتی ہے۔

فخر کاکاخیل نے کہا کہ موجودہ امن کی خرابی میں علاقائی طاقتوں کا بھی حصہ ہے۔ اِن سارے مسائل کا حل کیا ہے، اس سوال کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ حل یہ ہے کہ وفاق پنجاب کو پاکستان سمجھنا بند کرے اور پورے پاکستان کو اُون کرے۔ ہمارے وزیرِاعظم صاحب ابھی تک پشاور نہیں گئے، حادثے کے بعد تین، چار گھنٹوں کے لیے کوئٹہ چلے گئے تھے۔ ہماری ریاستی رٹ کا حال یہ ہے کہ ابھی تک کُرم کے راستے کلیئر نہیں کرائے جا سکے۔ بلوچستان اور فاٹا عملاً فوج کے ہی کنٹرول میں ہے۔

فخر کاکاخیل نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی اِس بات سے اتفاق کیا کہ بنیادی مسئلہ گورننس کا ہے اور گورننس کے اندر جو گیپس ہوتے ہیں وہ آرمی کو پُر کرنا پڑتے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کی تعداد کے بارے میں جو اعداد و شمار بتائے جاتے ہیں وہ بھی میرے خیال سے درست نہیں۔ 40 ہزار کی تعداد تو عمران خان نے بتائی تھی۔ جس بڑی تعداد میں حملے ہو رہے ہیں اُن سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دہشتگردوں کی تعداد کتنی ہے۔

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو خود چل کر پشاور اور کوئٹہ جانا چاہیے۔ اُنہیں پنجاب کے گرد گھومتی پالیسیوں کو بدلنا ہوگا اور خیبرپُختونخوا اور بلوچستان کو اون کرنا پڑے گا۔

پاکستان کا افغانستان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ٹی ٹی پی ہے، بریگیڈیئر اسحٰق خٹک

افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر بریگیڈیئر اسحٰق خٹک نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر حالیہ تناظر میں بات کی جائے تو پاکستان کا اس وقت افغانستان کے ساتھ سب سے بڑا  مسئلہ تحریک طالبان پاکستان ہے۔ پاکستان خصوصاً خیبرپختونخوا میں دہشتگردی کا بڑا سبب تحریک طالبان پاکستان ہے اور پاکستان اِس کی کاروائیوں کے لیے افغان طالبان حکومت کو موردِالزام ٹھہراتا ہے۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پناہ دیتے ہیں، اُن کی حمایت کرتے ہیں اور اُن کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرتے۔

موجودہ دور میں پاک افغان تعلقات کے راستے میں اِس سے بڑی کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آج اگر افغان طالبان ٹی ٹی پی کو محدود کرتے ہیں یا اُن پہ روک لگاتے ہیں تو پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔

دونوں مُلکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کی دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں کے درمیان اعتماد کا شدید فقدان ہے۔ دونوں ممالک کے مذاکرات اِس عدم اعتماد کی وجہ سے اکثر ناکام ہو جاتے ہیں۔

تجارت ایک ایسی چیز ہے جو مُلکوں اور خاص طور پر عوام کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سب سے اہم چیز افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ افغانستان کے ساتھ ہمارے 4 بارڈرز اکثر بند ہو جاتے ہیں۔ اور ابھی آج ہی طورخم بارڈر کھلا ہے۔ اِس کے علاوہ تجارت کے معاملے میں افغانیوں کا یہ شکوہ رہتا ہے کہ اُن کا جو مال کراچی بندرگاہ پہنچتا ہے اُس کی کلیئرنس میں تاخیر کی جاتی ہے، رشوت مانگی جاتی ہے اور طورخم اور چمن میں بھی یہی حالات ہیں۔

برگیڈئیر اسحٰق کے مطابق اِن تجارتی مشکلات کی وجہ سے افغان عوام پاکستان کے خلاف ہو جاتے ہیں اور پھر اس وجہ سے بھی جب بارڈرز بند ہوتے ہیں تو افغان عوام کی مشکلات شدید تر ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ پاکستان سے علاج معالجہ کرواتے ہیں، اُن کے بچے یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور وہ روزگار کے لیے بھی پاکستان کا رُخ کرتے ہیں۔ جب پاکستان آنے میں اُنہیں مشکلات درپیش ہوتی ہیں تو وہاں کے عوام پاکستان مخالف ہو جاتے ہیں۔

تیسرا مسئلہ جو آج کل درپیش ہے وہ افغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیاروں کا ہے جو دہشتگردی میں استعمال ہو رہے ہیں اور پاکستان میں اسمگل بھی ہو رہے ہیں۔ لیکن ان ہتھیاروں کی اسمگلنگ میں پاکستان اور افغانستان دونوں مُلکوں کی حکومتیں ملوّث ہیں۔

برگیڈئیر اسحٰق خٹک نے کہا کہ یہ تینوں عوامل خیبرپختونخوا میں دہشتگردی سے متعلق ہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کیا بی ایل اے وہاں سے آپریٹ کرتی ہے تو بی ایل اے کا ہیڈکوارٹر کبھی قندھار میں تھا، اب نہیں ہے۔ یہ گزشتہ افغان حکومت کے دور میں تھا جب افغان حکومت اور بھارتی حکومت وہاں اُنہیں سپورٹ کرتی تھی۔ لیکن افغان صوبوں نمروز اور ہلمند میں نسلی بلوچوں کی ایک بڑی آبادی اب بھی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل حل نہیں ہو سکتے، سابق سفارتکار وحید احمد

سابق سفارتکار وحید احمد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکتا کیوںکہ اِس کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک وجہ تو یہ ہے کہ افغانیوں کا اپنے بارے میں تاثر بہت زیادہ مبالغہ آرائی پر مبنی ہے اور دنیا کے دیگر ممالک بھی وہاں امن نہیں آنے دینا چاہتے۔

اُنہوں نے سوال اُٹھایا کہ ذرا سوچیں کہ اگر پاکستان اور افغانستان کے مابین تعلقات اچھے ہو جاتے ہیں تو کیا ایران اس پیش رفت سے خوش ہوگا یا کیا بھارت اِس پیش رفت سے خوش ہوگا؟ پھر اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اِس سے چین کا اثر بڑھے گا جو کہ امریکا کو پسند نہیں۔ اگر افغانستان میں امن ہوتا ہے تو اُس سے ٹرانزٹ ٹریڈ بڑھے گی، جو کہ روس اور وسط ایشیائی ممالک کو جوڑ کے رکھ دے گی اور سب سے اہم بات کہ افغانستان میں چین کا اثر بڑھے گا جو امریکا کو بالکل بھی پسند نہیں۔ اس لیے افغانستان میں کبھی امن نہیں ہونے دیا جائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے افغانستان کے ساتھ ا نہوں نے کہا کہ افغانستان میں میں دہشتگردی افغان طالبان کہ افغانستان ہو جاتے ہیں پاکستان کے کہ پاکستان پاکستان کا کرتے ہوئے کے درمیان پاکستان ا بی ایل اے کہ افغان ہوتے ہیں کرتے ہیں ٹی ٹی پی یہ ہے کہ نہیں ہو رہے ہیں جاتا ہے ہیں اور نہیں کر کے خلاف ہے کہ ا لیکن ا ہیں تو کے لیے کے بعد ہے اور ا نہیں کر دیا

پڑھیں:

طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ روزا اوتنبائیوا نے سلامتی کونسل کو ملکی حالات سے آگاہ کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ افغان عوام کی خواہشات کے مطابق ان کے ملک اور عالمی برادری کے مابین تعاون کی راہ نکال لی جائے گی جس سے وہاں خواتین اور لڑکیوں کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔

افغان دارالحکومت کابل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سلامتی کونسل میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تین سال قبل جب وہ افغانستان پہنچیں تو وہاں عبوری حکام میں دو طرح کے رجحانات پائے جاتے تھے۔

ایک حلقہ افغان عوام کی ضروریات کو ترجیح دینے کا حامی تھا تو دوسرا خالص اسلامی نظام کے قیام پر زور دیتا تھا جس نے عوام پر بہت سے پابندیاں نافذ کی ہیں۔

(جاری ہے)

Tweet URL

طالبان حکام کی جانب سے لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی نے ایک پوری نسل کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس سے ملک کو طویل المدتی طور پر بہت بھاری نقصان ہو سکتا ہے جبکہ ان پابندیوں سے افغان معاشرے میں شدید بے چینی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔

'یو این ویمن' کے مطابق افغان عوام کی اکثریت لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کی مخالف ہے جبکہ عالمی بینک نے کہا ہے کہ اس پابندی کی وجہ سے افغان معیشت کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

مثبت اشاریے

انہوں نے اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد قدرے مثبت پیش رفت کی نشاندہی بھی کی جس میں مسلح تنازع اور وسیع پیمانے پر تشدد میں نمایاں کمی بھی شامل ہے جس کے نتیجے میں ملک کے بیشتر حصوں میں سلامتی کی صورتحال قدرے مستحکم ہو گئی ہے۔

2023 کے اوائل میں پوست کی کاشت پر عائد کی جانے والی پابندی بڑی حد تک برقرار ہے جس کے فوائد نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے اور دنیا کو بھی حاصل ہو رہے ہیں۔

عام معافی کے حکم پر مجموعی عملدرآمد حوصلہ افزا ہے۔ ملک میں اقوام متحدہ کے معاون مشن (یوناما) اور عبوری حکام کے درمیان تعمیری روابط بھی موجود ہیں جن کے نتیجے میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ٹیموں کو ملک کی تمام 34 جیلوں تک رسائی حاصل ہوئی ہے۔

بحرانوں کا طوفان

اوتونبائیووا نے کہا کہ مردوخواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں پر عائد کی جانے والی بڑھتی ہوئی پابندیوں اور ان پر عملدرآمد سے عوام میں عبوری حکام کے خلاف بے اطمینانی بڑھ رہی ہے۔

ملک کو رواں سال انسانی امداد میں تقریباً 50 فیصد کٹوتی کا سامنا ہے اور اگلے سال اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ یہ کٹوتیاں جزوی طور پر افغانستان کی خواتین مخالف پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔

ملکی معیشت اب بھی مشکلات کا شکار ہے اور خاص طور پر ہمسایہ ممالک سے بڑی تعداد میں مہاجرین کی واپسی کے نتیجے میں اس پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ملک کو خشک سالی اور دیگر موسمیاتی حوادث کا سامنا بھی ہے جس سے مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ آئندہ برسوں میں 60 لاکھ آبادی پر مشتمل دارالحکومت کابل دنیا کا ایسا پہلا بڑا شہر بن سکتا ہے جہاں پانی ختم ہو جائے گا۔

مسائل کے حل کی امید

رواں ماہ کے اختتام پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونے والی روزا اوتنبائیوا نے کہا کہ کابل اور دیگر علاقوں میں اقوام متحدہ کے دفاتر میں خواتین ملازمین کی رسائی کو روکنے جیسے اقدامات سے اقوام متحدہ کی امدادی کوششیں متاثر ہو رہی ہیں۔ سلامتی کونسل طالبان حکام سے خواتین کے روزگار پر پابندی کے خاتمے کی اپیل کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کا جامع نقطۂ نظر واحد کثیرالجہتی فریم ورک مہیا کرتا ہے جو عالمی برادری اور عبوری حکام کے درمیان رابطے کا ذریعہ اور ایک ایسا سیاسی راستہ ہے جس کے ذریعے ان پیچیدہ مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے جو افغانستان کی عالمی نظام میں دوبارہ شمولیت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے جنم لینے والی دہشتگردی پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے سب سے سنگین خطرہ ہے: عاصم افتخار احمد
  • ایشیا کپ: بنگال ٹائیگرز آگے جائیں گے یا افغانستان، فیصلہ سری لنکا افغان میچ پر منحصر
  • طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے ، عاصم افتخار
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • چھوٹی، بڑی عینک اور پاکستان بطور ریجنل پاور
  • افغانستان کے لوگوں کو نکالنے سے دہشتگردی ختم نہیں ہوگی، عمران خان