آج کے جدید دور اور نفسانفسی کے اس ماحول میں، بے شمار لوگ علم کی تلاش میں سرگرداں ہیں، لیکن بہت کم ایسے ہیں جو اس علم کو اپنی زندگی میں مؤثر طور پر استعمال کر پاتے ہیں۔ جب یہ علم عملی دانش میں ڈھلتا ہے تو اسے حکمت کہا جاتا ہے، اور یہی حکمت انسان کو کام یابی کی منازل طے کرنے میں معاونت فراہم کرتی ہے۔ جدید تحقیق، بگ ڈیٹا، اور نفسیات نے انسانی ذہنی صلاحیتوں اور مہارتوں کو بڑھانے کے نئے طریقے دریافت کیے ہیں، جن میں ہاورڈ گارڈنر کی multiple intelligences کی تھیوری قابل ذکر ہے۔

گذشتہ چند سالوں میں ہم ایموشنل انٹیلیجنس (جذباتی ذہانت) کے بعد آرٹیفیشل انٹیلیجنس (مصنوعی ذہانت) کے دور میں قدم رکھ چکے ہیں، جہاں انسان نے علم میں اضافہ، فیصلہ سازی کی مہارت، اور مستقبل کی پیش گوئی کے لیے نت نئے طریقے اختیار کر لیے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی، روحانی نفسیات بھی زیربحث ہے، اور ماہرین نفسیات اس کے نئے رجحانات پر تحقیق کر رہے ہیں۔ تاہم، ایک اور اہم موضوع جو تیزی سے مقبول ہو رہا ہے، وہ روحانی ذہانت (Spiritual Intelligence) ہے۔

آج کے مضمون میں، ہم اس پہلو پر گفتگو کریں گے کہ ہم اپنی روحانی ذہانت کو کیسے بروئے کار لا سکتے ہیں تاکہ اپنی ذاتی، ذہنی، پیشہ ورانہ، اور روحانی زندگی میں ترقی کریں اور معاشرے کے کارآمد افراد بن کر دوسروں کی زندگی میں بہتری لاسکیں۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ روحانی ذہانت کسی مذہب یا عقیدے پر مبنی تصور نہیں، بلکہ یہ انسانی شعور اور روحانیت کی دُنیا کا ایک ایسا پہلو ہے جو انسان کو اپنے لاشعور سے جوڑتا ہے اور اسے اپنے وجود سے بالاتر ہو کر کائنات اور خالق کے ساتھ تعلق قائم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

ہم اکثر اپنی زندگی میں روحانی ذہانت کا استعمال کرتے ہیں، جسے بعض اوقات چھٹی حس یا دیگر ناموں سے جانا جاتا ہے۔ یاد رکھیں، ہم سب انسان فانی ہیں اور اس دُنیا میں محض مسافر ہیں۔ اس سفر کے اختتام پر ہمیں اپنے خالق کے پاس لوٹ کر جانا ہے، اور یہی روحانی ذہانت ہمیں اس امتحان کی بہترین تیاری کرواتی ہے۔ جیسا کہ پائیر تیار شارڈن، فرانسیسی فلسفی اور پریسٹ، کہتے ہیں،’’ہم روحانی سفر پر گام زن انسان نہیں ہیں، بلکہ ہم انسانی سفر پر گام زن روحانی ہستیاں ہیں۔‘‘

روحانی ذہانت ہمیں اپنی ذات کے مقصد، دُنیاوی زندگی کے سفر، مشکلات کی وجوہات، اور سب سے بڑھ کر اپنے خالق کے تخلیق کردہ مشن سے آگاہ کرتی ہے۔ یہ ہمیں روزمرہ کی مصروفیات سے بالاتر ہوکر سوچنے، بہتر فیصلے کرنے، اور ایک عظیم تر مقصد کے تحت زندگی گزارنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ہر انسان ایک منفرد ہستی ہے، اور اس کی زندگی کا ایک خاص مقصد ہے، جو دُنیاوی ضروریات سے کہیں زیادہ وسیع اور بلند ترہے۔

روحانی ذہانت کیا ہے؟

روحانی ذہانت (Spiritual Intelligence - SQ) سے مراد وہ صلاحیت ہے جس کے ذریعے انسان روحانی اقدار، اصولوں اور بصیرت کو اپنی زندگی میں سمجھتا اور لاگو کرتا ہے۔ یہ مقصد، خودآگاہی، اور خالقِ کائنات یا گہرے معنی سے جڑنے کی صلاحیت پر مشتمل ہوتی ہے، چاہے وہ خُدا ہو، کائنات ہو یا کوئی اور مابعدالطبیعاتی حقیقت۔ یہ محض مذہبی عقائد سے مختلف ہے؛ بلکہ یہ اندرونی حکمت، اخلاقی فیصلے کرنے کی صلاحیت، اور باہمی ربط کے احساس سے متعلق ہے۔ وہ افراد جن کی روحانی ذہانت زیادہ ہوتی ہے، عموماً درج ذیل خصوصیات رکھتے ہیں۔ خودآگاہی سے آشنا، اپنے اندرونی جذبات، خیالات اور مقصد کو سمجھنے کے قابل ہونا۔

ہم دردی اور شفقت: دوسروں اور دُنیا کے لیے گہری فکر رکھنا۔

دیانت داری اور اصلیت: اعلیٰ اخلاقی اقدار کے مطابق زندگی گزارنا۔

استقامت: مشکلات میں صبر و استحکام کا مظاہرہ کرنا۔

روحانی وسعت: زندگی کو مادی کام یابیوں اور ذاتی مفادات سے بالاتر دیکھنا۔

پیشہ ورانہ اور ذاتی زندگی میں، روحانی ذہانت انسان کو دانائی کے ساتھ قیادت کرنے، تنازعات کو حل کرنے، اور اپنے کام و تعلقات میں گہرے معنی تلاش کرنے میں مدد دیتی ہے۔

زندگی میں درست فیصلے اور دوراندیشی

روحانی ذہانت ہمیں زندگی کے چھوٹے بڑے فیصلوں میں درست انتخاب کرنے، اور ایک وسیع تر نقطۂ نظر کے ساتھ آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ جو لوگ روحانی ذہانت کے اصولوں کو اپناتے ہیں، وہ محض دُنیاوی تعلیم اور تجربات پر انحصار نہیں کرتے، بلکہ وہ اپنی فطری صلاحیتوں، اندرونی بصیرت، اور رُوح کی گہرائی میں چھپے اسرار کو سمجھ کر فیصلہ سازی کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنی زندگی میں بہتر فیصلے کرنے اور مستقبل کے امکانات کو بہتر طریقے سے سمجھنا چاہتے ہیں، تو اپنی روحانی ذہانت کو فروغ دیں۔

زندگی کی مشکلات میں ثابت قدمی

زندگی میں ہر شخص کو مشکلات اور کٹھن فیصلوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور بعض اوقات ذہنی دباؤ ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو متاثر کردیتا ہے۔ اعلیٰ ذہانت رکھنے والے اور قابل ترین لوگ بھی بعض مواقع پر حالات کے دھوکے میں آ جاتے ہیں، لیکن روحانی ذہانت کے حامل افراد اپنے روحانی شعور اور حکمت کے ذریعے زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ ثابت قدمی کے ساتھ کرتے ہیں۔

روحانی ذہانت اور انسان دوستی

روحانی ذہانت کے حامل افراد محض خانقاہوں اور درباروں تک محدود نہیں ہوتے، بلکہ وہ لیبارٹریوں، سائنسی اداروں، اور ڈیجیٹل دُنیا میں بھی سرگرم ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ظاہری وضع قطع یا مخصوص طورطریقوں کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک طرزِعمل ہے جو انسان کو دوسروں کے لیے بہتر اور معاون بناتا ہے۔ امریکا کی نیشنل لائبیری آف میڈیسن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ نرسوں میں روحانی ذہانت کی اعلیٰ سطح ان کی نفسیاتی تن درستی کو بہتر بنانے اور زندگی میں ایک مقصد رکھنے میں ان کی مدد کرتی ہے، جو ان کی اور ان کے مریضوں کی صحت کی بہتر فراہمی کا باعث بن سکتی ہے۔

روحانیت: ایک مسلسل سفر

یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ روحانیت کوئی منزل نہیں بلکہ ایک مسلسل سفر ہے۔ کچھ لوگ روحانی ذہانت کو بھی دُنیاوی کام یابیوں کی طرح کسی خاص مقام پر پہنچنے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، جب کہ حقیقت میں یہ ایک مسلسل سیکھنے اور بڑھنے کا عمل ہے۔ روحانی ذہانت کی کام یابی کو روایتی دُنیاوی پیمانوں سے نہیں ناپا جا سکتا، کیوںکہ اس کی گہرائی کو سمجھنے کے لیے ایک مختلف زاویہ اور نظر درکار ہوتا ہے۔ یہ وہ حکمت ہے جو انسانی آنکھ سے نہیں دیکھی جاسکتی لیکن آنے والے وقتوں کو پہلے سے ہی دیکھ لیتی ہے۔

بہتر انسان اور لیڈر بننا

روحانی ذہانت ہمیں ایک بہتر انسان بننے، دوسروں کا احساس کرنے، اور اپنی ذاتی و پیشہ ورانہ زندگی میں مؤثر خدمات انجام دینے کے لیے متحرک کرتی ہے۔ چاہے ہم کارپوریٹ دُنیا میں ہوں، کسی تعلیمی ادارے میں، یا مذہبی قیادت میں، روحانی ذہانت ہمیں ایک بہتر راہ نما بننے، دوسروں کی تربیت کرنے، اور انہیں زندگی کے حقیقی مقصد کی طرف راغب کرنے میں مدد دیتی ہے۔ یہ قدرت کا انعام ہے تاکہ ہم انسانیت کی خدمت کریں۔ روحانی زندگی کا مطلب کسی خاص مرتبے یا عہدے کا حصول نہیں، بلکہ اپنے کردار سے دوسروں کے لیے ایک مثالی نمونہ بننا ہے۔ روحانی ذہانت نہ صرف ہماری اپنی زندگی میں تبدیلی لاتی ہے بلکہ یہ دوسروں کی زندگی میں مثبت اثرات ڈالنے کا ایک ذریعہ بھی بنتی ہے۔

روحانی ذہانت (SI)، جذباتی ذہانت کی طرح، ترقی، بہبود اور اندرونی حکمت کی حمایت کر سکتی ہے۔ SI کو 22 صلاحیتوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنہیں مراقبہ اور غوروفکر کے طریقوں سے تقویت ملتی ہے۔ SI کو متقی مذہبی سے لے کرکٹر ملحدوں تک، سبھی استعمال کر سکتے ہیں۔ روحانی ذہانت ہمیں مادی زندگی سے بالاتر ہو کر سوچنے اور زندگی کے حقیقی مقاصد کو سمجھنے کی تحریک دیتی ہے۔ اگر ہم اپنی روحانی ذہانت کو بیدار کریں، تو نہ صرف ہم اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں ترقی کریں گے، بلکہ ہم دوسروں کی زندگیوں میں بھی مثبت تبدیلی لا سکیں گے۔

روحانیت کا سفر

 روحانیت کوئی مخصوص منزل نہیں ہے، بلکہ مسلسل جاری رہنے والا سفر ہے۔ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ علم، روحانیت اور خلوص کی بنیاد پر قائم ہونے والے رشتے ہمیشہ دیرپا ہوتے ہیں۔ سرمد صہبائی نے کیا خوب لکھا ہے،’’ہر انسان کا روحانی تجربہ اُس کا اپنا ہوتا ہے، روحانیت عالم گیر چیز ہے اس کو پراڈکٹ نہیں بنانا چاہیے۔‘‘ بدقسمتی سے ہم ایک ایسے ننگے اور تاریک معاشرے میں زندہ ہیں جہاں روحانیت اور پاکیزگی عمدہ لباس زیب تن کر کے اس کی شرم کو چپھانے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔یاد رہے کہ قوموں کی تعمیر و ترقی کے فیصلے، حماقت اور طاقت سے نہیں، حکمت اور ہمت سے ہوتے ہیں۔

اس لیے کبھی کبھی زندگی میں ڈٹے رہنا ہی نہیں، پیچھے ہٹ جانا بھی کام یابی ہوتی ہے، یہ موٹیویشن نہیں، حکمت ہوتی ہے۔ علم سنانا چاہتا ہے اور حکمت سننا چاہتی ہے۔ ’’علم ہر روز کچھ نہ کچھ سیکھنے کا نام ہے، جب کہ حکمت ہر روز کچھ نہ کچھ جاننے دینے کا نام ہے۔ (جین کہاوت) علم کا حصول الفاظ کی کثرت دیتا ہے، جب کہ حکمت خاموشی عطا کرتی ہے۔ بس حکمت کو سمجھنے کے لیے حکمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’بہترین لکھیں، انتہائی دل چسپ کتاب جو آپ لکھ سکتے ہیں، حکمت سے بھرپور، ایمان داری اور انسانیت سے سرشار کتاب جو آپ کے اندر ہے۔‘‘ (اینا لیموٹ)

میں اکثر سوچتا ہوں کہ انسان کی زندگی میں کام یابی کا کیا فائدہ اگر وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرے، بہترین ادارے میں کام کرے، شان دار گھر اور خوش حال خاندان کا مالک ہو، اور ایک پُرآسائش زندگی بسر کر رہا ہو، لیکن ان سب کے باوجود اپنے خالق سے تعلق قائم نہ کر سکے اور اپنی رُوح کو محفوظ نہ رکھ سکے؟ کیوںکہ اگر روحانی سکون میسر نہ ہو تو دُنیاوی کام یابیاں محض ایک سراب بن کر رہ جاتی ہیں۔ زندگی کی اصل خوبصورتی صرف مادی ترقی میں نہیں ہے، بلکہ روحانی بیداری اور قلبی اطمینان میں بھی ہے۔

اگر دل بے چین ہو، رُوح بھٹک رہی ہو، اور انسان اپنے خالق کو فراموش کر چکا ہو، تو دُنیا کی کوئی بھی کام یابی اسے مکمل نہیں کر سکتی ہے۔ ایسی صورت حال میں سب کچھ ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں توازن قائم رکھنا چاہیے۔ دُنیاوی ترقی کے ساتھ روحانی ترقی بھی ضروری ہے۔ جب انسان اپنے رب سے جُڑتا ہے، تو اُسے حقیقی خوشی، سکون اور مقصدیت نصیب ہوتی ہے۔ اس تعلق کے بغیر، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی زندگی میں ایک خلا باقی رہ جاتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: روحانی ذہانت ہمیں روحانی ذہانت کو اپنی زندگی میں پیشہ ورانہ اپنے خالق سے بالاتر کو سمجھنے دوسروں کی ذہانت کی زندگی کے انسان کو کی زندگی کام یابی ہوتی ہے دیتی ہے کے ساتھ میں ایک کرتی ہے کے لیے اور ان

پڑھیں:

ڈپریشن یا کچھ اور

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ڈپریشن ایک ایسی بیماری ہے جوکسی کو بھی ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ اگر آپ کا روزمرہ کے کاموں میں دل نہیں لگتا، آپ بہت اداس، مایوس اور بے زار رہتے ہیں یا گھبراہٹ، بے بسی، بے چینی آپ پر سوار ہے تو آپ ڈپریشن کا شکار ہیں۔

ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جس کا تعلق ہمارے مسائل سے لے کر ہماری صحت سے جڑا ہے۔ اس کے مریض معمولی سے مسائل کو بھی بڑے اورخوفناک تصور کرتے ہیں یا انھیں ایسا مایوس ہوتا ہے کہ جیسے ایک عام سا مسئلہ اس قدر عظیم اور مشکل ہے جو ان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور اسی وجہ سے وہ بے چین، مضطرب، مایوس اور بے زار رہتے ہیں۔

ان کے ہاتھ پیر سرد ہو جاتے ہیں، ٹھنڈے پسینے آتے ہیں،گھٹن کا احساس ہوتا ہے، چہرہ اتر جاتا ہے اور یہی کیفیات مختصر اور طویل دورانیے کے بعد حقیقتاً انھیں بڑی بیماریوں میں مبتلا کر دیتی ہیں جیسے دل کے امراض، شوگر، بلڈ پریشر وغیرہ وغیرہ۔ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہت سی ادویات جو بلڈ پریشر اور دیگر بیماریوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔

ڈپریشن میں اضافے کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کی بڑی اور اہم وجہ افسردگی و دکھ کو قرار دیا جاتا ہے، اگرکوئی شخص کسی صدمے میں مبتلا ہو اور اس کا صدمہ جو جذباتی، جنسی یا جسمانی زیادتی کے باعث دماغ پر نقصان دہ اثرات مرتب کرگیا تو یہ صدمہ ’’ ٹراما‘‘ کہلاتا ہے، یہ ٹراما بہت مہلک بھی ثابت ہوتا ہے کہ مریض ایک مدت تک اپنے دکھ غم میں مگن رہتا ہے، وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ہو جاتا ہے اور یہ ڈپریشن اس کی صحت کے لیے مہلک اثرات مرتب کرتا ہے۔

اسی سے جڑے ایسے ٹراما ابھرکر آتے ہیں جو انسان کی زندگی کے ان واقعات سے منسوب ہوتے ہیں جو ان کی زندگی میں اچانک ہوتے ہیں جیسے کسی عزیزکی موت، نوکری کا چلے جانا، انتہائی بے عزتی اورگھر یا اس سے جڑے حالات و واقعات وغیرہ۔ ایسے ڈپریشن انتہائی نوعیت کے بھی ثابت ہو سکتے ہیں جس میں انسان اپنے اضطراب، بے زاری، لاچاری اور کسی ردعمل کو انجام نہ دینے کی صورت میں اپنی جان دے کر اس ردعمل کو شو کرنا چاہتا ہے۔

دراصل وہ اس کے ڈپریشن اور مایوسی کی انتہا ہوتی ہے۔یہ ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر جتنا بھی لکھا اورکہا گیا ہے، سب آگے پیچھے ایک جیسی ہی باتیں، نشانیاں اور علاج سے منسلک ہوتے ہیں لیکن اس سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا کر اپنے مقاصد حاصل کرنے، راستے کا پتھر ہٹانے جیسے کاموں کو انجام دینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہہ کر ’’ جی ڈپریشن کے باعث اپنی جان لے لی‘‘ اور قصہ ختم۔

انسانی زندگی ایسے حالات اور واقعات سے بھری ہوئی ہے جن کو نشیب و فراز کا نام دے کر اسے جھیلنا ہی دراصل اس کی نشانی ہے۔

ورنہ کیا ایسا ہی ہے کہ دنیا میں آئے والدین جن کی زندگی میں کوئی مسئلہ یا ڈپریشن نہیں؟ پالا پوسا اور کامیابی سے تعلیمی اور دیگر مراحل عبورکرتے عملی زندگی میں داخل ہوئے اور کامیابیوں کی سیڑھیاں پھلانگتے گئے۔

کہا جاتا ہے کہ وقت کندن بنا دیتا ہے جب کندن بننا ہی نہیں تو ڈپریشن کیسا اور اگر کندن بننا ہے تو ڈپریشن سے لڑنا تو پڑے گا، ہر کامیاب انسان اپنی زندگی میں ڈپریشن میں ضرورگھرتا ہے چاہے وہ قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی، جسے زندگی کا نشیب بھی کہا جا سکتا ہے۔

پھر بھی اگر یہ مرض انسان کے ہاتھ سے نکلتا خودکشی جیسے اختتام کی جانب بڑھتا دکھائی دے رہا ہو، تو آج کل خودکشی سے متعلق آگاہی اور روک تھام کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں خاص کر زیرو سوسائیڈ الائنس مفت آن لائن تربیت فراہم کرتا ہے۔

یہ ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنے پیاروں کے لیے فکر مند ہیں اور ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔مغربی ممالک میں ہمارے مشرقی اقدار کے برخلاف تنہائی سب سے بڑا عذاب ہے جو بچوں سے لے کر بوڑھوں تک میں ڈپریشن کی آخری حد تک شکار کرتا ہے لیکن اب ہمارے یہاں بھی یہ مرض تنہائی سے بڑھ کر ہجوم میں رہنے والوں کے لیے بھی عجیب پراسرار سے مسائل لے کر ابھر رہا ہے، جسے ’’ ڈپریشن‘‘ ہی کہا جا رہا ہے۔

حال ہی میں اسلام آباد کے ایک انتہائی قابل نوجوان پولیس کے افسر عدیل اکبر کے حادثے نے بھی ڈپریشن کے مسئلے پر سرخ نشان لگایا ہے۔ یہ افسر جو برائٹ اسکالر شپ پر امریکا جانے والا تھا، آخرکس قسم کے ڈپریشن کا شکار تھا، جو اس نے زیرو پوائنٹ پر جا کر اپنی زندگی ختم کر ڈالی؟

دوسروں پر پستول تاننا اور اپنے اوپر حملہ کرنا، بہت اذیت ناک ہے لیکن لمحہ بھر میں زندگی کی آخر وہ کون سی جھنجھٹیں تھیں جن سے چھٹکارے کے لیے عدیل اکبر نے نجات پا لی۔ کیا واقعی ان کی موت سے وہ سارے مسائل، دشواریاں ختم ہوگئیں، جو اس جوان کے زندہ رہنے پر آکاس بیل بن کر اس کے وجود سے چمٹتی کہیں اور کیا رخ کرتیں۔

سول ملازمین کے لیے ان کی ڈیوٹیاں، اختیارات جہاں قابل احترام بظاہر بڑے ٹھسے کے لگتے ہیں، کہیں ایسا تو نہیں کہ بہت سے نرم خو اور رحم دل لوگوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہوں؟ بیوروکریسی ایک خواب ناک سفر ہے پر اس کی راہ میں کیا کچھ ہے، یہ ہم جیسے عام لوگ کیا جانیں، ہمیں تو فیصلے کرنے والے نظر آتے ہیں، کیا ان کے اعصاب بھی ایسے ہی لوہے کی مانند ہوتے ہیں جیسے کہ وہ نظر آنا چاہتے ہیں، پر حقیقت کی دنیا اس سے بہت مختلف ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے لیے نفسیاتی طور پر فٹ رہنا ان کی کونسلنگ کرنا اور دیگر جسے ہم پاگلوں کا ڈاکٹرکہہ کر مزاحا ٹیگ لگا دیتے ہیں، لیکن حقیقت میں انسانی جسم کا سردار اس کا دماغ جسے اعصاب کو کنٹرول کرنے کا عہدہ حاصل ہے، اس کی نگرانی، صحت و نگہداشت کس قدر اہم ہے بہت توجہ دی جاتی ہے۔

اعلیٰ عہدوں پر لوگ دماغی طور پر اس قدر مضبوط بنا دیے جاتے ہیں کہ وہ بڑے حادثات اور مواقعے پر اپنے جذبات کو کنٹرول کرتے کمیونٹی کے لیے فیصلے لیں۔عدیل اکبر سے پہلے بھی سول سروس کے کئی اور افسران بھی اسی طرح ڈپریشن میں اپنی جان گنوا چکے ہیں، زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب کنٹونمنٹ بورڈ کے بلال پاشا بھی اپنے آپ کو گولی مار چکے ہیں، اس سے پہلے لاہور میں ریونیو کے عمران رضا عباسی، ایس پی ابرار حسین کے علاوہ اور بھی افسران اس فہرست میں نظر آ رہے ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنے معزز مقام پر پہنچ کر ایسی بے بسی اور مایوسی بھری موت کوئی اپنے لیے چنتا ہے توکیوں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنیاد پر ہمارے ملک کے قیمتی لوگوں نے اپنے لیے ایسی موت منتخب کی جس کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

ہم فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں، دانت کھول کر، آنکھیں پھاڑکر پرتجسس اور خوفناک اب کیا ہوگا،کوئی غیر ملکی یا غیر مرئی ہاتھ ایک کے بعد ایک کس طرح لوگوں کو اپنی عفریت کا نشانہ بناتا ہے، آخر ایسا کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

آنکھیں اختتام تک حیرت سے کھلی رہتی ہیں،کبھی کبھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کی اس پرجوش اور تلخ فلم میں پبلک کو ایسا ہی دیکھنے کو مل رہا ہے،کیا واقعی۔۔۔۔ یا نہیں؟ سوالات تو سر اٹھاتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • کیا مصنوعی ذہانت کال سینٹرز کا خاتمہ کر دے گی؟
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • انتہا پسند یہودیوں کے ظلم سے جانور بھی غیرمحفوظ
  • کینیڈا اور فلپائن کا دفاعی معاہدہ، چین کو روکنے کی نئی حکمتِ عملی
  • چینی صدر کا مصنوعی ذہانت کی نگرانی کا عالمی ادارہ قائم کرنے پر زور
  • مصنوعی ذہانت
  • تلاش
  • ڈپریشن یا کچھ اور
  • مسرّت کا حصول …مگر کیسے؟
  • بھارت میں کشمیریوں کی نسل کشی انتہا کو پہنچ گئی،کشمیر  کی آزادی وقت کی ضرورت ہے، صدرآصف علی زرداری