عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خود مختاری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خود مختاری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی، سپریم کورٹ WhatsAppFacebookTwitter 0 6 April, 2025 سب نیوز
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے شادی شدہ بیٹیوں کو مرحوم والد کے کوٹے پر ملازمت نہ دینا غیر قانونی اور امتیازی قرار دیتے ہوئے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے 9 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا۔
عدالتی فیصلے کے مطابق سیکشن آفیسر کی جانب سے ایک وضاحتی خط کے ذریعے رولز کو تبدیل کرنا غیر قانونی ہے، ایسی ایگزیکٹو ہدایات قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتیں۔ شادی کی بنیاد پر بیٹیوں کو مرحوم ملازم کے کوٹے سے خارج کرنا امتیازی سلوک ہے، ایسا عمل آئین کے آرٹیکل 25، 27 اور 14 کی خلاف ورزی ہے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ شادی سے عورت کی قانونی حیثیت، اس کی ذات اور خود مختاری ختم نہیں ہو جاتی، عورت کے یہ حقوق شادی پر منحصر نہیں ہو سکتے۔ عورت کی مالی خود مختاری ایک بنیادی حق ہے۔ آئین ازدواجی اکائیوں یا سماجی کرداروں کی بنیاد کے بجائے ہر شہریوں کو انفرادی حقوق دیتا ہے جبکہ اسلام میں بھی عورت کو اپنی جائیداد، آمدنی اور مالی معاملات پر مکمل اختیار حاصل ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان نے خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن کی توثیق کی ہے، اس کنونشن کے تحت شادی کی بنیاد پر ملازمت میں امتیازی سلوک ممنوع ہے۔ نسوانی قانونی نظریے کے تحت عورت کی معاشی اور قانونی خود مختاری کو تسلیم کرنا چاہیے جبکہ ایسی روایات کو ختم کرنا چاہیے جو شادی کی بنیاد پر عورتوں کو عوامی حقوق سے محروم کرتی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ عدالتوں اور انتظامی اداروں کو اپنے فیصلوں میں صنفی حساس اور غیر جانبدار زبان استعمال کرنی چاہیے۔ شادی شدہ بیٹی شوہر پر بوجھ بن جاتی ہے جیسے الفاظ غیر مناسب ہیں، ایسے الفاظ پدر شاہی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور آئینی اقدار کے منافی ہیں۔
سپریم کورٹ کے جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد و دیگر بنام محمد جلال کیس کے فیصلے کا اطلاق موجودہ کیس پر نہیں ہوتا۔ سپریم کورٹ نے مرحوم یا طبعی بنیادوں پر نوکری سے ریٹائر ہونے پر بچوں کو ملازمت دینے کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ان تقرریوں پر نہیں ہوتا جو پہلے ہی کی جا چکی ہیں۔ یہ اصول طے شدہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے عمومی طور پر آئندہ کے لیے لاگو ہوتے ہیں۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عورت کو نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور متعلقہ محکمہ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ درخواست گزار کی تقرری کو تمام سابقہ مراعات کے ساتھ بحال کیا جائے۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: خود مختاری سپریم کورٹ کی بنیاد کے فیصلے عورت کی
پڑھیں:
پارا چنار حملہ کیس، راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، دشمن پہچانیں: سپریم کورٹ
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ ) سپریم کورٹ کی جسٹس مسرت ہلالی نے پارا چنار حملہ کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، اپنا دشمن پہچانیں۔پارا چنار قافلے پر حملے کے دوران گرفتار ملزم کی درخواست ضمانت پر سماعت سپریم کورٹ میں جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس صلاح الدین پنہور پر مشتمل 2 رکنی بنچ نے سماعت کی۔دورانِ سماعت سی ٹی ڈی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ واقعے میں 37 افراد جاں بحق ، 88 افراد زخمی ہوئے ہیں، جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اس واقعہ میں ایک ہی بندے کی شناخت ہوئی ہے کیا ؟ جو حملہ کرنے پہاڑوں سے آئے تھے، ان میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا؟وکیل نے جواب دیا کہ ان میں سے 9 لوگوں کی ضمانت سپریم کورٹ نے خارج کی ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ اب کیا صورت حال ہے، راستے کھل گئے ہیں ؟ ، جس پر وکیل نے بتایا کہ صبح 9 بجے سے دن 2 بجے تک راستے کھلے رہتے ہیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے سی ٹی ڈی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ جہاں پارا چنار حملہ ہوا وہ راستہ دوسرے ملک سے آتا ہے، آپ اپنا دشمن پہچانیں، صورتحال کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کریں۔بعد ازاں عدالت نے ملزم کو وکیل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔