پاکستان میں گھر بیٹھے علاج تک رسائی کیلئے ون پیشنٹ ون آئی ڈی کا نظام متعارف
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال اور وزیر برائے آئی ڈی شزا فاطمہ کے مشترکہ تعاون سے ون پیشنٹ ون آئی ڈی کا نظام متعارف کرایا گیا ہے
وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال اور وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ کے درمیان ملاقات ہوئی جس میں دونوں وزراء نے صحت کے شعبے میں آئی ٹی کے فروغ اور باہمی تعاون پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
مصطفیٰ کمال نے ڈاکٹرز کی خدمات اور ادویات کو عوام کی دہلیز تک لانے کے عزم کا خیال کیا۔ انہوں نے میڈیا نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور صحت کے بنیادی ڈھانچے کی محدود دستیابی کے پیش نظرٹیلی میڈیسن ایک ناگزیر حل ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کسی بھی مریض کا یونیورسل میڈیکل ریکارڈ نہیں ھے۔ جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کرتے ہوے ون پیشنٹ ون آئی ڈی کا نظام متعارف کروا رھے ہیں جس کے تحت ہر مریض کے پاس ایک واحد، منفرد آئی ڈی یعنی ایک ایم آر نمبر ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ علاج کی سہولیات تک عوام کی رسائی کیلیے ٹیلی میڈیسن اہم ذریعہ ھے۔جدید ٹیکنالوجی سے مریض گھر بیٹھے ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ لے سکتے ہیں کیونکہ بنیادی مرکز صحت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ بڑے اسپتالوں کا رخ کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ون پیشنٹ ون آئی ڈی کی بدولت پورے پاکستان میں کسی جگہ کسی بھی وقت مریض کے میڈیکل ریکارڈ کی رسائی ممکن ہوگی۔
دوسری جانب وزیر مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ نے بھی صحت کے شعبے میں آئی ٹی کے استعمال کے فروغ کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان میں ون پیشنٹ ون انہوں نے
پڑھیں:
آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے: عدنان صدیقی
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ ہمارے وقت میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج والدین اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے۔
حال ہی میں اداکار نے ایک پوڈکاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے اپنے بچپن کی یادیں تازہ کیں اور بچوں کی تربیت کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار بھی کیا۔
انٹرویو کے دوران ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے اپنی چند عادتوں کا ذکر کیا جو بچوں کی تربیت کرتے ہوئے انہوں نے اپنے والد سے اپنائیں۔
انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ بچے وقت پر سو جایا کریں، باہر کا کھانا نہ کھائیں یا کم کھائیں۔ ایک وقت تھا میرے والد بھی مجھے ان چیزوں سے روکا کرتے تھے اور اب میں اپنے بچوں کو منع کرتا ہوں تاکہ ان میں نظم و ضبط قائم رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے والد صرف منع نہیں کرتے تھے بلکہ مارتے بھی تھے، ہمارے وقتوں میں والدین بچوں کو مارا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے، آج آپ اپنے بچوں کو مار نہیں سکتے اور مارنا چاہیے بھی نہیں کیونکہ آج کے بچے برداشت نہیں کرسکتے۔
عدنان صدیقی کا کہنا ہے کہ بچوں کو سکھانے کے لیے ایک یا دو تھپڑ تو ٹھیک ہیں لیکن مارنا نہیں چاہیے۔ بچوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ کسی چیز کو لے کر والدین سے جھوٹ کہہ رہے ہیں تو وہ غلط کام کر رہے ہیں، والدین سے چیزوں کو نہ چھپائیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے وقتوں میں بچوں اور والدین کے درمیان فاصلہ ہوا کرتا تھا بات نہیں ہوتی تھی لیکن آج کے بچے والدین سے کھل کر بات کرتے ہیں اور ہم بھی یہ وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ گئے ہیں کہ مارنے کے بجائے بات کرنا زیادہ ضروری ہے۔