قدرتی آفات ہماری بے بسی اور ناگزیر تیاری
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
چند روز قبل جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میانمار اور تھائی لینڈ شدید زلزلے کی زد میں آئے۔ سب سے زیادہ نقصان تھائی لینڈ میں ہوا جہاں 7.7 شدت کے جھٹکوں نے زمین ہلا کر رکھ دی۔ سوشل میڈیا پرگردش کرتی ایک ویڈیو میں ایک زیر تعمیرکئی منزلہ عمارت کو زمین بوس ہوتے دیکھا۔ ملبے کے گرد اٹھتی گرد افراتفری اور خوفزدہ لوگوں کی چیخیں دل دہلا دینے والی تھیں۔
میانمار میں تقریبا سولہ سو افراد لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں زخمی ہیں اور ابھی تک بہت سے افراد لاپتہ ہیں۔ اس ہی طرح تھائی لینڈ میں ایک کئی منزلہ زیر تعمیر بلڈنگ کے گر جانے سے کئی مزدور دب کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ حادثہ دیکھ کر میرا ذہن یکدم پیچھے پلٹا۔ وہی زخم وہی تکلیف وہی خوف جو ہم نے پاکستان میں ایک بڑے زلزلے کے دوران محسوس کیا تھا۔ اکتوبر 2005 کا زلزلہ جس نے کشمیر، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے کئی علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا، وہ ناقابل فراموش مناظر مسمار عمارتوں کے نیچے دبے لوگوں کی کمزور ہوتی چیخیں ملبے میں دبی ہوئی زندگی کی آخری سانسیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کے بے جان جسموں سے لپٹ کر ماتم کررہی تھیں، وہ باپ جو بے بسی سے کھڑے اپنی دنیا اجڑتے دیکھ رہے تھے، یہ سب یاد آتے ہی دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ کئی دن بعد تک جب امدادی کام جاری تھے تو کہیں کہیں سے زندہ بچ جانے والوں کی نحیف صدائیں سنائی دیتی تھیں، لیکن سب کو بچا لینا ممکن نہ تھا۔ کتنے ہی لوگ صرف اس لیے موت کی آغوش میں چلے گئے کہ بروقت مدد نہ پہنچ سکی۔
یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک قوم کو سنجیدگی سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم مستقبل میں ایسے حادثات کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم نے کوئی ایسی حکمت عملی اپنائی ہے کہ آیندہ زلزلہ سیلاب یا کوئی اور قدرتی آفت ہمیں بے بس نہ کر دے؟ ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو زلزلوں سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی زد میں رہتا ہے۔ 2010 کے تباہ کن سیلاب ہوں یا حالیہ برسوں میں آنے والے غیر متوقع بارشوں کے سلسلے ہر قدرتی آفت ہمیں یہی سبق دے کر جاتی ہیں کہ ہم نے اپنی بنیادی تیاریوں میں سنگین کوتاہی کی ہے۔
ہم ہر سانحے کے بعد ماتم کرتے ہیں، امدادی سرگرمیاں دیکھ کر تسلی پاتے ہیں متاثرین کے لیے چندے اکٹھے کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا، لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں وقتی مدد سے آگے جا کر ایسی پالیسی بنانی چاہیے جس سے جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو؟ ہر قدرتی آفت کے بعد ہمیں نئے سرے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے معاملے میں کتنے پیچھے ہیں، مگر جیسے ہی وقت گزرتا ہے ہم دوبارہ اپنی غفلت میں کھو جاتے ہیں جب تک کہ کوئی نئی آفت ہمیں پھر نہ جھنجھوڑ دے۔
پاکستان میں عمارتوں کی تعمیر میں زلزلہ پروف ڈیزائن کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ زیادہ تر عمارتیں معمولی جھٹکوں میں بھی دراڑیں پکڑ لیتی ہیں جب کہ شدید زلزلے کے سامنے تو وہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ باہر کے ممالک میں وہ سیسمک ایکٹیویٹی مانیٹرٹنگ کے ذریعے چھوٹے جھٹکوں اور زمین کی حرکت کا تجزیہ کر کے کسی بڑے زلزلے کے امکانات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام موجود نہیں۔ اسی طرح سیلاب کی پیشگی وارننگ کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں۔ 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا مگر ہم نے اس سے کچھ سیکھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھتے ہیں تو وہاں قدرتی آفات کے خلاف ایک باقاعدہ نظام موجود ہوتا ہے۔ جاپان جو دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز خطوں میں شامل ہے وہاں بلند و بالا عمارتیں زلزلہ پروف ہوتی ہیں۔ زمین لرزتی ہے لیکن عمارتیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔ اسکولوں اور دفاتر میں باقاعدہ مشقیں کرائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ زلزلے یا کسی اور آفت کی صورت میں انھیں کیا کرنا ہے۔ وہاں کے لوگ گھروں میں ابتدائی طبی امداد کا سامان اور ہنگامی خوراک رکھتے ہیں تاکہ کسی ناگہانی صورتحال میں فوری طور پر حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
مگر ہمارے یہاں کیا صورتحال ہے؟ یہاں آفات کے بعد اگر حکومتی ادارے حرکت میں آتے بھی ہیں تو وہ بدانتظامی کا شکار رہتے ہیں۔ زلزلے کے بعد متاثرین کے لیے بنائی گئی آبادیاں چند سال بعد خالی پڑی نظر آتی ہیں کیونکہ ان میں بنیادی سہولتیں نہیں ہوتیں۔ سیلاب کے دوران کروڑوں روپے کی امداد جمع ہوتی ہے مگر پھر بھی کئی متاثرہ خاندان سالوں تک حکومتی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں قدرتی آفات کو صرف وقتی بحران سمجھا جاتا ہے ایک مستقل چیلنج نہیں۔ ہم ہمیشہ وقتی ردعمل دیتے ہیں کوئی طویل مدتی پالیسی ترتیب دینے کا تصور تک نہیں کرتے۔
یہاں سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ کہ ہمیں ایک مضبوط اور منظم ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی کسی ایک حکومت یا ایک تنظیم کا کام نہیں بلکہ اسے قومی سطح پر تمام اداروں اور ماہرین کی مشاورت سے ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنی عمارتوں کے ڈھانچوں پر نظرثانی کرنی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نئی تعمیرات زلزلہ پروف ہوں۔ اسکولوں دفاتر اور عوامی مقامات پر ہنگامی مشقیں کرانی ہوں گی، تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوکہ کسی بھی قدرتی آفت کے دوران انھیں کیا کرنا ہے۔ ہمیں ایسا نظام ترتیب دینا ہوگا جو سیلاب یا زلزلے کی پیشگی اطلاع دے سکے تاکہ لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکیں۔
اس کے علاوہ ہمیں ایک منظم رضاکارانہ نظام بھی تشکیل دینا چاہیے جہاں لوگوں کو ہنگامی امداد کی بنیادی تربیت دی جائے۔ ہمیں نوجوانوں کو سکھانا چاہیے کہ اگر وہ کسی زلزلے یا سیلاب کے بعد کسی زخمی کو دیکھیں تو اسے ابتدائی طبی امداد کیسے فراہم کریں۔ اسپتالوں میں ایسے یونٹس قائم ہونے چاہئیں جو قدرتی آفات کے دوران فوری مدد فراہم کر سکیں۔
ہمارے ملک میں بے شمار مسائل ہیں اور ہم اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ وسائل سے زیادہ مسئلہ ترجیح کا ہے۔ ہم غیر ضروری منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر سکتے ہیں مگر جب بات عوام کے تحفظ کی ہو تو ہمیں ہمیشہ وسائل کی کمی کا بہانہ یاد آتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قدرتی آفات ہماری حقیقت ہیں، انھیں روکا نہیں جا سکتا مگر ان کے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
زلزلے سیلاب اور دیگر آفات ہمیں ہر بار جھنجھوڑتے ہیں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم نے کیا سیکھا، مگرکیا ہم واقعی کچھ سیکھتے ہیں؟ یا ہم ہر حادثے کے بعد وہی پرانی غلطیاں دہراتے ہیں وہی پرانا نوحہ پڑھتے ہیں اور پھر سب بھول کر اپنے روزمرہ مسائل میں کھو جاتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں خود دینا ہوگا ورنہ مستقبل میں آنے والے حادثے بھی ہمیں بے بسی کی اسی کیفیت میں ڈال دیں گے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قدرتی ا فات قدرتی ا فت ہیں کہ ہم کے دوران کرتے ہیں زلزلے کے ہوتا ہے میں ایک کے بعد
پڑھیں:
سیلاب کی روک تھام، حکمت عملی کیا ہے؟
ملک کے مختلف علاقوں میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 250 افراد سے زائد ہوچکی ہے۔ تاحال کئی مقامی سیاح لاپتہ ہیں، مری، گلیات،کشمیر اورگلگت بلتستان میں لینڈ سلائیڈنگ اور ندی نالوں میں طغیانی کا خطرہ ہے۔ ساڑھے چار لاکھ کیوسک کا بڑا سیلابی ریلا تونسہ سے گزر رہا ہے، انتظامیہ نے آبادی کو محفوظ مقام پر منتقل ہونے کے اعلانات کروائے ہیں۔
وطن عزیز ان دنوں ایک ایسی آزمائش سے گزر رہا ہے جو صرف فطری آفات کی نہیں، بلکہ ہماری اجتماعی بے حسی کی بھی غماز ہے۔ شدید بارشوں کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور اس کے نتیجے میں جو تباہی ہمارے دیہی و شہری علاقوں میں برپا ہوئی ہے، وہ کسی بھی ذی شعور دل کو دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ انسانی جانوں کا ضیاع، مال و متاع کی بربادی، کھڑی فصلوں کی تباہی، مکانات کا گرنا اور مواصلاتی نظام کی درہم برہم صورتِ حالیہ سب کچھ ہمیں صرف قدرت کے قہر کا نہیں، بلکہ اپنی کوتاہیوں کا بھی آئینہ دکھاتا ہے۔
بارشوں کے تسلسل سے دریاؤں کا جوبن خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔ خاص طور پر دریائے سندھ، جو ماضی میں بارہا اپنی بے قابو موجوں سے سندھ کو اجاڑ چکا ہے، ایک بار پھر غضبناک صورت اختیار کرسکتا ہے، سیلاب محض پانی کی زیادتی نہیں، بلکہ یہ معیشت کی بربادی، غربت کی شدت، اور انسانی المیے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ کسان جو پہلے ہی مہنگائی، پانی کی قلت اور زرعی مداخل کی قیمتوں سے نڈھال ہیں، وہ اب کھیت کھلیان پانی میں ڈوبتے دیکھ رہے ہیں۔
شہروں میں چھتیں گر رہی ہیں، سڑکیں نالوں میں بدل گئی ہیں اور کاروبار زندگی مفلوج ہو چکا ہے۔ موسم کی یہ سختی محض فطرت کا فیصلہ نہیں، بلکہ اس میں انسان کے خود ساختہ اعمال کا بھی عمل دخل ہے۔ قدرتی نظام میں خلل ڈال کر ہم نے خود اپنے لیے مصیبتوں کا بازار گرم کیا ہے۔ اربنائزیشن کی دوڑ میں دریاؤں کے قدرتی راستے بند کردیے گئے، جنگلات کاٹ دیے گئے، پہاڑ کھود دیے گئے اور آبی ذخائر کو نظر انداز کیا گیا، نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔
دریاؤں کی سطح بلند ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر دریائے سندھ، جو پاکستان کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے، اب غضبناک موجوں کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ ماضی گواہ ہے کہ جب سندھ پر سیلاب کا قہر ٹوٹتا ہے تو اس کی تباہ کاری صرف مقامی نہیں رہتی، بلکہ اس کے اثرات پورے ملک کی معیشت، فوڈ سیکیورٹی اور سیاسی ماحول تک پھیل جاتے ہیں۔
یہ المیہ صرف سندھ کا نہیں، بلکہ پنجاب، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور گلگت بلتستان تک پھیلا ہوا ہے۔ جہاں بارشیں کہیں زمین کی زرخیزی بن کر برستی ہیں، وہیں جب ان کی شدت حد سے تجاوز کرتی ہے، تو زمین بھی انسان کی طرح بغاوت پر اُتر آتی ہے۔ مٹی کٹنے لگتی ہے، پہاڑ کھسکنے لگتے ہیں، درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں اور بستیاں ملیامیٹ ہو جاتی ہیں۔
ندی نالوں اور برساتی راستوں کی مستقل صفائی اور نگرانی کے نظام کو مضبوط بنایا جائے۔ شہروں کے اندر نکاسی آب کے نظام کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے، خاص طور پر کراچی، لاہور، ملتان، اور پشاور جیسے بڑے شہروں میں چند گھنٹوں کی بارش پورے شہر کو پانی میں ڈوبا ہوا دکھاتی ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ حادثہ نہیں، بلکہ ناقص منصوبہ بندی، کرپشن، اور غفلت کی داستان ہے، جس کا انجام عوام بھگت رہے ہیں۔
معاشی لحاظ سے بھی سیلاب ایک بھیانک خواب ہے۔ ایک طرف زرعی زمینیں پانی میں ڈوبتی ہیں، تو دوسری جانب کسان اپنے قرضوں میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ کھاد، بیج، مشینری اور زرعی ادویات کی پہلے ہی آسمان کو چھوتی قیمتیں، جب فصل کے تباہ ہو جانے کے بعد بھی معاف نہ کی جائیں، تو کسان کو اس ملک میں جینے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا۔ ہمیں ایک ایسا زرعی و مالیاتی نظام تشکیل دینا ہوگا جو قدرتی آفات کے متاثرین کو فوری سہارا دے، تاکہ وہ دوبارہ زندگی کی دوڑ میں شامل ہو سکیں۔
2010 اور 2022 میں آنے والے تباہ کن سیلابوں نے سندھ کو جس معاشی، زرعی، اور سماجی تباہی سے دوچار کیا تھا، اس کی یادیں آج بھی تازہ ہیں۔ 2022کے سیلاب میں صرف سندھ میں 800 سے زائد اموات ہوئیں اور 12.3 ملین افراد متاثر ہوئے تھے۔ اُس وقت صوبے کے 23 میں سے 21 اضلاع آفت زدہ قرار دیے گئے تھے، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں، اور ہزاروں اسکول، اسپتال، سڑکیں اور پل مکمل یا جزوی طور پر برباد ہو چکے تھے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے ان سانحات سے کچھ سیکھا؟ کیا 2022 کے بعد کوئی جامع منصوبہ بندی کی گئی؟ کیا برساتی نالوں کی صفائی مستقل بنیادوں پر ہوئی؟ کیا سندھ میں موجود قدرتی آبی گزرگاہوں پر تجاوزات ہٹائی گئیں؟ کیا جدید سیلاب پیشگی انتباہی نظام (Early Warning Systems) کو موثر بنایا گیا؟ سچ تو یہ ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب ’’نہیں‘‘ میں ہے۔
پہلا اور سب سے اہم قدم یہ ہونا چاہیے کہ سندھ کے تمام اضلاع میں ماحولیاتی نقشہ سازی (Environmental Zoning) کی جائے تاکہ یہ طے ہو سکے کہ کون سے علاقے سیلاب کے لیے حساس ہیں۔ ان علاقوں میں مستقل بنیادوں پر آبادی کو روکنا یا مخصوص تعمیراتی ضوابط نافذ کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ نالوں، برساتی راستوں اور دریائی حفاظتی بندوں کی سالانہ صفائی اور مرمت کا عمل صرف کاغذی کارروائی نہ ہو بلکہ شفافیت سے مکمل کیا جائے۔ سندھ کے کئی اضلاع میں برساتی پانی کے لیے مخصوص راستے تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے بند ہو چکے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ریور ری کلیمیشن (River Reclamation) پروجیکٹس کی فوری ضرورت ہے۔ تیسرا قدم ڈرینج ماسٹر پلان کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد ہے، خاص طور پر کراچی، حیدرآباد اور سکھر جیسے شہروں میں، جہاں شہری سیلاب (Urban Flooding) ایک مستقل خطرہ بن چکا ہے، اگر حکومت صرف ان تین شہروں کے نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کر دے، تو آدھے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔
چوتھا اہم اقدام یہ ہے کہ سندھ میں چھوٹے ڈیمز اور رین واٹر ہارویسٹنگ سسٹمز کو فروغ دیا جائے۔ تھرپارکر، عمرکوٹ، جامشورو اور دادو جیسے اضلاع میں اگر بارش کا پانی محفوظ کر لیا جائے تو نہ صرف سیلاب کے خطرات میں کمی آئے گی، بلکہ پینے کے پانی اور زراعت کے لیے بھی انقلابی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ سندھ کے تعلیمی اداروں، مساجد، اور کمیونٹی سینٹرز کو سیلاب آگاہی مراکز کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ عوام کو تربیت دی جائے کہ بارشوں کے دوران کن احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے، کہاں پناہ لینا ہے، اور کس نمبر پر مدد کے لیے رابطہ کرنا ہے۔ یہ شعور وقتی نہیں بلکہ مسلسل مہم کے تحت اجاگر کیا جانا چاہیے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ حکومت اپنے ترقیاتی بجٹ میں سیلاب سے بچاؤ اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف اقدامات کو پہلی ترجیح دے۔ 2024-25 کے صوبائی بجٹ میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے مختص رقم کل بجٹ کا صرف 1.4 فیصد تھی، جو ایک مذاق سے کم نہیں۔ اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تناسب 5 سے 7 فیصد تک بڑھانا ہوگا۔
بین الاقوامی سطح پر بھی سندھ کو مدد حاصل کرنے کے لیے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور کلائمیٹ رسک انشورنس اداروں کے ساتھ فوری اشتراک کی ضرورت ہے۔ 2022 میں UNDP اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی مدد سے سندھ میں کچھ منصوبے شروع کیے گئے تھے، مگر وہ ناکافی تھے اور ان کا دائرہ بہت محدود تھا۔ صرف حکومت نہیں، بلکہ عوام، میڈیا، تعلیمی ادارے، اور کاروباری برادری سب کو مل کر اس ماحولیاتی چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ وقت الزامات کا نہیں، اقدامات کا ہے۔ ہمیں اب ماضی کی غفلتوں کو دفن کر کے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی، ورنہ ہر سال بارشیں آئیں گی، اور ہم ان کے ساتھ بہتے چلے جائیں گے۔
سیلاب کی روک تھام کے لیے ہمیں ایک کثیرالجہتی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ہمیں پانی کے قدرتی بہاؤ کو بحال کرنے کے لیے ڈیمز اور واٹر ریگولیشن سسٹمز کی فوری تعمیر کرنا ہوگی۔ کالا باغ ڈیم جیسے متنازع منصوبوں پر صرف سیاست کرنے کے بجائے، ہمیں قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا۔ بڑے اور چھوٹے ڈیمز نہ صرف پانی ذخیرہ کرنے میں مدد دیں گے بلکہ وہ زمینوں کی سیرابی، بجلی کی پیداوار، اور سیلاب کے خطرات میں بھی نمایاں کمی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اب وقت ہے کہ حکومت تمام سطحوں پر سیلاب سے بچاؤ کو اپنی اولین ترجیح بنائے۔ یہ کام محض ایک وزارت یا ادارے کے بس کی بات نہیں، بلکہ ایک قومی ایمرجنسی کی مانند تمام محکموں، شعبوں اور اسٹیک ہولڈرز کو یکجا ہو کر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ وفاقی، صوبائی اور بلدیاتی سطح پر مربوط اور ہم آہنگ حکمت عملی ہی سیلاب جیسے عفریت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔