پشاور ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 07 اپریل 2025ء ) پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ پارٹی کے قائد عمران خان سے مشاورت ہوچکی ہے اور اب احتجاج پر لائحہ عمل کا اعلان جلد کر دیا جائے گا۔ پارٹی امور پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت ہے اندرونی اختلافات فطری بات ہے، تحریک انصاف کے علاوہ ملک میں کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں جس کے اندر احتساب کمیٹی ہو، عمران خان نے اپنی حکومت میں اپنے وزراء پر احتساب کمیٹی بنائی ہے، انہیں یہ پروا نہیں ہے کہ میڈیا یا مخالفین کیا کہیں گے۔

پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات کہتے ہیں کہ وزیراعلٰی خیبرپختونخواہ اپنے قائد عمران خان سے ملاقات کا استحقاق رکھتے ہیں لیکن انہیں بھی ڈیڑھ ماہ تگ و دو کے بعد ملنے دیا گیا، اس کے علاوہ عدالتی احکامات کے باوجود عمران خان کے وکلاء اور فیملی ممبران کی ملاقات نہیں ہو سکی، اب پی ٹی آئی کی جانب سے گرینڈ الائنس کے ساتھ احتجاج پر لائحہ عمل کا اعلان جلد کر دیا جائے گا اس ضمن میں عمران خان سے مشاورت ہو چکی ہے۔

(جاری ہے)

بجلی قیمتوں سے متعلق وزیراعظم کے اعلان پر انہوں نے کہا کہ فی یونٹ قیمت میں ن لیگی حکومت نے 30 سے 35 روپے اضافہ کیا، دو سال بعد اس میں 7 فیصد کمی کو یہ اپنی معاشی کامیابی بتا رہےہیں، تحریک انصاف کے دور میں بجلی کا فی یونٹ تمام ٹیکس ملا کر بھی 19 سے 20 روپے تھا، اپریل 2022ء میں یہ آئی ایم ایف کی وجہ سے 30 روپے تک گیا لیکن اب یہی یونٹ ٹیکس ملا کر 60 روپے تک عوام کو پڑ رہا ہے، اب شہباز شریف یہ بتا دیں کہ 25 روپے والا یونٹ سستا تھا یا آج جو یہ بڑھکیں مار رہے ہیں کہ 7 روپے کمی کر دی وہ سستا ہے؟۔

ن لیگی شخصیات کے بیانات پر کا پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے جواب دیتے ہوئے شیخ وقاص اکرم نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ سے محروم فارم سینتالیس زدہ ٹولہ گلے پھاڑ پھاڑ کر جھوٹ بولنے اور عوام کو گمراہ کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے، تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ ن لیگ ملک اور اس کی سیاست کیلئے ہمیشہ ایک لعنت اور وبال ثابت ہوئی ہے، جب جب پاکستان میں جمہوریت پر آنچ آئی ہے نون لیگ آمریت کا مرکزی مہرہ بنی ہے اور اس نے قوم کے مفادات کو بیچا ہے، پاکستان کے مستقبل کو بیچ کر ان سیاسی قزاقوں نے اپنی سیاست اور اقتدار کا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی ہے، خود سر سے لے کر پیروں تک دھڑوں اور گروہوں میں بٹی جماعت ملک کی سب سے بڑی نظریاتی اور جمہوری جماعت میں تقسیم کے خواب دیکھ رہی ہے، عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف پوری طرح متحد اور سیاسی قزاقوں سے ملک بچانے کیلئے یکسو ہے۔

ترجمان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں نمائشی کمی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں سے قوم بجلی کی قیمت میں کم و بیش 4 سو فیصد اضافے کا حساب مانگ رہی ہے، عوامی مینڈیٹ اور منشاء کے برعکس قوم پر مسلط کئے جانے والوں کے ہاتھوں تین سال سے جاری معاشی تباہی کا حساب بھی عوام کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے، سیاسی انتشار کو ہوا دیکر ناجائز اور حرام اقتدار کو طول دینے کے منصوبے اب مزید کامیاب نہیں ہوں گے، قوم اپنے مینڈیٹ کی واپسی اور سیاست و حکومت سے نالائق، نکمے اور مجرم عناصر کی بے دخلی کیلئے ایک فیصلہ کن جدوجہد کی جانب بڑھ رہی ہے، عوام ہرگز اپنی آئندہ نسلوں کو چور اچکّوں اور ان کی نئی نسل کے رحم و کرم پر چھوڑنے پر آمادہ نہیں، پاکستان کی بقا و سلامتی جمہوریت کی بحالی، دستور کی حرمت کے تحفظ، قانون کی حکمرانی اور عوام کی حقیقی آزادی میں پوشیدہ ہے جنہیں درباریوں کے شور و غل سے دھندلایا نہیں جا سکتا۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تحریک انصاف کے

پڑھیں:

مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا

تحریک انصاف کو ایک اور سیاسی دھچکا ملا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور ان کی جماعت جے یو آئی (ف) نے فی الحال تحریک انصاف کے ساتھ کسی بھی قسم کا سیاسی اتحاد نہ بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کا گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کا خواب بھی ٹوٹ گیا۔ اگر دیکھا جائے تو مولانا کے انکار نے تحریک انصاف کی سیاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سیاسی وزن میں کمی ہوگی۔ اور ان کی سیاسی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔

تحریک انصاف کے سیاسی نقصان پر بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے اس پہلو پر غور کریں کہ اگر گرینڈا پوزیشن الائنس بن جاتا؟ تحریک انصاف اور جے یو آئی (ف) کا سیاسی اتحاد بن جاتا تو کیا ہوتا؟ یہ پاکستان کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی ہوتی۔ پی ٹی آئی کے سیاسی وزن میں بہت اضافہ ہوتا۔ حکومت کے مقابلہ میں اپوزیشن مضبوط ہوتی۔ میں ابھی احتجاجی سیاست کی بات نہیں کر رہا۔ یہ اتحا د نہ بننے سے تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اپوزیشن تقسیم رہے گی۔

آپ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلا س کی مثال سامنے رکھ لیں۔ مولانا اجلا س میں پہنچ گئے۔ حکومت کے مطابق اپوزیشن کی نمائندگی موجود تھی۔ تحریک انصاف کے بائیکاٹ کا وہ اثر نہیں تھا۔ جو مشترکہ بائیکاٹ کا ہو سکتا تھا۔ اسی طرح 26ویں آئینی ترمیم کی ساکھ بھی تب بہتر ہوئی جب اس کو اپوزیشن نے بھی ووٹ ڈالے۔ چاہے مولانا نے ہی ڈالے۔ اس لیے میری رائے میں مولانا کے اتحاد نہ کرنے کے فیصلے کا تحریک انصاف کی پارلیمانی سیاست کو بھی کافی نقصان ہوگا۔

وہ بھی کمزور ہوگی۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف تو پہلے ہی کئی دن سے اس اتحاد کے نہ بننے کا اعلان کر رہے ہیں۔ وہ بار بار بیان دے رہے تھے کہ اگر مولانا نے اتحاد نہیں کرنا تو نہ کریں، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایسے بیانات بنتے اتحاد کو بھی توڑ دیتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں تحریک انصاف کے اندر ایک دھڑا جہاں یہ اتحاد بنانے کی کوشش کر رہا تھا، وہاں تحریک انصاف کا ہی ایک اور دھڑا روز اس اتحاد کو بننے سے روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اگر اسد قیصر اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے تھے تو گنڈا پور اور عمر ایوب اس کے حق میں نہیں تھے۔

جے یو آئی (ف) کے رہنما کامران مرتضیٰ کا بہت سادہ موقف سامنے آیا ہے۔ان کے مطابق اسد قیصر جو اس اتحاد کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے فوکل پرسن مقرر ہو ئے تھے، وہ لندن چلے گئے اور سیاسی طو رپر بھی خاموش ہو گئے۔ جب اعظم سواتی نے اسٹبلشمنٹ سے بات چیت کے بیانات دیے تو کامران مرتضیٰ نے فوری بیان دیا کہ تحریک انصاف سے یہ بات طے ہوئی ہے کہ دونوں جماعتوں میں سے کوئی اکیلا اسٹبلشمنٹ سے بات نہیں کرے گا۔ جب بھی بات کی جائے مشترکہ بات کی جائے گی، آپ دیکھیں ابھی باقاعدہ اتحاد بنا ہی نہیں ہے اور تحریک انصاف کی طرف سے طے شدہ اصولوں سے انحراف شروع ہو گیا۔

جے یو آئی (ف) کے بیانات کہتے رہے اسد قیصر وضاحت کریں۔ ہم صرف ان کی وضاحت قبول کریں گے۔ کامران مرتضیٰ بیان دیتے رہے کہ وضاحت دیں ۔ لیکن اسد قیصر چپ رہے۔ ہ لندن سے واپس بھی نہیں آئے۔ ان کے علاوہ کسی نے (جے یو آئی ف )سے ملاقات کی کوشش بھی نہیں کی۔ ایسے میں آپ دیکھیں جے یو آئی (ف) کے پاس کیا آپشن رہ جاتے ہیں۔ وہ ایسے میں اتحاد نہ بنانے کا اعلان کرنے کے سوا کیا فیصلہ کر سکتے تھے۔

تحریک انصاف کا وہ دھڑا جو اسٹبلشمنٹ سے مفاہمت چاہتا ہے۔ وہ اس اتحاد کی راہ میں رکاوٹ نظر آرہا تھا۔ وہ دھڑا جو کے پی میں حکومت میں ہے، وہ اس اتحادکے حق میں نظر نہیں آرہا تھا۔ عمر ایوب بھی زیادہ پرجوش نہیں تھے۔ یہ سب سامنے نظر آرہا تھا۔

یہ اتحاد نہ بننے سے تحریک انصاف کا سڑکیں گرم کرنے کا خواب بھی چکنا چورہو گیا ہے۔ تحریک انصاف اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اب اس میں سڑکیں گرم کرنے طاقت نہیں رہی ہے۔ پنجاب میں مزاحمتی طاقت ختم ہو گئی ہے۔

کے پی میں تقسیم بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے اگر مولانا ساتھ مل جاتے اور احتجاجی تحریک شروع کی جاتی تواس میں زیادہ طاقت ہوتی۔ مولانا کا ورکر زیادہ طاقتور ہے۔ مولانا کی احتجاجی سیاست کی طاقت آج بھی تحریک انصاف سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ بھی تو تسلیم کریں کہ مولانا نے اگر اپنا ورکر باہر نکالنا ہے تو تحریک انصاف سے کچھ طے ہونا ہے۔ جے یو آئی کا ورکرکوئی کرائے کا ورکر تو نہیں جو تحریک انصاف کو کرائے پر دے دیا جائے۔

میں سمجھتا ہوں شاید اسٹبلشمنٹ مولانا کو تو اس اتحاد بنانے سے نہیں روک سکتی تھی لیکن اس لیے تحریک انصاف ہی کو استعمال کر کے اس اتحاد کو بننے سے روکا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے اس اتحاد کے خدو خال بھی واضح نہیں کیے تھے۔

تحریک انصاف نے اگر قائد حزب اختلاف کے عہدے اپنے پاس رکھنے تھے تو کم از کم اتحاد کی سربراہی کی پیشکش مولانا کو کی جانی چاہیے تھی۔ کیا تحریک انصاف چاہتی تھی کہ وہ اپوزیشن کو ملنے والے تمام عہدے بھی اپنے پاس رکھے اور مولانا سڑکیں بھی گرم کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف میں لوگوں کو یہ خوف پڑ گیا کہ اگر مولانا آگئے تو ان کا عہدہ چلا جائے گا۔ کے پی خوف میں آگئے کہ مولانا کی جماعت کو اقتدار میں حصہ دینا ہوگا۔ قومی اسمبلی سینیٹ میں تحریک انصاف کی قیادت اپنے خوف میں پڑ گئی۔ اس لیے تحریک انصاف نے یہ اتحاد نہ بننے کی راہ خود ہموار کی۔

ایک اور بات جو جے یو آئی (ف) کے لیے شدید تشویش کی بات تھی کہ بانی تحریک انصاف نے ابھی تک اس اتحاد کو بنانے اور مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ ان کی پالیسی اور سوچ واضح نہیں تھی۔

بانی تحریک انصاف مولانا کے بارے میں خاموش ہیں۔ وہ نہ حق میں بات کر رہے ہیں نہ خلاف بیان کر رہے ہیں۔ جے یو آئی چاہتی تھی کہ کم از کم اس اتحاد کو بنانے کے لیے بانی کا خط ہی آجائے کہ وہ مولانا کو اتحاد بنانے کی دعوت دیں۔ اس بات کی کیا گارنٹی تھی کل بانی تحریک انصاف کہہ دیں کہ میں نے تو اس اتحاد کی منظوری نہیں دی تھی۔ میں نہیں مانتا۔ ایسا کئی مواقع پر ہو بھی چکا ہے۔ لیکن تحریک انصاف بانی تحریک انصاف کا خط لانے میں بھی ناکام رہی۔ اسد قیصر باہر تھے۔ خط آیا نہیں، کوئی ملنے کو تیار نہیں تھا، پھر اتحاد کیسے بنتا۔

متعلقہ مضامین

  • بانی تحریک انصاف کی رہائی کا سب کو انتظار ہے، ڈاکٹر عارف علوی
  • تحریک تحفظ آئین نے ملک بھر میں جلسوں، احتجاج کا اعلان کر دیا
  • نیشنل ایکشن پلان کے اجلاس میں تحریک انصاف کو بھی بلایا جائے: فیصل واوڈا
  • تحریک تحفظ آئین پاکستان کا کراچی میں اے پی سی، حیدرآباد میں جلسے کا اعلان
  • نیشنل ایکشن پلان کا اجلاس فوری طور پر بلایا جائے ، تحریک انصاف شامل ہو: فیصل واوڈا
  • وفاقی حکومت ناکام ہوچکی کے پی میں حکومت کی رٹ ہی نہیں ہے، فضل الرحمان
  • نہریں: پی پی، اپوزیشن کا احتجاج: کثیر پارٹی مشاورت زیر غور، وزیر قانون
  • مولانا نے اتحاد کیوں نہیں بنایا
  • جنید اکبر کا احتجاج کے حوالے سے بیان سامنے آگیا
  • بانی پی ٹی آئی کی شیر افضل مروت کے بیانات پر وقاص اکرم کو سخت جواب دینے کی ہدایت