کیا آئینی ترمیم کر کے شہریوں کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا؟ جسٹس مسرت ہلالی
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
---فائل فوٹو
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت کی۔
وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل میں کہا کہ آئین کے مطابق کورٹ مارشل کورٹس ہائی کورٹ کے ماتحت نہیں ہوتیں۔
جسٹس محمد علی نے ریمارکس دیے کہ سلمان اکرم راجہ نے بھی فیصلوں کا حوالہ دیا تھا جو ان کی تشریح کے مطابق تھا، ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ ثابت ہونے کی بنیاد الزام کے نوعیت پر ہو گی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب ہمیں بھی خواب میں ایف بی علی کی شکل نظر آتی رہتی ہے، ایف بی علی کیس میں کہا گیا کہ گٹھ جوڑ کی بنیاد دفاع پاکستان سے متعلق ہو گی، کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ صرف آرمڈ فورسز کے ارکان کے لیے ہو گا؟
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ایک سازش جو ابھی ہوئی نہیں، اس پر قانون کا اطلاق کیسے ہوگا؟
وکیل خواجہ حارث نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کا سازش کرنے پر بھی نفاذ ہوتا ہے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا ایک کنفیوژن ہےجس پر ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں، پریس والے نہ جانے میری آبزرویشن کو کیا سے کیا بنا دیں، اپیل کا حق بھی نہیں ہے، کیا عام قانون سازی کر کے شہریوں سے بنیادی حقوق لیے جا سکتے ہیں؟ کیا آئینی ترمیم کر کے شہریوں کا ملٹری ٹرائل نہیں ہونا چاہیے تھا؟ بھارت میں ملٹری ٹرائل کے خلاف آزادانہ فورم موجود ہے۔
جسٹس محمد علی نے کہا ضابطہ فوجداری میں بھی قتل اور اقدام قتل کی الگ الگ شقیں ہیں، ویسے اپیل کی حد تک تو اٹارنی جنرل نے عدالت میں گزارشات پیش کی تھیں، اٹارنی جنرل کی گزارشات عدالتی کارروائی کے حکم ناموں میں موجود ہے۔
جسٹس امین الدین نے کہا وزارت دفاع کے وکیل کے دلائل مکمل کرنے کے بعد اٹارنی جنرل خود پیش ہوں۔
جسٹس محمد علی نے کہا بنیادی حقوق ملنے یا نہ ملنے کامعاملہ یا اپیل کا معاملہ ہمارے سامنے ہے ہی نہیں، میں کسی کو اپیل کا حق نہیں دے رہا، بین الاقوامی طور پر اپیل کا حق دینے کی دلیل دی گئی۔
فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، خواجہ حارث کل بھی جواب الجواب پر دلائل جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ٹرائل کے کے خلاف اپیل کا نے کہا
پڑھیں:
پنجاب اسمبلی کی مقامی حکومتوں سے متعلق آئین میں ترمیم کی قرارداد وفاق کو ارسال
لاہور:پنجاب اسمبلی نے مقامی حکومتوں سے متعلق آئین میں ترمیم کی قرارداد وفاق کو ارسال کردی۔
آئین کے آرٹیکل 140-A میں ترمیم سے متعلق پنجاب اسمبلی کی قرارداد وفاق کو ارسال کر دی گئی ہے۔ کصوبائی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں متفقہ طور پر منظور کی گئی یہ قرارداد سیکریٹری قومی اسمبلی اور سیکریٹری سینیٹ کو بھجوائی گئی ہے۔
قرارداد احمد اقبال اور علی حیدر گیلانی نے مشترکہ طور پر پیش کی تھی، جس میں صوبائی ایوان نے وفاق سے مطالبہ کیا کہ آئین میں مقامی حکومتوں کے نام سے ایک نیا باب شامل کیا جائے تاکہ بلدیاتی اداروں کو آئینی تحفظ حاصل ہو سکے۔
قرارداد کے متن کے مطابق مقامی حکومتوں کی مدت، ذمے داریوں اور اختیارات کی آئینی وضاحت کی جائے، جب کہ بلدیاتی انتخابات 90 روز میں کرانے کی شرط آئین میں شامل کی جائے۔ اس کے علاوہ منتخب نمائندوں کو انتخاب کے بعد 21 دن کے اندر اجلاس منعقد کرنے کا پابند بنانے کی سفارش بھی کی گئی ہے۔
قرارداد میں کہا گیا کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد پنجاب میں منتخب بلدیاتی ادارے صرف 2 سال تک کام کر سکے، جو کہ نظام کے تسلسل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ مؤثر اور بااختیار بلدیاتی نظام کا قیام جمہوری استحکام اور عوامی خدمت کے لیے ناگزیر ہے۔
قرارداد کے مطابق سپریم کورٹ مقامی حکومتوں کو جمہوریت کا بنیادی حصہ قرار دے چکی ہے، جب کہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقامی حکومتوں کو آئینی تحفظ دینے کی مثالیں موجود ہیں۔
ایوان نے اس بات پر زور دیا کہ بروقت بلدیاتی انتخابات اور مؤثر سروس ڈیلیوری کے لیے آئین میں واضح ترامیم کی جائیں۔ قرارداد میں وفاق سے آرٹیکل 140-A میں فوری ترمیم کی درخواست کی گئی ہے۔
قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ لاہور چارٹر (سی پی اے) نے بھی مقامی حکومتوں کو بااختیار بنانا لازم قرار دیا تھا، جب کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے دسمبر 2022 میں بھی آئینی ترمیم کی سفارش کی تھی تاکہ مقامی حکومتوں کا نظام مستحکم اور پائیدار بنایا جا سکے۔