سپریم کورٹ آف پاکستان نے 9 مئی مقدمات کی حوالے سے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پرعائد 22 لاکھ روپے جُرمانہ برقرار رکھتے ہوئے انسدادِ دہشتگردی عدالت راولپنڈی سے مقدمات منتقلی کی اپیلیں نمٹا دیں۔

لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 14 جون 2024 کو پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پر نہ صرف 22 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا تھا بلکہ پنجاب حکومت کی جانب سے انسدادِ دہشتگردی عدالت راولپنڈی کے جج ملک اعجاز آصف کے خلاف دائر ریفرنس بھی خارج کر دیا گیا تھا۔

اِس فیصلے کے خلاف پنجاب حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر رکھی تھیں۔ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی کی سربراہی میں سپریم کورٹ بینچ نے سماعت کی۔ وکیل پنجاب حکومت نے عدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ جج کا تبادلہ ہو چُکا ہے لیکن مسئلہ ہائی کورٹ کے ریمارکس اور جُرمانے کا ہے۔

مزید پڑھیں: 22 لاکھ مقدمات زیرالتوا ہونے کی وجہ فضول مقدمے بازی ہے، جسٹس منصور علی شاہ

اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ پراسیکیوٹر جنرل اور اے ٹی سی جج کے کیرئیر پر اثرانداز نہیں ہوگا۔ چیف جسٹس یحیٰی آفریدی نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس نے پورا صوبہ چلانا ہوتا ہے، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے جج کے خلاف ریفرنس پر حکومت کو پیغام دینا تھا، لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو پیغام دے دیا، جس سے عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے بھی اتفاق کیا اور ہم بھی ہائیکورٹ کے اختیار میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، جرمانے ادا کر دیں یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں۔

انسدادِ دہشتگردی عدالت کے جج ملک اعجاز آصف نے 11 فروری 2024 کو بانی پی ٹی آئی عمران خان کی کئی مقدمات میں ضمانتیں منظور کی تھیں۔ جس کے بعد پنجاب محکمہ جیل خانہ جات نے پنجاب پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے جج ملک اعجاز آصف کے خلاف ریفرنس دائر کیا جس میں کہا گیا کہ مذکورہ جج بانی پی ٹی آئی سے خاص ہمدردی رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے عمران خان سے جیل میں ملاقات بھی کی اور پوچھا کہ وہ اُن کے لیے کیا کرسکتے ہیں، جس کا اُنہیں اختیار نہیں تھا۔

لاہور ہائیکورٹ کے اُس وقت کے چیف جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے پنجاب حکومت کا نہ صرف ریفرنس مسترد کر دیا تھا بلکہ پنجاب حکومت کی جانب سے جتنے مقدمات کی جج ملک اعجاز آصف کی عدالت سے منتقلی کی درخواستیں دائر کی گئی تھیں ہر کیس کے لیے 2 لاکھ روپے جرُمانہ عائد کیا گیا تھا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

22 لاکھ 9 مئی انسدادِ دہشتگردی عدالت راولپنڈی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پنجاب حکومت سپریم کورٹ آف پاکستان لاہور ہائیکورٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: 22 لاکھ انسداد دہشتگردی عدالت راولپنڈی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب پنجاب حکومت سپریم کورٹ ا ف پاکستان لاہور ہائیکورٹ جج ملک اعجاز ا صف پراسیکیوٹر جنرل لاہور ہائیکورٹ دہشتگردی عدالت پنجاب حکومت سپریم کورٹ چیف جسٹس کے خلاف

پڑھیں:

ممبئی ٹرین دھماکہ

ڈاکٹر سلیم خان

وزیر اعظم نریندر مودی کے گیارہ سالہ تاریک دور اقتدارکی سنہری لکیر ممبئی ٹرین دھماکے کے گیارہ بے گناہ قیدیوں کے باعزت رہائی ہے۔ مودی کے زمانے کو محض اس لیے نہیں یاد کیا جائے گا کہ بلقیس بانو کے ساتھ ظلم کرنے والوں پر رحم کھاکر رہا کردیا گیابلکہ عدالتِ عظمیٰ کے ذریعہ ان لوگوں کا رسوا ہو کرجیل لوٹنا بھی یادگارہو گا۔ سابق رکن پارلیمان سادھوی پرگیہ ٹھاکر کی خاطر خود وزارتِ داخلہ کے تحت کام کرنے والی این آئی اے کا سخت سے سخت سزا یعنی پھانسی کا مطالبہ مودی یُگ کا وہ معجزہ ہے جس کا تصور محال تھا ۔ اس فیصلے نے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس کو بے چین کردیا ہے ۔ مہاراشٹر کی صوبائی حکومت عدالتِ عالیہ کے خلاف سپریم کورٹ میں جارہی ہے لیکن وہاں فیصلہ جو بھی ہو پرگیہ کے لیے پھانسی مطالبہ اور ٹرین دھماکے میں گرفتار بے گناہ قیدیوں کی رہائی چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ہر مسلمان دہشت گرد نہیں اور نہ تمام ہندو بھی دیش بھگت ہیں۔ ممبئی ٹرین دھماکہ معاملہ میں دیر سے سہی مگر انصاف تو ملا۔
11 جولائی 2006 کو ممبئی کی لوکل گاڑیوں میں ٧سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 180 سے زائد افراد کی موت اور تقریباً 800 لوگ زخمی ہوگئے ۔ وزیر اعظم منموہن سنگھ نے ممبئی آکر سوگواروں کے آنسو پونچھے اور جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا وعدہ کیاتھا۔ آگے چل کر انتظامیہ نے 13 مسلم نوجوانوں پر دھماکہ کرنے کا الزام لگا کر گرفتار کرلیا۔ ان میں سے کمال انصاری تو فیصلے سے قبل دارِ فانی سے کوچ کرگئے ۔ ان کے علاوہ محمد فیصل عطاء الرحمن شیخ’ احتشام قطب الدین صدیقی’ نوید حسین خان ، آصف خان ،تنویر احمد محمد ابراہیم انصاری’ کو سیشن کورٹ نے 2015 میں پھانسی کی سزا سنادی نیز باقی ٧ محمد ماجد محمد شفیع’ شیخ محمد علی عالم شیخ’ محمد ساجد مرغوب انصاری’ مزمل عطاء الرحمن شیخ’ سہیل محمود شیخ ،ضمیر احمد لطیف الرحمن شیخ کوعمرقید کی سزا سنائی گئی نیز وحید شیخ کو بری کردیا گیا۔ مذکورہ بالا فیصلے کو عدالتِ عالیہ میں چیلنج کیا تو اگلے نو سالوں تک سماعت ہی نہیں ہوئی اور بالآخر 19 برس بعد بمبئی ہائی کورٹ نے تمام 12 ملزمین کو بری کردیا کیونکہ استغاثہ کیس کو ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔
جسٹس انیل کلور اور جسٹس شیام چنڈک کی خصوصی بنچ نے بہت تفصیل و انہماک کے ساتھ یہ فیصلہ لکھا جس کا لب لباب یہ ہے کہ استغاثہ یہ تک نہیں ثابت کر سکا کہ آخر کس قسم کے بم استعمال کئے گئے تھے ۔ اس کے ذریعہ جو شواہد پیش کیے گئے ان کی بنیاد پر ملزمین کو خاطی نہیں قراردیاجاسکتا ہے ۔اس کے علاوہ گواہوں کے بیانات اور ملزمین سے مبینہ برآمدگی ہائی کورٹ کو مطمئن نہیں کرسکی استغاثہ یعنی پولیس کی بابت یہ انکشاف کیاگیا کہ وہ اہم گواہوں پر جرح میں ناکام رہا۔ اس نے نہ تو برآمدکردہ اشیاء کی ٹھیک سے مہربندی کی تھی اور نہ ہی انہیں سنبھال کر رکھا تھا۔ ہائی کورٹ نے بعض ملزمین کے اقبالیہ بیانوں کو بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ وہ انہیں اذیت دے کر لئے گئے تھے نیز ناکافی اور جھوٹے تھے ۔ یہ ایک دوسرے کے کاپی پیسٹ بھی پائے گئے ۔ عدالت کے مطابق ملزمین نے ثابت کردیا کہ اقبال ِ جرم کرواتے وقت انہیں اذیت دی گئی تھی۔ یعنی پولیس کے جھوٹ کی ہانڈی بھری عدالت میں پھوٹ گئی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں تکنیکی لاپرواہیوں پر بھی گرفت کی ۔ جج صاحبان نے ملزمین کی شناختی پریڈ کواس بنیاد پر مسترد کردیا کہ پولیس کے جن عہدیداروں نے یہ پریڈ کرائی انہیں اس کا اختیار ہی نہیں تھا۔ عدالت نے شواہد کی گواہی کو اس لیے قبول کرنے سے انکار کردیا کیونکہ عینی شاہدین نے پولیس کے سامنے واقعہ کے 4 ماہ بعد ملزمین کی شناخت تھی اور عدالت میں اس کی نوبت 4 سال بعدآئی۔ عدالت نے اس حقیقت کی جانب بھی انگشت نمائی کی کہ واقعہ کے دن تو گواہوں کے لیے ملزمین کو اچھی طرح دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا اس لیے ان سے درست شناخت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے ؟ تعجب کی بات یہ ہے اتنی بڑی خامیوں کی جانب سیشن کورٹ کی توجہ کیوں نہیں گئی؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور ایسے نازک معاملات میں نچلی عدالتیں گہرائی جانے کے بجائے انتظامیہ کی تائید کردیتی ہیں لیکن خدا کا شکر ہے عدالتِ عالیہ نے اپنی ذمہ داری بخیر و خوبی ادا کی۔ یہی وجہ ہے کہ مہاراشٹر کی مختلف جیلوں قید ملزمین نے ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ عدالت اور وکیلوں کا شکریہ ادا کیا۔
ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے جہاں بے قصور قیدیوں کے اہل خانہ اور سماج کے سارے عدل پسند لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں مسلمانوں سے نفرت کرنے والے زعفرانی تلملا اٹھے ۔ دھماکے سے متاثرین کو چونکہ باور کرادیا گیا تھا کہ یہی ملزمین دھماکے کے مجرم بھی ہیں اس لیے فیصلے سے مایوسی ہوئی ۔ اب وہ سوال کررہے ہیں کہ اگر یہ لوگ بے قصور ہیں آخر اصلی مجرم کون ہے ؟ اتفاق سے شیو سینا
( شندے ) کے ترجمان سنجے نروپم نے بھی ایسے ہی سوالات کیے ۔ انہوں نے فیصلہ پر مایوسی کا اظہار کرنے کے بعد کہا کہ اگر ان ملزمین میں سے کوئی بھی سلسلہ وار ٹرین بم دھماکہ کے لئے ذمہ دار نہیں ہے تو پھر یہ بم دھماکے کس نے کئے ؟کیا ہماری جانچ ایجنسی کے کام میں کوئی کمی رہ گئی ہے ؟ انہوں نے جانچ ایجنسی سے پوچھا کہ کیاجن ملزمین کو انہوں نے پکڑا تھا ان کے خلاف ضروری ثبوت نہیں ملے تھے ؟کیاوہ ثبوت جمع نہیں کر سکے تھے ؟
سنجے نروپم نے امید ظاہر کی ہے کہ حکومت اور جانچ ایجنسی بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف اونچی عدالت جائے گی لیکن سوال یہ ہے کہ ان جعلی شواہد کی بنیاد پر بے قصور لوگوں کو سزا دلوانے کے بجائے کیا اصلی مجرموں کو پہچانا جاسکے گا؟ بی جے پی کے ترجمان کریٹ سومیا صدمہ میں ہیں اور ممبئی کے شہریوں کی خاطر انصاف کی خاطردھماکہ کرنے والے دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکانا چاہتے ہیں مگر اس کے لیے کسی بے قصور کے بجائے قصور وار کی شناخت لازمی ہے ۔ وزیر محصولات چندر کانت باونکلے نے کہا کہ ”اس معاملے میں وزیر اعلیٰ سے بات چیت کے دوران کمیوں کو دور کر کے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پرغور و خوض کیا جائے گا ۔ این سی پی(شردپوار ) کے ریاستی صدر ششی کانت شندے نے اس معاملے میں حکومت اور ایجنسی کو جائزہ لے کر سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کی رائے دی ۔ سماجوادی پارٹی نے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے بری ہونے والے سبھی لوگوں کو معاوضہ دینے کا مطالبہ کردیاکیونکہ جھوٹے الزام میں گرفتار کر کے حکومت نے ان کے 19سال ضائع کردیئے ۔
اس بابت سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے کہا کہ ” ہم بامبے ہائی کورٹ کے فیصلہ کا خیر مقدم کرتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ان نوجوانوں کو انصاف دیا”۔ انہوں نے سوال کیا کہ ” حکومت کیسے کسی بے گناہ کو اس طرح قید میں رکھ کر ان کی عمر کے بیش قیمتی 19 سال ضائع کر دیئے ؟ وہ بولے ” جاپان میں ایک شخص کو با عزت بری کیاگیاتو وہاں کی حکومت نے اس نوجوان کو نہ صر ف معاوضہ دیا بلکہ معافی بھی مانگی۔ دیگر ممالک میں جس طرح ملزمین کوبے قصور ثابت ہونے پر حکومت کی جانب سے معاوضہ دیاجاتا ہے اسی طرح حکومت مہاراشٹر کو بھی ان12 بے گناہوں کو معاوضہ دینا چاہئے ۔” ممبئی کانگریس کی صدر و رکن پارلیمان ورشا گائیکواڑ نے بامبے ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے توازن قائم کرنے کی ناکام کوشش کی۔ موصوفہ نے کہا کہ”ہمیں عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے نیز ممبئی کے دیگر شہریوں کی طرح ہمارا بھی یہی مطالبہ ہے کہ ممبئی ٹرین بم دھماکے کے جو بھی اصل مجرم ہیں انہیں یقینی طور پر سخت سے سخت سزا دی جائے یعنی جعلی مجرمین پر نزلہ نہ اتارا جائے ۔
ورشا گائیکواڑ نے ریاستی حکومت سے درخواست کی کہ وہ مجرمین کے خلاف ضروری ثبوتوں اور دستاویزات کے ساتھ سپریم کورٹ میں اپیل کرے کیونکہ جب بھی اس طرح کا دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے تواس میں بے گناہ شہریوں کی جان جاتی ہے اور سرکاری و نجی املا ک کا بھی نقصان ہوتا۔ یہ بات درست ہے مگرایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ایسے حملوں کی تفتیش میں سرکاری ایجنسیاں اپنی ذمہ داری کما حقہُ ادا نہیں کرتیں ۔ افسران اپنے سیاسی آقاوں کو خوش کرنے کی خاطر بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کرکے اپنی ترقی کرواتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو تو انعام و اکرام سے نوازہ جاتا ہے مگر ونود بھٹ جیسا انصاف پسند افسرجب سرکار کی تائید کرکے جھوٹے الزامات گھڑنے سے انکار کردے تو اس پر اتنا دباو ڈالا جاتا ہے کہ وہ خود کشی پر مجبور ہوجائے لیکن وہ زندہ ضمیر لوگ بے قصور کو پھنسانے کے بجائے اپنی جان گنوانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ فیصلہ اگر کانگریس کے دور اقتدار میں آتا تو اس کو مسلمانوں کی ناز برداری کا نام دیا جاتا مگر یہ تو مودی راج میں آگیا ایسے میں ارشادِ قرآنی کی یاد آتی ہے ” کیا یہ کوئی چال چلنا چاہتے ہیں؟ (اگر یہ بات ہے ) تو کفر کرنے والوں پر ان کی چال الٹی ہی پڑے گی”۔

متعلقہ مضامین

  • ممبئی ٹرین دھماکہ
  • پنجاب حکومت کو گندم کی قیمتیں مقرر کرنے سے متعلق بنائے گئے قانون پر عملدرآمد کا حکم
  • پنجاب حکومت گندم کی قمیتیں مقرر کرنے کے قانون پر عملدرآمد کرے، لاہور ہائیکورٹ
  • سندھ ہائیکورٹ کی نیپرا کو کےالیکٹرک کے مکمل سروے کی ہدایت
  • شہری لاپتا کیس: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • شہری لاپتا کیس: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس مس عالیہ نیلم کا بڑا فیصلہ
  • لاہور ہائیکورٹ نے گرفتار ملزم کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کے خدشے پر دائر درخواست نمٹا دی
  • مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کیخلاف روزانہ درجنوں درخواستیں آرہی ہیں، چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ
  • چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے ایک ہی طرز کے مبینہ پولیس مقابلوں پر سوالات اٹھادیے