حکومت نے دریائے سندھ پر نئی 6 کنالز کی تعمیر کے اعلان سے صوبے میں بےچینی پیدا کردی، ناصر الدین محمود
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
عوام پاکستان پارٹی (اے پی پی) سندھ کے سیکریٹری اور نیشنل آرگنائزنگ کمیٹی (این او سی) کے رکن ناصر الدین محمود نے کہا ہے کہ حکومت نے دریائے سندھ پر نئی 6 کنالز کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کر کے صوبے میں بےچینی پیدا کردی ہے۔
اپنے بیان میں انکا کہنا تھا کہ حکومت قوم کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے مجرمانہ اقدام کی مرتکب ہو رہی ہے۔ سندھ کے عوام کی مرضی کے بغیر کوئی بھی منصوبہ قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کے مترادف ہوگا۔
ناصر الدین محمود نے کہا ہے کہ حکمران اتحاد میں شامل تمام سیاسی جماعتیں سندھ کے عوام کے سوالات کا واضح اور دوٹوک جواب دینے کے بجائے بےمعنی تاویلیں پیش کر رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عوام پاکستان پارٹی پاکستان کے عوام کی آواز ہے اور وہ ہر صورت سندھ سمیت تمام صوبوں کے مفادات کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی کی بھر پور مخالفت اور مزاحمت کرے گی۔
سیکریٹری اے پی پی سندھ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت اس منصوبے کے تحت غریب کسان کو بےزمین کرکے اُن کی زمینیں کارپوریٹ فارمنگ منصوبے کے تحت بڑے صنعتی و تجارتی اداروں کو دینے کا منصوبہ بنارہی ہے جس کی ہر سطح پر مخالفت کی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں کسانوں میں بھی بےروزگاری اور غربت پھیلے گی، عوام پاکستان پارٹی ایسے ہر اقدام کی بھرپور مخالفت کرے گی۔
ناصر الدین محمود کا کہنا تھا کہ آج جبکہ صوبہ خیبر پختونخواہ اور صوبہ بلوچستان میں پہلے ہی حالات درست نہیں، اُس موقع پر صوبہ سندھ میں ایک متنازع منصوبے پر اتفاقِ رائے پیدا کیے بغیر ہی کام کا آغاز کردینا کسی صورت دانش مندی نہیں ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ نئی 6 کنالز تعمیر کرنے کے منصوبے پر فی الفور کام بند کر کے سندھ کے عوام کے تحفظات دور کیے جائیں۔
ناصر الدین محمود نے کہا کہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کا کام یہ متنازع اور غیر نمائندہ پارلیمنٹ ہرگز نہیں کرسکتی، لہٰذا اس منصوبے کو آئندہ انتخابات تک مؤخر کیا جائے۔ نئے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی پارلیمنٹ ہی قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے کےلیے اپنا قومی کردار ادا کرے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ناصر الدین محمود سندھ کے کے عوام نے کہا
پڑھیں:
دریائے نیلم اور جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، ذرائع
دریائے نیلم اور دریائے جہلم میں پانی معمول کے مطابق چل رہا ہے، دریائے نیلم آزاد کشمیر میں ٹاؤ بٹ پر بھی پانی کا بہاؤ معمول کے مطابق ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ دریائے جہلم پر اڑی ون 480 میگا واٹ پراجیکٹ سے بھی پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے، اڑی ٹو 240 میگا واٹ پروجیکٹ سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق جاری ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان دریاؤں کی تقسیم کا سندھ طاس معاہدہ کیا ہے؟بھارت اور پاکستان کے نمائندوں کے درمیان برسوں کے مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں (Indus Water Treaty ) سندھ طاس معاہدہ 19ستمبر 1960 کو عمل میں آیا تھا۔
پاکستان نے بھارتی پروازوں کیلئے فضائی حدود ایک ماہ کیلئے بند کردیپاکستانی فضائی حدود کی بندش سے بھارتی پروازوں کو 2 گھنٹوں کا اضافی وقت درکار ہوگا، بھارت کیلئے فضائی حدود کی بندش سے پاکستان کو بھی لاکھوں ڈالر یومیہ کا نقصان ہوگا۔
اس وقت بھارت کے وزیر اعظم جواہر لال نہرو اور پاکستان کے سربراہ مملکت جنرل ایوب خان نے کراچی میں اس معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان، مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا، بھارت یکطرفہ معاہدہ معطل یا ختم نہیں کر سکتا، تبدیلی کیلئے رضامندی ضرور ی ،پاکستان ثالثی عدالت جانےکاحق رکھتا ہے۔
قومی سلامتی کمیٹی نے واضح کردیا ہے کہ پاکستان اور اس کی مسلح افواج کسی بھی غلط قدم کے خلاف مکمل طور پر تیار ہے۔
پاکستان سندھ طاس معاہدے کے آرٹیکل 9 کے تحت بھارتی انڈس واٹر کمشنر سے رجوع کرنے پر غور کررہا ہے، معاہدہ معطل کرنے کی وجوہات جاننے کیلئے پاکستانی انڈس واٹر کمشنر کی جانب سے بھارتی ہم منصب کو خط لکھے جانے کا امکان ہے، یہ امید کی گئی تھی کہ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے کاشتکاروں کے لیے خوشحالی لائے گا اور امن، خیر سگالی اور دوستی کا ضامن ہوگا۔
دریاؤں کی تقسیم کا یہ معاہدہ کئی جنگوں، اختلافات اور جھگڑوں کے باوجود 62 برس سے اپنی جگہ قائم ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت مغربی دریاؤں یعنی سندھ، جہلم اور چناب کو پاکستان کے کنٹرول میں دیا گیا۔
بھارت کو ان دریاؤں کے بہتے ہوئے پانی سے بجلی پیدا کرنے کا حق ہے لیکن اسے پانی ذخیرہ کرنے یا اس کے بہاؤ کو کم کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھارت نے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان میں ان کے بہاؤ میں کبھی کوئی مداخلت نہیں کرے گا۔
مشرقی دریاؤں یعنی راوی، بیاس اور ستلج کا کنٹرول بھارت کے ہاتھ میں دیا گیا، بھارت کو ان دریاؤں پر پراجیکٹ وغیرہ بنانے کا حق حاصل ہے جن پر پاکستان اعتراض نہیں کر سکتا۔
دونوں ممالک نے دریاؤں کے حوالے سے اپنے مشترکہ مفادات کو تسلیم کرتے ہوئے ایک مستقل انڈس کمیشن قائم کیا۔ جو بھارت اور پاکستان کے کمشنروں پر مشتمل تھا۔ ہائیڈرولوجیکل اور موسمیاتی مراکز کا ایک مربوط نظام قائم کیا گیا۔