امریکی پالیسیاں، امریکی نقاد نوم چومسکی کی نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
(گزشتہ سے پیوستہ)
ایل سلواڈور کی فوج کو دی جانے والی تربیت کے نتائج عیسائی پادریوں کے ایک جریدے ’’امریکہ‘‘ میں ڈینپل سینتیاگو نے وضاحت سے بیان کیے ہیں۔انہوں نے کیتھولک پادری کی حیثیت سے ایل سلواڈور میں کام کیا تھا۔ وہ ایک کسان عورت کا ذکر کرتے ہیں جو ایک دن گھر واپس آئی تو دیکھا کہ اس کے تین بچے، اس کی ماں اور بہن میز کے اردگرد بیٹھے ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کی گردن میز پر احتیاط سے رکھی تھی اور ہاتھ سر پر اس طرح دھرے ہوئے تھے گویا یہ لاشیں سر سہلا رہی ہیں۔
سلواڈور نیشنل گارڈ کے قاتل اٹھارہ ماہ کے ایک بچے کا سر مناسب جگہ پر نہیں رکھ سکے تھے، چنانچہ اس کے ہاتھ کیلیں لگا کر جمائے گئے تھے۔ خون سے بھرا ہوا پلاسٹک کا ایک مرتبان میز کے بیچ میں نمائش کے لیے رکھا ہوا تھا۔
سنتیاگو کے ریونڈ بشپ کے مطابق وحشت کے ایسے مناظر تھے کہ ایل سلواڈور میں لوگ صرف ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعے ہلاک نہیں کیے جاتے تھے۔ ان کی گردنیں کاٹی جاتی ہیں جو بعد ازاں خنجروں یا برچھیوں پر سجائی جاتی ہیں اور کارروائی کا لرزہ خیز منظر پیچھے چھوڑا جاتا ہے۔ ایل سلواڈور کی پولیس لوگوں کے نہ صرف جنسی اعضا کاٹتی ہے بلکہ وہ ان کے حلق میں بھی ٹھونس دیے جاتے ہیں۔ نیشنل گارڈ والے نہ صرف عورتوں سے زنا کرتے ہیں، بلکہ ان کے پیٹ کاٹ کر ان کے چہرے ان ہی کی انتڑیوں وغیرہ سے ڈھانپے جاتے ہیں۔ بچوں کو قتل کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انہیں آہنی تاروں پر گھسیٹا جاتا ہے تاکہ ان کا گوشت ان کی ہڈیوں سے علیحدہ ہو جائے جبکہ والدین کو یہ منظر دیکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
ہند چینی خطے میں جنگوں کا یہی عمومی نمونہ تھا۔ ۱۹۴۸ء میں محکمہ خارجہ نے تسلیم کیا تھا کہ ہوچی منہ کی قیادت میں ویت کانگ کی فرانس مخالف مزاحمت ویت نام کی قومی تحریک تھی، تاہم ویت کانگ نے اقتدار مقامی حکمران طبقے کے حوالے نہیں کیا۔ انہوں نے آزادانہ ترقی کا انتخاب کیا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے مفادات کو نظر انداز کیا۔
تشویش کی بات یہ تھی کہ اگر ویت کانگ کامیاب ہو گئے تو یہ وائرس پورے خطے میں پھیل جائے گا۔ اگر آپ وائرس کا شکار ہوں تو کیا کریں گے؟ پہلے تو اسے تباہ کریں گے، بعد ازاں متاثرہ لوگوں کو بے ضرر بنائیں گے، تاکہ بیماری نہ پھیلے۔ بنیادی طور پر تیسری دنیا میں امریکہ کی یہی حکمت عملی رہی ہے۔ اگر ممکن ہو تو وائرس کی تباہی کا ذمہ مقامی افواج کے حوالہ کیا جاتا ہے۔ اگر وہ یہ نہ کر سکے تو پھر آپ کو اپنی فوج بھیجنی پڑے گی۔ ویت نام ان مقامات میں سے ایک تھا جہاں ہم نے براہ راست مداخلت کی۔
★ جس وقت امریکہ ویت نام میں آزادانہ ترقی کی بیماری کو ختم کر رہا تھا تو دوسری جانب ۱۹۶۵ء میں انڈونیشیا میں سہارتو کے ذریعے فوجی بغاوت، ۱۹۷۲ء میں فلپائن میں مارکوس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ اور جنوبی کوریا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں مارشل لاء کی پشت پناہی کر کے اس بیماری کو پھیلنے سے روکا گیا۔
انڈونیشیا میں سہارتو کی فوجی بغاوت کا مغرب نے خیر مقدم کیا، کیونکہ اس نے عوامی پذیرائی کی حامل سیاسی جماعت کو تباہ کر دیا۔ کچھ ماہ کے دوران سات لاکھ لوگ قتل کیے گئے، جن میں اکثریت بے زمین کسانوں کی تھی۔ نیویارک ٹائمز کے جیمز ایسٹن نے اسے ایشیا میں امید کی کرن قرار دیا اور خوشی کے مارے اپنے قارئین کو اطلاع دی کہ کامیابی میں امریکہ کا ہاتھ ہے۔
★ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے مشرقی تیمور پر انڈونیشیا کے حملہ اور اس کے الحاق کو جائز قرار دیا۔ آسٹریلیا مشرقی تیمور کے تیل کے ذخائر کے استحصال کے لیے یہ کہہ کر انڈونیشیا کا ساتھی بنا کہ ’’دنیا بے رحم جگہ ہے جو طاقت کے ذریعے علاقوں پر قبضے کی مثالوں سے بھری پڑی ہے‘‘۔ لیکن جب عراق نے کویت پر حملہ کیا تو اسی آسٹریلیا کی حکومت نے اعلان کیا کہ بڑے ممالک کو اپنی چھوٹی پڑوسی ریاستوں پر حملے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور ایسے اقدام کی انہیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ گویا زہرخند اور تشکیک کی کوئی بھی حد مغرب کے اخلاق پرستوں کو پریشان نہیں کر سکتی۔
★ امریکہ نے متعلقہ مسائل پر بات کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ وہ سفارتکاری کا مخالف تھا۔ یہ بات کویت پر حملے سے کچھ ماہ قبل واضح ہو چکی تھی جب ہلاکت خیز اسلحہ پر مذاکرات کی عراقی پیش کش امریکہ نے مسترد کر دی تھی۔ ایک اور پیش کش میں عراق نے تمام کیمیاوی اور بایولاجیکل ہتھیار تباہ کرنے کی تجویز پیش کی، بشرطیکہ علاقے کے دیگر ممالک بھی اس پر عمل کریں۔
( جاری ہے )
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
حماس رہنما جنگ بندی پر راضی نہیں، وہ مرنا چاہتے ہیں اور اسکا وقت آگیا؛ ٹرمپ کی دھمکی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ حماس، غزہ میں جنگ بندی نہیں چاہتا اور اب ان کے رہنما شکار کیے جائیں گے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے، حماس دراصل معاہدہ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔
امریکی صدر نے مزید کہا کہ مجھے لگتا ہے وہ (حماس رہنما) مرنا چاہتے ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ حماس کے رہنما اب شکار کیے جائیں گے۔
ادھر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی دھمکی دی ہے کہ غزہ جنگ بندی نہ ہونے کے بعد اسرائیل اب ’’متبادل راستے‘‘ اپنائے گا تاکہ باقی مغویوں کی بازیابی اور غزہ میں حماس کی حکمرانی کا خاتمہ کیا جاسکے۔
خیال رہے کہ امریکا اور اسرائیل یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب ان دونوں نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات سے اپنے نمائندے واپس بلالیے ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سیاسی رہنما باسم نعیم نے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف پر الزام لگایا کہ وہ مذاکرات کی اصل نوعیت کو مسخ کر رہے ہیں۔
حماس رہنما نے الزام عائد کیا کہ غزہ جنگ بندی پر امریکی موقف میں تبدیلی دراصل اسرائیل کی حمایت اور صیہونی ایجنڈا پورا کرنے کے لیے کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ دوحہ میں مجوزہ غزہ جنگ بندی کے تحت 60 روزہ جنگ بندی، امداد کی بحالی اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی مغوی رہائی پر اتفاق کرنا تھا۔
تاہم اسرائیل کے فوجی انخلا اور 60 دن بعد کے مستقبل پر اختلافات ڈیل کی راہ میں رکاوٹ بنے۔