Express News:
2025-09-18@13:20:31 GMT

قدرتی آفات ہماری بے بسی اور ناگزیر تیاری

اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT

چند روز قبل جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک میانمار اور تھائی لینڈ شدید زلزلے کی زد میں آئے۔ سب سے زیادہ نقصان تھائی لینڈ میں ہوا جہاں 7.7 شدت کے جھٹکوں نے زمین ہلا کر رکھ دی۔ سوشل میڈیا پرگردش کرتی ایک ویڈیو میں ایک زیر تعمیرکئی منزلہ عمارت کو زمین بوس ہوتے دیکھا۔ ملبے کے گرد اٹھتی گرد افراتفری اور خوفزدہ لوگوں کی چیخیں دل دہلا دینے والی تھیں۔

میانمار میں تقریبا سولہ سو افراد لقمہ اجل بن گئے اور ہزاروں زخمی ہیں اور ابھی تک بہت سے افراد لاپتہ ہیں۔ اس ہی طرح تھائی لینڈ میں ایک کئی منزلہ زیر تعمیر بلڈنگ کے گر جانے سے کئی مزدور دب کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

یہ حادثہ دیکھ کر میرا ذہن یکدم پیچھے پلٹا۔ وہی زخم وہی تکلیف وہی خوف جو ہم نے پاکستان میں ایک بڑے زلزلے کے دوران محسوس کیا تھا۔ اکتوبر 2005 کا زلزلہ جس نے کشمیر، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے کئی علاقوں کو شدید نقصان پہنچایا تھا، وہ ناقابل فراموش مناظر مسمار عمارتوں کے نیچے دبے لوگوں کی کمزور ہوتی چیخیں ملبے میں دبی ہوئی زندگی کی آخری سانسیں وہ مائیں جو اپنے بچوں کے بے جان جسموں سے لپٹ کر ماتم کررہی تھیں، وہ باپ جو بے بسی سے کھڑے اپنی دنیا اجڑتے دیکھ رہے تھے، یہ سب یاد آتے ہی دل پر ایک بوجھ سا محسوس ہوتا ہے۔ کئی دن بعد تک جب امدادی کام جاری تھے تو کہیں کہیں سے زندہ بچ جانے والوں کی نحیف صدائیں سنائی دیتی تھیں، لیکن سب کو بچا لینا ممکن نہ تھا۔ کتنے ہی لوگ صرف اس لیے موت کی آغوش میں چلے گئے کہ بروقت مدد نہ پہنچ سکی۔

 یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ایک قوم کو سنجیدگی سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم مستقبل میں ایسے حادثات کے لیے تیار ہیں؟ کیا ہم نے کوئی ایسی حکمت عملی اپنائی ہے کہ آیندہ زلزلہ سیلاب یا کوئی اور قدرتی آفت ہمیں بے بس نہ کر دے؟ ہم یہ جانتے ہیں کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو زلزلوں سیلابوں اور دیگر قدرتی آفات کی زد میں رہتا ہے۔ 2010 کے تباہ کن سیلاب ہوں یا حالیہ برسوں میں آنے والے غیر متوقع بارشوں کے سلسلے ہر قدرتی آفت ہمیں یہی سبق دے کر جاتی ہیں کہ ہم نے اپنی بنیادی تیاریوں میں سنگین کوتاہی کی ہے۔

 ہم ہر سانحے کے بعد ماتم کرتے ہیں، امدادی سرگرمیاں دیکھ کر تسلی پاتے ہیں متاثرین کے لیے چندے اکٹھے کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا، لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا یہ سوچنے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں وقتی مدد سے آگے جا کر ایسی پالیسی بنانی چاہیے جس سے جانی و مالی نقصان کم سے کم ہو؟ ہر قدرتی آفت کے بعد ہمیں نئے سرے سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے معاملے میں کتنے پیچھے ہیں، مگر جیسے ہی وقت گزرتا ہے ہم دوبارہ اپنی غفلت میں کھو جاتے ہیں جب تک کہ کوئی نئی آفت ہمیں پھر نہ جھنجھوڑ دے۔

 پاکستان میں عمارتوں کی تعمیر میں زلزلہ پروف ڈیزائن کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ زیادہ تر عمارتیں معمولی جھٹکوں میں بھی دراڑیں پکڑ لیتی ہیں جب کہ شدید زلزلے کے سامنے تو وہ ریت کی دیوار ثابت ہوتی ہیں۔ باہر کے ممالک میں وہ سیسمک ایکٹیویٹی مانیٹرٹنگ کے ذریعے چھوٹے جھٹکوں اور زمین کی حرکت کا تجزیہ کر کے کسی بڑے زلزلے کے امکانات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام موجود نہیں۔ اسی طرح سیلاب کی پیشگی وارننگ کا کوئی مربوط نظام موجود نہیں۔ 2022 کے سیلاب میں پاکستان کا ایک تہائی حصہ ڈوب گیا مگر ہم نے اس سے کچھ سیکھا یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھتے ہیں تو وہاں قدرتی آفات کے خلاف ایک باقاعدہ نظام موجود ہوتا ہے۔ جاپان جو دنیا کے سب سے زیادہ زلزلہ خیز خطوں میں شامل ہے وہاں بلند و بالا عمارتیں زلزلہ پروف ہوتی ہیں۔ زمین لرزتی ہے لیکن عمارتیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں۔ اسکولوں اور دفاتر میں باقاعدہ مشقیں کرائی جاتی ہیں تاکہ عوام کو معلوم ہو کہ زلزلے یا کسی اور آفت کی صورت میں انھیں کیا کرنا ہے۔ وہاں کے لوگ گھروں میں ابتدائی طبی امداد کا سامان اور ہنگامی خوراک رکھتے ہیں تاکہ کسی ناگہانی صورتحال میں فوری طور پر حالات کا مقابلہ کیا جا سکے۔

مگر ہمارے یہاں کیا صورتحال ہے؟ یہاں آفات کے بعد اگر حکومتی ادارے حرکت میں آتے بھی ہیں تو وہ بدانتظامی کا شکار رہتے ہیں۔ زلزلے کے بعد متاثرین کے لیے بنائی گئی آبادیاں چند سال بعد خالی پڑی نظر آتی ہیں کیونکہ ان میں بنیادی سہولتیں نہیں ہوتیں۔ سیلاب کے دوران کروڑوں روپے کی امداد جمع ہوتی ہے مگر پھر بھی کئی متاثرہ خاندان سالوں تک حکومتی امداد کے منتظر رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں قدرتی آفات کو صرف وقتی بحران سمجھا جاتا ہے ایک مستقل چیلنج نہیں۔ ہم ہمیشہ وقتی ردعمل دیتے ہیں کوئی طویل مدتی پالیسی ترتیب دینے کا تصور تک نہیں کرتے۔

 یہاں سوال یہ ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو یہ کہ ہمیں ایک مضبوط اور منظم ڈیزاسٹر مینجمنٹ پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ پالیسی کسی ایک حکومت یا ایک تنظیم کا کام نہیں بلکہ اسے قومی سطح پر تمام اداروں اور ماہرین کی مشاورت سے ترتیب دیا جانا چاہیے۔ ہمیں اپنی عمارتوں کے ڈھانچوں پر نظرثانی کرنی ہوگی اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ نئی تعمیرات زلزلہ پروف ہوں۔ اسکولوں دفاتر اور عوامی مقامات پر ہنگامی مشقیں کرانی ہوں گی، تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوکہ کسی بھی قدرتی آفت کے دوران انھیں کیا کرنا ہے۔ ہمیں ایسا نظام ترتیب دینا ہوگا جو سیلاب یا زلزلے کی پیشگی اطلاع دے سکے تاکہ لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکیں۔

 اس کے علاوہ ہمیں ایک منظم رضاکارانہ نظام بھی تشکیل دینا چاہیے جہاں لوگوں کو ہنگامی امداد کی بنیادی تربیت دی جائے۔ ہمیں نوجوانوں کو سکھانا چاہیے کہ اگر وہ کسی زلزلے یا سیلاب کے بعد کسی زخمی کو دیکھیں تو اسے ابتدائی طبی امداد کیسے فراہم کریں۔ اسپتالوں میں ایسے یونٹس قائم ہونے چاہئیں جو قدرتی آفات کے دوران فوری مدد فراہم کر سکیں۔

 ہمارے ملک میں بے شمار مسائل ہیں اور ہم اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں۔ مگر سچ یہ ہے کہ وسائل سے زیادہ مسئلہ ترجیح کا ہے۔ ہم غیر ضروری منصوبوں پر اربوں روپے خرچ کر سکتے ہیں مگر جب بات عوام کے تحفظ کی ہو تو ہمیں ہمیشہ وسائل کی کمی کا بہانہ یاد آتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ قدرتی آفات ہماری حقیقت ہیں، انھیں روکا نہیں جا سکتا مگر ان کے نقصانات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔

 زلزلے سیلاب اور دیگر آفات ہمیں ہر بار جھنجھوڑتے ہیں ہمیں سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ ہم نے کیا سیکھا، مگرکیا ہم واقعی کچھ سیکھتے ہیں؟ یا ہم ہر حادثے کے بعد وہی پرانی غلطیاں دہراتے ہیں وہی پرانا نوحہ پڑھتے ہیں اور پھر سب بھول کر اپنے روزمرہ مسائل میں کھو جاتے ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب ہمیں خود دینا ہوگا ورنہ مستقبل میں آنے والے حادثے بھی ہمیں بے بسی کی اسی کیفیت میں ڈال دیں گے جہاں آج ہم کھڑے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: قدرتی ا فات قدرتی ا فت ہیں کہ ہم کے دوران کرتے ہیں زلزلے کے ہوتا ہے میں ایک کے بعد

پڑھیں:

کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان شوبز انڈسٹری کی معروف اداکارہ تارا محمود نے اپنے والد کے سیاسی پس منظر کو چھپائے رکھنے کی وجہ پر سے پردہ اُٹھا دیا۔

حال ہی میں اداکارہ نے ساتھی فنکار احمد علی بٹ کے پوڈ کاسٹ میں بطور مہمان شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف امور پر کھل کر بات چیت کی۔

دورانِ انٹرویو انہوں نے انکشاف کیا کہ میرے قریبی دوست احباب یہ جانتے تھے کہ میں شفقت محمود کی بیٹی ہوں اور ان کا سیاسی پس منظر کیا ہے لیکن کراچی میں یا انڈسٹری میں کسی نہیں ان کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب میں نے شوبز میں کام شروع کیا تو مجھے کراچی آنا پڑا، اس دوران والد نے سیکیورٹی خدشات کے سبب مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ کسی کو بھی اس بارے میں نہ بتایا جائے۔ تاہم ڈرامہ سیریل چپکے چپکے کی شوٹنگ کے دوران سوشل میڈیا پر والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوگئیں۔

اداکارہ نے کہا کہ والد کے ساتھ تصاویر وائرل ہوئیں تو تھوڑی خوفزدہ ہو گئی تھیں کیونکہ مجھے توجہ کا مرکز بننا نہیں پسند۔

انہوں نے بتایا کہ کوویڈ کے پہلے سال کے دوران وبائی مرض کے سبب اسکول بند کرنے پڑے تو بابا ہیرو بن گئے تھے لیکن جب انہوں نے دوسرے سال اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں کئی دھمکیاں بھی موصول ہوئیں۔

تارا محمود نے چپکے چپکے کے سیٹ پر پیش آنے والا ایک دلچسپ قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب یہ بات منظر عام پر آئی کہ میرے والد کون ہیں تو ایک دن میں شوٹ پر جاتے ہوئے اپنی گاڑی خود چلاتے ہوئے سیٹ پر پہنچی تو ہدایتکار دانش نواز مجھ سے مذاق کرتے ہوئے کہنے لگے کہ سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے باوجود سیکیورٹی کیوں نہیں رکھتیں اور خود گاڑی کیوں چلاتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے کبھی بھی اپنے والد کے اثر و رسوخ یا طاقت کو ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش نہیں کی۔

واضح رہے کہ تارا محمود کے والد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دور حکومت میں وفاقی وزیر تعلیم کے عہدے پر فائز رہنے والے شفقت محمود ہیں۔

انہیں طلبہ کے درمیان کوویڈ کے دوران امتحانات منسوخ کرنے اور تعلیمی ادارے بند کرنے کے سبب شہرت حاصل ہوئی۔

فلم میں رہے کہ شفقت محمود نے جولائی 2024 میں سیاست سے ریٹائر ہونے کا اعلان کیا تھا۔

Post Views: 5

متعلقہ مضامین

  • کسانوں کے نقصان کا ازالہ نہ کیا تو فوڈ سکیورٹی خطرے میں پڑ جائے گی،وزیراعلیٰ سندھ
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • ہماری پُرزور کوشش کے بعد بھی بانی پی ٹی آئی تک رسائی نہیں مل رہی: عمر ایوب
  • دریا کو بہنے دو، ملیر اور لیاری کی گواہی
  • ملالہ یوسف زئی کا ادارہ تعلیم و آگاہی کیلئے 2 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
  • قدرتی وسائل اور توانائی سمٹ 2025 میں پاکستان کی صلاحیت اجاگر کیا جائے گا