دانیہ شاہ کے بعد طوبیٰانور کی شادی ،بڑی خبرآگئی
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
ممبئی(شوبز ڈیسک)ماڈل و اداکارہ طوبیٰ انور کا کہنا ہے کہ وہ کسی حور جیسے خوبصورت لڑکے سے دوسری شادی کریں گی۔
طوبیٰ انور حال ہی میں ندا یاسر کے شو میں شریک ہوئیں، جہاں ان سے شادی سے متعلق سوال کیا گیا، جس پر اداکارہ نے اپنے ہونے والے شریک حیات سے متعلق کھل کر بات کی۔
انہوں نے کہا کہ عام طور پر لڑکیاں شادی کے لیے لڑکے کی شکل و صورت کو نہیں دیکھتیں، وہ صرف شخصیت پر توجہ دیتی ہیں جب کہ لڑکے خوبصورتی کو ترجیح دیتے ہیں۔
ان کے مطابق انہیں معلوم نہیں کہ لڑکے خوبصورتی اور لڑکیاں شخصیت کو کیوں ترجیح دیتی ہیں، تاہم وہ کسی ایسے شخص کو شریک حیات بنائیں گی، جن سے ان کا ذہن ملتا ہے اور ان سے ان کے دوستانہ تعلقات استوار ہو سکیں۔
طوبیٰ انور نے کہا کہ وہ پڑھے لکھے شخص کو شادی کے لیے ترجیح دیں گی، ان کے لیے امیر یا بہت زیادہ کمانے والا مرد اہمیت نہیں رکھتا، البتہ وہ کوئی نہ کوئی کام کرتا ہو۔
اداکارہ کے مطابق شادی سالوں تک چلنے والا رشتہ ہوتا ہے، اس لیے انسان کو سوچ سمجھ کر ایسے شخص کا انتخاب کرنا چاہیے، جس سے ان کا ذہن ملتا ہے اور ان سے دوستانہ تعلقات ہوں۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ بہت سارے شادی شدہ جوڑوں کا ذہن نہیں ملتا اور ان کے درمیان اچھے تعلقات نہیں ہوتے، جس وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس لیے ہر کسی کو ایسے شخص سے شادی کرنی چاہیے جو ذہنی سکون دے۔
طوبیٰ انور کا کہنا تھا کہ ان کے لیے ظاہری خوبصورتی معنی نہیں رکھتی، بس وہ چاہیں گی کہ ہونے والا شریک حیات خوش شکل ہو۔
میزبان ندا یاسر کے زور ڈالنے پر طوبیٰ انور نے کہا کہ وہ ایسے لڑکے سے شادی کریں گی جو حوروں جیسا خوبصورت ہو، اس پر میزبان نے انہیں ٹوکا کہ ایسی خوبصورتی والا لڑکا تو دوسری قسم کا ہوگا۔
طوبیٰ انور نے کہا کہ انہیں حور جیسے خوبصورت لڑکے کی وضاحت کرنا نہیں آ رہی، جس پر ندا یاسر نے ان سے کہا کہ انہیں خوبرو لڑکا چاہیے، تو اداکارہ نے کہا کہ ہاں انہیں شادی کے لیے خوبرو لڑکا ہی چاہیے۔
خیال رہے کہ طوبیٰ انور نے کم عمری میں سابق ٹی وی میزبان و اسکالر عامر لیاقت سے 2018 کے وسط میں خفیہ شادی کی تھی، جس کا عامر لیاقت نے 2020 میں اعتراف کیا تھا۔
دونوں کے درمیان 2021 کے اختتام تک اختلافات کی خبریں سامنے آئیں اور فروری 2022 میں طوبٰی انور نے عامر لیاقت سے خلع لینے کی تصدیق کی تھی۔
دونوں کی عمر میں 20 سال سے زائد کا فرق تھا، بعد ازاں جون 2022 میں عامر لیاقت انتقال کر گئے تھے۔
View this post on InstagramA post shared by Syeda Tuba Anwar (@syedatuba)
مزیدپڑھیں:آسٹریلوی کھلاڑی ٹریوس ہیڈ کا بھارتی مداحوں کے ساتھ تصویر بنوانے سے انکار، ویڈیو وائرل
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: عامر لیاقت نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
کم عمری میں شادی کے خلاف بل پر اعتراضات کیوں؟
شانزے جو ابھی کالج سے گھر آئی تھی، ماں کے کہنے پر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ سامنے بیٹھے انجان چہروں نے لڑکی پسند آنے کی نوید سنائی تو مارے خوشی کے ماں نے بیٹی کا ماتھا چوم لیا۔ شانزے کی عمر ابھی 17 برس ہے، شادی کے نام پر شانزے کا بچپن ختم کردیا گیا۔
کم عمری کی شادی صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ممالک میں ایسا مسئلہ ہے جو کئی دیگر مسائل کو جنم دیتا ہے۔ یونیسیف کے مطابق 12 ملین لڑکیوں کی شادی 18 برس کی عمر تک پہنچنے سے پہلے کردی جاتی ہے۔ عالمی منظرنامے پر نگاہ دوڑائی جائے تو صرف بھارت ہی ایک تہائی کم عمر شادی شدہ لڑکیوں کا ملک ہے۔
طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی جیسے ظالمانہ اقدامات کے بعد افغانستان میں کم عمری کی شادیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جس کے نتیجے میں 15 سے 19 برس کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوا۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق 2002 میں ہر 3 میں سے ایک لڑکی کی شادی 18 برس سے کم عمر میں ہوئی۔
افریقی ممالک جیسے کہ نائیجیریا، چاڈ اور سینٹرل افریقن ریپبلک میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی کی شرح 60 فیصد سے بھی زیادہ ہے جس کی بڑی وجہ شدید غربت، تعلیم اور خواتین میں خودمختاری کا فقدان ہے۔
2023 کی یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 18 فیصد لڑکیاں 18 برس سے کم عمر میں بیاہ دی جاتی ہیں جبکہ 4 فیصد لڑکیوں کی شادی 15 برس سے کم عمر میں ہوجاتی ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں میں اس شرح میں معمولی کمی دیکھنے میں آئی ہے، البتہ اب بھی یہ مسئلہ لاکھوں بچوں کو متاثر کررہا ہے۔
صحت پر مہلک اثرات
کم عمر کی لڑکیوں کی شادی کی بڑی وجہ غربت ہے۔ ایسی شادیوں کے نتیجے میں لڑکیوں کے ساتھ آنے والی نسلوں کی صحت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ اس عمر میں جلد حاملہ ہونے کی وجہ سے ماں اور بچے دونوں میں غذائی کمی اور امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ پاکستان میں 15 سے 19 سال کی عمر کی لڑکیوں میں زچگی کے دوران پیچیدگیوں اور ماں اور بچے کی اموات کی شرح زیادہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین کے بچوں میں اسہال کی بیماری کا خطرہ 59 فیصد زیادہ ہوتا ہے جو اکثر اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔
تعلیم اور معاشی مواقع کی محرومی
کم عمری کی شادی میں زیادہ تر لڑکیوں پر گھریلو اور ازدواجی ذمے داریوں کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا جاتا ہے، جس سے خواتین مستقبل میں بہتر معاشی مواقع سے محروم رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں 631,000 لڑکیاں کم عمری میں شادی کے باعث تعلیم سے محروم ہوئیں۔ یہ محرومی نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ قومی معیشت پر بھی اثر انداز ہوتی ہے، کیونکہ خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کم ہو جاتی ہے۔
گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل
کم عمری کی شادی کے نتیجے میں لڑکیاں گھریلو تشدد اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوجاتی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، 18 سال سے کم عمر میں شادی کرنے والی خواتین میں گھریلو تشدد کا خطرہ دگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ڈپریشن، اضطراب اور دیگر نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کرتی ہیں۔
کم عمر کی شادیوں کے لڑکوں پر اثرات
اگرچہ کم عمری کی شادیاں زیادہ تر لڑکیوں کو متاثر کرتی ہیں، لیکن لڑکوں پر بھی اس کے اثرات ہوتے ہیں۔ یونیسیف کے ڈیٹا کے مطابق دنیا بھر میں 115 ملین لڑکوں کی 18 سال سے پہلے شادی ہوئی۔ کم عمر لڑکوں کو خاندان کی مالی ذمے داری اٹھانے کا دباؤ پڑتا ہے، جس کے لیے وہ تیار نہیں ہوتے۔ یہ ان کی تعلیم اور ذاتی ترقی کو بھی متاثر کرتا ہے۔ مزید برآں شادی شدہ جوڑا جو ذہنی طور پر خود ناپختہ ہوتا ہے ان پر بچوں کی بھاری ذمے داری بھی پڑجاتی ہے جسے احسن طریقے سے پورا کرنا صرف ایک خواب ہی ہوسکتا ہے۔
قومی اسمبلی میں 18 برس سے کم عمر بچوں کی شادی پر پابندی کا بل منظور ہونا خوش آئند ہے۔ اس بل میں نہ صرف کم عمر بچوں کے نکاح کے اندراج کو قانونی طور پر جرم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ ایسی شادیوں میں والدین اور سرپرستوں کےلیے سزائیں بھی مقرر کی گئی ہیں جن کا مقصد اس مسئلے کو حقیقتاً جڑ سے ختم کرنا ہے جو کہ یقیناً ایک بہترین اقدام ہے۔
لیکن بدقسمتی سے کئی حلقوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس بل پر نہ صرف اعتراض اٹھایا ہے بلکہ بل کے خلاف سڑکوں پر نکلنے کی دھمکی دے کر دباؤ بھی ڈالا جارہا ہے۔ یعنی جن افراد کو قوم کو سمجھانے کا فرض ادا کرنا چاہیے تھا وہ ایسے بچوں کے ساتھ جنسی تعلق جوڑنا اور ازدواجی مسائل کو فروغ دینا جائز سمجھتے ہیں جن کو ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں دیا جاسکتا۔
ان تمام معترضین سے سوال ہے کہ کبھی وہ آبادی کے بڑھنے، بے ہنگم ہجوم سے لے کر خواتین پر تشدد سمیت ایسے کون سے مسائل ہیں جن کے خلاف سڑکوں پر نکلے ہوں؟ کیا ملک بھر میں تمام مسائل حل ہوچکے ہیں جو اب آپ 18 برس سے کم عمر بچوں سے ان کا بچپن اور لڑکپن چھین کر انھیں ازدواجی زندگی کے بوجھ تلے دبانے کے لیے اتنے پرجوش ہیں؟ اور اگر آپ ایسی خواہش رکھتے ہیں تو کیا کم عمری کی شادیوں کے سنگین نتائج کی ذمے داریاں بھی قبول کریں گے؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔