افغانستان میں چھوڑے فوجی سامان کا معاملہ حل کرینگے : پاکستان ، امریکہ کا تفاق
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان میں امریکی چھوڑے گئے فوجی سامان کا معاملہ حل کرنے پر اتفاق ہوا۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پْرعزم ہے۔ مارکو روبیو کے منصب سنبھالنے کے بعد یہ پہلا باقاعدہ رابطہ ہے۔ اسحاق ڈار نے امریکا کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کے معدنیات سمیت ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کیلئے دلچسپی کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان معاشی تعاون مستقبل کے تعلقات کے لیے اہم ہے۔ اس دوران اسحاق ڈار نے 2013ء سے 2018ء کے درمیان دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کا بھی ذکر کیا جس میں پاکستان نے بڑا جانی اور مالی نقصان برداشت کیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے انسداد دہشت گردی کیلئے مستقبل کے تعاون کیلئے امریکا کی جانب سے دلچسپی کا بھی اظہار کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان کی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان میں امریکی فوجی سامان کا معاملہ حل کرنے کی ضرورت پر بھی اتفاق کیا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اور نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے مشترکہ مفادات کیلئے قریبی رابطے میں رہنے پر اتفاق کیا۔ پاکستان اور امریکہ کے وزراء خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ ہوا۔ اعلامیہ کے مطابق ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے امریکی ہم منصب مارکو روبیو سے بات کی۔ دو طرفہ تعلقات، علاقائی سلامتی اور اقتصادی تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ گفتگو میں تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشتگردی میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے مختلف شعبوں میں پاکستان سے تعاون کا اظہار کیا۔ معاشی اور تجارتی تعاون کو مستقبل کے تعلقات کی بنیاد قرار دیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان کی دہشتگردی کیخلاف کامیاب کوششوں کا اعتراف کیا۔ افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی فوجی سازوسامان کے مسئلہ پر بھی گفتگو کی گئی۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان میں اسحاق ڈار نے مارکو روبیو کے درمیان تعاون کی
پڑھیں:
پاکستان کا اعلیٰ سطحی کثیر الجماعتی وفد لندن پہنچ گیا
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں 9 رکنی اعلیٰ سطحی وفد واشنگٹن اور نیویارک کے کامیاب دورے مکمل کرنے کے بعد لندن پہنچ گیا ہے۔
وفد کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ گشیدگی پر پاکستان کا موقف پیش کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔
وفد کے دیگر ارکان میں وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی سینیٹر ڈاکٹر مصدق ملک، چیئر پرسن، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور سابق وزیر برائے اطلاعات و موسمیاتی تبدیلی سینیٹر شیری رحمان، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی چیئر پرسن اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر، سابق وزیر تجارت، دفاع اور خارجہ امور، انجینئر خرم دستگیر خان، سینیٹ میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر و سابق وزیر برائے سمندری امور سید فیصل علی سبزواری اور سینیٹر بشریٰ انجم بٹ شامل ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت اقوام متحدہ کے چارٹر کے برخلاف پاکستان کے 24 کروڑ افراد کے پانی کے حق پر حملہ کر رہا ہے،
وفد میں 2 سابق سیکریٹری خارجہ، سفیر جلیل عباس جیلانی، جو نگراں وزیر خارجہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، اور سفیر تہمینہ جنجوعہ بھی شامل ہیں۔
لندن میں وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرے گا جس میں پاکستان اور جموں و کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپ کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ وفد کے اراکین فارن کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (ایف سی ڈی او) کی لیڈر شپ و سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔
وفد کے ارکان علاقائی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے سرکردہ تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی وسیع پیمانے پر بات کریں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں مگر شرائط پر نہیں، امن کا حصول مذاکرات اور سفارت کاری سے ہی ممکن ہے
اپنے دورے کے دوران وفد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کو اجاگر کرے گا، وفد باور کروائے گا کہ پاکستان امن کا خواہاں ہے، وہ اس بات پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کو تنازعات اور تصادم پر ترجیح دی جانی چاہیے۔
وفد جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دے گا۔
سندھ طاس معاہدے کی معمول کے مطابق کارروائی کو بحال کرنے کی ضرورت بھی وفد کی مہم کا ایک اہم موضوع ہوگا۔