Express News:
2025-07-26@06:56:44 GMT

سلیم خان نے سلمان سے 6 ماہ تک بات کیوں نہیں کی؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

بالی ووڈ سپر اسٹار سلمان خان کا شمار انڈسٹری کے سب سے مشہور اداکاروں میں ہوتا ہے۔ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں ان کی بہت بڑی فین فالوونگ ہے۔ حال ہی میں ان کے والد سلیم خان نے اعتراف کیا کہ انہوں نے سلمان سے چھ ماہ تک بات نہیں کی تھی۔

بھارتی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق مشہور فلم رائٹر سلیم خان نے یہ بھی اعتراف کیا کہ سلمان خان ان کی واحد ایسی اولاد ہیں جن کو انہوں نے سب سے زیادہ ڈانٹا۔ 

حال ہی میں بھارتی میڈیا سے گفتگو میں سلیم خان نے اپنے بیٹے سلمان خان کے ساتھ اپنے تعلقات کے ایک مشکل دور کے بارے میں بات کی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ ایک وقت تھا جب انہوں نے چھ ماہ تک سلمان سے بات نہیں کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی سپر اسٹار نے کوئی ایسا کام کیا جسے وہ پسند نہیں کرتے یا محسوس کرتے کہ اس نے کچھ غلط کیا ہے تو وہ اس سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

سلیم خان نے بتایا کہ اس دوران سلمان خان خاموشی سے ان سے بچتے تھے، بعض اوقات بغیر بات چیت کے گھر سے باہر نکل جاتے تھے اور آخر کار، وہ واپس آکر اپنی غلطی کا اعتراف کرتے اور معافی مانگتے تھے۔

سلیم خان نے بتایا کہ جب وہ اپنے تمام بچوں کو ڈانٹتے تھے، تو سلمان کو ان کی ڈانٹ اور غصے کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا تھا کیونکہ وہ سب سے بڑا تھا۔ 

اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے سلیم خان نے بتایا کہ وہ کس طرح اپنے والد کے قدموں کی آواز سے ہی ڈر کر سیدھے ہوجایا کرتے تھے۔ تاہم انہوں نے اپنے بچوں کے ساتھ بہت دوستانہ انداز اپنایا اور دوستی بنا کر اپنے اور بچوں کے درمیان جڑیں مضبوط کیں۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سلیم خان نے انہوں نے

پڑھیں:

معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر  انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔

کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟

کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔

کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟

اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟

یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !

بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔

قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔

میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔

تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔

افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔

نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟

یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

راؤ علی

بلوچستان کوئٹہ لڑکیاں

متعلقہ مضامین

  • گورنر پنجاب کی یوسف رضا گیلانی سے ملاقات‘ بری ہونے پر مبارکباد دی 
  • قاسم، سلمان خوشی سے آئیں ،پی ٹی آئی کی تحریک سے کوئی خوف نہیں، عرفان صدیقی
  • غزہ میں قحط کا اعلان کیوں نہیں ہو رہا؟
  • میجر زیاد سلیم اور سپاہی ناظم حسین نے جوانمردی سے بھارتی سپانسرڈدہشتگردوں کا مقابلہ  کیا؛ محسن نقوی
  • پی ٹی آئی نے اپنے گرفتار کارکنان کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا
  • کیا کومل میر نے چہرے پر بوٹاکس کروایا ہے؟ اداکارہ نے بتا دیا
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
  • حکومت اپنے وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہو گا،مولانافضل الرحمان
  • بھارت کو 4 گھنٹے میں ہرا دیا، دہشتگردی کو 40 سال میں شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟ مولانا فضل الرحمن
  • سلمان خان نے بالکونی میں بلٹ پروف شیشہ کیوں لگایا؟